جب ماں ساس بنتی ہے!!

محشر جہاں بنت طاہر علی

’’ساس‘‘ کا لفظ شوہر کی ماں کی بجائے ایک ’’ظالم عورت‘‘ کے مفہوم کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے اور لفظ ’’بہو‘‘ بیٹے کی بیوی کی بجائے ایک ’’نک چڑھی، بدتمیز اور پھوہڑ لڑکی‘‘ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ اگرچہ ہر ساس ’’روایتی ساس‘‘ نہیں ہوتی اور ہر بہو بھی ’’روایتی بہو‘‘ نہیں ہوتی بلکہ سوال یہ ہے کہ ’’روایتی ساس‘‘ اور ’’روایتی بہو‘‘ کا تصور بنا کیسے؟ آخر اس رشتے میں ہی یہ جھگڑے کیوں ہوتے ہیں؟ سسر، بہو، ساس، داماد میں جھگڑے کیوں نہیں ہوتے؟

ساس کا ہر بات پر بہو کو ٹوکنا اور بہو کا ہر بات پر ساس کی رائے پر زچ ہونا بے معنی نہیں ہوتا۔ اس تنازعہ کی بنیادی وجہ ایک ہی شخص سے دونوں خواتین کا قریبی تعلق ہے۔

ایک طرف ماں ہوتی ہے جس کے دل میں اپنی اولاد کے لیے بے پناہ محبت، قربانی کا جذبہ اور قدرتی لگاؤ ہوتا ہے، وہ چاہتی ہے کہ اولاد اس کی خواہشات کا احترام ہر حال میں کرے۔ دوسری طرف بیوی ہوتی ہے جو اپنے والدین کا گھر چھوڑ کر شوہر کے گھر آتی ہے، وہ یہ امید کرتی ہے کہ شوہر ا س کی خوشی کو ہر وقت مقدم رکھے۔ چنانچہ ساس اور بہو کے درمیان تو تو میں میں اور ایک حد تک نفرت کی وجہ یہی ہوتی ہے کہ وہ دونوں ایک شخص سے توقعات اور امیدیں باندھے ہوتی ہیں۔

انسان اپنے کام میں کسی کی رکاوٹ برداشت نہیں کرتا۔ ساس بہو کے تعلق میں اس بات کا تجربہ باربار ہوتا ہے۔ ساس چاہتی ہے کہ بہو گھر کے اصول اور طور طریقے سیکھے اور بہو چاہتی ہے کہ نئی زندگی اپنے طریقے سے بسر کرے۔ چنانچہ ساس بہو کے ہر کام پر تنقید اس لیے کرتی ہے، بہو کو یہ تنقید گوارا نہیں ہوتی۔ ساس کی طرف سے بہو پر تنقید کی ایک وجہ ماں کا بیٹے کے لیے درد کا جذبہ ہے۔ ماں اپنی اولاد کو ناز ونعم سے پالتی ہے اور توقع کرتی ہے کہ اس کی بہو بھی اس کے بیٹے کا خیال رکھے گی۔

ماں سمجھتی ہے کہ بہو بیٹے کی کوئی بھی ضرورت بروقت پوری نہیں کرتی۔ دوسری طرف بہو جو اپنے طریقے سے اپنے شوہر کا خیال رکھتی ہے، اسے بار بار ساس کا تنقیدی رویہ پریشان کردیتا ہے۔ یوں بھی ہوتا ہے کہ بہو ابھی کام شروع ہی کرتی ہے،پر ساس پہلے ہی اسے ٹوک دیتی ہے کہ تم نے ابھی تک یہ کام کیوں نہیں کیا۔ یہ بات بہو کو سخت ناگوار گزرتی ہے۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ بہو کی طرف سے پیش کردہ وضاحت ساس کو ناگوار گزرتی ہے۔

ساس کی خواہش ہوتی ہے کہ بہو اس کے گھر کے ماحول میں جلد رنگ جائے لیکن بہو کے لیے ایسا کرنا آسان نہیں ہوتا۔ خاندان سے آنے والی بہو تو ماحول سے جلد مطابقت کرلیتی ہے کیونکہ اسے گھر کے طور طریقوں کا پہلے سے علم ہوتا ہے لیکن باہر سے آنے والی بہو کو سسرال کے ماحول کو سمجھنے کے لیے وقت درکار ہوتا ہے۔ نئے ماحول سے مطابقت اختیار کرنے کے لیے اسے اپنے آپ میں کچھ تبدیلیاں لانی پڑتی ہیں اور پھر اس ماحول کا عادی ہونے کے لیے بھی وقت کی ضرورت ہوتی ہے۔ ساس بہو کی کارکردگی کا موازنہ اپنی اس وقت کی کارکردگی سے کرتی ہے جب وہ بہو بن کر آئی تھی تو اس نے کس خوش اسلوبی سے ذمہ داریاں نبھائی تھیں۔ بہو کے لیے ساس کے یہ طعنے ناقابلِ برداشت ہوتے ہیں۔ منہ پھٹ طبیعت کی بہوئیں تو ساس کو فوراً جواب دے دیتی ہیں جبکہ خاموش طبع بہوئیں کڑوے گھونٹ پی کر رہ جاتی ہیں۔ لیکن جب ساس کی طرف سے ان ’’حملوں‘‘ کا سلسلہ بڑھتا ہے تو بہو کی قوتِ برداشت بھی جواب دے دیتی ہے اور تنگ آکر وہ بھی زبان درازی پر اتر آتی ہے۔

حیلے بہانے کرنے والی بہو کبھی ساس کی نورِ نظر نہیں بن سکتی۔ ساس کو بہو کے روپ میں نہ صرف اپنے بیٹے کے لیے جیون ساتھی کی تلاش ہوتی ہے بلکہ اپنے لیے ایک معاون کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔

جو خاتون دن رات جاگ کر اولاد کو پالتی ہے ان کی پرورش کے لیے محنت کرتی ہے اگر وہ اسی اولاد کی جیون ساتھی سے توقع کرے کہ وہ اس کا ہاتھ بٹائے تو یہ کوئی غلط خواہش نہیں ہے لیکن اکثر لڑکیوں کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ صرف اپنے شوہر اور بچوں کی ذمہ داریاں ہی نبھائیں۔ آج کل یہ ایک رواج بن چکا ہے۔ بہوئیں ساس سسر کی خدمت کرنا اپنا فرض نہیں سمجھتیں بلکہ کچھ خواتین تو اپنے شوہر کو بھی اس خدمت سے دور رکھتی ہیں اور جب بھی انہیں ساس یا سسر کسی کام کے لیے کہیں تو سر درد، بچوں کے ساتھ مصروفیت، یا کوئی اور بہانہ بنادیتی ہیں۔ بہانہ بہرحال سمجھ میں آہی جاتا ہے، خصوصاً جب اسے عادت بنالیا جائے۔

سچ ہے کہ تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی۔ ساس بہو کے ناخوشگوار روایتی تعلق میں تبدیلی کے لیے دونوں فریقوں کو ہی اپنے اپنے رویوں اور سوچ میں تبدیلی لانی ہوگی۔ تاہم بہو کی ذمہ داریاں کچھ زیادہ ہوجاتی ہیں۔ بہو کو اس حقیقت کا اعتراف کرنا چاہیے کہ ساس نہ صرف عمر میں اس سے بڑی ہے بلکہ تجربے اور طور طریقوں کی سلیقگی میں بھی اس سے زیادہ مہارت رکھتی ہے۔
ساس عمر کے اس حصے میں ہوتی ہے جب اسے بحث سخت ناگوار گزرتی ہے۔ بہو کو ساس کی کسی بات پر تنقید کرنے یا اس سے بحث کرنے کی بجائے خاموشی اختیار کرنی چاہیے۔ ساس اس وقت اپنی تذلیل محسوس کرتی ہے جب بہو اسے جواب دیتی ہے۔ بہو کو چاہیے کہ وہ خاموشی سے ساس کی بات سنے اور ممکن حد تک اس کی تائید بھی کرے ، اس طرح ساس کو تسلی ہوجائے گی کہ بہو اس کا کہا کرتی ہے۔ ساس کا دل جیتنے کے لیے بہو کو نرم رویہ اختیار کرنا چاہیے۔ وہی بہوئیں ساس کی پسندیدہ ہوتی ہیں جو ان کے ساتھ ادب اور نرمی سے پیش آتی ہیں۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146