افراد
مسٹر طیب شاہ : عمر تقریباً پچاس برس
فرزانہ : مسٹر طیب کی بیگم
میمونہ : مسٹر طیب کی بیٹی
دادی : مسٹر طیب کی والدہ
پہلا سین
(میمونہ چلاتی ہوئی گھر میں داخل ہوتی ہے)
میمونہ: مام مائی سویٹ مام کہاں ہیں آپ؟ میرے لیے جلدی سے کھانا لائیے میرے پیٹ میں چوہوں کا ہاکی میچ چل رہا ہے۔
فرزانہ: ایک منٹ بیٹا میں ابھی بنادیتی ہوں تب تک تم ٹی وی دیکھو۔
میمونہ: او کے مام آئی ول ویٹ (پھر وہ فل والیوم میں ٹی وی آن کرکے بیٹھ جاتی ہے)
دادی: میمونہ بیٹا عصر کا وقت ہورہا ہے، اٹھ کر نماز پڑھ لو اور ٹی وی کی آواز تھوڑی دھیمی کرلو۔
میمونہ: گرینڈما میں نے کتنی بار آپ سے کہا ہے کہ مجھے میمونہ نہ کہا کریں۔ کال می ’’مومی‘‘ او کے اور (منھ بناکر) پلیز یہ نصیحتیں اپنے پاس ہی رکھئے میں نماز وماز پڑھنے والی لڑکی نہیں ہوں۔
(دادی کچھ کہے بغیر اداس سی لوٹ جاتی ہیں پھر میمونہ چیختی ہے۔)
میمونہ: مام یہ دیکھئے آپ کا فیورٹ سیریل آرہا ہے۔ ارے یہ کیا! مسٹر بجاج کا ایکسیڈینٹ ہوگیا۔ (حیرت سے کہتی ہے)
فرزانہ: اوہ نو یہ کیا ہوگیا (کچھ پریشان سی آکر ٹی وی کے سامنے بیٹھ جاتی ہیں۔)
دوسرا سین
(رات میں باپ بیٹی اورماں بڑی بے تکلفی سے بیٹھ کر ٹی وی دیکھ رہے ہیں اور ساتھ میں تبصرہ بھی جاری ہے۔)
میمونہ: ڈیڈ دیکھئے بپاشا نے کتنا اچھا ڈریس پہنا ہے۔ مجھے بھی ایسا ہی ڈریس چاہیے۔
مسٹر طیب: او کے بیٹا ایسا ہی لے لینا۔
میمونہ: ارے ڈیڈ دیکھئے نا وہ کتنا اچھا ڈانس کررہی ہے۔ (خود بھی ساتھ میں پاؤں تھرکاتی ہوئی کہتی ہے)
مسٹر طیب: تم بھی ڈانس کلاس جوائن کرلو۔ (تبھی دادی کمرے میں داخل ہوتی ہیں اور ٹی وی پر چل رہے بے ہودہ سین کو دیکھ کر کہتی ہیں) لاحول و لا قوۃ الا باللہ۔ طیب بیٹا! یہ کیا بے ہودگی ہے؟ کچھ تو خوف خدا کرو۔ تبھی فرزانہ چلاتے ہوئے کہتی ہیں:
فرزانہ: دیکھئے آپ اپنی ماں سے کہہ دیجیے کہ وہ ہماری ذاتی زندگی میں دخل اندازی نہ کریں جب دیکھو تب اپنی نصیحتوں کی پٹاری کھولے رہتی ہیں۔ ہماری زندگی پر آخر ہمارا بھی تو حق ہے۔ ہم جیسے چاہے گزاریں مجھ پر روک ٹوک تو کبھی میری بیٹی کو نصیحت۔ یہ نہ کرو وہ نہ کرو نماز پڑھو، قرآن پڑھو۔ لگتا ہے کہ دنیا میں صرف یہی ایک مسلمان ہیں اور باقی سب گھاس کھود رہے ہیں(پھر منھ بناکر) ہم اپنا اچھا برا خود سمجھتے ہیں انہیں بتانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
میمونہ: یس مام یو آر رائٹ، ڈیڈ آپ گرینڈما سے کہہ دیجیے کہ وہ ہمیں لیکچر نہ دیا کریں۔
مسٹر طیب: اماں کیوں آپ سب کے پیچھے ہی پڑجاتی ہیں؟ اب آپ کی عمر ایک کونے میں بیٹھ کر اللہ اللہ کرنے کی ہے۔ آپ کو جب اچھا کھانا اور اچھا کپڑا مل رہا ہے تو آرام سے زندگی گزارئے اورمہربانی کرکے ان بچوں کو بھی لائف انجوائے کرنے دیجیے۔
(دادی اپنی آنکھوں میںآنسو لیے سب کی باتیں سنتے ہوئے اندرچلی جاتی ہیں)
تیسرا سین
(مسز فرزانہ پریشانی سے ادھر ادھر ٹہل رہی ہوتی ہیں۔ مسٹر طیب آفس سے گھر میں داخل ہوتے ہیں۔)
