آپ اخبارات کے صفحات پلٹیں یا ٹی وی رموٹ کا بٹن دبائیں سب سے پہلے آپ کو عریاں ماڈلس اور حیا سوز اشتہارات دیکھنے کو ملیں گے۔روز روز آتے نئے نئے چینلوں اور ان کے حیا سوز اور اخلاق باختگی کی نمائندگی کرتے پروگراموں کے درمیان لوگ پرنٹ میڈیا کو نسبتاً صاف ستھرا تصور کرتے تھے۔ مگر اب یہ تصور بھی دھیرے دھیرے خواب بنتا جارہا ہے۔ ملک کے کسی بھی حصہ سے اور کسی بھی زبان میں شائع ہونے والے اخبارات اور رسائل اب اس بیماری سے محفوظ قرار نہیں دئے جاسکتے۔ بلکہ اس سے آگے بڑھ کر ایسا محسوس ہونے لگا ہے جیسے ملک کا ’’مین اسٹریم‘‘ کہا جانے والا میڈیا عریانیت اور فحاشی میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی دھن میں لگ گیا ہو۔ ایڈیٹوریل کی جانب سے شائع ہونے والی تصاویر اور مضامین سے لے کر برہنہ اور نیم برہنہ اشتہارات تک یہ ظاہر کرتے ہیں کہ اس وقت ہمارے ملک کا میڈیا مشرقی تہذیب اور ہندوستانی روایات کو قدامت پسندی گردان کر دفن کردینا چاہتا ہے اور اس کی جگہ ایسی تہذیب اور ایسے کلچر کے فروغ کا آلہ کار بن رہا ہے جو بیمار ہے اور جس نے ان نسلوں کو تباہ کردیا ہے جہاں وہ پروان چڑھا اور پھلا پھولا ہے۔
مغرب اپنی اقتصادیات، فوجی طاقت اور سائنس و ٹکنالوجی کی قوت کے اعتبار سے عملاً دنیا پر حکومت کررہا ہے اور سیاسی اعتبار سے غلبہ حاصل کرنے کے لیے مسلسل کوشاں ہے۔ جس کے مظاہر ہم دنیا کے مختلف خطوں میں فوجی کارروائیوں کی صورت میں دیکھ رہے ہیں۔ یہ مغربی دنیا کی مسلح دہشت گردی ہے اور اس کی زد میں ہر وہ جغرافیائی خطہ اور ملک آتا ہے جس میں کسی بھی طرح سے ان مغربی طاقتوں کو چیلنج کرنے کی قوت ہو۔
سوویت روس کے زوال کے بعد دنیا میں طاقت کا توازن ختم ہوگیا اور صرف ایک ایسی سپر طاقت باقی رہ گئی جس کا فوجی اعتبار سے کوئی مقابل نہیں مگر محض فوجی اور سیاسی مقابل ہی بڑی طاقتوں کے لیے خطرہ نہیں ہے، بلکہ اس کے علاوہ بھی کچھ حقائق ہیں جن کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
بیسویں صدی کے ابتدائی دور میں دو بڑی طاقتیں نمودار ہوئیں اور ساری دنیا کو انھوں نے اپنے اپنے حصار میں لینے کی جدوجہد شروع کردی۔ ان طاقتوں کا عروج اگرچہ فوجی اور اقتصادی اسباب سے ہوا تھا لیکن ان کی بنیاد آئیڈیا لوجی اور نظام سیاست تھا۔ سوویت روس کی بنیاد سوشلزم تھا تو امریکی نظام کی بنیاد سرمایہ دارانہ سیکولر جمہوریت۔ چنانچہ ان دونوں طاقتوں کے درمیان نصف صدی سے زیادہ مدت پر محیط سیاسی کشمکش محض فوجی برتری کی کشمکش نہ تھی بلکہ آئیڈیا لوجی کی فتح و شکست کا معاملہ تھا۔ اور آخر کار اس میں سوشلزم کی شکست ہوئی اور سوویت روس ٹوٹ پھوٹ کر ختم ہوگیا۔
اس وقت امریکہ خود کو اس بات کا حق دار سمجھتا ہے کہ پوری دنیا میں سیاسی اعتبار سے اسی کا تسلط ہو اور تہذیبی و ثقافتی اعتبار سے اسی کی بالاتری قائم ہو جائے۔ سیاسی تسلط کے لیے فوجی کارروائیوں کا راستہ اور اقتصادی وثقافتی تسلط کے لیے بڑی بڑی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے فروغ اور گلوبلائزیشن کو استعمال کیا جارہا ہے۔ یہ گلوبلائزیشن امریکہ کے ثقافتی اور اقتصادی تسلط اور بالاتری کو قائم کرنے کے ذرائع اور وسائل ہیں۔ جنھیں ہم شاید ابھی عراق اور افغانستان میں مسلح سرکاری ’’دہشت گردی‘‘ کی طرح دہشت گردی کہنے کے لیے تیار نہ ہوں۔ لیکن جب یہ تہذیب و ثقافت اور اقتصادی نظام پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا اور سماج و معاشرہ کے ہر کونے سے چیخوں اور کراہوں کی آوازیں سنائی دیں گی اس وقت اندازہ ہوگا کہ ہم کس ثقافتی اور اقتصادی دہشت گردی کا شکار ہوئے ہیں۔
ہمارے اخبارات، رسائل اور ٹی وی چینلس کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ انھوں نے اس اقتصادی و ثقافتی دہشت گردی کے مقابلہ میں ہار مان لی ہے اور اب وہی کچھ کررہے ہیں جو سپر طاقت چاہتی ہے۔ اب صورت حال یہ ہے کہ ہندوستان کی بیٹیاں جو گھروں میں بھی چہروں پر گھونگھٹ ڈالنے کی روایت رکھتی تھیں مغرب کی بیمار تہذیب کے تعدیہ (Infection) کا شکار ہوکر اپنے جسم سے لباس نوچ نوچ کر پھینک رہی ہیں۔
یہ صورت حال ایک تہذیب کی دہشت گردی کے مقابلہ میں دوسری قوم کی شکست خوردگی کے مانند ہے۔ اس لیے کہ تاریخ بتاتی ہے کہ تہذیب وثقافت فاتح قوموں کی رہی ہے، مفتوح اور شکست خوردہ قوموں کے سامنے اسے اختیار کرنے کے علاوہ اور کوئی چارئہ کار نہیں رہا ہے۔
تاریخ یہ بھی جانتی ہے اسلام اور اس کی تہذیب و ثقافت فاتح تہذیب و ثقافت رہی ہے مگر وہ بیماری اور فساد پھیلانے والی تہذیب نہ تھی بلکہ خیر اور فلاح کو فروغ دینے والی اور شر و فساد کا خاتمہ کرنے والی تہذیب تھی۔ اور ہم ملت اسلامیہ کے افراد بجا طور پر مطمئن ہیں کہ ہماری تہذیب اور ہمارا دین ہی وہ فارمولہ ہوسکتا ہے جو دنیا کو شرو فساد کے اس بھنور سے نکال سکے۔
امت مسلمہ کے افراد کو اس حقیقت کا شعور ہونا چاہیے کہ سوشلزم کے نظریہ کو امریکہ نے نہیں، سرمایہ دارانہ سیکولر جمہوریت نے نہیں ہم نے اور اسلام نے شکست دی ہے اور ہم اور ہمارا اسلام ہی وہ طاقت ہے جو آج کی اس دہشت گرد نام نہاد سرمایہ دارانہ جمہوریت کو بھی شکست دے سکتا ہے۔ ہمیں اس بات کا بھی شعور ہونا چاہیے کہ اب یہ جنگ محض فوجی جنگ نہیں رہی بلکہ یہ آئیڈیا لوجی کی جنگ میں تبدیل ہوگئی ہے اور اب مغربی دنیا کسی سیاسی اعتبار سے کمزور اور اقتصادی اعتبار سے پسماندہ قوم سے برسرِپیکار نہیں بلکہ آئیڈیالوجیکل سپر پاور سے نبرد آزما ہے۔ یہ طاقت سیاسی و ثقافتی بالادستی کے لیے دوسرے ملکوں میں فوجی کارروائیوں میں مصروف ہے اور اسلام کی آئیڈیالوجیکل سپر طاقت اس کی اپنی مملکت کی حدود میں داخل ہوکر اپنا کام انجام دے رہی ہے۔ اور وقت کی یہ طاقت حیران و پریشان ہے کہ اس کے پاس اس کے مقابلہ کے لیے کوئی ہتھیار نہیں۔ بلاشبہ اللہ کا فرمان ہے:
انہم یکیدون کیداً و اکید کیداً۔
’’بے شک وہ ایک چال چل رہے ہیں اورہم ایک اور چال۔‘‘
اور
بل نقذف بالحق علی الباطل فیدمغۃ
’’بلکہ ہم باطل پر حق کے ذریعہ ایسی زبردست چوٹ مارتے ہیں کہ وہ اس کا بھیجا نکال لیتی ہے۔‘‘
حق اور باطل کی جنگ جاری ہے۔ حق کا حق اور باطل کا باطل ہونا واضح ہوگیا ہے۔ اب وقت ہے کہ امت مسلمہ کے افراد، اس کے نوجوان، اس کی خواتین اور اس کی بیٹیاں حالات کا صحیح، حقیقت پسندانہ اور دانشمندانہ تجزیہ کرتے ہوئے وقت اور حالات کے تقاضوں کو سمجھنے کی کوشش کریں اور اس آئیڈیالوجیکل وار میں اپنا کردار پہچان کر حالات نے اسلام کے فروغ اور دعوت اسلامی کے لیے جووسیع امکانات فراہم کیے ہیں ان سے مکمل طور پر فائدہ اٹھانے کی فکر کریں۔
مریم جمال