تھپڑ

نصیر رمضان مالیر کوٹلہ پنجاب

کارخانے کے گیٹ سے اندر داخل ہوتے ہی ہوا میں اُڑتے لکڑی کے ذرّات نے اِستقبال کیا۔میں نے جلدی سے ناک پر رُومال رکھ لیا۔آرا مشین چل رہی تھی،لکڑی چیرنے والے مزدور سر سے پیر تک لکڑی کے بُرادے میں بھرے ہوئے تھے۔ماسک اُن کے چہرے پر تھا مگر وہ خود بُرادے کی وجہ سے پہنچانے نہیں جا رہے تھے۔میں نے ایک مزدور کی طرف دیکھا،اُس نے سرکے اِشارے سے بتا دیا کہ مالک آفس میں ہے۔یہ سہارنپور شہر کے لکڑی کے کارخانوں میں سے ایک مشہور کارخانہ تھا،جس میں مختلف اوزاروں میں اِستعمال ہونے والے والے دستے بنائے جاتے تھے۔میں اپنے شہر مالیر کوٹلہ سے تقریباً ڈیڑھ ماہ کے بعدلکڑی کا سامان خریدنے کے سلسلے میں سہارنپور چلا آتا تھا۔اس لیے کام کرنے والے تمام مزدوروں سے اچھّی خاصی علیک سلیک ہو گئی تھی،اگر کارخانے کا مالِک نہ بھی ہوتا تو وہ لوگ دفتر کا کمرہ کھول کر مجھے بٹھا دیتے اور چائے پانی سے تواضع بھی ہو جاتی تھی۔

اس بار میں جب آفس میں داخل ہوا تو دیکھا کہ کارخانے کا مالک فیصل قُریشی اپنی سیٹ پہ بیٹھا ہوا تھا۔

’’ السّلام علیکم ‘‘ میں نے ہاتھ ملاتے ہوئے کہا۔

’’ وعلیکم السّلام ۔۔شوکت صاحب ۔۔۔آئیے آئیے! خیریت ہے۔‘‘

’’ جی ہاں۔مال کم پڑ گیا تھا اس لیے مجھے فوراً آنا پڑا‘‘میں نے کُرسی پر بیٹھتے ہوئے کہا: ’’مال تو تیار ہی ہوگا۔‘‘

’’ بالکل ۔۔۔۔بس پالش رہتی ہے ،ایک گھنٹے میں ہو جائے گی،آپ جب تک چائے وغیرہ لیں‘‘ یہ کہہ کر فیصل قُریشی نے گھنٹی کا بٹن دبایافوراً ایک مُلازم کمرے میں آگیا۔اُس نے چائے لانے کو کہا۔مُلازم چلا گیا۔

’’ اور سُنائیں سب کیسا ہے ‘‘ فیصل قُریشی نے میری طرف متوجہ ہوتے ہوئے کہا۔

’’ سب ٹھیک ہے۔سیزن زوروں پر ہے ‘‘ میں نے بھی جواباً خُوش خلقی سے کہا اور چیک نکال کر اُنہیں دے دیا۔اتنے میں چائے وغیرہ آگئی۔اُس سے فارغ ہوا تو میں نے فیصل قُریشی سے پوچھا۔

’’آپ کا خاص مُلازم قیام الدین نظر نہیں آرہا ہے۔ گائوں تو نہیں چلا گیا؟‘‘

’’ نہیں۔۔۔۔یہیں ہے ،کوارٹر میں ہے دو دن سے کام پر نہیں آ رہا ہے۔اُس کی طبعیت ٹھیک نہیں‘‘ فیصل قُریشی نے بتایا۔

’’ کیوں ۔۔کیا ہوا؟سب ٹھیک تو ہے ؟‘‘

’’ویسے تو ٹھیک ہے مگر..ٹھیک بھی نہیں ہے۔ملنا چاہو تو مِل لو‘‘ فیصل قُریشی نے مُسکراتے ہوئے کہا۔

میں اُس کی مُسکراہٹ پہ حیران ہوتا ہوا آفس سے باہر آگیا۔کوارٹروں کی طرف جانے والے راستے سے پہلے ہی مجھے ایک ورکر مل گیا،جو مجھے اچھی طرح جانتا تھا۔اُس کا نام مُجیب تھا۔اُس نے مجھے دیکھتے ہی سلام کیا میں نے سر کے اشارے سے جواب دیااور اُسے روک لیا۔

’’ قیام الدین کو کیا ہوا ؟‘‘ میں نے بیتابی سے پوچھا۔

’’ آپ کو نہیں پتا۔وہ دو دن سے چُھٹی پر ہے،اُس کی طبعیت ٹھیک نہیں‘‘ مُجیب نے جواب دیا۔

’’ وہی تو پوچھ رہا ہوں …کیا ہوا ؟‘‘ میں نے کہا۔

’’ ہوناکیا ہے صاحب! ایسے تو ٹھیک ہے خدانخواستہ اُس کو کوئی بیماری نہیں ہے۔۔۔وہ تو اُس کی بیوی۔۔‘‘اُس نےرازداری سے اِدھر اُدھر دیکھتے ہوئے کہا۔

’’ اچھا ۔۔۔ شادی کر لی اُس نے۔۔کیا ہو اُس کی بیوی کو؟‘‘ میں نے حیرانی کا اظہار کیا

’’ تین مہینے پہلے ہی قیام الدین اپنے وطن بنگال سے شادی کر کے لایا ہے،مالک نے الگ سے کوارٹر دے دیا تھا‘‘ مجیب نے بتایا۔

’’ تو۔۔یہ تو اچھی بات ہے‘‘ میں نے کہا۔

’’آگے بھی تو سنیے۔۔قیام الدین کی بیوی بڑی خوبصورت تھی۔۔قیام الدین تو اُس کے کچھ بھی نہیں تھا وہ اپنی بیوی سے دبتا تھا‘‘

’’ پھر کیا ہوا ؟‘‘ میں نے کہا۔

’’ تو۔۔صاحب جب قیام الدین ڈیوٹی پر آجاتا تھا۔۔پھر بھی دِن میں کوارٹر کے کئی چکر لگاتا کہ اُس کی بیوی کسی دوسرے کے ساتھ بات تو نہیں کرتی۔۔۔یا کچھ اور۔۔‘‘ مُجیب کچھ کہتے کہتے رُک گیا کیونکہ پاس سے ہی ایک ملازم گزرا تھا۔

’’ وہ دِن میں کئی بار نگرانی کرتا تھا ۔۔۔اصل میں اُس کی بیوی خوش مزاج بھی بہت تھی۔۔‘‘

’’ تھی۔۔۔کیا مطلب۔۔کیا اب نہیں ہے؟‘‘

’’ وہی تو بتا رہا ہوں ۔۔صاحب پچھلے ہفتے ۔۔جب وہ کام کے دوران بہانے سے کوارٹر گیا۔۔۔تو اُس نے اپنی بیوی کو سامنے والے کوارٹر کے ایک لڑکے کے ساتھ بات کرتے دیکھ لیا۔۔بس۔۔پھر کیا تھا اُس نے بیوی سے بہت جھگڑا کیا۔۔بہت ہنگامہ ہوا،اُس کی بیوی نے قسمیں بھی کھائیں اپنی بے گناہی پر۔۔مگر قیام الدین کے اندر جو شک کا بیج تھا صاحب وہ زہر بن چکا تھااور۔۔۔اُس نے اپنی بیوی کو غُصے میں طلاق دے دی‘‘ مجیب نے تفصیل سے بتایا میں نے افسوس سے سر ہلایا۔’’ وہ لڑکا کون تھا ؟‘‘ میں نے کچھ یاد آنے پر پوچھا’’ کیا۔۔۔واقعی اُس کی بیوی۔۔‘‘ جان بوجھ کرمیں نے جملہ ادھورا چھوڑ دیا۔

نہیں۔۔صاحب ۔۔ایسا بالکل نہیں تھا۔۔اُس کی بیوی تو معصوم تھی اور وہ لڑکا بھی بہت سیدھا ہے۔۔قیام الدین کی بیوی سے دو تین سال چھوٹا ہی ہوگا،وہ تو ایسے ہی اُس دِن اُس سے کچھ پوچھ رہا تھا۔۔۔مگر قسمت کی خرابی ۔۔قیام الدین نے موقع پر پہنچ کر بات کو کچھ اور رنگ دے دیا۔۔۔اب پچھتا رہا ہے۔‘‘

’’ اوہ ۔۔تو اس لیے وہ کام پر نہیں آرہا ہے۔اُس کی بیوی کہاں ہے؟‘‘ میں نے پوچھا اور جواب کا انتظار کیے بغیر دوسرا سوال بھی کر دیا ’’ کیا وہ اپنے گھر چلی گئی؟‘‘

نہیں ۔۔۔وہ یہیں ہے۔۔۔اُس روز کے بعد قیام الدین بہت پچھتایااور وہ اُس سے دوبارہ شادی کرنا چاہتا تھا۔۔اور ۔۔اس کے لیے اُس نے ۔۔اُسی لڑکے سے اپنی بیوی کا حلالہ کردیا‘‘

’’ کیا۔۔۔؟‘‘ میں نے شاک زدہ لہجے میں کہا۔

’’ جی۔۔۔صاحب بات کھلنےپر قیام الدین کو پچھتاوا بہت تھا اور اُس نے ۔۔اُسی لڑکے کو راضی کر لیا نکاح پر کہ دوسرے دن طلاق دے کر اُسے یعنی اُس کی بیوی واپس بھیج دے ۔۔اس کے لیے قیام الدین نے زبردستی کچھ روپے اُس لڑکے کو دے دیے۔‘‘

مجیب نے کہا

’’ توکیا۔۔۔۔اُس لڑکے نے بعد میں طلاق نہیں دی‘‘میں نے اندازہ لگاتے ہوئے کہا۔

’’ صاحب ۔۔۔آپ اُدھر جا ہی رہے ہو ۔۔اُسی سے پوچھ لو مجھے دیر ہو رہی ہے۔۔کہیں مالک نہ ادھر آ جائے۔ ‘‘

مجیب نے لجاجت سے کہا اور چلا گیا۔میں آگے بڑھ گیا،دیکھا کارخانے کے آخر میں فیملی والے دو کوارٹر بنے ہوٗے تھے اور بائیں جانب تنہا آدمی کے لیے چند کوارٹر بنے ہوئے تھے۔قیام الدین کے کوارٹر کے باہر میں نے آواز دی۔میرا اندازہ ٹھیک نکلا وہ پرانے کوارٹر میں ہی رہ رہا تھا۔اندر سے کمزور سی آواز آئی’’ کون ہو؟‘‘

دروازہ ادھ کھلا تھا میں نے آگے بڑھ کر کہا’’ میں ہوں ۔‘‘

وہ دروازے تک چلا آیا۔مجھے دیکھتے ہی اُس کے منہ سے بے اختیار نکلا’’ آپ۔۔۔آئیے اندر آئیے۔۔۔‘‘ قیام الدین نے مرجھائی سی آواز میں کہا۔

’’ کیسے ہو قیام الدین ۔۔میں نے سنا ہے تم بیمار ہو۔۔کام پر بھی نہیں آ رہے۔۔کیا ہوا؟‘‘ میں نے ایک ہی سانس میں کئی سوال کر ڈالے۔اُس نے فوراً جواب نہیں دیا بلکہ چارپائی پر بیٹھتے ہوئے اِتنا ہی کہا’’ ٹھیک ہوں۔‘‘

میں نے پاس پڑا اسٹول گھسیٹ لیا اور اُس پر بیٹھ گیا۔یہ دیکھ کر قیام الدین تھوڑا شرمندہ ہوا۔

’’ معاف کرنا ۔۔صاحب وہ میری طبعیت ذرا۔۔۔‘‘

’’ کوئی بات نہیں۔۔‘‘

اِس کارخانے میں آنے جانے کے دوران قیام الدین سے میری کافی جان پہنچان ہوگئی تھی ،میرے آنے پر وہ میری عزّت بھی بہت کرتا تھا اور اب اُسے بے پرواہ سا دیکھ کر مجھے بہت تکلیف ہوئی،کہاں تو وہ اتنا ملنسار،خوش مزاج تھا۔۔یہ اُسے کیا ہوگیا۔شاید۔۔۔

’’ معاف کرنا صاحب۔۔۔میں آپ سے اچھے سے نہیں ملا۔۔دراصل میرے ساتھ ایک حادثہ ہوگیا ہے‘‘ قیام الدین نے بے چارگی سے کہا’’ میری بیوی۔۔۔‘‘ اس سے آگے وہ چپ ہو گیا۔

’’ مجھے معلوم ہو گیا ہے۔۔۔تمہیں اِتنا نادان تو میں نہیں سمجھتا تھا ‘‘ میں نے قدرے ترشی سے کہا۔

’’ بس۔۔۔کیا بتائوں صاحب۔۔میرا ہی دماغ خراب ہو گیا تھا جو یہ سب۔۔۔وہ تو معصوم تھی۔۔‘‘ قیام الدین نے آہستہ سے کہا۔

’’بے وقوف آدمی۔۔یہ کیا کر ڈالا۔۔تو نے۔۔ اوپر سے ۔۔۔یہ گھنائونا کام یعنی حلالہ ‘‘ میں نے جان بوجھ کر جملہ ادھورا چھوڑ دیا

’’ جس کی وجہ سے تم نے اپنی پاکباز بیوی کو چھوڑا۔۔اب اُسی لڑکے سے اُس کی شادی کر دی۔۔۔نادان آدمی۔۔‘‘میں نےغصے سے کہا:

’’ اب تمہاری بیوی کہاں ہے۔۔؟‘‘ میں نے پوچھا

’’ اُسی لڑکے کے پاس ۔۔جہاں اُس کی شادی۔۔۔میرا مطلب حلالہ کیا‘‘ قیام الدین نے ہچکچاتے ہوئے کہا۔

’’ کیا مطلب۔۔۔اُس لڑکے نے طلاق نہیں دی۔۔؟

’’ جی ہاں۔۔۔میرا مطلب اب وہ لڑکا طلاق نہیں دے رہا۔۔۔اور۔۔اور۔۔‘‘

’’اور کیا۔۔۔‘‘

’’ اور۔۔میری بیوی بھی اب میرے پاس آنا نہیں چاہتی۔۔۔پتا نہیں کیوں۔۔۔‘‘ اُس نے روہانسے لہجے میں کہا۔

’’ کوئی وجہ تو ہوگی۔؟

’’پتا نہیں۔۔۔اب وہ دوبارہ آنا نہیں چاہتی‘‘ یہ کہہ کر قیام الدین رونے لگا۔

’’چپ رہو۔۔اب رونے سے کیا فائدہ۔۔۔ ویسے اِس گھٹیا کام کا مشورہ کس نے دیا تھا؟‘‘ میں نے غصے سے کہا۔

’’ جی۔۔وہ پاس ہی مسجد کے امام ہیں۔۔میرے ہی وطن بنگال کے ہیں ۔۔اُنہوں نے‘‘

میں نے تاسّف سے اُس کی طرف دیکھا ’’ بے وقوف۔۔جس لڑکے کے ساتھ تو اپنی بیوی کو باتیں کرتا نہیں دیکھ سکا، اب اُسی لڑکے کے ساتھ اُس کی شادی کر دی۔۔اور اب وہ میاں بیوی کی طرح رہ رہے ہیں۔۔ یہ کیسے برداشت ہو گیا تمہیں؟‘‘

میری بات سن کر اُس نے سر جھکا لیا۔

جی تو چاہتا تھا اُس کے ایک تھپڑ جڑ دوں ۔۔۔مگر نہیں۔۔۔تھپڑ تو اُسے پڑ چکا تھا،جس کی چوٹ وہ اب ساری زندگی سہلائے گا۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146