کسی معاشرہ کی پہچان میں عورت کا مقام بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ اسلام نے عورت کو بے مثال عظمت و رتبہ عطا کیا ہے۔ فرانس کے لی بان نے جب مطالعہ و مشاہدہ کیا تو بے اختیار کہہ اٹھا: ’’مبارک ہو! محمدؐ آگئے اور سماج میں عورتوں کا مقام محفوظ اور بلند ہوگیا۔‘‘
انسانی تہذیب کی مسلمہ اقدار میں عورت کی قدرومنزلت نہ صرف یہ کہ شامل ہے، بلکہ سماج پر نمایاں اثرات مرتب کرتی ہے، لیکن جدید ہندوستان میں مسلم خواتین کی تعلیمی، اقتصادی و معاشرتی صورتِ حال کا جائزہ کوئی اچھی تصویر پیش نہیں کرتا، دیگر فرقوں کی خواتین کی صورتحال کی روشنی میں تقابلی جائزہ مسئلہ کی سنگینی کو مزید واضح کردیتا ہے۔
تعلیمی صورتحال
مردم شماری۲۰۰۱ء کے مطابق مسلمانوں کی کل آبادی کا تقریباً چالیس فیصد حصہ ناخواندہ ہے، جس کے اعتبار سے تقریباً ۳۰ فیصد مسلم مرد لکھنے پڑھنے کی استعداد نہیں رکھتے، جبکہ مسلم خواتین کی آدھی سے زائد آبادی اس معمولی استعداد سے بھی محروم ہے۔ موازنہ اگر شہری و دیہی آبادی اور مختلف مذہبی طبقات کی شرح خواندگی کے لحاظ سے کیا جائے توزیادہ معنی خیز رہے گا۔ دیہی علاقوں میں تقریباً۵۷فیصد مسلم خواتین ناخواندہ ہیں۔ مسلم عورتوں میں شرح خواندگی شہری آبادی میں ۶۳ فیصد اور دیہی علاقوں میں محض ۴۳ فیصد ہے۔ اس طرح شہروں اور دیہاتوں میں بسنے والی مسلم عورتوں کی شرح خواندگی میں ۲۰ فیصد کا بڑا فرق ہے۔ مسلم مردوں کے بمقابل مسلم خواتین کی شرح خواندگی شہری آبادی میں ۱۳ فیصد اور دیہی علاقوں میں ۱۹ فیصد کم ہے۔
شہروں میں مسلمان عورتیں ہندو خواتین سے خواندگی میں گیارہ فیصد کم ہیں جبکہ دیہاتوں میں مسلم عورتیں ہندو عورتوں سے محض تین فیصد کم چل رہی ہیں۔ اعداد و شمارکے مطابق مسلم خواتین، دلت خواتین سے، کچھ بہتر پوزیشن میں ہیں۔ ہندوؤں اور دلتوں کو چھوڑ کر دیگر فرقے (یعنی عیسائی، سکھ، جین، بدھشٹ وغیرہ) کی عورتوں کی شرح خواندگی دیکھی جائے تو مسلم خواتین شہروں میں ۱۵ فیصد اور دیہاتوں میں ۹ فیصد پیچھے ہیں۔
یہ خیال رہے کہ ایک فرد کے ’’خواندہ‘‘ ہونے اور ’’تعلیم یافتہ‘‘ ہونے میں بڑا فرق ہے۔ نیز مسلمانوں کے تعلق سے یہ بھی نوٹ کیا جائے کہ بچوں اور بچیوں کو ابتدائی عمر میں ہی قرآن شریف پڑھنا سکھلایا جاتا ہے، اور صرف اسی استطاعت کی بنا پر وہ خواندہ سمجھے جاسکتے ہیں۔
ملک کی مختلف ریاستوں میں صورتحال یکساں نہیں ہے۔ کچھ ریاستوں میں مسلمانوں کی شرح خواندگی ریاستی اوسط سے اونچی ہے، ان میں جھارکھنڈ (مسلم شرح 55.6ریاستی اوسط53.6) کرناٹک (مسلم شرح70.1ریاستی اوسط66.6)، مہاراشٹر (مسلم شرح 78.1ریاستی اوسط 76.9)، آندھرا پردیش (مسلم شرح 68ریاستی اوسط60.5) اور گجرات (مسلم شرح 73.5ریاستی اوسط69.1) شامل ہیں۔ ریاستوں میں مختلف مذہبی طبقات نیز شہری اور دیہاتی آبادیوں میں شرح خواندگی میں نمایاں فرق ہے۔ تامل ناڈو میں مسلمانوں کی شرح خواندگی دیگر مذہبی فرقوں سے بہتر ہے۔ کیرالا میں یہ فرق معمولی ہے۔ کئی ریاستوں میں صورتحال افسوسناک ہے۔ اترپردیش میں مسلم خواتین، ہندو خواتین سے شہروں میں ۲۱ اور دیہاتوں میں ۶ فیصد پیچھے ہیں۔ اسی طرح اترانچل میں شہروں میں 28اور دیہاتوں میں 23 فیصد ، مغربی بنگال میں شہروں میں 19 اور دیہی آبادی میں 8 فیصد، آسام میں شہروں میں 17 اور دیہاتوں میں 19 فیصد، دہلی میں شہری علاقوں میں 17 اور دیہی علاقوں میں 19 فیصد، ہریانہ میں شہروں اور دیہاتوں دونوں میں 20فیصد پیچھے ہیں۔ مدھیہ پردیش میں پوزیشن قدرے بہتر ہے کہ شہری آبادی میں مسلم خواتین، ہندو خواتین سے شرح خواندگی میں شہروں میں 4 فیصد اور دیہی علاقوں میں 7 فیصد آگے ہیں۔ بہار میں شہروں میں مسلم خواتین، ہندو خواتین سے 7 فیصد اور دیہاتوں میں 2 فیصد پیچھے ہیں۔ بہرحال محض معمولی لکھنے پڑھنے کی صلاحیت سے بھی محروم رہ جانا المیہ ہے۔
مسلمان طلبہ کا ڈراپ آؤٹ یا چند جماعتوں کے بعد پڑھائی ترک کردینے کی شرح بھی ایک اہم مسئلہ ہے۔ پندرہ نکاتی اقلیتی پروگرام کے ایک حالیہ ریویو میں بتایا گیا ہے کہ ۰۷-۲۰۰۶ء کے دوران پرائمری سطح تک مسلم طلبہ کا اندراج 9.39 فیصد تھا۔ اور اَپر پرائمری درجات یعنی درجہ ششم سے درجہ آٹھ تک یہ تعداد تقریباً دو فیصد گھٹ کر 7.52ہوگئی۔ اقلیتوں کے لیے ہائی پاور گوپال سنگھ کمیٹی کی رپورٹ (۱۹۸۴ء) سے پتہ چلتا ہے کہ 65-67فیصد بچے بیچ میں ہی تعلیم چھوڑ دیتے ہیں۔ لڑکیوں کا ڈراپ آؤٹ لڑکوں سے زیادہ ہے۔ مردم شماری 2001 کے مطابق شہروں میں 71.3فیصد مسلم لڑکے اور 70.9فیصد لڑکیاں ہی پرائمری تعلیم پوری کرپاتے ہیں۔ جبکہ 36.1فیصد لڑکے اور 32.2فیصد لڑکیاں میٹرک مکمل کرتے ہیں۔ دیہاتوں میں حالات اور ابتر ہیں، جہاں صرف 58.9 فیصد لڑکے اور 47.8 فیصد لڑکیاں ہی پرائمری تعلیم پوری کرتے ہیں۔ لیکن میٹرک مکمل کرنے تک لڑکے 22.0فیصد اور لڑکیاں 11.2فیصد ہی رہ جاتی ہیں۔ دیکھا گیا ہے کہ مڈل اسکول تعلیم کے دوران ڈراپ آؤٹ شرح زیادہ رہتی ہے۔ میٹرک مکمل کرنے میں مسلم لڑکے شہری اور دیہاتی دونوں علاقوں میں دلتوں سے بھی پیچھے ہیں۔ مسلم لڑکیاں دلتوں سے لگ بھگ برابر کی پوزیشن میں ہیں۔ درج ذیل چارٹ اسکولی تعلیم کی تین سطحوں پر پوزیشن واضح کرتا ہے:
پرائمری اسکول کی تعلیم مکمل کرنے والے
طلبہ کا فیصد:2001
فرقے
شہری آبادی
دیہی آبادی
کل
لڑکے
لڑکیاں
لڑکے
لڑکیاں
مسلمان SC/ ST
دیگر
60.9
61.4
79.3
71.3
80.2
89.6
70.9
74.8
88.1
58.9
66.1
80.8
47.8
47.0
67.6
مڈل اسکول کی تعلیم مکمل کرنے والے طلبہ کا فیصد:2001
فرقے
شہری آبادی
دیہی آبادی
کل
لڑکے
لڑکیاں
لڑکے
لڑکیاں
مسلمان SC/ ST
دیگر
40.5
41.3
62.7
49.6
59.8
76.7
51.1
56.3
76.7
37.3
43.7
62.0
29.4
29.3
49.0
میٹرک کی تعلیم مکمل کرنے والے طلبہ کا فیصد:2001
فرقے
شہری آبادی
دیہی آبادی
کل
لڑکے
لڑکیاں
لڑکے
لڑکیاں
مسلمان SC/ ST
دیگر
23.9
21.1
42.5
36.1
42.1
63.0
32.0
31.8
57.9
22.0
24.5
41.8
11.2
10.2
23.8
ہمدرد ایجوکیشن سوسائٹی کے ایک سروے نے انکشاف کیا کہ بہار کے کشن گنج ضلع میں مسلم آبادی کا ایک تہائی حصہ ایسے افراد پر مشتمل ہے جنھوں نے اپنی تعلیم کو بیچ میں ادھورا چھوڑ دیا تھا۔ درجہ ششم سے درجہ ہشتم کے دوران تقریباً70فیصد بچوں نے تعلیم ترک کردی۔ پروفیسر اے آر مومن لکھتے ہیں کہ راجستھان کے ڈیڈوانا میں پرائمری جماعتوں میں داخلہ لینے والے طلبہ میں سے تقریباً 60 فیصد بچوں نے پرائمری تعلیم مکمل کرنے سے پہلے پڑھائی چھوڑ دی۔
ابوصالح شریف اور مہتاب اعظم علی گڑھ یونیورسٹی کی طرف سے کیے گئے ایک سروے کا ذکر کرتے ہیں کہ یونیورسٹی کے قمر اعظم اور ایم این خان کا یہ تقابلی سروے بتاتا ہے کہ علی گڑھ اسکول میں تعلیم پانے والے ایک بھی ہندو طالب علم نے اسکول نہیں چھوڑا۔ جبکہ 4.5 مسلم لڑکوں اور 5.7مسلم لڑکیوں نے پڑھائی ترک کردی۔ تجزیہ نے ظاہر کیا کہ57.72فیصد ہندو لڑکوں اور 69.79فیصد لڑکیوں کو کسی مالی دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑا، جبکہ بہتیرے مسلم لڑکوں اور لڑکیوں کو والدین کی غربت کی وجہ سے تعلیم ترک کرنی پڑی۔
یہ نہیں کہا جاسکتا کہ مسلمانوں میں تعلیم سے بے توجہی ہے۔ کلکتہ کے مسلم جھوپڑی واسیوں (Slums) کے ایک سروے نے بتلایا کہ 94.12 فیصد والدین نے تعلیم کو لڑکوں اور لڑکیوں دونوں کے لیے نہایت ضروری قرار دیا۔ تعلیم کو محض کسبِ معاش کے لیے ہی ضروری نہ سمجھا گیا۔ 107خاندانوں میں سے صرف 35 خاندانوں نے بچوں کی تعلیم کو بہتر ملازمت کے لیے ضروری ٹھہرایا جبکہ 65 خاندانوں نے تعلیم کو روز مرہ کی زندگی کے لیے بھی ضروری سمجھا۔ 21 خاندانوں نے تعلیم کو اچھا ازدواجی جوڑا تلاش کرنے میں معاون پایا۔ 14 نے تعلیم کو سماجی وقار کی خاطر ضروری قرار دیا۔ (اکانامک اینڈ پولیٹکل ویکلی بتاریخ ۸؍جنوری ۲۰۰۵ء مضمون ذاکر حسین، ص:۱۳۷)
اسلام علم کی حصولیابی کی زبردست ترغیب دیتا ہے۔ لیکن اس حقیقت سے انکارممکن نہیں کہ جدید ہندوستان میں مسلمانوں کی تعلیم تک رسائی دشوار ہے۔ سچر کمیٹی رپورٹ بتلاتی ہے کہ جہاں مسلم آبادی معقول ہے، وہاں تعلیمی سہولتیں مہیا نہیں ہیں۔ اور جہاں مسلم آبادی کم ہے یا یوں کہیے غیر مسلم آبادی زیادہ ہے، وہاں یہ سہولتیں فراہم ہیں۔ 69 فیصد ایسے دیہاتوں میں جہاں مسلم آبادی زیادہ ہے تعلیمی سہولتوں کا فقدان ہے۔ اترپردیش میں 1943 دیہات ایسے ہیں جن میں مسلم آبادی معقول ہے اور کوئی تعلیمی ادارہ نہیں ہے۔ مغربی بنگال اور بہار میں مسلم آبادی والے ایک ہزار دیہات ہر تعلیمی سہولت سے محروم ہیں۔ اہم مسئلہ یہ ہے کہ یہ سہولتیں کیسے فراہم ہوں؟ مسلم معاشرہ طالبات کے لیے بھی علیحدہ اسکول چاہتا ہے۔ اسکول کا گھر سے زیادہ فاصلہ یا پڑوس کے دیہات میں واقع ہونا بھی طالبات کے لیے پریشان کن ہے۔ سنِ بلوغ کے بعد طالبات کے لیے خصوصی تعلیمی ادارے اور گرلز ہاسٹل بھی ناگزیر ہیں۔
مسلمانوں کی تعلیمی زبوں حالی کی ایک وجہ غربت ہے۔ والدین تعلیمی اخراجات کا بوجھ نہیں اٹھا پاتے۔ ہندوؤں کی فی کس ماہانہ قوت خرچ مسلمانوں سے ۸۰ فیصد زائد ہے۔ یہ امر بھی اہم ہے کہ شہروں کی بہ نسبت دیہاتوں میں عام مسلمانوں کی حالت قدرے بہتر ہے۔ گھریلو آمدنی میں بھی کچھ اضافہ ہوجائے اس کے لیے بھی بچوں کو اسکول چھوڑنا پڑتا ہے۔
ایک کھلی حقیقت یہ بھی ہے کہ ملک کے ماحول میں مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان تعلیم سے ہونے والے معاشی فائدہ کے امکانات میں نمایاں فرق ہے۔ ملازمت وغیرہ حاصل کرنے میں مسلمانوں کو تعصب سے بھی پالا پڑتا ہے، لہٰذا لڑکوں کی مزید تعلیم میں دلچسپی نہیں رہتی۔ اس صورتحال کا تقاضا ہے کہ مڈل اسکول سے جو طلبہ آگے نہیں بڑھتے انہیں معاشی استحکام کے لیے ٹیکنیکل تعلیم کی سہولت فراہم کی جائے۔
ہندوستان میں تقریباً ہر طبقے کا بڑا حصہ اعلیٰ تعلیم کی نعمتوں سے محروم ہے۔ مسلمانوں میں یہ محرومی بے حد زیادہ ہے۔ پلاننگ کمیشن کے سروے 1987-88 کے مطابق ہائی اسکول کی سطح سے اونچے تعلیم یافتہ مسلمان بمشکل 1.2فیصد تھے۔ جبکہ ہندوؤں میں یہ شرح3.4فیصد تھی۔ نیشنل سیمپل سروے (NSS 1999-2000) نے نقشہ پیش کیا کہ ہندوؤں میں گریجویٹ کا تناسب مسلمانوں سے تین گنا زائد ہے۔ اعداد و شمار اس طرح ہیں:
گریجویٹ فی صد تناسب
NSS 1999-2000
فرقے
شہری آبادی
دیہی آبادی
مرد
عورتیں
مرد
عورتیں
ہندو
مسلمان
17.4
6.0
10.9
3.4
3.5
2.1
0.9
0.4
2001کی مردم شماری بتلاتی ہے کہ چالیس لاکھ سے کچھ کم مسلمانوں نے گریجویٹ درجہ تک تعلیم مکمل کی جو کہ ان کی آبادی کا صرف 0.6فیصد ہے۔ ٹیکنیکل کوالی فیکشن رکھنے والوں میںمسلم تناسب بمشکل 0.4فیصد ہے۔
اقتصادی صورتحال
اسلامی معاشرہ میں خاندانی نظام کو اساسی حیثیت حاصل ہے۔ اس نظام میں مالی ذمہ داریاں مردوں پر عائد ہیں۔ بہرحال کسبِ معاش کی دوڑ میں کچھ مسلم خواتین بھی شریک ہیں۔
معاشی جدوجہد میں شامل70فیصد مسلم عورتیں حاصل کردہ کام اپنے گھروں میں کرلیتی ہیں۔ زراعت میں مسلمانوں کا تناسب دیگر فرقوں کے مقابل کم ہے۔ جہاں مسلمانوں کو زرعی زمین حاصل ہے، وہاں خواتین کے کام کرنے کے امکانات زیادہ ہیں۔ لیکن ایک تہائی مسلمان زرعی زمین نہیں رکھتے اور جنہیں زرعی زمین میسر ہے، ان میں بمشکل 10 فیصد پانچ ایکڑ یا اس سے زیادہ زمین رکھتے ہیں۔
بیڑی تمباکو صنعت میں کل خواتین میں مسلم خواتین35 فیصد ہیں۔ اسی طرح ٹیکسٹائل صنعت میں مسلم عورتیں21 فیصد ہیں۔ اردو اسکولوں میں پرائمری سطح پر خواتین ٹیچرز کی تعداد 70 فیصد ہے۔ ثانوی اور اعلیٰ سطحوں پر یہ تعداد کم ہوجاتی ہے۔ سچر کمیٹی نے گرلز اسکولوں کی سفارش کے ساتھ ساتھ زور دیا ہے کہ تمام تعلیمی اداروں میں لیڈیز ٹیچرز کی تعداد زیادہ ہو۔
کئی مسلم ممالک کی معیشت میں مسلم خواتین کی فعالیت میں کافی اضافہ پایا جارہا ہے۔ بنگلہ دیش کی بدلتی معیشت میں مسلم عورتوں کی شمولیت بڑھ رہی ہے۔ مصر، ترکی اور ملیشیا میں زراعت کے شعبہ میں کل افراد میں خواتین کے تناسب میں کمی آئی ہے۔ جبکہ سماجی خدمات کے شعبہ میں کافی اضافہ دیکھا جارہا ہے۔ مصر، ملیشیا اور مراکش کے سماجی خدمات سیکٹر میں خواتین کا بڑا اضافہ ہوا ہے اور کل افراد میں نصف سے زیادہ خواتین ہیں۔ مراکش میں زراعتی کاموں میں بھی خواتین کا حصہ بڑھا ہے۔ انڈسٹری میں مصر اور مراکش میں خواتین کی حصہ داری کم ہوئی ہے، اور ترکی میں بڑھی ہے۔ ابوصالح شریف چار منتخب مسلم ممالک کے تعلق سے یہ چارٹ پیش کررہے ہیں:
منتخب مسلم ممالک میں خواتین ایمپلائمنٹ میں تبدیلیاں
اقتصادی طور پر کل فعال آبادی کا فیصد تناسب (1990-98)
ممالک
زراعت میں
انڈسٹری میں
سماجی خدمات
۱۹۹۰
۱۹۹۸
۱۹۹۰
۱۹۹۸
۱۹۹۰
۱۹۹۸
مصر
ملیشیا
مراکش
ترکی
52.0
25.3
3.1
75.8
35.3
15.0
4.8
70.0
10.2
28.0
50.2
9.8
9.1
28.3
42.9
10.6
37.5
46.8
46.5
14.5
55.6
56.7
51.5
19.4
لیکن معاشی ضرورت پر خواتین مذہبی حدود وثقافتی تقاضوں کو کس طرح ملحوظ رکھیں؟ خواتین کی معاش کے تئیں یہ اہم مسئلہ ہے۔ اس کے حل میں ملک و ملت دونوں ہی کی فلاح ہے۔
معاشرتی صورتحال
یہ ایک افسوسناک حقیقت ہے کہ آج ہمارے معاشرے میں عورت سنگین صورتحال سے دوچار ہے، کئی خاندانوں میں وہ ظلم و نا انصافی کا شکار ہے، خیال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان خاندانوں کے افراد میں آخرت کے شدید مواخذہ کا اندیشہ بھی جاتا رہا ہے؟ یہ صورتِ حال اصلاح اور تعمیل شریعت کی متقاضی ہے۔ یہ منظر نامہ اسلام اور خواتین کی بہت غلط تصویر بھی دنیا کو پیش کررہا ہے۔
ادھر ہندوستان میں قانون اور عدالتی فیصلوں نے مسلم معاشرہ میں کافی پیچیدگیاں پیدا کردی ہیں۔ درج ذیل چند امور کی نشاندہی کی جارہی ہے:
(۱) وقوع طلاق
سپریم کورٹ نے طلاق کے وقوع کو تسلیم کرنے کے لیے کئی شرطیں لگائی ہیں (الف) طلاق بغیر کسی معقول وجہ کے واقع نہیں ہوگی۔ شوہر کو اس بارے میں عدالت کو مطمئن کرنا ہوگا۔ (ب) طلاق سے پہلے حکم بنانے یا مفاہمت کا مرحلہ لازمی ہے۔ طلاق سے پہلے دونوں خاندان سے حکم چنے جائیں، جو مفاہمت کی کوشش کریں۔ اس کوشش کی ناکامی کے نتیجے میں ہی طلاق دی جاسکتی ہے۔ اور اسی صورت میں طلاق مؤثر ہوگی اور تسلیم کی جائے گی۔ (ج) طلاق زبانی یا تحریری ہوسکتی ہے، لیکن اس کا اظہار ضروری ہے۔ فطری انصاف کا تقاضا ہے کہ عورت کو طلاق کی اطلاع پہنچے (د) نان و نفقہ کی عدالتی کارروائی پر شوہر کا یہ عذر قابل تسلیم نہیں کہ وہ ماضی کی کسی تاریخ پر طلاق دے چکا ہے۔ طلاق کا اعلان کیا جانا چاہیے تھا اور اسے عدالت میں ثابت کرنا ہوگا۔
(دیکھا جائے :شمیم آراء، بنام ریاست یوپی AIR 2002 SC 3551، مزید :AIR 2003 AP 123: 1981-1 Gauhati Law Reports 358)
دہلی ہائی کورٹ نے حال ہی میں کہا ہے کہ اگر طلاق ایسے شدید غصہ میں دی جائے کہ جس میں ذہن ماؤف ہوجاتا ہے تو طلاق واقع نہ ہوگی، عدالت نے کہا ہے کہ تین طلاق کو اگر خارج کردیا جائے تو یہ قرآن و سنت اور اسلام کے بنیادی اصولوں کے خلاف نہ ہوگا۔ مدراس ہائی کورٹ کا فیصلہ ہے کہ خط کے ذریعے دی ہوئی طلاق میں اگر طلاق کا ذکر صرف ایک بار کیا گیا ہو اور تین بار طلاق کا تدکرہ نہ ہو تو طلاق واقع نہ ہوگی۔ (AIR 2002 Mad 162)
وقوع طلاق کا مسئلہ سنگین صورتحال پیدا کرتا ہے۔ عورت کی حیثیت متاثر ہوتی ہے۔ اس کے حقوق متاثر ہوتے ہیں۔ اگر شریعت کے مطابق عورت بیوی کی حیثیت کھودے اور عدالتی فیصلے کے اعتبار سے بیوی کی حیثیت جاری رہے تو انتہائی پیچیدہ اور سنگین صورتحال سامنے آئے گی۔ قرآن بار بار تاکید کرتا ہے کہ جو حکم خدا نے نازل فرمایا اسی کے مطابق فیصلہ ہو، اوروں کی خواہشوں کی پیروی نہ ہو (المائدہ:۴۹) جو کتاب تم پر تمہارے پروردگار کے ہاں سے نازل ہوئی ہے اس کی پیروی کرو اور اس کے سوا اور رفیقوں کی پیروی نہ کرو (اعراف: ۷۳) خدا سے اچھا حکم کس کا ہے (مائدہ:۵۰) کسی مومن مرد و عورت کو یہ حق نہیں ہے کہ جب اللہ اور اس کے رسول ﷺ کسی امر کا فیصلہ کردیں تو ان کے اپنے معاملے میں خود کوئی فیصلہ کرنے کا اختیار باقی رہے۔ اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی نافرمانی کرے گا وہ کھلی ہوئی گمراہی میں مبتلا ہوگا (احزاب:۳۶) اللہ اور اس کے رسولﷺ کی عملاً نافرمانی کر گزرنا تو درکنار اگر فیصلہ کو دل میں تنگی محسوس کرتے ہوئے قبول کیا گیا تو ایمان کے سلب ہوجانے کا خطرہ ہے۔ ارشاد نبویؐ ہے کہ ’’تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک اس کی خواہشات میرے احکام کے مطابق نہ ہوجائیں۔‘‘
(۲) نفقہ مطلقہ
شاہ بانو مقدمہ میں نفقہ مطلقہ کے بارے میں سپریم کورٹ نے شرع کے خلاف فیصلہ دیا۔ اس پر اندرون اور بیرون پارلیمنٹ تحریک کے نتیجہ میں مسلم مطلقہ کے حقوق کا قانون 1986منظور ہوا۔ لیکن کئی ہائی کورٹس کے فیصلے آئے اور سپریم کورٹ نے بھی اس قانون کی دفعات کی جو تشریح و تعبیر کی اس سے اصل مقصد ہی فوت ہوگیا ہے۔ (دانیال لطیفی و دیگر بنام یونین آف انڈیا، 2001, 7 SCC 740)
(۳)سرلامدگل مقدمہ میں سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا کہ اگر کوئی ہندو عورت مسلمان ہوجائے تو تبدیلی مذہب کے باوجود ہندو طریق پر رچائی شادی قائم رہے گی اور باطل نہ ہوگی۔ اس سے قبل عدالتوں نے تسلیم کیا تھا کہ ایسی شادی ختم ہوجاتی ہے۔ نیز عدالت پابند نہیں ہے کہ شوہر کے پرسنل لا کو ہی نافذ کرے۔ (عائشہ بی بی بنام سوبودھ چکرورتی P.439 49 C.W.N.) لیکن اب سپریم کورٹ کے فیصلہ کی رو سے اس قسم کے تمام فیصلے بے اثر ہوجائیں گے۔ ظاہر ہے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ سنگین صورتحال پیدا کرتا ہے۔
(۴) یوپی زمینداری قانون کے تحت مسلم خواتین کاشت کی اراضی میں حق وراثت سے محروم ہیں۔ یہ شرعی حق وراثت بحال ہونا چاہیے۔
(۵) آج مسلم معاشرہ میں عورت کو طلاق دیے بغیر معلق رکھنے کی کیفیت، خلع حاصل کرنے میں یا فسخ نکاح کی دشواریوں نے بھی عورت کو مظلوم بنارکھا ہے۔ عدالتی فیصلہ مہنگا اور دقت طلب ہے اور شرعی قباحتوں کے اندیشے لیے ہوئے ہے۔ دارالقضا جہاں ہیں بڑی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ لیکن اپنے حکم کو نافذ کرنے کی قوت نہیں رکھتے۔ اور اب سپریم کورٹ میں نظام قضاء کے خلاف رٹ پٹیشن داخل ہوچکی ہے۔ مسلم خواتین کو موجودہ حالت زار سے چھٹکارا دلانا اور راحت پہنچانا ہوگا۔
کٹھن مسائل کا سامنا ہے۔ دانشمندی، قوت ارادی، فیصلہ و عمل اور ثابت قدمی ہی میں فلاح ہے۔
——