رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
عُوْدُوا الْمَرِیْضَ وَ اتْبَعُوا الْجَنَائِزَ تُذَکِّرُکُمُ الْاٰخِرَۃَ
’’بیماروں کی تیمار داری کرو، جنازوں کے ساتھ جاؤ، یہ چیزیں تمہیں آخرت کی یاد دہانی کرائیں گی۔‘‘
اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ بیماروں کی تیمار داری اور مزاج پرسی کی ایک وجہ باہمی تعاون اور دوسری وجہ آخرت کی یاد دہانی ہے۔ جب انسان ایک مریض کے پاس جاتا ہے تو مریض کو حوصلہ ہوتا ہے۔ اور اس میں آخرت کی یاد دہانی کا پہلو یہ ہے کہ بیماری ہی سے عام طور پر جسمانی ضعف کا آغاز ہوتا ہے، جو بڑھتے بڑھتے موت پر منتج ہوتا ہے۔ جب انسان اپنے جیسے دوسرے انسان یا بھائی اور رشتے دار کو اس طرح موت کی دہلیز کی طرف بڑھتے ہوئے دیکھتا ہے تو اس کی چشم عبرت کے سامنے اپنی موت بھی آجاتی ہے اور وہ سوچتا ہے کہ جس طرح یہ مریض بتدریج فنا کی طرف جا رہا ہے، ایک وقت آئے گا کہ میرا سفر زندگی بھی ختم ہو جائے گی اور میں بھی موت کی وادی میں کھو جاؤں گا۔
ان دنیوی فائدوں اور حکمتوں کے علاوہ تیمار داری کی اخروی فضیلت بھی ہے۔ نبیﷺ نے فرمایا: ’’جو مسلمان کسی مسلمان کی تیمار داری صبح کے وقت کرتا ہے تو شام تک ستر ہزار فرشتے اس کے لیے رحمت و مغفرت کی دعائیں کرتے ہیں اور اگر شام کو تیمار داری کرتا ہے تو صبح تک ستر ہزار فرشتے اس کے لیے دعائیں کرتے ہیں۔