اللہ تبارک وتعالیٰ پر ایمان و یقین اور نفع و نقصان میں اس پر مکمل اعتماد و بھروسے کے باوجود بسا اوقات انسان لاشعوری طور پر اللہ کی مصلحتوں کا ادراک نہیں کرپاتا، یا یوں کہیں کہ جب تک اللہ کی حکمت سے عملی سابقہ نہیں پڑتا انسان اس کی حکمت سمجھنے سے قاصر رہتا ہے۔ کچھ ایسا ہی راقم کے ساتھ بھی پیش آیا۔ ہریانہ کے ایک مشہور مقام گڑگاؤں سے تقریباً ۳؍کلومیٹر پہلے سرہول قصبہ سے لکھنؤ کا سفر کرنا تھا، ہم دو بھائی عازم سفر تھے، ہم لوگ اندازے کے مطابق مناسب وقت پر گھر سے نکل گئے، اور دلی کے لیے بس پر سوار ہوگئے۔ اب دہلی ریلوے اسٹیشن ہماری اور بس دونوں کی منزل تھی۔ بس اپنی منزل کی جانب رواں دواں تھی، کہ تقریباً نصف گھنٹہ کے بعد بس رک گئی، مسافروں سے نیچے اترنے کے لیے کہا گیا، معلوم ہوا کہ بس خراب ہوگئی ہے اور اسے ٹھیک کرنے میں ایک گھنٹہ سے زیادہ وقت لگے گا، خبر سن کر بڑی کوفت ہوئی، جھنجھلاہٹ اور بے چینی اس بات کی تھی کہ ٹرین چھوٹ جائے گی۔ بہر کیف انتظار کرنا ہی مناسب سمجھا گیا، اور پھر اندازے کے مطابق بس چل پڑی، دہلی کے حدود میں مسافروں کے جم غفیر سے نبر دآزما ہوتی ہوئی بس کافی دیر سے منزل مقصود پر پہنچی، ریلوے اسٹیشن پر پہنچتے ہی انکوائری آفس سے رابطہ کرنے سے معلوم ہوا کہ جس ٹرین سے جانے کے لیے ہم لوگ آئے تھے وہ ۲؍منٹ قبل چھوٹ چکی ہے، ایک بار پھر بس والے کو نہ معلوم من ہی من میں کتنی صلواتیں سنا ڈالیں۔ لیکن یہ مسئلہ کا حل تو نہیں تھا۔ آخر کار اسی انجام سے دوچار ہونا پڑا جس کا ڈر تھا۔ یعنی لکھنؤ میل کا جنرل ڈبہ۔ بہر حال وہ وقت بھی آیا کہ ہم لوگ لکھنؤ میل میں تمام صعوبتوں کو جھیلتے ہوئے اپنی منزل کی طرف چل رہے تھے کہ کوئی ۵ گھنٹہ کے سفرکے بعد ایک اسٹیشن پر اطلاع ملی کہ ٹرین کا راستہ بدلا جارہا ہے۔ مزید تحقیق سے پتہ چلا کہ آگے کاشی وشوناتھ ایکسپریس حادثہ کا شکار ہوگئی ہے، اور اس کے پانچ ڈبوں کو کافی نقصان پہنچا ہے۔ جانی نقصان کا فی الحال اندازہ نہیں ہے، یہ خبر سنتے ہی آنکھیں کھلی کی کھلی کی رہ گئیں۔ ہم لوگ محو حیرت اپنی بس کے لیٹ ہونے پر اور مذکورہ ٹرین کے چھوٹ جانے پر اللہ کی مصلحتوں کو یاد کرکے خدا کا شکر اور اس کی حمدوثنا کررہے تھے اور سوچ رہے تھے کہ اللہ کے کارخانۂ قدرت میں حتی المقدور انسانی کوششوں اور ارادوں کے بعد جو کچھ ہوتا ہے وہ اچھا ہی ہوتا ہے۔ ہاں انسان جیسا کہ اللہ نے اپنی کتاب حکیم میں فرمایا ہے ’’جلد باز پیدا کیا گیا ہے۔‘‘ اس یاد گار واقعہ کے بعد سے آج تک کسی بھی معاملہ میں اپنی تمام تر سعی و جدوجہد کے بعد کسی امر اور ارادہ کے بننے اور بگڑنے میں مصلحت خداوندی ہی نظر آتی ہے۔ اور ایک مسلمان کا ایمان تو یہ ہونا ہی چاہیے۔