تہی دست

تاج الدین محمد، نئی دہلی

ماں نے میری پسند پر اپنا سا منھ بنا کر بارہا سمجھایا تھا بیٹا انساں عادتیں بدل سکتا ہے لیکن فطرت نہیں۔ آدمی جس فطرت پر پیدا ہوتا ہے اسی پر مرتا ہے۔ ہاں عادتیں تھوڑی سی جدوجہد سے بدلی جا سکتی ہیں جو یار دوستوں کی اچھی بری صحبت سے انسان میں لگ جائیں۔ ماں اکثر کہتی تھی کہ میرے ابا کہتے تھے شیخ سعدی نے گلستاں میں لکھا ہے اگر کوئی مجھ سے کہے کہ ہمالہ پہاڑ ایران میں ہے تو میں اسے ضرور مان لوں گا لیکن اگر کوئی مجھ سے یہ کہے کہ فلاں انسان نے اپنی فطرت بدل ڈالی ہے تو میں اسے ہرگز نہیں مانوں گا۔
میری پسند پر اپنی پسند تھوپنے کی منشا ماں کی ہرگز نہیں تھی کیوں کہ میں ان کے جگر کا ٹکڑا تھا۔ لیکن انھیں یقین ہو چلا تھا کہ زندگی میں اب چند ٹوٹتی بکھرتی سانسیں ہی بچی ہیں اس لیے ماں جلد از جلد میری شادی کی متمنی تھی۔ میری شادی کی بات سے گھر کی کوئی محفل اور کوئی نشست خالی نہ ہوتی تھی۔ یوں تو اتنی طویل زندگی میں میرا ماں سے کبھی کوئی اختلاف نہ رہا، میری ہاں میں ان کی ہاں تھی اور ان کی خاموشی میں بھی میرے لیے ہاں ہی تھی۔ لیکن اس عجیب و غریب سی کشمکش نے مجھے خود کافی حیران و پریشاں کر دیا تھا۔ ماں کی پسند اور میری پسند میں ایک ٹکراؤ کی کیفیت پیدا ہو گئی تھی۔
ماں کی پسند ناہید تھی جو ان کے بقول پڑھی لکھی، قبول صورت، سلیقہ شعار، وفادار، خوددار، سمجھدار اور نہ جانے کتنی طرح کی صفات سے متصف تھی جو ماموں کی بیٹی تھی لیکن میری پسند زرینہ تھی۔ پھوپھو کی بیٹی حسین و جمیل خوبصورت خوش شکل اور نہایت تعلیم یافتہ بھی تھی۔ میں دل کے ہاتھوں مجبور تھا۔ لوگ سچ ہی کہتے ہیں جو دل میں اتر جاتا ہے آنکھوں کو بھلا معلوم ہوتا ہے۔
ماں زرینہ سے خوب واقف تھی وہ کبھی نہیں چاہتی تھی کہ زرینہ بہو بن کر ان کے گھر آئے۔ ماں سے زبردستی ہاں کروانا میری تربیت کا حصہ کبھی نہیں رہا۔ میں بات چیت سے مسئلہ حل کرنے کا خواہش مند تھا، لیکن ماں کے دل میں زرینہ کے لیے جگہ بنانے کے سارے جتن کر کے ہار مان چکا تھا۔ بہنوں نے بھی میری خاطر اپنی حد تک پوری کوشش کی لیکن زرینہ کے تئیں ماں کا سخت گیر رویہ نہ بدل سکا۔ اس سختی اور انکار کے اندر بیٹے کی ازلی و ابدی محبت پوشیدہ تھی۔ بوڑھی بصارتوں کے اندر کئی خواب پرورش پا رہے تھے۔
ایک دن ماں نے روہانسی صورت بنا کر میرے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا بیٹا تو ایک حساس بچہ ہے۔ لیکن ساتھ ہی تیری طبیعت میں غصے کا عنصر بھی شامل ہے جسے تو نے اپنے باپ سے ورثہ میں پایا ہے۔ حساس لوگ طعنہ سننے، دل آزاری کرنے، بے وجہ مذاق اڑانے اور معمولی سی باتوں کو لڑائی جھگڑے کی شکل دینے سے آخر کار زندگی سے تنگ آ جاتے ہیں اور بہت جلد مایوس و نا امید ہو جاتے ہیں۔ بڑے گھر کی بیٹیوں کو غریبوں کے رہن سہن اور طور طریقے سے ایک خاص قسم کی چڑ ہوتی ہے۔ ٹاٹ میں مخمل کا پیوند لگانے کی ضد چھوڑ دے بیٹا، اپنی عزت کو خاک میں ملانے سے باز آجا۔ ہم غریبوں کو خواب میں بھی محل دیکھنے کی اجازت نہیں ہے۔ حسن و جوانی سدا قائم نہیں رہتی۔ قبول صورت، کم گو غریب گھر کی کم پڑھی لکھی لڑکیاں زندگی کی قدر و قیمت جانتی ہیں اور یہ سب خوبی ناہید میں بدرجۂ اتم موجود ہے۔ انسان تلوار کا زخم سہہ لیتا ہے۔ وقت کے گزرنے کے ساتھ وہ زخم مندمل بھی ہو جاتا ہے لیکن زبان کا زخم ہمیشہ ہرا رہتا ہے۔ زبان کی دھار تلوار کی دھار سے کہیں زیادہ تیز ہوتی ہے۔ زرینہ طبیعتاً ضدی اور بدتمیز لڑکی ہے، میں اسے خوب اچھی طرح جانتی ہوں تو اس کے ساتھ کسی بھی حال میں نباہ نہیں کر پائے گا۔
پھر ماں نے عینک اتار کر آنکھیں زور سے میچ لیں اور دیوار سے ٹیک لگا کر ساکت بیٹھ گئیں۔ وہ ایک بھاری جسم والی روشن دل کی سوچتی ہوئی آنکھوں اور گول مٹول چہرہ کی ایک پرسکون عورت تھی۔ قدرے اطمینان کے بعد کہنے لگی تو آج پڑھ لکھ کر اس قابل ہو گیا ہے کہ وہ لوگ تجھ سے رشتہ کرنے کو تیار ہیں۔ تجھے یاد ہے جب تیرا باپ زندہ تھا اور انھوں نے مجھ سے مشورہ کیے بغیر ایک دن زرینہ کے والد سے ان کے ہی گھر میں تیرے رشتے کی بات کی تھی تب اس کی ماں نے بیچ میں ہی بات کو اچک لیا تھا ’’یہ منھ اور مسور کی دال‘‘ کہتے ہوئے اس کی ماں کا لہجہ اتنا ترش تھا اور گفتگو میں غرور و تکبر کے ساتھ اتنی تلخی تھی کہ تیرا باپ اسی وقت وہاں سے اٹھ آیا تھا۔ اس کی ماں کو اتنا بھی خیال نہ رہا کہ مردوں کی محفل میں شریف عورتیں اس طرح بات نہیں کیا کرتیں، لیکن ہاں اس کا باپ ضرور شریف الطبع، شریف النفس اور ایک شریف زادہ ہے۔ اس نے اپنی بیوی کی طرف سے تمہارے باپ سے کئی بار معافی مانگی تھی لیکن اس کی ماں نے اس غلطی کا نہ کبھی اعتراف کیا نہ ہی کبھی اسے اس بات کا احساس ہوا۔ کیا اب وہ لوگ بدل گئے ہیں؟ اگر آج تمہارا باپ زندہ ہوتا تو تم اس رشتے پر ان کے سامنے ایک لفظ بات کرنے کی جرأت بھی نہیں کر سکتے تھے۔ بیٹا بڑے بوڑھوں کی ایک کہاوت یاد رکھنا۔ جو درخت آج ٹیڑھا کھڑا ہے اس کا صاف مطلب یہی ہے کہ بچپن میں کسی نے اسے سیدھا نہیں کیا؟
میں نے ماں کے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں لیا اور روہانسی صورت بنا کر کہا۔ ماں میں اسے سمجھا کر ٹھیک کر دوں گا وہ اچھی صحبت میں رہ کر اور ہم سب کی محبت پاکر ٹھیک ہو جائے گی۔ آپ کی شفقت عمدہ تربیت اور بہنوں کا پیار اسے وقت کے ساتھ چلنا سکھا دے گا۔ وہ اپنے گھر سے نکل کر ہمارے گھر میں زندگی کو ازسر نو برتنا سیکھ لے گی۔ صرف آپ راضی ہو جائیں۔ ماں کی آنکھیں نم ہو گئی تھیں۔ پردہ افلاک کو چاک کر کے ماں نے وقت سے پہلے ہی اس حادثے کا عکس اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا تھا اور وہ اس یک طرفہ فیصلے کے بھیانک انجام سے خوف زدہ اور باخبر ہو گئی تھی۔ میں نے اپنی ضد کے آگے انہیں مجبور محض بنا ڈالا تھا۔ ماں نے آنسو پوچھ کر ہامی بھر لی تھی اور ایک تاریخی جملے نے بات پوری طرح ختم کر دی تھی۔’’بچھو کے ساتھ نیکی کرنے سے وہ کاٹنے کا ہنر کبھی نہیں بھولتا۔‘‘
زرینہ شادی کر کے گھر کی بہو بن چکی تھی شادی کے چند مہینوں میں ہی اس کی زبان تیز قینچی کی طرح چلنے لگی تھی۔ ایک ایسی قینچی جو ایک آن میں ہی کپڑے کی ہیئت بدل ڈالے۔ وہ چھوٹے بڑے، بچے بوڑھے کی تمیز اور بات کرنے کے سلیقے سے انتہا درجے کی عاری لڑکی ثابت ہوئی۔ صبح دیر سے اٹھنا، اکثر سر درد اور کسی بیماری کا بہانہ بنانا، دوسروں کے کام میں عیب نکالنا، کسی موذی مرض کی طرح اس کے خون میں سرایت کر چکا تھا۔ جب پیار کی آندھی ذرا تھمی، محبت کا غبار کچھ چھٹا اور فضا قدرے پرسکون ہوئی تب زرینہ کی پہلی ہدف ماں ہی تھی کیونکہ زرینہ کو پتہ چل گیا تھا کہ اس شادی کی مخالفت میں ماں نے شدید ناراضگی کا اظہار کیا تھا اور ماں کی بےاطمینانی و رنجیدگی سے شادی کا پورا ماحول پھیکا پڑ گیا تھا۔
زرینہ کو معمولی سی بات پر بھی بہت جلد غصہ آ جاتا تھا۔ ماں سمیت گھر کا کوئی بھی فرد اس کی مرضی کے خلاف کوئی بات اگر اس سے کہتا تو وہ فوراً برافروختہ ہو جاتی تھی۔ میں اس کے اس تلخ رویے سے سخت نالاں اور فکر مند رہنے لگا تھا۔ روز صبح ناشتہ پر تو کبھی کھانے پر نوک جھونک، ہر کام میں چپقلش، ماں سے بلا وجہ تکرار، بہنوں سے لڑائی جھگڑا، ہر چھوٹی بڑی بات پر ہنگامہ آرائی گھر میں روز کا معمول بن گیا تھا۔ میری محبت تار عنکبوت سے بھی زیادہ بے حیثیت نکلی۔ مجھے ماں کا ایک قول یاد آیا ’’جب بدمزاجی طبیعت کا حصہ بن جائے تب قبر کی مٹی یا جہنم کی آگ ہی اس کا کام تمام کرتی ہے۔‘‘ اب صبح کے اجالے دھندلے معلوم پڑنے لگے تھے۔ شام کا اندھیرا گہرا ہو گیا تھا۔ رات ڈراؤنی ہوتی جاتی تھی۔ ابھی تو کچھ عرصہ بھی نہیں گزرا تھا لیکن دن پہاڑ کی مانند ٹالے نہیں ٹلتے تھا۔
زرینہ کو سمجھانے اور رشتوں کی قدر و قیمت بتانے میں ماں کی ساری کوششیں بے کار ثابت ہوئیں۔ میری تو بات نہ سننے کی قسم اس نے کھا رکھی تھی۔ زرینہ کی آنکھوں پر ضد، انانیت اور بدگمانی کے دبیز پردے پڑے ہوئے تھے جس سے باہر کی فضا کو دیکھنا اس کے لیے کافی دشوار تھا۔ اس نے آتے ہی سارے گھر کی طرز آرائش مکمل طور پر اپنی مرضی سے بدل دی تھی۔ گھر والوں سے مشورہ کرنا اور سب کے ساتھ مل بیٹھ کر رائے لینا اس کی تربیت کا حصہ شاید کبھی تھا ہی نہیں۔ بیٹھک کی دیواروں پر آویزاں پرانی تصویریں ہٹا دی گئی تھیں جو گھر کی غربت لیکن سلیقہ کا آئینہ دار تھی۔ اس کی جگہ فلموں کی نئی پرانی ہیروئین اور نئے طور طریقے کی عجیب النوع سی بے ڈھنگی تصویریں لگ چکی تھیں۔ بابا کے وقت کی کئی پرانی چیزوں کو توڑ مروڑ کر کہیں پھینک دیا گیا تھا۔ کھڑکیوں کے پردے اتر چکے تھے۔ جہیز میں آیا نیا صوفہ و قالین ہماری غربت کو منھ چڑا رہا تھا۔
جاڑوں کی سہانی دھوپ آنگن میں بکھری ہوئی تھی، ماں عینک لگائے محویت کے عالم میں بیٹھی قرآن پڑھ رہی تھی۔ تھوڑی دیر بعد ملول چہرہ لیے ہوئے وہ سورج کی تیز روشنی میں تندہی سے ایک خط لکھنے میں مصروف ہو گئی، غالباً یہ خط وہ اپنے بھائی کو لکھ رہی تھی۔ شادی کے بعد گھر کے حالات نہایت کشیدہ و پراگندہ ہو گئے تھے۔ بوڑھی ہڈیوں میں اب اتنی جان نہ بچی تھی کہ وہ روز روز کی ناچاقی اور فتنہ و فساد کا سامنا کرتی۔ ماں کچھ دیر بیٹھی سوچتی رہی پھر انھوں نے ایک گہری سانس لی اور قلم کی رفتار اچانک تیز ہو گئی۔ میں جیسے ہی برآمدے میں داخل ہوا مجھے اپنی بوڑھی ماں پر بےاختیار پیار آیا میں نے دعا کی خدا اس کو میرے سر پر زندہ و سلامت رکھنا اور صحت و تندرستی سے نوازنا۔ میں دروازے پر کھڑے کھڑے دعا مانگ کر چپکے سے بیوی کے کمرے میں داخل ہو گیا۔
پھر یکایک بے حد دل گرفتہ ہو کر آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا ہوا کمرے سے باہر نکل آیا۔ دفعتاً گھر میں پھیلا ہوا سناٹا اتنا گہرا ہو گیا جیسے طوفان سے پہلے آنے والا سناٹا۔ میں پھولی ہوئی سانس کے ساتھ ماں کے پاس آکر بیٹھ گیا۔ میں آج دھاڑیں مار کر رونا چاہتا تھا لیکن مجھے اپنے قلب کی حرکت بند ہوتی ہوئی محسوس ہوئی۔ میں ماں کے قریب چارپائی پر لیٹ گیا۔ ماں خط لکھنے میں مشغول تھی ماں کے قلم کی سیاہی سوکھ چکی تھی وہ روکھے ادھورے الفاظ کو قلم کے نیب سے دہرا رہی تھی۔ میں نے اپنی انگلیوں سے قلم کی نوک کو چھوا اور ماں کی آنکھوں میں جھانکنے کی کوشش کی۔ مینا درخت پر چہچہا رہی تھی۔ اچانک امرود کے درخت سے ایک گرگٹ اچھل کر بیل کے پتوں میں کہیں گم ہو گیا۔ ایک سوکھا سا زرد پتہ ٹوٹ کر چارپائی پر گرا، میں نے پتہ ہاتھ میں اٹھایا اور دل ہی دل میں کہنے لگا :’’زندگی کے بچے کھچے سارے پتے دھیرے دھیرے گرتے جا رہے ہیں! یہ صبح کتنی منفرد و لاجواب ہے شاید پھر کبھی واپس نہ آئے؟‘‘
امرود کی ڈالیاں ہوا میں سرسرا رہی تھیں۔ ماں نے میرے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بڑے تاسف سے کہا تجھے پیار کی اشد ضرورت ہے۔ یہ کہتے ہی ماں کی خشک آنکھوں سے آنسو کے چند قطرے گرے اور میرے رخسار کو بھگو گئے۔ صبر کے سارے بند کھل گئے تھے۔ مدتوں بعد آج میں ماں سے لپٹ کر زاروقطار رویا اور اپنی غلطیوں کی معافی مانگنے لگا اور اپنی رنجیدہ سی طبیعت لیے ہوئے ماں سے صرف اتنا کہہ پایا، ماں کیا پرانے فیصلوں پر نظر ثانی نہیں ہو سکتی؟ وقت آزردگی و بدمزگی کے تانے بانے میں الجھ کر تھم چکا تھا۔
زرینہ رونے کی آواز سن کر اچانک کمرے سے باہر آئی اس نے اطمینان کا ایک گہرا سانس لیا اور برہمی کے عالم میں ماں کے قریب چارپائی پر جا بیٹھی اور ماں کی جانب خفگی سے دیکھتے ہوئے منھ بنا کر بولی۔ پچیس برس تک آپ نے اپنے بیٹے پر حکومت چلائی ہے اب زبان بند رکھیے اور سوال نہ کرنے کی عادت ڈالیے اور جواب سن کر مطمئن ہو جایا کیجیے۔ اس کی آواز میں تحکم آ گیا تھا۔ اس نے بلا وجہ اچانک ایک ایسی بات چھیڑ دی تھی جس کا وہاں کوئی ذکر ہی نہ تھا۔ آج ماں صبح سے ہی حسب معمول نہایت مضمحل نظر آ رہی تھی۔ بڑھاپے میں اس کی تقدیر میں مصائب و مشکلات کا یہ اضافہ کرنے کا میں صریحاً گنہگار تھا، جس میں لازماً میری ضدی طبیعت کا عمل دخل تھا۔ آج دل کسی حالت میں سکون و قرار نہ پاتا تھا۔ ماں بحث و مباحثہ سے اکثر احتراز کرتی تھی لیکن آج صبر کا دامن چھوٹ چکا تھا اور تقدیر کا لکھا حکم خداوندی سے اجازت کا منتظر تھا۔ ماں نے کچھ سوچتے ہوئے بڑی شگفتگی سے کہا، ’’تم واقعی نہایت بد اخلاق اور بدتمیز لڑکی ہو بڑوں سے بات کرنے کے سلیقے سے یکسر خالی ہو۔‘‘ دولت کے اچانک یا دیر سویر آ جانے سے انسان کے اندر غرور و تکبر ضرور پیدا ہو جاتا ہے لیکن تعلیم سے انسان کی زندگی بدل جاتی ہے ایسا ہوتے اکثر میں نے اپنی ان بوڑھی آنکھوں سے دیکھا ہے لیکن تمہارے اندر ذرہ برابر کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ مجھے افسوس ہے اور تقدیر کے اس فیصلے پر شدید حیرت ہے کہ اتنے اعلیٰ خاندان اور بلند سیرت باپ کی بیٹی اتنا ضدی اور غصیل کیسے ہو سکتی ہے؟
زرینہ فوراً سراسیمہ ہو گئی۔ چند لحظوں کے لیے چپ ہو کر اپنی پیشانی پر انگلیاں پھیرتی رہی پھر وہ کمرے میں چلی گئی۔ میری منجمد آنکھیں دروازے پر لگی تھیں اور آنکھوں کے پپوٹے کسی مخمور پرند کی طرح پھڑپھڑا رہے تھے۔ اس نے دروازے پر تالا لگایا ایک بیگ ساتھ لیا قریب آئی اور جھلا کر ماں کو گھورا اور شدید غصے میں منھ بگاڑ کر کچھ کہا۔ اس کے اس غلیظ و کثیف الفاظ پر جس نے آج اخلاقی حدود کے سارے ہی بند کھول دیے تھے اور شرافت و عزت کے سبھی قیود کو لانگھ لیا تھا، میں دفعتاً چونک پڑا اور شرم سے پانی پانی ہو گیا۔ پاس کھڑی بہنیں ہکا بکا رہ گئیں۔ انھوں نے تیوری پر بل ڈال کر اسے غور سے دیکھا لیکن ماں کا اشارہ پاکر خاموش ہو گئیں۔ میں نے ایک مصنوعی غصے کے ساتھ درشتی سے زرینہ کو کچھ کہا اور اسے وہاں سے ہٹانا چاہا لیکن اس نے ماں کے ہاتھ سے یکایک کتاب لے کر زور سے بند کی اور اٹھا کر آنگن میں پھینک دیا۔ ماں چیخیں مار کر بے ہوش ہو چکی تھی۔ میں گم سم کھڑا تھا میرا چہرہ غصہ سے سرخ ہو گیا تھا۔ سرد ہوا کی سرسراہٹ سے کتاب کے اوراق پھڑپھڑا رہے تھے ہوا کے ایک تیز جھونکے نے امرود کے درخت پر لگے سفید و لال پھول آنگن میں کتاب کے ارد گرد بکھیر دیے۔ زرینہ گھر سے جا چکی تھی کبھی واپس نہ آنے کی قسم کھا کر اور میں نے اسی وقت اسے دوبارہ نہ بلانے کا عزم پختہ کر لیا تھا۔ میں نے کمرے کے بند دروازے کو غور سے دیکھا جس پر لگا پیتل کا وزنی تالا بے حد ساکت اور پراسرار معلوم ہوتا تھا۔ سارا گھر سنسان پڑا تھا پورے ماحول پر ویرانی و بربادی مسلط تھی اور ایک لرزہ خیز قیامت برپا تھی۔ منحوسیت کا بسیط سایہ گھر کے ارد گرد لپٹا ہوا تھا جو دروازے کی جانب سے دھیرے دھیرے اس کے پیچھے جا رہا تھا۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146