جب میرے جھوٹ نے اسے زخمی کردیا

عائشہ صدیقہ، اناؤ

اتوار کا دن تھاابو، امی، بھائی اور ہمارا بھانجا الماس جو کہ اس وقت قریب چھ سات سال کا تھا گھر پر تھے۔ چھٹی کی وجہ سے میں کسی کام میں مصروف تھی کہ اچانک میرے بھانجے نے مجھ سے پوچھا ’’خالہ کیا آج بھی آپ اپنے اسکول جائیں گی؟‘‘ اس وقت میں نے کمپیوٹر کلاسز میں داخلہ لے رکھا تھا۔ روزانہ کے معمول کی وجہ سے اس نے سوچا شاید خالہ آج بھی اپنے اسکول جائیں گی۔ اس وقت مجھے پتا نہیں کیا مذاق سوجھا کہ میں نے بھی کہہ دہا: ’’ہاںآج بھی ہم اپنے اسکول جائیں گے۔‘‘ اس پر بھانجے نے سوال کیا کہ ’’لیکن سنڈے کو تو اسکول کھلتے نہیں ہیں، سنڈے کو تو سب کی چھٹی ہوتی ہے۔‘‘ میں نے دیکھا کہ پریشانی اس کے چہرے سے صاف جھلک رہی ہے تو میں نے اسے اور پریشان کرنے کی خاطر کہا: ’’نہیں میرا اسکول سنڈے کو بھی کھلتا ہے، پھر وہ اپنے دوسرے کام میں لگ گیا اور میں اس کو اور زیادہ پریشان کرنے کی خاطر جلدی سے دوسرے کمرے میں جاکر چھپ گئی۔ میں نے دیکھا وہ مجھے آواز دیتا ہوا ہر جگہ ڈھونڈ رہا ہے اور پھر جلدی سے سڑک پر چاروں طرف دیکھتا ہوا کھڑا ہے کہ شاید میں جاتی ہوئی نظر آجاؤں۔ وہ میرے ساتھ کمپیوٹر سینٹر جانا چاہتا تھا۔ اس لیے اور بھی پریشان ہورہا تھا۔ میں کمرے سے باہر آئی تو وہ مجھے دیکھ کر خوش ہوگیا۔ میں نے پوچھا ’’کیا ہوا؟‘‘ تو کہنے لگا میںنے سمجھاآپ چلی گئی ہیں۔ پھر وہ کھیلنے لگا۔ اور میں پھر پڑھنے میں لگ گئی۔ تھوڑی دیر بعد مجھے پھر شرارت سوجھی اور گھر کی دوسری منزل پر جاکر چھپ گئی۔ شاید یہ دیکھنے کے لیے کہ وہ مجھے کتنا چاہتا ہے اور مجھے کہاں کہاں ڈھونڈتا ہے۔ میں نے دیکھا کہ سب سے پہلے وہ گھر کے باہر سڑک پر چاروں طرف دیکھ رہا ہے کہ شاید میں جاتی ہوئی نظر آجاؤں۔ پھر مایوس ہوکر مجھے اس جگہ ڈھونڈنے لگا جہاں میں پہلے چھپی ہوئی تھی، پھر پہلی منزل پر آیا، جہاں عمار بھائی کسی چیز پر پینٹ کررہے تھے، ان سے پوچھا ’’ماموں خالہ کہاں ہیں؟‘‘ چونکہ میں نے عمار بھائی سے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ الماس آئے تو اس سے کہہ دیجیے گا کہ خالہ سینٹر گئی ہیں، سو انھوں نے بھی وہی جواب دے دیا۔ پھر اچانک مجھے کسی کے گرنے کی آواز سنائی دی ۔میںنے دیکھا کہ الماس مجھے ڈھونڈتے ہوئے دوسری منزل کے زینے سے پھسل کر گر گیا ہے اور اسے بھائی لے کر نیچے بھاگے ہیں۔ بھائی نے امی ابو کو آواز دی، تو امی ابو گھبرائے ہوئے آئے، اس کا ہونٹ پھٹ گیا تھا اور اس سے بہت خون نکل رہا تھا۔ امی نے جلدی سے اس کے ہونٹ پر برف رکھی کہ شاید خون بند ہوجائے لیکن خون نہ رکا۔بھائی اس کو اسکوٹر سے ڈاکٹر کے پاس لے گئے۔ یہ سب دیکھ کر مجھے اپنے آپ پر بہت غصہ آرہا تھا اور افسوس بھی ہورہا تھا کہ میں نے یہ سب کیوں کیا؟ کیا بچے کی اس معصوم محبت کو پرکھنے کا مجھے ایک یہی طریقہ ملا تھا۔ میں نے اس سے مذاق میں بھی جھوٹ کیوں بولا۔ مجھے اتنی بے چینی ہورہی تھی کہ میرا کسی کام میں بھی جی نہیں لگ رہا تھا۔ اس کے ڈاکٹر کے یہاں سے واپس آنے کے بعد میں نے دیکھا اس کے ہونٹ پر ٹانکے لگائے گئے ہیں اور اس پر روئی کا ایک پھاہا رکھا گیا ہے ماتھے پر بھی چوٹ آئی تھی۔ اس کا روتا ہوا چہرہ دیکھ کر میں بھی رونے لگی اور میں نے سنا کہ وہ مجھ سے کہہ رہا تھا کہ خالہ ہم آپ کی وجہ سے گرے تھے۔ آپ نے ہم سے جھوٹ کیوں بولا تھا۔ میں اس کی اس بات کا کوئی جواب نہ دے پائی۔ بس مجھے اس وقت حضورؐ کی یہی حدیث یاد آرہی تھی کہ مذاق میں بھی کسی سے جھوٹ مت بولو۔ پھر میں روتی جارہی تھی اور بھائی کے کہنے کے مطابق اس کو کچھ کھلانے کی کوشش کررہی تھی لیکن وہ کچھ بھی نہیں کھا پا رہا تھا۔ میں نے اس کو چمچے سے دودھ پلایا پھر دوا کھلا کر اسے تیار کرنے لگی کہ اسے اسی دن شام کو بھائی کے ساتھ دلّی اپنی بڑی خالہ کے یہاں جانا تھا۔ سو میں نے اس کے کپڑے پیک کردیے جب وہ دونوں جانے لگے تو مجھے الماس کو دیکھ کر بہت رونا آرہاتھا کہ اگر میں آج اس سے یہ جھوٹ نہ بولتی تو شاید یہ نہ گرتا اور آج اس طرح رونے کی بجائے ہنستے مسکراتے اپنی خالہ کے پاس جاتا۔میں نے اس تاریخ سے یہ تہیہ کرلیا کہ اب کبھی بھی کسی سے مذاق میں بھی جھوٹ نہیں بولوں گی۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں