میرا تعلق ایک پروٹسٹنٹ عیسائی خاندان سے تھا جس کے سب افراد مذہب سے دور ہیں لیکن بچپن ہی میں دینی رجحان رکھتی تھی۔ جب میری عمر دس برس ہوئی تو میں نے اپنے پڑوسیوں سے فرمائش کی کہ وہ اتوار کو چرچ جاتے وقت مجھے ساتھ لے جایا کریں، چناں چہ میں وقتاً فوقتاً عبادت کی خاطر ان کے ساتھ جانے لگی۔
جب میں ہائی اسکول میں پہنچی تو عیسائیت کی مختلف شاخوں اور فرقوں کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کا شوق ہوا۔ اس سلسلے میں مجھے کیتھولک فرقے کے گہرے اور وسیع مطالعے کا موقع ملا۔ دیگر مذاہب کے بھی مطالعے کا شوق رہا، میری خوش قسمتی کہ مجھے کہیں اطمینان حاصل نہ ہوا اور میری روح پیاسی ہی رہی۔ میرا وجدان جو چاہتا تھا وہ کہیں سے نہ مل سکا۔ میرا ضمیر کہتا تھا کہ اس کائنات کا خالق و مالک وحدہ لاشریک ہے۔
میں ابھی ہائی اسکول میں پڑھ رہی تھی جب مجھے شرق اوسط کے بارے میں خاصی تفصیل سے مطالعہ کرنے کا موقع لا۔ یوں پہلی بار ’’اسلام‘‘ اور ’’مسلم‘‘ کے الفاظ سے آشنائی ہوئی مگر اسکول کے زمانے میں میرا دائرہ معلومات یہیں تک محدود رہا۔ جب میں کالج میں پہنچی تو خوش قسمتی سے وہاں شرق اوسط سے تعلق رکھنے والے مسلمان طلبہ بھی زیر تعلیم تھے۔ ان سے ملاقاتیں ہوئیں اور اسلام سے تعارف ہوا تو میں اسلام کے اس پہلو سے بہت متاثر ہوئی کہ عیسائیت اور یہودیت کی طرح یہ مذہب جز وقتی نہیں بلکہ زندگی کے ہر شعبے پر محیط ہے۔ اسلام چوں کہ دن رات کے ہر لمحے میں رہ نمائی کرتا ہے اور عیسائیت کے مانند اس کی رفاقات کا دائرہ محض ایک ہفتے میں ایک گھنٹے تک محدود نہیں ہوتا، اس لیے جب ایک شخص عملی طور پر اسے اختیار کرلیتا ہے تو اس کی زندگی میں نظم و ضبط اور سلیقہ و استحکام پیدا ہو جاتا ہے۔ اسلام کی دوسری خوبی، جس نے مجھے زیادہ متاثر کیا، یہ تھی کہ مجھے یقین ہو گیا کہ اسلام ایک مکمل جابطہ حیات اور دین کامل ہے۔ میں نے اسلام کو فطرت کے عین مطابق پایا، چناں چہ اسے دل و جان سے قبول کرلیا۔
اسلام قبول کرنے پر میرے خاندان کے ہر فرد کا رد عمل مختلف تھا۔
میرے والد کا مجھ سے سلوک بالکل مشفقانہ رہا ہے۔ اسلام قبول کرنے کے بعد میں نے اپنا لباس بدل لیا اور عام زندگی کو بھی یکسر بدل ڈالا لیکن میرے باپ کی محبت میں کوئی فرق نہ آیا۔ ایک دفعہ میری پھوپھی آئی تو اس نے مجھے خوب برا بھلا اور قنوطی کہا۔ مزید طعنے بھی دیے تو میرے والدین نے میری مدافعت کی، تاہم والدہ کا طرزِ عمل کچھ خوش گوار نہ تھا۔ وہ میری زندگی کے اس انقلاب سے قطعی نا خوش تھی لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بعض دشواریوں کے باوجود میں اپنے والدین کے ساتھ ہی ہوں اور مجھے ان پریشانیوں سے سابقہ نہیں پڑا جس کی عموماً توقع کی جاتی ہے۔
امریکہ کے اس ماحول میں جہاں مادیت کا دور دورہ ہے، عیش پرستی اور تفریح پسندی ہی کو زندگی کی معراج خیال کیا جاتا ہے، وہاں اسلام قبول کرنا اور اس کی تعلیمات پر عمل کرنا بے حد مشکل کام ہے، چناں چہ میں نے یہ فیصلہ کرنے سے پہلے ہزار بار سوچا۔ میرے والدین مجھ سے کیا سلوک کریں گے؟ میری تعلیم کا کیا بنے گا؟ میں اپنے قریبی احباب میں کیسے زندہ رہوں گی؟ اس نوعیت کے خدشات نے مجھے سخت پریشان کیے رکھا مگر طویل اور گہرے سوچ بچار کے بعد میں نے فیصلہ کیا کہ اسلام قبول کرنے میں یہ عارضی پریشانیاں اور مصیبتیں تو ضرور آئیں گی لیکن ضمیر مطمئن ہوگا اور انجام بہتر۔ میں نے اس دوران اللہ سے بہت دعائیں کیں اور اس سے اعانت و مدد طلب کی، تو میری دعائیں خدا نے سن لیں اور حیرت انگیز طور پر مجھے وہ ہمت اور حوصلہ عطا کیا کہ میں اتنا بڑا فیصلہ کرنے پر تیار ہوگئی۔
اگرچہ میں نو عمر ہوں مگر اپنے اس فیصلے پر مستقل طور پر قائم رہوں گی اور مجھے یقین ہے کہ اس میں کوئی کمزوری نہیں آئے گی، اس لیے کہ میں نے یہ فیصلہ خوب سوچ سمجھ کر کیا ہے۔ اندازہ کریں کہ جب میں قبولِ اسلام کے لیے ایک مسجد میں گئی تو وہاں کے خطیب و امام نے مجھ پر ذرہ برابر دباؤ نہیں ڈالا بلکہ یہ کہا کہ پہلے اسلام کے متعلق خوب مطالعہ کیجئے، اگر اس بارے میں کوئی اعتراض ہے تو سوالات کر کے تسلی کرلیجئے، پھر اسلام قبول کیجئے۔ اس کے برعکس جب میں عیسائیت کا مطالعہ کر رہی تھی، ایک مرتبہ کیتھولک چرچ میں گئی تو سب نے مجھ پر بہت دباؤ ڈالاکہ میں فوری طور پر کیتھولک مذہب قبول کرلوں۔ میں نے بہت سے مذاہب کا مطالعہ کیا ہے، میرے شعور نے سب کو مسترد کردیا۔ میں نے اسلام کو اس لیے مطالعہ کے بعد قبول کیا ہے کہ یہ مذہب ہر لحاظ سے بہتر اور عقل کے عین مطابق ہے۔ میں نے مسلسل دو برس تک اسلامی تعلیمات کو پرکھا اور کئی لوگوں سے اس بارے میں گفتگو کی۔ میرے اسلام قبول کرنے میں جذباتیت کا دخل ہے نہ عجلت پسندی اور نہ کسی دنیاوی مفاد کا، انشاء اللہ میں اس پر عمر بھر قائم رہوں گی۔
اسلام قبول کر کے مجھے سب سے بڑی کامیابی یہ ملی ہے کہ زندگی میں وقار اور ڈسپلن کا چلن پیدا ہوا۔ شب و روز کا پروگرام اور مقصدیت حاصل ہوئی۔ دل و دماغ میں جو خلا کی کیفیت چھائی رہتی تھی، اس میں سکون آیا۔ تزکیہ نفس سے روح کو رفعت ملی اور میں پریشانی و مایوسی سے محفوظ ہوگئی۔ اللہ کا احسان ہے کہ اسلام کی تعلیمات پر عمل نے میری زندگی کے پر پہلو کو مثبت طور پر تبدیل کر دیا۔ ان میں بعض تبدیلیاں واضح اور انقلابی نوعیت کی ہیں۔
میں اپنے بالوں کو ڈھانپتی ہوں جو امریکہ کے عریاں ماحول میں بعض لوگوں کو عجیب لگتا ہے۔ اس ضمن میں میرے وہی احساسات ہیں جو ایک باعمل مسلمان عورت کے ہوسکتے ہیں۔ میں نے اپنا سر ڈھانپ کر دراصل ماحول کی آلودگیوں کے خلاف تحفظ حاصل کیا ہے اور عام عورت نیم برہنگی کی وجہ سے جس خوف و سراسیمگی کی کیفیت میں مبتلا رہتی ہے، اس سے کافی حد تک نجات پائی ہے، پھر میرا سر ڈھانپنا ایک قسم کا اعلان بھی ہے کہ میں ایک مسلمان عورت ہوں۔ سب سے بڑی چیز یہ ہے کہ ہمیں اللہ نے جو حکم دیا، اس کی پیروی کر رہی ہوں۔
امریکہ میں جو لوگ اپنا مذہب تبدیل کرتے ہیں، ان کی غالب اکثریت میرے خیال میں اسلام کی آغوش میں چلی آتی ہے۔ انہیں اس امر کا احساس ہوگیا ہے کہ موجودہ مغربی طرزِ زندگی نہ تو اخلاقی قدروں کی پرورش کرتا ہے اور نہ یہ کسی باوقار اور صاف ستھرے اسلوب حیات کو پروان چڑھاتا ہے جب کہ اس کے برعکس اسلام کی صورت میں وہ ایسی صداقت سے بہرہ ور ہوتے ہیں جو انہیں بلند ترین اخلاقی معیارات عطا کرتی ہے، جو حقیقت پسندی پر مبنی ہے اور فطری بھی۔ خاص اور اہم ترین بات یہ ہے کہ اسلام مغرب کی تنگ نظری سے بہت ہی بلند و بالا ہے اور انسانوں کو مادیت اور نسل پرستی سے ہٹا کر خاص انسانی شرف کی بنا پر مخاطب کرتا ہے۔ امریکہ میں اسلام قبول کرنے والوں کی اکثریت سیاہ فاموں پر مشتمل ہے، اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ جو لوگ اسلام قبول کرتے ہیں وہ بالعموم موجودہ نظام کے ستم زدہ ہوتے ہیں اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ امریکہ میں سیاہ فام بے چارے بڑے ہی مظلوم ہیں۔ جب وہ دائرہ اسلام میں آتے ہیں انہیں حقارت اور ظلم و جور کے بجائے محبت و مساوات اور احترام ملتا ہے تو ان کی پریشان اور افسردہ روحوں کو قرار آجاتا ہے۔ سیاہ فاموں کے اسلام کی طرف لپکنے کا ایک سبب اور بھی ہے۔ وہ جان گئے ہیں کہ افریقہ میں ان کے آبا و اجداد کا مذہب اسلام تھا اور جب انہیں زبردستی اغواء کر کے امریکہ لایا گیا تو ان سے یہ نعمت چھین لی گئی، چناں چہ اسلام قبول کر کے در حقیقت وہ اپنے اصل دین کی طرف لوٹتے ہیں۔ ذرائع ابلاغ یہ واویلا کر رہے ہیں اور وہ اس مشن میں تھکتے ہی نہیں کہ اسلام کا رویہ عورت کے معاملے میں غیر مناسب ہے، لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ یہ الزام ان لوگوں کی طرف سے لگایا جاتا ہے جو اسلام کی تعلیمات سے یکسر بے خبر ہیں۔ وہ فرض کرلیتے ہیں کہ جب اسلامی معاشرے میں مرد اور عورت کا میدان کار الگ الگ ہے تو لازماً عورت ظلم کا شکار ہوتی ہے، حالاںکہ معاملہ ایسا نہیں۔ اس کے برعکس میں اپنے ہاں کی صورتِ حال پیش کرتی ہوں۔ یہاں برابری اور مساوات کا مطلب یہ لیا جاتا ہے کہ معاشرے میں عورت وہ سب کچھ کرے جو مرد کرتا ہے لیکن عملاً یہ ہوتا ہے کہ عورت مرد کو کمائی کھلاتی ہے اور گھر کا بھی سارا کام کرتی ہے۔ جہاں مرد اس کے ساتھ شراکت نہیں کرتا۔ پھر ظاہر ہے مساوات کہاں رہی؟ اور جن گھر والوں میں ماں اور باپ دونوں کام کرتے ہیں وہاں بچوں کا جو حال ہوتا ہے، وہ ظلم اور استحصال کی ایک افسوسناک مثال ہے۔ اس معاملے کا ایک اور پہلو بھی ہے۔ مغرب کے ذرائع ابلاغ اور اخبارات عام طور پر عالم اسلام کی حکومتوں کے طرز عمل اور مختلف افراد کے ذاتی رویے سے سمجھ لیتے ہیں کہ یہی کچھ اسلام کی تعلیم ہے، حالاںکہ ایسا نہیں۔ ان دونوں میں فرق کرنا ضروری ہے، چناں چہ مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمارا فرض ہے کہ ہم اسلامی تعلیمات پر ان کی صحیح روح کے ساتھ عمل کریں اور غیر مسلموں کے سامنے اسلام کے سچے ترجمان بنیں۔lll