تین نامراد لوگ

ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی

انسانوں کی طبیعتیں مختلف ہوتی ہیں۔بعض صالح فطرت ہوتے ہیں تو بعض شر پسند۔ بعض کا میلان نیکیوں کی طرف ہوتا ہے تو بعض برائیوں کی طرف جھکاؤ رکھتے ہیں۔ بعض کو مواقع ملتے ہیں تو اچھے کاموں کی طرف لپکتے ہیں اور انہیں زیادہ سے زیادہ انجام دینے کی کوشش کرتے ہیں تو بعض مواقع ملنے کے باوجود نیکیاں کمانے سے محروم رہتے ہیں۔ان دونوں طرح کے انسانوں کی مثال زرخیز اورچٹیل زمینوں کی ہوتی ہے کہ یکساں بارش ہونے کے باوجود زرخیز زمین لہلہا اٹھتی ہے ، جب کہ چٹیل زمین پر ذرا بھی روئیدگی نہیں ہوتی۔
ایک حدیث میں اللہ کے رسول ﷺ نے ایسے ہی تین نا مرادانسانوں کا تذکرہ کیا ہے ۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کو نیکیاں کمانے اور اپنی آخرت سنوارنے کے خوب مواقع حاصل رہتے ہیں، لیکن وہ ان سے بالکل فائدہ نہیں اٹھاتے اور سراسر محروم رہتے ہیں۔ حضرت ابو ہریرہؓسے روایت ہے کہ آپؐ نے ارشاد فرمایا:
’’وہ شخص بد نصیب اورنا مراد ہے جس کی موجودگی میں میرا ذکر ہو، اس کے باوجود وہ مجھ پر صلاۃ و سلام نہ پڑھے۔وہ شخص بد نصیب اور نا مراد ہے جس کے سامنے ماہ ِ رمضان آئے اور گزر جائے اور وہ اپنی مغفرت کا سامان نہ کرسکے۔ وہ شخص بد نصیب اورنا مراد ہے جس کے والدین یا ان میں سے کوئی ایک اس کے پاس رہتے ہوئے بڑھاپے کو پہنچ جائیں،اس کے باوجود بھی وہ (ان کی خدمت کرکے) جنت میں نہ جا سکے۔‘‘
یہ حدیث مختلف کتب ِ حدیث میں آئی ہے، مثلاً جامع ترمذی: ۳۵۴۵، مسنداحمد: ۷۴۵۱، الادب المفرد للبخاری:۶۴۶ ۔صحیح مسلم میں اس کا ایک جز ،جو والدین سے متعلق ہے،آیا ہے اور اس میںبوڑھے والدین کی خدمت نہ کرنے والے کو تین مرتبہ بد نصیب و نامراد قرار دیا گیا ہے۔( حدیث نمبر۲۵۵۱ ) بعض روایات میں تھوڑی تفصیل ہے۔ وہ یوں کہ راوی کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ اللہ کے رسولﷺ منبر پر چڑھ رہے تھے۔ آپ نے پہلے پائیدان پر قدم رکھا تو فرمایا: آمین! دوسرے پائیدان پر قدم رکھا تو پھر اسی طرح فرمایا: آمین! تیسرے پائیدان پر قدم رکھتے ہوئے پھر آمین فرمایا: بعد میں آپ سے اس کا سبب دریافت کیا گیاتو آپ نے فرمایا کہ یہ باتیں[حضرت] جبریل[علیہ السلام] نے کہی تھیں۔ان کی ہر بات پر میں نے آمین کہا۔( البزار:۶۲۵۲، مجمع الزوائدللہیثمی: ۱۰؍۱۶۹)
حدیث میں ’رغم أنف‘ کے الفاظ آئے ہیں۔اس کے معنیٰ ہیں’ ناک غبار آلود ہو‘۔یہ تعبیر اس شخص کے لیے استعمال کی جاتی ہے جس کے بارے میں یہ کہنا ہو کہ وہ ناکام ہوگا اور اس کی مراد پوری نہیں ہوگی ۔
یہ ناکام و نامراد لوگ کون ہیں؟ ان کا مختصر تذکرہ ذیل میں کیا جاتا ہے:
رسولﷺ پردرود نہ پڑھنے والا
اللہ کے رسولﷺ سے محبت ایمان کا تقاضا ہے۔حدیث میں ہے کہ کسی شخص کا ایمان مکمل نہیں ہو سکتا جب تک کہ رسول اکرم ﷺ کی ذات ِ گرامی اس کے نزدیک اس کے ماں باپ، اولاد اور دنیاکے تمام انسانوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جائے۔( بخاری:۱۵) آپؐ سے محبت کا تقاضا ہے کہ جب بھی آپ کانام آئے اور آپ کا ذکرِ خیر ہو، آپ سے محبت و عقیدت کا مظاہرہ کیا جائے ۔ اس کا طریقہ قرآن و حدیث میں یہ بتایا گیا ہے کہ آپ پر صلاۃ و سلام بھیجا جائے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:’’اللہ اور اس کے فرشتے نبیؐ پر درود بھیجتے ہیں۔ اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! تم بھی ان پر درود و سلام بھیجو۔‘‘( الاحزاب:۵۹)
اللہ کے رسولﷺ پر صلاۃ و سلام پڑھنے کے مختلف صیغے احادیث میں مذکور ہیں۔ ان میں سے ایک ’درود ِابراہیمی‘ ہے۔اس کے الفاظ یہ ہیں:
اللّٰہُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَ عَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیتَ عَلٰی اِبرَاہِیمَ وَ عَلٰی آلِ اِبرَاہِیمَ، اِنَّکَ حَمِیدٌ مَجِیدٌ،اللّٰہُمَّ بَارِک عَلٰی مُحَمَّدٍ وَ عَلَی آلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکتَ عَلَی اِبرَاہِیمَ وَ عَلَی آلِ اِبرَاہِیمَ، اِنَّکَ حَمِیدٌ مَجِیدٌ۔
صلاۃ علیٰ النبی کے مختصر ترین الفاظ یہ ہو سکتے ہیں:ﷺ( آپ پر اللہ کی رحمت اور سلامتی ہو)۔
اللہ کے رسولﷺ پر صلاۃ و سلام پڑھنے کی بڑی فضیلت احادیث میں بیان کی گئی ہے اور اس پر بہت اجر کی بشارت دی گئی ہے۔اس کے برعکس ایسا نہ کرنے کی مذمّت کی گئی ہے اورصلاۃ و سلام نہ پڑھنے والے کی سرزنش کی گئی ہے۔ ایک حدیث میں اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا ہے:’’وہ شخص بخیل ہے جس کے سامنے میرا ذکر آئے اور وہ مجھ پر صلاۃ و سلام نہ پڑھے۔‘‘(ترمذی: ۳۵۴۶ )
اللہ کے رسول ﷺ پرصلاۃ و سلام پڑھنے سے کچھ خرچ نہیں ہوتا ، صرف زبان ہلانی پڑتی ہے ۔ وہ شخص کتنا بڑا بد نصیب اور نامراد ہے جس کے سامنے اللہ کے رسولﷺ کا ذکر آئے اور وہ صلاۃ و سلام پڑھنے کی بھی زحمت نہ کر سکے۔
رمضان میں نیکیاں نہ کمانے والا
ماہِ رمضان المبارک کے روزے اسلام کے ارکان میں سے ہیں۔رمضان کی بڑی فضیلت قرآن و حدیث میں بیان کی گئی ہے۔ اس ماہ میں قرآن مجید نازل ہوا ، جو انسانوں کے لیے کتاب ِ ہدایت ہے،اس میں روشن نشانیاں ہیں اور وہ حق اورباطل میں تمییز کرنے والی ہے۔ (البقرۃ:۱۸۵)رمضان کی ایک رات’شب ِ قدر‘ کو ایک ہزار راتوں سے افضل کہا گیا ہے۔ (القدر:۳) رمضان میں عبادت کا بڑا ثواب بیان کیا گیا ہے۔یوں تو بندہ ہر نیک کام پر اجر کا مستحق ہوتا ہے ، لیکن اللہ تعالیٰ نے روزہ کو خاص طور پر اپنی طرف منسوب کیا ہے اور اس پر بھرپور اور بے پایاں اجر دینے کا وعدہ کیا ہے۔ ایک حدیث ِ قدسی میں ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’ روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا۔ میرا بندہ میری وجہ سے ہی اپنا کھانا پینا چھوڑتا ہے۔‘‘ (بخاری:۷۴۹۲)
روزہ میں عبادت کرنے کا ماحول پایا جاتا ہے۔ تمام لوگوں کو عبادت کرتا دیکھ کران لوگوں کے اندر بھی آمادگی پیدا ہوجاتی ہے جو کسی وجہ سے سستی کا شکار ہوتے ہیں۔وہ قرآن مجید کی زیادہ سے زیادہ تلاوت کرتے ہیں، راتوں میں تراویح پڑھتے ہیں، توفیق ہوتی ہے تو سحری کے وقت بھی کچھ نوافل ادا کرتے ہیں، زکوٰۃ ادا کرتے ہیں،صدقہ و خیرات کرتے ہیں ،غرض رمضان المبارک میں زیادہ سے زیادہ اجر و ثواب کمانے کا ماحول پایا جاتا ہے۔
وہ شخص کتنا بد نصیب ہے جو ماہِ رمضان پائے اور اس سے اپنی جھولی نہ بھر لے۔جو معمولی اعذار پر روزہ ترک کردے ، حالاں کہ وہ ان کے ساتھ بھی روزہ رکھ سکتا تھا۔جو تن آسانی کا شکار ہو اور رمضان کو اپنے فرائض سے کی انجام دہی سے رخصت کا بہانہ بنا لے، جو قیام اللیل کی لذّت سے نا آشنا ہو، اسے بوجھ سمجھتا ہواور اس سے پیچھا چھڑانے کی مختلف ترکیبیں اختیار کرتا ہو، جو رمضان کے مقررہ اوقات میں تو کھانے پینے سے رکا رہے ، لیکن جھوٹ ، غیبت، چغلی ، لڑائی جھگڑا ، گالی گلوچ ، بے ایمانی ، دھوکہ دھڑی،مہنگا بیچنا،ڈنڈی مارنا، ناپ تول میں کمی کرنا،غرض ہر وہ کام کرے جس سے روکا گیا ہے،جو رمضان کی راتوں میں بیدار رہے ، لیکن اسے عبادت کرنے اور نوافل پڑھنے کی توفیق نہ ہو۔حدیث میں ایسے لوگوں کو سراسر محروم کہا گیا ہے ۔ اللہ کے رسولﷺ کا ارشاد ہے: ’’ کتنے روزے دار ایسے ہیں جن کو اپنے روزے سے محض بھوکے پیاسے رہنے کے علاوہ کچھ نہیں حاصل ہوتا۔کتنے شب بیدار ایسے ہیں جن کو اپنی شب بیداری سے رت جگے کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوتا۔‘‘ (دارمی:۲۷۶۲،احمد:۹۶۸۵)
والدین کی خدمت نہ کرنے والا
قرآن و حدیث میں والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنے پر بہت زور دیا گیا ہے۔ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر اللہ کی عبادت کرنے اور شرک سے بچنے کو تاکید کے ساتھ کہا گیا ہے، ساتھ ہی یہ بھی حکم دیا گیا ہے کہ والدین کے ساتھ حسن ِ سلوک کرو۔( البقرۃ:۸۳، النساء:۳۶،الانعام:۱۵۱، الاسراء: ۲۳) کئی مقامات پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :’’ ہم نے انسان کو اس کے والدین کا حق پہچاننے کی تاکید کی ہے۔‘‘( لقمان: ۱۴ ، الاحقاف: ۱۵) حدیث میں اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لیے والدین کو خوش رکھنے پر زور دیا گیا ہے۔(الترغیب و الترھیب للمنذری: ۲؍۹۴۶) اور والدین کی نافرمانی کا شمار بڑے گناہوں میں کیا گیا ہے۔(بخاری:۲۶۵۴)
والدین کے ساتھ حسن ِ سلوک ہر موقع پر اور ہر زمانے میںمطلوب ہے ، لیکن جب وہ بڑھاپے کو پہنچ جائیں اور ان کے بیٹے جوان ہوں تو اس وقت اور زیادہ تاکید کی گئی ہے۔ قرآن مجید میں زور دے کر کہا گیا ہے:’’والدین کے ساتھ نیک سلوک کرو۔ اگر تمہارے پاس ان میں سے کوئی ایک یا دونوں بوڑھے ہوکر رہیں تو انہیں اُف تک نہ کہو ، نہ انہیں جھڑک کر جواب دو ، بلکہ ان سے احترام کے ساتھ بات کرو اور نرمی و رحم کے ساتھ ان کے سامنے جھک کر رہو اور دعا کیا کرو کہ پروردگار! ان پر رحم فرما جس طرح انھوں نے رحمت و شفقت کے ساتھ مجھے بچپن میں پالا تھا۔(الاسراء: ۲۳۔۲۴)
احادیث میں والدین کی خدمت کو جہاد فی سبیل اللہ سے بھی افضل قرار دیا گیا ہے۔ایک حدیث میں ہے کہ ایک شخص اللہ کے رسولﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: میں جہاد میں حصہ لینا چاہتا ہوں ۔ آپؐ نے دریافت کیا: کیا تمہارے ماں باپ زندہ ہیں؟ اس نے جواب دیا: ہاں۔ تب آپ نے فرمایا:’’جاؤ، ان دونوں میں (یعنی ان کی خدمت کرکے) جہاد کرو۔‘‘( بخاری: ۳۰۰۴، مسلم: ۲۵۴۹)
بڑا بدنصیب اور نامراد ہے وہ شخص جو اپنے والدین یا ان میں سے کسی ایک کو بڑھاپے میں پائے ، لیکن ان کی خدمت نہ کرسکے۔ اس طرح جنّت میں داخل ہونے کا قیمتی موقع، جو اسے حاصل تھا ،گنوا دے۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146