آج کلاس کا پہلا دن تھا اور سب طلبہ باری باری اپنا تعارف کرارہے تھے۔ لڑکوں کا تعارف مکمل ہوچکا تھا۔ اب لڑکیوں کا نمبر تھا۔ ہر لڑکی بڑی احتیاط سے اپنا تعارف کرا رہی تھی۔ کیونکہ زبان کی ذرا سی لغزش لڑکوں کا قہقہہ بلند کردیتی تھی۔ تھوڑی دیر بعد ایک صاحبہ کھڑی ہوئیں اور کچھ دیر خاموش رہیں۔ انتظار کے بعد جب کلاس ٹیچر نے تعارف کرانے کے لیے کہا تومیری زبان سے بے ساختہ نکلا یہ محتاج تعارف نہیں ہیں اور لڑکوں کا قہقہہ بلند ہوگیا۔ بڑی مشکل سے انھوں نے چند جملے ادا کئے اور بیٹھ گئیں۔ اکثر طلبہ تو اس کا تعارف سن ہی نہیں پائے مگر میں اس کا نام اور جائے پیدائش سننے میں کامیاب رہا تھا۔
اس لڑکی کا نام روشن تھا اور وہ ہلدوانی کی رہنے والی تھی۔ پی جی ڈپلومہ ماس میڈیا ان اردو کرنے کے لیے جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی آئی تھی۔
روشن اپنے نام سے بھی زیادہ روشن خیال تھی۔ بہت جلد وہ اپنے تمام کلاس کے ساتھیوں سے گھل مل گئی۔ مگر نہ جانے کیوں ہم دونوں کے درمیان تکلفات باقی تھے۔ خالی پیریڈس میں ادھر ادھر کی گپ شپ میں معلوم ہوا کے روشن مذہی معاملات میں کافی سنجیدہ ہے اور دیویٰ شریف سے غیر معمولی عقیدت رکھتی ہے۔ اس کے اپنے عقیدے کے مطابق دیویٰ شریف حضرت وارث علی شاہ کے مزار پر جو منت بھی مانگی جائے وہ ہر حال میں پوری ہوتی ہے۔ اس سچائی کے ثبوت میں وہ اپنے متعدد واقعات بھی سناتی تھی۔ میں اس کے ہر واقعہ میں کہیں نہ کہیں کوئی دلیل پیش کردیتا تھا۔ اس لیے میں اس کے نزدیک صرف نام کا مسلمان تھا۔
عقیدہ کے اس اختلاف کے باوجود نہ جانے وہ کون سی بات تھی کہ ہم دونوں ایک گروپ میں رہتے تھے اور روشن تھوڑی دیر بعد پھر مجھ سے اسی طرح باتیں کرنے لگتی جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔
ڈپارٹمنٹ کی طرف سے شملہ ٹور جانا تھا مجھ سے جب روشن نے شملہ جانے کے بارے میں پوچھا تو میں نے صاف منع کردیا۔ جس پر اس نے خفگی کا اظہار کیا اور مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ اس نے بڑی جدوجہد کرکے مجھے ٹور میں شامل ہونے پر آمادہ کرلیا۔ شملہ میں تفریح کے ساتھ ساتھ خوب فوٹو گرافی بھی ہوئی۔ روشن کے کئی فوٹو میرے ساتھ تھے۔ جن کے دیکھنے والے کو غلط فہمی بھی ہوسکتی تھی۔ اس چیز کی طرف سب سے پہلے اشارہ اسٹوڈیو والے نے ہی کیا۔ جب میں نے اس کی دکان پر ہی لفافہ سے فوٹو نکال کر دیکھنے شروع کیے۔ اس نے فوراً کہا صاحب جوڑی خوب رہے گی! اس جوڑی کا ذکر کلاس میں بھی خوب ہوا۔ روشن نے نہ تو کبھی کسی بات کا برا مانا اور نہ ہی کبھی خفگی کا اظہار کیا۔ اس کے اس برتاؤ نے مجھے غلط فہمی میں مبتلا کردیا اور اس بیماری میں گرفتاری کے قریب پہنچ گیا، جس سے موت ہی چھٹکارا دلاسکتی ہے۔
حلقۂ احباب میں بہ فضل خدا ہر قسم کے احباب شامل تھے اور کچھ لوگوں کا مرض کی شدت کے سبب مسلسل اصرار تھا کہ مجھے کلیئر شریف یا اجمیر شریف حاضری دینی چاہیے۔ میں بھی چاروناچار زیارت کے لیے تیار ہوگیا اور پھر جب تیار ہو ہی گیا تو دیویٰ شریف میں ہی کیا قباحت تھی۔
اس عقیدے کے لوگوں سے ربط ضبط کے نتیجہ میں یہ بھی انکشاف ہوا کہ یہاں ہر مرید کا مسلک الگ الگ ہے اور جو جس سے عقیدت رکھتا ہے پہلے نمبر پر اسی کو رکھتا ہے بقیہ پھر اوروں کے درجات ہیں۔
ہمارے پاس نہ اتنی مہلت تھی اور نہ اتنا سرمایہ کہ اختلافات کی تہ تک پہنچتے اس لیے اپنے محبوب کے محبوب کو ہی اپنا محبوب سمجھا اور دیویٰ شریف کی زیارت کر آئے۔ اثر نہ ہونا تھا اور نہ ہوا شدت مرض نے نظام الدین شریف، کلیئر شریف، مہرولی شریف، اجمیر شریف اور کچھوچھہ شریف کی بھی زیارت کرواڈالی۔ منت اور نذر و نیاز سے ہمکنار ہوئے۔ سال کب گزرا اس کا احسا ہی نہیں ہوا۔
آج جب کہ امتحان کا آخری پرچہ تھا اس کے بعد ایک دوسرے سے ملنے کے امکانات نہ کے برابر تھے، سب ایک دوسرے کاپتہ اور فون نمبر نوٹ کررہے تھے، اور میں تنہا کھڑا دل ہی دل میں روشن جہاں سے کہہ رہا تھا۔ ’’میں چار مرتبہ دیویٰ شریف میں حاضری دے کے آچکا ہوں اس کے باوجود بھی تم مجھ سے جدا کیوں ہورہی ہو؟‘‘ اور پھر مجھے اس حقیقت پرایمان پختہ تر ہوگیا کہ اللہ ہی ہے جو چاہتا ہے کرتا ہے۔