جب ضمیر جاگ اٹھا

عبدالکافی ادیب

ہمارے گاؤں کے باشندے حاجی اسلم کا شمار ان خوش نصیبوں میں ہوتا ہے جنھیں عرصہ دراز سے مدینہ منورہ میں مسجدِ نبویؐ کے ایک گوشے میں صاحبِ فراش ہونے کا شرف حاصل ہے۔ وہ گزشتہ پچیس تیس برس سے مدینہ منورہ میں مقیم ہیں۔ گاؤں اور گردونواح سے تعلق رکھنے والے عازمین حج وہاں جاکر ان سے ضرور ملاقات کرتے ہیں۔ اسی طرح یہاں سے جو لوگ عمرے کی ادائیگی کے لیے جاتے ہیں، واپسی پر وہ حاجی اسلم کے ہاں ضرور ایک دو روز قیام کرتے ہیں۔ حاجی اسلم خوشی خوشی ان کی خاطر مدارات میں مگن رہتے ہیں۔ اکثر حجاج کرام کو مکہ معظمہ یا مدینہ منورہ میں مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے،تو حاجی اسلم نہایت خندہ پیشانی کے ساتھ ان کی مالی ضرورتیں پوری کرتے ہیں۔ یہ اللہ کی دین ہے کہ نفسا نفسی کے اس دور میں حاجی اسلم نہایت فراخ دلی کے ساتھ بلا امتیاز ہر کسی کی خدمت کرنے پر مستعد رہتے ہیں۔ ہر شخص واپسی پر ان کی اعلیٰ ظرفی اور وسیع القلبی کے گن گاتا ہے۔
چند برس ہوئے میں اپنے رشتہ داروں کے ہمراہ حج کی ادائیگی کے لیے مکہ معظمہ گیا تھا۔ واپسی پر ہم لوگ مسجد نبویؐ اور روضہ رسول کریم ﷺ کی زیارت کی غرض سے مدینہ منورہ آئے۔ حاجی اسلم ایک تو میرے گاؤں کے تھے دوسرے ہم عمر ساتھی بھی۔ وہ ہماری آمد کے لیے چشم براہ تھے۔ ان کی رہائش گاہ مسجد نبویؐ سے کچھ فاصلے پر تھی۔ ہم لوگ ان کے ہاں ٹھہر گئے۔ وہاں علاقے سے آئے ہوئے اور بھی لوگ فروکش تھے۔ حاجی اسلم حسبِ عادت ان کی خدمت میں مصروف تھے۔ وہاں دیگر علاقوں سے تعلق رکھنے والے چند حضرات سے ملاقات ہوئی۔ ان میں عبدالرحیم نام کا ایک ادھیڑ عمر شخص بھی تھا۔ داڑھی مونچھ ندارد۔ بڑا ہنس مکھ واقع ہوا تھا۔ پہلی ملاقات میں وہ ہم سے کھل گیا۔ اگلے روز اس کے ساتھیوں نے روضۂ رسولؐ کی زیارت کے لیے چلنے کو کہا۔ اس وقت وہ اپنے بستر پر لیٹا آرام کررہا تھا۔ جب اس سے اٹھ کر چلنے کو کہا گیا تو اس نے معذرت پیش کرتے ہوئے کہا:
’’تم لوگ چلو۔ میری طبیعت کچھ ٹھیک نہیں۔ ذرا ٹھہر کر آؤں گا۔‘‘
لیکن وہ نہیں گیا۔ ہم لوگ فکر مندہوگئے۔ اس نے کہا: ’’فکرکرنے کی ضرورت نہیں۔ ذرا جی متلارہا تھا۔ اب ٹھیک ہوں۔‘‘
حاجی اسلم پریشان ہوگئے۔ انھوں نے فوراً بازار سے فروٹ سالٹ منگوایا اور ایک گلاس بناکر عبدالرحیم کو پلوایا… مگر اگلے روز بھی جب ہم نے روضہ رسولؐ پر حاضری دینے کا پروگرام بنایا تو کسی بہانے سے عبدالرحیم جانے سے ہچکچانے لگا۔ ہمیں شک ہوا کہ وہ جان بوجھ کر روضہ رسول کریمؐ پر حاضری دینے سے گریز کررہا ہے۔ یقینا یہ اس کے لیے بدنصیبی کا باعث ہوتا اگر روضہ رسولؐ کی زیارت سے محروم رہتا۔ اس کے ساتھیوں نے سختی کرتے ہوئے اسے سمجھانے کی کوشش کی مگر عبدالرحیم الٹا برا بھلا کہنے لگا اور بدتمیزی پر اتر آیا۔ ہم لوگ یہ سمجھنے سے قاصر تھے کہ آخر عبدالرحیم چاہتا کیا ہے اور اس مقام اقدس پر جانے سے گریز کیوں کررہا ہے جس کی لاکھوں افراد خواہش لیے یہاں آتے ہیں۔ مجھے تجسس ہوا۔ بالآخر اس کے ساتھیوں نے آپس میں صلاح مشورہ کیا اور یہ طے پایا کہ عبدالرحیم کو زبردستی اٹھاکر روضہ رسولؐ پر لے جائیں گے، چنانچہ ساتھیوں نے عبدالرحیم کو دونوں ہاتھوں سے پکڑا اور تقریباً گھسیٹتے ہوئے روضہ رسولؐ کی جانب لے جانے لگے اگرچہ یہ حرکت روضہ رسولؐ کے تقدس کے خلاف تھی۔ عبدالرحیم ہاتھ پیر ہلاتا اور سر کو زور سے جھٹکے دیتا چلا رہا تھا: ’’میں نہیں جاؤں گا۔ میں کس منہ سے روضہ مبارک پر جاؤں؟ میں شرمندہ ہوں۔ مجھے وہاں جاتے ہوئے شرم آتی ہے۔ میں وہاں نہیں جاؤں گا۔‘‘
ساتھی اسے روضہ مبارکؐ کے اندر لے گئے تو ایک دم عبدالرحیم نے چلانا بند کردیا اور پھر روضے سے لپٹ لپٹ کر رونے لگا۔ ساتھ ساتھ وہ کہہ رہا تھا:
’’یا رسولؐ اللہ! اے اللہ کے پیارے نبیؐ! مجھے معاف کردیں۔ میں نے آپؐ کی شان میں اتنی گستاخیاں کی ہیں کہ اب آپ کا سامنا کرتے ہوئے شرمندہ ہوں۔ میں کس منہ سے آپ کی زیارت کروں؟ ہائے اللہ!‘‘
وہ پھوٹ پھوٹ کر رو رہا تھا۔ مجھے اس کی اس آناً فاناً تبدیلی پر حیرت ہورہی تھی۔ عشاء کے بعد مجھے عبدالرحیم سے تنہائی میں ملنے کا اتفاق ہوا۔ میں نے جھجکتے ہوئے اس سے درخواست کی کہ وہ مجھے وجہ بتائے کہ وہ کیوں روضہ رسولؐ پر حاضری دینے میں ہچکچارہا تھا۔
اس نے خلاؤں میں گھورتے ہوئے کہا: ’’میں بے حد گنہگار و شرمسار ہوں۔ پھر اپنا واقعہ مختصراً اس نے یوں بیان کیا۔ میں ایک کھاتے پیتے گھرانے سے تعلق رکھتا ہوں۔ میں اپنے والدین کا اکلوتا بیٹا تھا۔ کمسنی میں سر سے باپ کا سایہ اٹھ جانے کے بعد اپنی ماں کے لاڈ پیار کا واحد مرکزبنا۔ میں بچپن ہی سے بڑا خود سر آزاد رُو واقع ہوا تھا۔ اس میں زیادہ تر میری ماں کے ناجائز لاڈ پیار کا دخل تھا۔ وہ نہیں چاہتی تھی کہ اس کی زندگی میں مجھے کسی چیز کے لیے پریشان ہونا پڑے۔ ابامرحوم کی چھوڑی ہوئی ڈیڑھ سو بیگھے نہری زمین تھی، جس کی آمدنی سے ہم سب کا خوب گزارا ہورہا تھا۔ اماں مجھے اپنی نظروں سے دور رکھنا نہیں چاہتی تھیں، چنانچہ میں نے تعلیم بھی واجبی سی پائی۔ میرے عادات و خصائل ابتدا ہی سے ناگوار قسم کے تھے۔برے لوگوں کی محفلوں میں میرا آناجانا تھا۔ وہیں جوئے بازی اور چرس نوشی کی بری عادت پڑگئی تھی۔ رات گئے تک گھر سے باہر رہنا، شریف لوگوں پر آوازے کسنا اور ملاؤں کا مذاق اڑانا میرا محبوب مشغلہ تھا۔ میں نے کبھی مسجد کا رخ تک نہیںکیا۔ ہمارے محلے کی مسجد میں اکثر تبلیغی حضرات آیا کرتے۔ وہ مسجد میں لوگوں کو بٹھا کر بہت اچھی باتیں بتاتے مگر میں انہیں کام چور اور مفت خورے کہہ کر پکارا کرتا۔ غرضیکہ مجھ میں بیسیوں برائیاں تھیں، لیکن دولت کے پردے نے ان سب کو ڈھانپ رکھاتھا۔ کسی کو میرے خلاف لب کشائی کی جرأت نہ تھی۔ میرے دوستوں میں چند نیک لوگ بھی شامل ہیں۔انھوں نے میری بے راہ روی دیکھی تو اصلاح کا بیڑا اٹھایا۔وہ میری تمام تر گستاخیاں برداشت کرتے رہے، کیونکہ وہ مجھے راہِ راست پر لانے کا عہد کیے ہوئے تھے۔ یہاں تک کہ جب انھوں نے حج کی ادائیگی کے لیے درخواستیں جمع کرائیں تو میرے نام کی درخواست بھی جمع کرائی۔ خوش قسمتی سے قرعہ اندازی میں میرا نام بھی نکل آیا۔ ہمارے تمام ساتھیوں کے نام بھی قرعہ اندازی میں نکل آئے تھے، چنانچہ یہ لوگ مجھے حج پر لے آئے۔ گو میں نے اس سے پہلے بہت لیت و لعل سے کام لیا مگر انھوں نیمیرا پیچھا نہیں چھوڑا۔ دراصل میں نے بچپن سے لے کر جوانی تک اتنے برے کام کیے جن کا کوئی شمار نہیں۔ میں جب اپنے گناہوں کا حساب کرتا ہوں تو لرز اٹھتا ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ میں روضہ رسول کریم ﷺ پر حاضری دینے سے ہچکچا رہا تھا۔ دراصل میں شرمندہ ہوں کہ میں کس منہ سے روضہ رسولؐ کا سامنا کروں۔‘‘
یہ کہہ کر اس کی آواز گلوگیر ہوگئی۔ آنکھوں میں موٹے موٹے آنسو تیرنے لگے۔
میں نے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر کہا: ’’برادرم! اب جب تم نے سچے دل سے اپنے گناہوں کا اعتراف کرہی لیا تو یاد رکھو کہ حضورﷺ کی شفاعت سے تم کبھی محروم نہ رہو گے۔ تم مطمئن رہو۔‘‘ وہ گھنٹوں میں اپنا سر دیے پھوٹ پھوٹ کر رو رہا تھا۔
——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں