جب سب کچھ لٹ گیا…

سیدہ بنتِ حسینی

ابووالی گڑیا تم اور انکل والی گڑیا میں لوں گی۔ نہیں ابو والی گڑیا تم لو ربیعہ اور میں انکل والی گڑیا لوں گی۔ تم ہمیشہ یہی کہتی ہو چھوٹی ہونا اسی لیے امی بھی ہر اچھی چیز تم کو ہی دے دیتی ہیں مگر اب ہرگز میں انکل والی گڑیا تمہیں نہ لینے دوں گی ویسے بھی یہ میری سالگرہ پر انکل نے مجھے تحفے میں دی تھی یہ میری ہے۔

امی نے باورچی خانے سے ہانک لگائی ارے لڑکیو! چپ بھی ہوتی یا میں آکر پٹائی کروں۔ امی جان جوبڑی دیر سے باورچی خانے میں بڑی بیٹی فریحہ کے ساتھ شام کی چائے کی تیاری میں مصروف تھیں، آج ان کی کچھ سہیلیاں آنے والی تھیں، ذرا چائے کے ساتھ کچھ نمکین ڈش کی تیاری بھی ہورہی تھی۔ فریحہ سے کہا جاؤ جاکر ان دونوں کا جھگڑا چکاؤ۔

ارے تم دونوں بہنیں آپس میں جھگڑتی رہی رہتی ہو خواتین آپس میں جھگڑتی ہی رہتی ہیں لہٰذا دوزخ میں بھی خواتین ہی زیادہ ہوں گی۔ صبیح نے بہنوں کو دیکھ کر شوشا چھوڑا۔ فریحہ باجی میں ٹھیک کہہ رہا ہوں نا، آپ کی دوست زاہدہ جو دین کی باتیں کرتی رہتی ہیں اس نے یہ ضرور بتایا ہوگا۔ آپ بڑے ذوق وشوق سے اس کے پروگرام میں جاتی ہیں نا، صبیح نے گرہ لگائی۔ نماز تو پابندی سے پڑھتے نہیں ہو اور اپنے مطلب کی بات بڑی ہوشیاری سے نکال لیتے ہو۔ بنی اسرائیل کی طرح فریحہ نے بھی پورا بدلہ چکادیا۔

سمیعہ، ربیعہ تم دونوں کیوں لڑتی رہتی ہو، ختم کرو یہ گڑیا کے لیے لڑائی۔ انکل بھی عجیب ہیں ان کی مہربانیاں نہ ہوں تو ہی اچھا ہے۔ امی، ابو نے خواہ مخواہ ان کو ڈھیل دے رکھی ہے۔ پتا نہیں کیوں ہمارے گھر آتے ہیں۔ فریحہ نے بڑبڑاتے ہوئے دونوں بہنوں سے گڑیاں چھین کر الماری میں ڈال دیں۔

صابرہ کا شوہر سمیع ایک پرائیویٹ کمپنی میں ملازمت کرتا تھا آج کل آڈٹ کی وجہ سے دیر سے گھر پہنچتا تھا۔ بجلی کافی دیر سے گئی ہوئی تھی۔ دروازے پر دھڑ دھڑ کی آواز نے اس کے خیالوں کا تانا بانا منتشر کردیا جیسے ہی دروازہ کھولا سامنے فرہاد کھڑا تھا۔ بھابی اندر آجاؤں ، پھر سیدھا ڈرائنگ روم میں آدھمکا۔ صوفے پر دراز ہوتے ہوئے پوچھا کہ کیا سمیع اب تک نہیں آیا میں تو بینک کا ملازم ہوں بہت کام ہوتا ہے، لیکن اتنی دیرسمیع نے کیوں کردی۔ اس کی تو پرائیویٹ فرم ہے میں تو اسے خوش خبری سنانے آیا تھا۔ مجھے منیجر کے عہدے پر ترقی دے دی گئی ہے۔ نئی شاخ کے افتتاح کی تصویریں بھی مجھے دکھانی ہیں۔ چلیں آپ ہی دیکھ لیں۔ مگر یہ موم بتی کی روشنی میں دھندلی نظر آئیں گی۔

آپ نے تو ایک ہی سانس میں بغیر رکے ساری داستان سنادی۔ فرہاد بھائی بیٹھیں میں آپ کے لیے چائے بناتی ہوں اتنے میں سمیع بھی آجائیں گے۔ صابرہ نے بات مکمل کی اور باورچی خانے کی طرف چل دی۔

دونوں خاندانوں میں بڑی بے تکلفی تھی۔ فرہاد سمیع کے بچپن کا دوست تھا۔ دونوں کی بیویاں نئی تہذیب کے مطابق ایک دوسرے کے شوہر کے سامنے بے تکلف آجاتی تھیں دونوں خاندان ہی پردے وغیرہ کے احکام سے نابلد تھے۔ فریحہ نے جب کالج میں داخلہ لیا تھا اس کی دوست زاہدہ کی وجہ سے کچھ دین اسلام کی شدھ بدھ ہوچلی تھی ورنہ وہ مسلمان گھرانوں میں پیدا ہوئے تھے، لہٰذا مسلمان تھے باقی اللہ اللہ خیر صلاَّ۔

موسم سرما کی آمد آمد تھی ہوا میں خنکی کے آثار تھے۔ چائے تو بھابی آپ نے بڑی عمدہ بنائی ہے۔ نہ جانے سمیع کب آئے۔ آپ ہی یہ تصویریں دیکھ لیں پھر میں چلتا ہوں۔ فرہاد نے بے زاری سے کہا۔ بجلی ابھی تک نہیں آئی تھی موم بتی کی روشنی میں ہی صابرہ تصویریں دیکھنے لگی اور فرہاد بھی جھک کر تصاویر کی وضاحت کررہا تھا۔ صابرہ تبصرہ کرتے ہوئے داد دے رہی تھی۔ کیا میں آپ دونوں کے انہماک میں دخل اندازی کرسکتا ہوں۔ سمیع کی آوازنے صابرہ اور فرہاد کو چونکا دیا۔

جی! جی ہاں ضرور ہم تمہارا ہی انتظار کررہے تھے۔ سمیع میں تمہیں خوش خبری سنانے آیا تھا۔ فرہاد نے اطلاع دی۔ سمیع سیدھا خواب گاہ میں جا گھسا اور دروازہ بندکردیا۔

صبح صابرہ کے ہاتھ میں طلاق نامہ تھا اور جلدی سے گھر چھوڑنے کا انتباہ۔ صابرہ کے ہاتھ کانپ رہے تھے اور ذہن میں خیالات بجلی کی تیزی سے دوڑ رہے تھے۔’’بیٹی پردہ ایک قلعہ ہے، ایک حصار ہے، جس میں عورت محفوظ ہوجاتی ہے۔‘‘ صابرہ کے لرزتے ہونٹوں نے آج اس بات کی گواہی دی تھی جو اس کی دادی اماں نے اس وقت کہے تھے جب وہ انٹر کالج میں داخل ہوئی تھی۔مگر اس بات کو سمجھنے میں اسے بیس سال لگے اور سمجھ میں بھی اس وقت آئی جب سب کچھ لٹ چکا تھا۔ ——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں