جذبۂ انفاق کو فروغ دیجیے!

مولانا جلیل احسن ندویؒ

یہ بات ہر شخص جانتا ہے کہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے دو اہم چیزیں دی ہیں۔ پہلی چیز اس کا اپنا جسم ہے، اور دوسری چیز سامانِ زندگی ہے۔ اللہ نے انسان کو ایک بے جان مادہ سے پیدا کیا، اس کا جسم بنایا، جوڑ بند ٹھیک کئے، اس کی صورت گری کی، اس میں جان ڈالی اور بے شمار قسم کی قوتیں اور صلاحیتیں اسے بخشیں، عقل و فکر دے کر اسے دوسری جاندار مخلوقات سے ممتاز کیا۔ پس اس کا یہ جسم اللہ تعالیٰ کا سب سے بڑا انعام ہے جو اسے بخشا گیا۔ اگر ہمارا یہ جسم خدا کا انعام ہے تو لازم ہے کہ ہم اس نعمت کا شکر بجالائیں۔

دوسری نعمت سامانِ زندگی ہے جو ہمارے وجود کو، ہماری زندگی کو، ہمارے جسم کو برقرار رکھنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے دیا ہے، کیا آپ نہیں دیکھتے، آسمان اور زمین اور ان کی تمام چیزیں مسلسل حرکت میں ہیں تاکہ ہمارے لیے زندگی کا سامان مہیا کریں؟ سوال یہ ہے کہ یہ جو سامانِ زیست ہمیں ملا ہے اس کا شکر کیونکر ادا ہو؟ اس کے شکر کی صورت کیا ہو؟ اسی صورت شکر کا نام زکوٰۃ ہے، انفاق ہے، صدقہ ہے، یہ مختلف الفاظ ایک ہی حقیقت کی مختلف تعبیریں ہیں اور ان سب میں ایک ہی روح جلوہ گر ہے، اللہ کی نعمت کا شکرانہ اور نذرانہ۔ جو بندہ اپنے مالک کے حضور پیش کرتا ہے۔ زکوٰۃ کا یہی وہ پہلو ہے جس کی وجہ سے اسے اسلام کے عباداتی نظام میں دوسرے نمبر پر جگہ ملی ہے۔ قرآن مجید میں ستر سے زائد مقام پر نماز کے پہلو بہ پہلو اس کا ذکر آیا ہے۔ اور حضور ﷺ نے اسے تیسرا ستون قرار دیا ہے جس پراسلام کی عمارت کھڑی ہوتی ہے۔ نیز اس کی اہمیت کا اندازہ اس سے کیجیے کہ جب قرآن مجید پورے دین کی تعلیمات کو سمیٹ کر دو جملوں میں بیان کرنا چاہتا ہے تو یوں کہتا ہے: اَقِیْمُوْا الصَّلوٰۃَ وَآتُوا الزَّکوٰۃَ (نماز قائم کرو، اور زکوٰۃ دو) اور اس کی وجہ یہ ہے کہ دین کی جملہ تعلیمات یا تو حقوق اللہ سے تعلق رکھتی ہیں یا حقوق العباد سے اور حقوق اللہ کا سرِ عنوان نماز ہے اور حقوق العباد کا نقطۂ آغاز زکوٰۃ ہے۔ جو شخص نماز کو اس کی صحیح شکل میں قائم کرے گا ناممکن ہے کہ وہ زندگی کے دوسرے شعبوں میں خدا کی اطاعت کا حق نہ ادا کرے۔ اسی طرح جو آدمی زکوٰۃ صحیح رخ سے نکالے گا، وہ بندگانِ خدا کے حقوق ہرگز نہیں مارسکتا۔

قرآن مجید میں وضاحت سے یہ بات بیان ہوئی ہے کہ تمام انبیاء علیہم السلام نے توحید پیش کی، اور عمل کے میدان میں نماز اور زکوٰۃ کی دعوت دی۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام کے ذکر میں یہ الفاظ آئے ہیں:

وَکَانَ یَاْمُرُ اَہْلَہٗ بِالصَّلوٰۃِ وَّالزَّکوٰۃِ۔ (مریم: ۵۵)

’’وہ اپنے لوگوں کو نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ دینے کا حکم دیتے ہیں۔‘‘

اسی طرح حضرت مسیح علیہ السلام نے فرمایا:

وَاَوْصَانِیْ بِالصَّلوٰۃِ وَالزَّکوٰۃِ مَا دُمْتَ حَیًّا۔ (مریم: ۳۱)

’’اس نے مجھے وصیت کی ہے کہ میں جب تک زندہ رہوں نماز اور زکوۃ کی پابندی کروں۔‘‘

اور قرآن نے ایک جگہ پیغمبروں کے ذکر میں فرمایا:

وَاَوْحَیْنَا اِلَیْہِمْ فِعْلَ الْخَیْرَاتِ وَاِقَامَ الصَّلوٰۃِ وَاِیْتَائِ الزَّکوٰۃِ۔ (انبیاء:۷۳)

’’ہم نے وحی کے ذریعہ ان کو حکم دیا اونچے درجے کے اعمالِ صالحہ کرنے کا، نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ دینے کا۔‘‘

غرض یہ کہ تمام انبیاء علیہم السلام نے نماز کے ساتھ زکوٰۃ دینے کی دعوت دی ہے۔ دوسرے نبیوں کی تاریخ قرآن مجید میں دعوت کا لازمی جزو رہی ہے۔ جس طرح نماز فرض تھی اسی طرح زکوٰۃ (انفاق) بھی فرض تھی۔ اور دونوں کی دعوت مکی دور میں دی جاتی رہی۔ البتہ جس طرح نماز پہلے دو رکعت فرض تھی پھر بعد میں اضافے ہوئے اور دوسری تفصیلات آئیں۔ اسی طرح نفس زکوٰۃ (انفاق) فرض تھی البتہ اس کی قانونی حد بندیاں اور دوسری تفصیلات بعد میں آئیں۔ پہلے اس کی شکل یہ تھی کہ انفاق کرو۔ واقعی ضرورت سے زائد مال میں خدا کے محتاج اور بے سہارا بندوں کا حق ہے۔ انھیں ان کا حق دو۔ پھر بعد میں قانونی طور پر ایک مقدار متعین کردی گئی کہ یہ مقدار تو ہر مالدار کو لازماً نکالنی ہے۔ خواہ اس کا جی چاہے یا نہ چاہے اور اس تحدید و تعین کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ بس اتنا ادا کردینے سے خدا کا منشاء پورا ہوجاتا ہے۔ اور مزید خرچ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ نہیں، خدا اور اس کے دین کا یہ منشا ہرگز نہیں ہے۔ اگر یہی منشاء ہوتا تو حضور ﷺ ہرگز یہ ارشاد نہ فرماتے:

اِنَّ فِی الْمَالِ لَحَقًّا سِوَی الزَّکوٰۃِ۔

’’مال میں، فرض زکوٰۃ کے علاوہ اور بھی حق ہے۔‘‘

تاریخ اسلام کے مطالعہ سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ زکوٰۃ، نماز کے ساتھ ساتھ مکّی دور کے شروع سے چلتی رہی ہے۔ نماز کی طرح زکوٰۃ کی طرف بھی دعوت دی جاتی تھی اور جو لوگ عقیدۂ توحید کو مان لیتے وہ نماز اور زکوٰۃ پر اپنی زندگی کی عمارت اٹھانے میں لگ جاتے۔ لوگوں کو ان کی طرف بلاتے بھی اور ان پر خود عمل بھی کرتے۔ چنانچہ قرآن مجید اور حضور ﷺ کی طاقتور تربیت کا نتیجہ یہ نکلا کہ پوری اسلامی جماعت (صحابہ کرامؓ) نفاق و زکوٰۃ کے عشق سے سرشار ہوگئی۔ قرآن مجید کی چند شہادتیں اس اسلامی جماعت کے بارے میں سنیے۔ پہلے مکی دور سے متعلق، پھر مدنی دور سے متعلق۔ یہ شہادتیں بگائیں گی کہ وہ اسلامی جماعت اپنے کن اوصاف کی وجہ سے خدا کی رحمت و نصرت کی مستحق قرار پائی؟ کیا بات انھوں نے اپنے اندر پیدا کرلی تھی کہ مکہ کے پُر خطر ماحول سے ان کے رب نے انھیں بخیریت نکال کر مدینہ پہنچادیا اور بے گھر لوگوں کو مضبوط سیاسی مرکز فراہم کیا؟ اور کیا بات تھی کہ ہجرت کے وسرے سال بدر کے میدان میں احکم الحاکمین نے ان کے حق میں ’’حیات‘‘ اور اہل باطل کے حق میں ’’موت‘‘ کا فیصلہ سنایا اور ان کے اندر کیا چیز پیدا ہوگئی تھی کہ مالک نے اپنی امانت ان کے سپرد کی، اور یہ زمین کے وارث قرار پائے؟ وہ چند شہادتیں ملاحظہ فرمائیے۔

(۱) ’’متقی اور خدا ترس اہلِ ایمان جنتوں اور چشموں میں ہوں گے اور اپنے رب کی بخشی ہوئی نعمتوں سے فائدہ اٹھائیں گے۔ کیونکہ یہ لوگ دنیا کی زندگی میں اپنے رب کی بندگی بہت عمدگی اور خوش اسلوبی سے کررہے تھے۔ یہ راتوں کو بہت کم سوتے، تہجد کے لیے اٹھتے، اپنے رب کے حضور کھڑے ہوتے اور مغفرت کی دعائیں مانگتے۔ یہ کہتے کہ اے ہمارے رب! اپنی رحمت کی چادر میں ہم کو ڈھانپ لے، جہنم کی لپیٹ سے ہم کو بچالے اور ان کے مال میں حصہ ہوتا ہاتھ پھیلانے والے محتاج کا اور محروم کا۔‘‘ (الذاریات : ۱۵-۱۹)

(۲) ’’یہ وہ لوگ ہیں جو نماز پابندی سے پڑھتے ہیں جن کے مال میں حق ہے منہ کھول کر مانگنے والے محتاجوں کا، اور ان محتاجوں کا جو کسی سے مانگتے نہیں۔ یہ بھی جانتے ہیں کہ ہمارے مال میں غریبوں اور محتاجوں کا حق ہے، اور غریب لوگ بھی جانتے ہیں کہ ان کے مال میں ہمارا حق ہے۔ یہ لوگ جزا و سزا کے دن پر ایمان رکھتے ہیں۔ اپنے عمل اور رویہ سے اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ حساب کا دن آنے والا ہے۔ یہ لوگ اپنے رب کے عذاب سے ہر وقت ڈرتے رہتے ہیں۔ یہ لوگ اپنے جسم کے کمزور مقامات کی جہاں سے شیطان ان پر حملہ کرسکتا ہے ہر وقت نگرانی اور دیکھ بھال کرتے رہتے ہیں۔ یہ امانتوں کی حفاظت کرنے والے لوگ ہیں۔ یہ عہد کا پاس و لحاظ کرنے والے لوگ ہیں، یہ ٹھیک ٹھاک گواہی دینے والے لوگ ہیں، یہ وہ لوگ ہیں جو اپنی نماز کی دیکھ بھال میں لگے رہتے ہیں۔ ایسے لوگ کامیابی و کامرانی کے ابدی گھر میں رہیں گے۔ ان کو مقام عزت عطا ہوگا۔ ان کی خاطر داری کی جائے گی۔‘‘ (المعارج: ۲۲- ۳۵)

(۳) ’’جو لوگ خدا کی کتاب پڑھتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں اور خدا کے دئے ہوئے مال میں سے غریبوں کو دیتے ہیں۔ پوشیدہ طور پر اوراعلانیہ تو ان کی اس تجارت میں کبھی گھاٹا نہ آئے گا، یہ وہ تجارت کررہے ہیں جو دائمی فائدے والی ہے۔ ان کا رب ان کے کاموں کی مزدوری بھی دے گا اور مزید انعام سے بھی نوازے گا۔ وہ انھیں اپنی چادر رحمت میں ڈھانپ لے گا۔ کیونکہ وہ غفور ہے، اور ان کے عمل کی بڑی قدر کرے گا کیونکہ وہ شکو رہے۔ (سورئہ فاطر: ۲۹-۳۰)

یہ چند آیتیں جو مکّی دور کی ہیں، ان کے آئینہ میں اسلامی جماعت کا کردار صاف دیکھا جاسکتا ہے۔ اب مدنی دور کی طرف آئیے۔ دیکھئے قرآن مجید ان کی کیسی تصویر پیش کرتا ہے۔ اس دور میں ان کے جذبۂ انفاق کی کیا کیفیت رہی ہے۔ یہ چند آیتیں ملاحظہ فرمائیے:

وَالَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اِنَّنَا آمَنَّا فَاغْفِرْلَنَا ذُنُوْبَنَا وَقِنَا عَذَابَ النَّارِo اَلصَّابِرِیْنَ وَالصَّادِقِیْنَ وَالْقَانِتِیْنَ وَالْمُنٰفِقِیْنَ وَالْمُسْتَغْفِرِیْنَ بِالْاَسْحَارِہ۔ (آل عمران: ۱۶-۱۷)

اوپر جو مضمون بیان ہورہا ہے وہ یہ کہ اہلِ ایمان دنیا میں غالب ہوں گے ا ور اہلِ باطل شکست کھائیں گے اورعالمِ آخرت میں اہلِ ایمان کامیاب ہوں گے، اور اہل باطل ناکام و نامراد ہوں گے۔ ایک دونوں جگہ سرخرو، ایک دونوں جگہ روسیاہ۔ اس کے بعد فرمایا:

’’اللہ اپنے نیک بندوں سے واقف ہے، ان کا اجر ضائع نہ ہوگا، یہ وہ لوگ ہیں جو یوں دعا کرتے ہیں۔ اے ہمارے رب! ہم ایمان لائے اور ایمان کی راہ پر چل رہے ہیں، پس ہم سے جو کچھ غلطی ہوجائے اسے معاف کردیجیو اور آگ کی سزا سے ہم کو بچائیو!‘‘

اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

(۱)’’ہمارے یہ بندے بڑے قابلِ تعریف ہیں، یہ صابر لوگ ہیں۔ عہد کو نبھانے والے لوگ ہیں، وفادار غلام ہیں، خرچ کرنے والے ہیں، اور رات کے آخر میں فجر کے طلوع ہونے سے پہلے اٹھ کر اپنے گناہوں کی معافی مانگا کرتے ہیں، یہ ان کی مستقل صفت بن گئی ہے۔‘‘

(۲) ’’ہمارے یہ متقی بندے خوش حالی اور تنگی دونوں میں اپنا مال غریبوں کو دیتے ہیں، اور محتاج لوگوں پر غصہ نہیں کرتے، ڈانٹتے نہیں بلکہ سائل کی بات پر اگر غصہ ابھرتا ہے تو اسے بزور اپنے اندر دبا دیتے ہیں، اور ان کو معاف کردیتے ہیں۔ اور اللہ کے نزدیک ایسے نیکو کار لوگ محبوب ہیں۔

یہاں پر رک کر یہ بات سمجھ لینی ضروری ہے کہ خدا کی راہ میں مال خرچ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ غریبوں کو بھی دیتے ہیں اور دین کے کام میں بھی اپنی کمائی لگاتے ہیں۔ اور معلوم ہے کہ مدنی زندگی کا دور جہاد کا دور ہے۔ اسلام کے دشمنوں نے تلوار کے ذریعہ اسلام اور مسلمانوں کو مٹانے کا فیصلہ کیا، تب مسلمانوں نے اپنی تلواریں اٹھائیں کہ ہمارے جیتے جی اسلام کو نہیں مٹایا جاسکتا اور ہر طرح کی قربانیاں دینے کے لیے تیار ہوگئے۔ اور اسلام کی حفاظت کے لیے اپنی جیبیں کھول دیں۔ حالانکہ ان جیبوں میں کچھ زیادہ نہ تھا لیکن جب دل کھلے ہوئے ہوتے ہیں تو جیبیں بھی کھل جاتی ہیں۔ قرآن مجید شہادت دیتا ہے کہ اس دور میں ان کے اندر انفاق کا جذبہ پوری قوت سے ابھرآیا۔ بطور مثال تبوک کی جنگ کو لیجیے۔ تبوک کا یہ سفر نہایت ہی تنگی اور تنگدستی کی حالت میں پیش آیا تھا اور شدید گرمی کے زمانے میں بہت دور جانا تھا۔ رومی سلطنت کی عظیم فوجی طاقت سے ٹکر لینی تھی۔ ایسی حالت میں نبیؐ کی جماعت کے لوگوں کا حال یہ تھا کہ نہایت فیاضی اور خوش دلی کے ساتھ انھوں نے اپنا مال خدا کی راہ میں دیا۔ قرآن مجید کا بیان یہ ہے کہ ان لوگوں کے پاس اتنا ہی کچھ تھا جس سے بہ مشکل اپنا اور اپنے بال بچوں کا پیٹ پال سکتے تھے۔ لیکن اس کے باوجود قلب کی پوری خوشی کے ساتھ اس موقع پر خدا کی راہ میں دے رہے تھے۔ (ملاحظہ ہو سورہ توبہ: ۷۹) اور ان کے بارے میں اسی سورہ میں آگے چل کر اللہ نے بتایا کہ ان کی جاں فروشیوں کا عالم یہ تھا کہ سفر پر جانے کے لیے نہ ہتھیار ہیں نہ سواری، اور نبیؐ کے پاس پہنچتے ہیں اور اپنی یہ مشکل ان کے سامنے رکھتے ہیں کہ وہ تبوک جانے کے لیے بیتاب ہیں لیکن پیسہ نہیں ہے کہ ہتھیار اور سواری خرید سکیں۔ نبیؐ اپنی مجبوری ان کے سامنے رکھ دیتے ہیں کہ ہمارے پاس بھی اتنا پیسہ نہیں ہے کہ ہم تمہارے لیے انتظام کرسکیں، تو وہ مایوس ہوکر اپنے گھروں کو اس حال میں لوٹتے ہیں کہ ان کی آنکھو ںسے آنسو بہہ رہے ہیں اور ان کو یہ غم ستارہا ہے کہ ان کے پاس خدا کی راہ میں خرچ کرنے کے لیے مال نہیں ہے۔

یہ ہے اس داعی گروہ کے جذبۂ انفاق کی ہلکی سی تصویر جس کے لیے خدا کی رحمتوں کے دروازے کھلے اور جس کے ہاتھوں خدا کا دین قائم ہوا۔ آج بھی اسلام مغلوب ہے، اور حالات اور وقت کا تقاضا ہے کہ امت کے افراد اپنے اندر انفاق کا وہی جذبہ پیدا کریں جو قرنِ اول کے مسلمانوں میں پیدا ہوا تھا اور جس کے سبب اسلام کو غلبہ اور اہل اسلام کو قوت حاصل ہوئی تھی۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146