سلطنتِ عباسیہ کے عہد کا ذکر ہے کہ خلیفہ ہارون الرشید کا ایک معتمد اچانک حرکتِ قلب بند ہوجانے سے فوت ہوگیا۔ اراکینِ سلطنت کے علاوہ ہزاروں شہری اُس کا جنازہ لیے قبرستان کی طرف جارہے تھے۔ اُسی راہ سے ایک معمر حکیم کا گزر ہوا۔ حکیم نے اس نیک بخت کا آخری دیدار کرنا چاہا۔ جب کفن سرکایا گیا تو معمر حکیم نے چیختے ہوئے کہا ظالمو! یہ ابھی تک زندہ ہے، چنانچہ اس نے اپنے تھیلے میں سے کوئی دوا نکال کر مریض کی ناک میں پھونک دی اور اس سے فوراً خون جاری ہوگیا۔ دو تین منٹ بعد مردے نے آنکھیں کھول دیں۔ جنازے کے ساتھ آنے والے ہزاروں افراد حکیم کی اس فراست پر بہت حیران ہوئے۔ حکیم صاحب نے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا: آجکل بغداد کے اکثر گھرانوں میں مرد، عورتیں اور بچے زیب و زینت کی خاطر ایسا تنگ لباس استعمال کرتے ہیں جس کی وجہ سے جسمِ انسانی کے اندر خون ٹھیک طور پر گردش نہیں کرسکتا اور دل کو خون کے پمپ کرنے میں دشواری ہوتی ہے۔ بعض مرد اور عورتیں گلے کے بٹن اس قدر کس کر بند کرتے ہیں کہ آنکھوں میں مصنوعی سرخی پیدا ہوجاتی ہے۔
حکیم صاحب نے سلسلۂ کلام جاری رکھتے ہوئے کہا کہ تنگ لباس سے خون کی شریانیں اور وریدیں پھول جاتی ہیں۔ دماغ میں اجتماعِ خون کے باعث آجکل بغداد میں جس قدر اموات مورہی ہیں، وہ زیادہ تر چست لباس اور مرغّن غذا کا نتیجہ ہے۔
٭٭
شیخ الرئیس حضرت بوعلی سینا رات کے وقت ایک جنگل سے گزررہے تھے۔ سردی بہت زیادہ تھی، وہ اپنے ملازم سے کہہ رہے تھے کہ ہمیں جلد آبادی میں پہنچ جانا چاہیے۔ ابھی تھوڑی دور ہی چلے تھے کہ انھیں دو ڈھائی سو گز کے فاصلے پر جھاڑیوں کی اوٹ میں آگ کے شعلے نظر آئے۔ سردی میں ٹھٹھرتے ہوئے دونوں مسافر اُن کی سمت میں روانہ ہوئے۔ جب قریب پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں کہ ایک موٹی تازی نوجوان خاتون درخت کے سہارے بیٹھی محوِ خواب ہے۔ اس کا سر ایک طرف جھکا ہوا ہے اور سامنے آگ جل رہی ہے۔ شیخ صاحب گھوڑے پر سوار تھے۔ اُن کے ملازم نے بڑھ کر آواز دی۔ملازم نے جونہی غور سے دیکھا، فوراً دوڑ کر واپس بو علی سینا کے قریب پہنچا اور کہا ایک مردہ عورت درخت کے سہارے کفن میں لپٹی ہوئی ہے۔ شاید کوئی مردہ خور اسے ابھی ابھی قبر سے نکال کر لایا ہے۔ اُس زمانے میں مردہ خور راکھشس جنگلوں میں کثرت سے ہوا کرتے تھے۔ ملازم نے گھبرائی ہوئی آواز میں کہا کہ ہمیں بہت جلد اس جنگل سے نکل جانا چاہیے۔ ملازم کو ہراساں دیکھ کر شیخ صاحب گھوڑے سے اتر کر اُس مردہ عورت کے قریب گئے۔ آگ کی روشنی میں مردہ عورت کا چہرہ دیکھتے ہی بوعلی سینا نے فرمایا معلوم نہیں اس بے چاری کو قبر سے نکال کر یہاں کون لے آیا ہے۔ جسے رشتے دار مردہ سمجھ کر دفن کرگئے تھے، مگر اس کے جسم میں ابھی تک زندگی کے آثار موجود ہیں۔ چنانچہ انھوں نے تھیلے سے نشتر نکال کر بائیں بازو کی فصد کھول دی۔ رگ میں نشتر چبھونے سے خون کی تیز دھار جاری ہوگئی۔ چند ثانیوں کے اندر مردہ عورت کے جسم میں حرکت پیدا ہوگئی۔ اس نے آنکھیں کھول دیں اور اپنا منہ اندھیرے کی طرف کردیا۔ وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ بو علی سینا نے شفقت آمیز لہجے میں فرمایا: ’’بیٹی! تجھے دوبارہ زندگی مبارک ہو ، تیرے عزیزو اقارب تجھے مردہ سمجھ کر سپردِ خاک کرگئے تھے۔ خدا جانے تجھے کون قبر سے نکال کر لایا ہے۔ اور تیری خوش قسمتی کہ آج ہمارا گزر بھی اس جنگل سے ہوا۔‘‘
عورت نے بے حد نرم انداز میں شکریہ ادا کیا۔ یہ کنواری لڑکی ایک بہت بڑے سودا گر کی بیٹی تھی۔ محلے کا ایک غریب نوجوان اس پر دل و جان سے فدا تھا۔ اس عاشق زار نے کئی مرتبہ سودا گر کی خدمت میں رشتے کے لیے درخواست کی، مگر سودا گر نے غریب لڑکے کی بات پر کبھی توجہ نہ دی۔ لڑکے کی بے پناہ محبت کا علم لڑکی کو بھی تھا۔ وہ بھی دل د جان سے اُس پر فریفتہ تھی۔ اُس امیر کبیر سودا گر کے گھر حد درجہ تنگ لباس فیشن کے طور پر استعمال ہوتے تھے۔ اس حد تک کہ عورت کو قمیص اتارتے وقت دو کنیزوں کی خدمت حاصل کرنا پڑتی تھی۔ اتفاقاً ایک روز سودا گر کی اس لڑکی کو سرمیں شدید درد اور بخار شروع ہوا۔ بہت علاج کے باوجود پانچویں روز وہ فوت ہوگئی اور اسے قبرستان میں سپردِ خاک کردیا گیا۔
اُس کے عاشقِ زار نے قبر کھود کر اپنی مردہ محبوبہ کو کندھے پر اٹھایا اور بہت دور لے جاکر درخت کے سہارے بٹھادیا اور خود اس کے سامنے آگ جلا کر بیٹھ گیا۔ لڑکے نے جب بوعلی سینا اور اُس کے ملازم کو اپنی طرف بڑھتے ہوئے دیکھا تو ڈر کے مارے گھنے جھنڈ میں جا چھپا اور سارا ماجرا دیکھتا رہا۔ جب لڑکی دفعتاً ہوش میں آکر زاروقطار رونے لگی تو وہ انتہائی خوشی کی حالت میں دوڑتا آیا اور بوعلی سینا کے قدموں میں گر پڑا اور رو رو کر اپنی درد بھری کہانی سنائی۔ لڑکی کا باپ شیخ الرئیس بوعلی سینا کا انتہائی عقیدت کیش تھا۔ چنانچہ اُن دونوں کو لے کر شیخ صاحب سودا گر کے پاس پہنچے اور سارا ماجرا کہہ سنایا۔ لڑکی کے ماں باپ اور اس کے رشتے دار اپنی بیٹی زندہ دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور بوعلی سینا کی سفارش پر اُن دونوں کا بڑی شان و شوکت سے بیاہ رچایا گیا۔
٭٭
مسیح الملک حکیم اجمل خاں ایک روز اپنے مطب میں بیٹھے تھے۔ انھیں یہ خبر پہنچی کہ آپ کے محلے کا قصاب جو کئی روز سے بیمار تھا، آج فوت ہوگیا۔ حکیم اجمل خاں نے مسکراتے ہوئے اپنے ملازم سے کہا کہ یہ قصاب زندہ ہے۔ اس کے گھر جاکر کہہ دو کہ ماتم و گریہ بند کردیں۔ میں ابھی دوا لے کرآتا ہوں۔ چنانچہ تھوڑی دیر بعد مسیح الملک، قصاب کے گھر پہنچے اور اس کے منہ میں دوا کے چند قطرے ٹپکا کر اسے اوندھا لٹا دیا۔ تھوڑی بعد اس کے منہ سے زرد رنگ کا پانی بہنا شروع ہوا جو بتدریج گہرے سیاہ رنگ میں تبدیل ہوگیا۔ اس کے ساتھ ہی ناک کے نتھنوں سے سیاہ رنگ کا خون بہنے لگا۔ دس پندرہ منٹ میں مریض نے سانس لینا شروع کردیا اور آنکھیں کھول دیں۔ کہاں ہائے ہائے اور کہاں واہ واہ! محفلِ ماتم خوشیوں میں تبدیل ہوگئی۔ مسیح الملک نے فرمایا یہ بدبخت موٹا ہونے کے باعث رفع ِ حاجت کے وقت احتیاط نہیں کرتا تھا۔ پیشاب کے قطرے اس کے پاؤں اور پنڈلیوں پر گرتے تھے۔ اس کے باعث ایک مرض پیدا ہوا۔ بیشتر لوگ اس مرض کا شکار ہوکر زندہ درگور کیے جاتے ہیں۔ بارہا اس قسم کے مریض دفن ہونے کے چند گھنٹے بعد خود بخود ہوش میں آجاتے ہیں، لیکن بند قبر سے چھٹکارا پانا انتہائی دشوار ہوتا ہے۔ حکیم صاحب نے یہ بھی فرمایا کہ گرم اور خشک ممالک میں تنگ لباس کا استعمال عموماً زندہ انسانوں کو قبر تک لے جاتا ہے۔
٭٭
فراعنۂ مصر کے شاہی خاندان کے اکثر افراد تنگ لباس استعمال کرتے اور اس بنا پر ایک عجیب وغریب مرض کا شکار ہوجاتے تھے۔ چنانچہ اُن مردوں کو دفن کرنے کے بجائے بڑے بڑے کشادہ اور وسیع تہہ خانوں میں سنگِ مرمر کی بڑی بڑی چارپائیوں پر رکھ دیا جاتا اور مسلسل کئی روز تھوڑے تھوڑے وقفے سے، اُن لاشوں کی دیکھ بھال کی جاتی۔ کئی مرتبہ ممی خانے میں رکھے ہوئے افراد مرض کادورہ ختم ہونے کے بعد پھر ہوش میں آجاتے۔
اس قسم کے اور بھی بے شمار ہوشربا واقعات ہیں۔ دراصل جب کسی گرم ملک میں تنگ لباس کا فیشن بہت زیادہ ہوا تو قدرت نے اس ناقابلِ معافی جرم کی سزا بھی بہت بڑی رکھی ہے۔