مسٹر طیب: کیا بات ہے کچھ پریشان دکھائی دے رہی ہو۔
فرزانہ: ہاں، ابھی مومی کالج سے نہیں لوٹی ہے اور اس کا موبائل بھی سوئچ آف ہے۔
مسٹر طیب: آجائے گی اس میں اتنا پریشان ہونے کی کیا بات ہے؟
فرزانہ: کیسے پریشان نہ ہوں رات کے سوا نو بج رہے ہیں۔ (تبھی مومی ہنستی کھکھلاتی گھر میں داخل ہوتی ہے)
مومی: ہائے مام ہائے ڈیڈ…
فرزانہ: کہاں تھیں تم اتنی دیر تک ، وقت دیکھا ہے کیا ہورہا ہے؟
مومی: اوہ مام آپ بھی کیا بیک ورڈ ماؤں کی طرح سوال کررہی ہیں۔ میں بس اپنے کالج فیلو کے ساتھ فلم دیکھنے چلی گئی تھی۔
(اور کسی نے یہ پوچھنے کی زحمت گوارا نہ کی کہ کلاس فیلو لڑکی تھی یا لڑکا)۔
فرزانہ: بیٹا تم انفارم کرکے تو جاسکتی تھیں۔ اینی وے نیکسٹ ٹائم جاؤ تو انفارم کرکے جانا، اوکے۔
مومی: او کے مام! میں فریش ہوکر آتی ہوں۔ اور ہاں ڈیڈ میں نے جو فلمز کی سی ڈیز لانے کے لیے کہا تھا وہ آپ لائے ہیں نا۔
مسٹر طیب: ہاں بیٹا! لے آیا ہوں۔ اور تمہاری فرمائش بھول کر بھی کیا میں زندہ رہ سکتا ہوں؟
چوتھا سین
(رات کے گیارہ بج رہے ہیں ہال میں مسٹر اور مسز طیب پریشانی کے عالم میں ادھر ادھر گھوم رہے ہیں بار بار سیل فون کان سے لگا کر جھنجھلا رہے ہیں۔ تبھی ان کی ماں کمرے میں داخل ہوتی ہیں اور کہتی ہیں) کیا بات ہے تم دونوں اتنے پریشان کیوں ہو۔
مسٹر طیب: اماں مومی ابھی کالج سے نہیں لوٹی ہے اور اس کا سیل فون بھی سوئچ آف ہے۔
دادی: یا الٰہی خیر، اللہ اس کی حفاظت کرے۔ (اور وہیں سست سی ہوکر بیٹھ جاتی ہیں اور دعائیں کرنے لگتی ہیں اور نماز کے لیے مصلیٰ بچھا دیتی ہیں تبھی فون بجتا ہے)
فرزانہ: (بہت خوشی سے فون ریسیو کرتی ہیں) ہاں ہاں مومی بیٹا کہاں ہو تم اور اپنا سیل کیوں آف کررکھا ہے… (چکرا کر کسی چیز کا سہارا تلاش کرتی ہیں اور پھر صوفے پر دھڑام ہوجاتی ہیں)کیاتم نے کورٹ میرج کرلی ہے۔ کس سے ؟ کب؟ کہاں؟ اور ہم سے پوچھے بغیر۔ ارے تم ہمیں بتاتیں تو ہم خود ہی تمہاری شادی اس سے کرتے… ایں کیا وہ لڑکا کرسچین ہے؟ اف خدایا!!
مسٹر طیب: مسٹر طیب اپنی وائف سے فون چھین لیتے ہیں اور اپنی لاڈلی بیٹی پر برس پڑتے ہیں۔ تم نے ہماری آزادی کا ناجائز فائدہ اٹھایا ہے۔ ہماری عزت پر بٹہ لگایا ہے۔ اب ہمارا تم سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ دوبارہ یہاں فون مت کرنا اور سیل آف کردیتے ہیں۔
(مسز طیب زور زور سے رونے لگتی ہیں۔ طیب صاحب، انہیں دلاسہ دیتے اور سمجھاتے ہیں۔ پھر اٹھ کر باتھ روم جاتے ہیں واپس آکر ماں کے پیچھے نماز کے لیے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ مسز طیب بھی ان کی تقلید کرتی ہیں۔ ماں نماز ختم ہونے کے بعد پوچھتی ہیں)
ماں: کیا ہوا بیٹا! کیوں رو رہی تھیں تم!
پھر دونوں ندامت سے کہتے ہیں: ہاں اماں ہم سے بڑی غلطی ہوئی۔ اللہ سے دوری کو ہم ترقی سمجھ بیٹھے اور دین کو بے کار سی چیز۔ اب ہماری آنکھیں کھل گئی ہیں۔ اور پھر ہاتھ اٹھا کر گڑگڑاکر دعائیں مانگنے لگتے ہیں۔ (پردہ گرتا ہے)