جدید انداز کی تیز رفتار زندگی ہماری صحت کو سب سے زیادہ متاثر کر رہی ہے اور زندگی کی اس بھاگ دوڑ میں ہم اپنی صحت پر اتنی توجہ نہیں دے پا رہے ہیں جتنی ضرورت ہے۔ ان خیالات کا اظہار برطانیہ میں کئے گئے ایک سروے میں کیا گیا ہے۔ ’’لیگل اینڈ جنرل‘‘ ادارے کی طرف سے پانچ ہزار سے زائد افراد سے سوالات کیے گئے تھے، جنہوں نے بتایا کہ ورزش نہ کرنا، نیند کا پورا نہ ہونا، ذرا سی محنت کے بعد گہری تھکاوٹ اور افسردگی سے ان کی صحت کو سنگین خطرات لاحق ہیں جب کہ ان کے خیال میں بالواسطہ سگریٹ نوشی اور شراب نوشی سے بھی صحت متاثر ہوتی ہے لیکن فہرست میں ان کو سب سے آخر میں جگہ دی گئی ہے۔
دوتہائی خواتین اور 58 فیصد مردوں نے جدید طرزِ زندگی کو اپنی صحت کی خرابی کا ذمہ دار قرار دیا ہے اور صحت عامہ کے ماہرین نے کہا ہے کہ اس سروے کے نتائج سے دن رات کی زندگی مین معاشرے کے دباؤ کی عکاسی ہوتی ہے جس میں ہم سانس لے رہے ہیں۔
یعنی یہ آج کا وہ معاشرہ ہے جس میں ہفتے کے ساتھ دنوں میں انسان 24 گھنٹے مصروف رہتا ہے اور آرام کا بہت کم وقت اسے نصیب ہوتا ہے۔ لوگوں سے یہ پوچھا گیا کہ گزشتہ تین ماہ کے دوران کس چیز کی وجہ سے وہ اپنی صحت کو خطرے میں محسوس کر رہے ہیں۔ سر فہرست جواب یہ آیا کہ مصروف ترین زندگی کیوجہ سے انہیں ورزش کرنے کا موقع نہیں مل رہا اور ان کے خیال میں اس سے ان کی صحت خراب ہو رہی ہے۔ جن لوگوں سے یہ سوال کیا گیا تھا ان میں سے 48 فیصد کا یہی جواب تھا۔ اس کے بعد 42 فیصد نے نیند کی کمی کو اپنی صحت کے لیے سنگین خطرہ قرار دیا۔ 34 فیصد نے کہا کہ وہ تھکان اور کمزوری کی وجہ سے اپنی صحت کو محفوظ نہیں سمجھ رہے ہیں۔ 29 فیصد نے کہا کہ ان کے دانتوں کی خرابی کے بعد علاج کے لیے دندان سازوں کی عدم دستیابی کی وجہ سے ان کی صحت مزید بگڑ رہی ہے۔ 27 فیصد نے اسٹریس یا افسردگی کو خرابی صحت کا ذمہ دار قرار دیا۔15 فیصد افراد نے کہا کہ ان کی صحت دوسرے سگریٹ نوشوں کا دھواں نگلنے سے خراب ہو رہی ہے جب کہ 12فیصد نے اپنی مے نوشی کی عادت کو صحت کی بربادی کا باعث قرار دیا۔
لیگل اینڈ جنرل کے ہیلتھ ڈائرکٹر کرس رولینڈ نے کہا ہے کہ یہ بات بڑی حد تک واضح ہوگئی ہے کہ لوگ اپنی صحت کے حوالے سے طرزِ زندگی کو جتنا قصور وار سمجھتے ہیں سگریٹ اور مے نوشی کو اتنی اہمیت نہیں دیتے۔ لگتا یوں ہے جیسے ہم اپنی صحت سے زیادہ زندگی کی اور چیزوں کو اہم سمجھنے لگے ہیں۔ اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ زندگی گزارنے کے طریقے کو زیادہ صحت مند بنایا جائے تاکہ بعد میں پچھتاوا نہ ہوسکے۔
یو کے پبلک ہیلتھ ایسوسی ایشن کی چیف ایگزیکیٹو انجیلا ماؤے نے اس ریسرچ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اس سے صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ ہفتے کے ساتھ دن کے 24گھنٹے کی مصروف زندگی ہم سے اپنا خراج وصول کر رہی ہے۔ موبائل فونز اور بلیک بیریز نے ہمیں ہمہ وقت مصروف کر دیا ہے اور لوگوں کو آرام کرنے کا وقت مشکل سے میسر آتا ہے۔ اس سے یقینا ہماری صحت خطرے سے دوچار ہو رہی ہے۔
مذکورہ سروے اگرچہ دنیا کے ترقی یافتہ ملک برطانیہ کا ہے جہاں لوگ عام طور پر بھی صحت کو لے کر حساس اور ذمہ دار واقع ہوئے ہیں۔ لیکن تیسری دنیا کے وہ غریب ممالک جہاں لوگوں کا حفظان صحت اور بچاؤ کی طرف رجحان نہیں ہے، یہی نہیں اور وہاں ورزش اور جسمانی صحت کو قابل توجہ ہی تصور نہیں کیا جاتا جہاں صحت اور اس سے متعلق چیزوں کے سلسلہ میں نہ بیداری ہے اور ضروری سہولیات وہاں پر عوام کی حقیقی حالت کیا ہوگی؟
ہندوستان جیسے ملک میں صحت کی صورت حال کا جائزہ لینا ہو تو محض ٹی بی، ملیریا اور ڈینگو سے ہونے والی اموات کا مطالعہ کافی ہے جو صرف ماحول کے سبب ہوتی ہیں اور جن سے مدافعت و علاج ممکن ہے۔ بات صاف اور واضح ہے کہ مغربی ممالک میں حفظان صحت اور صحت کی طرف لوگوں کا رجحان ہے۔ وہاں یہ اسباب اہم عنصر ہیں۔
دوسری اہم بات یہ ہے کہ مصروفیات کا یہ بوجھ خود ہمارے سماج نے اٹھا کر اپنے سر پر رکھ لیا ہے اور اس کے پیچھے دولت کی ہوس اور معیارِزندگی کو اٹھانے اور عیش کی زندگی گزارنے کی خواہش ہے۔ جب تک اس خواہش اور حرص پر قابو نہ ہو یہ بوجھ کم ہونے والا نہیں ہے۔
ہندوستانی معاشرے میں جس چیز کی ضرورت ہے وہ احتیاط اور بچاؤ ہے۔ ضروری ہے کہ ہم اپنے معاشرے میں حفظانِ صحت اور امراض سے بچاؤ کے لیے بیداری پیدا کریں، اور ہر شخص اپنی سطح پر امراض سے بچاؤ اور تحفظ کے لیے حساس خود بھی حساس ہو اور عوام میں بھی بیداری کی کوشش کرے۔ اس طرح ہم ایک صحت مند سماج بنا سکیں گے۔lll