جذبۂ محبت و نفرت کا تزکیہ

حافظؔ کرناٹکی

محبت اور نفرت انسانی فطرت کی دو ایسی خصوصیات ہیں جو بہ یک وقت انسان کے اندر موجود اور کارفرمارہنے کے ساتھ طرز فکروعمل پر بڑی قوّت سے اثر انداز ہوتی ہیں۔
محبت اور نفرت کے جذبات انسان کے نفس کی گہرائیوں میں ہر وقت موجود رہتے ہیں۔ اسلام انسانی فطرت کے ان رویوں سے برسرپیکار ہونے کے بجائے ان کو مہذب اور شائستہ بنانے پر توجہ کرتا ہے اور اس کی ترتیب و تنظیم کا سلیقہ سکھاتا ہے۔ کیوں کہ محبت و نفرت کے جذبات کسی تربیت و تنظیم کے بغیر انسانی مزاج پر حاوی ہوجائیں گے تو وہ جذبات انسانی کے جوہر کو تباہ کردیں گے اور انسان ان جذبات کا غلام بن کررہ جائے گا۔ اسی لیے اسلام نے محبت و نفرت کے جذبات کو اللہ اور اس کے رسولؐ کی محبت کے تابع کرکے اس کا تزکیہ کردیا ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’جس نے اللہ کے لیے محبت کی اور اللہ کے لیے ہی نفرت کی اور جس نے اللہ کے لیے دیا اور اللہ ہی کے لیے نہیں دیا، اس نے اپنا ایمان مکمل کرلیا۔‘‘
اللہ کے لیے محبت اور اللہ ہی کے لیے نفرت کرنے کی بات کہہ کر یہ واضح کردیا گیا کہ اب اپنے نفس کی تسکین کے لیے نہ محبت کرنی ہے اورنہ کسی سے نفرت۔ گویا اللہ پر ایمان رکھنے والوں کی محبت و نفرت جب اللہ کے تابع ہوگئی تو اس میں غلطی کا اب سوال ہی نہیں رہا۔
چنانچہ اللہ کی محبت کے بعد رسولؐ کی محبت سامنے آتی ہے جو ایمان کا بنیادی تقاضہ ہے۔ اللہ کے رسولؐ نے ارشادفرمایا:’’اللہ کی قسم تم سے کوئی بھی شخص اس وقت تک مکمل مومن نہیں ہوسکتا جب تک میں اس کے نزدیک اس کے ماں باپ، اولاد اور تمام انسانوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں۔‘‘
اسلام انسان کے محبت و نفرت کے جذبات کو صحیح رخ دیتا اور اس کی تربیت کے طریقے سکھاتا ہے چنانچہ انسان کی محبت اور نفرت کو اسلام نے اللہ اور اس کے رسول کی محبت کے تابع کرکے محبت و نفرت کے ان جذبات کی یکسر نفی کردی ہے جو ناجائز ہیں اور انسان کو غلط محبت ونفرت پر آمادہ کرتی یا کرسکتی ہے۔ اس کے بالکل برخلاف اسلام نے عام انسانوں سے محبت کرنے کی تلقین کی ہے اور اس کی بنیاد یہ ہے کہ تمام انسان بنیادی طور پر بھائی بھائی ہیں اور سب کو اللہ نے پیدا کیا ہے۔ اس لیے تمام انسانوں سے اور اللہ کی تمام مخلوقات سے محبت کی جانی چاہیے۔فرمان الٰہی ہے:
’’لوگو اپنے رب سے ڈرو جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور اسی جان سے اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں سے بہت سارے مردوں اور عورتوں کو دنیا میں پھیلادیا۔ اس خدا سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنے حق مانگتے ہو۔ اور رشتہ و قرابت کے تعلق کو بگاڑنے سے پرہیز کرو۔‘‘ (النساء)
’’اور تم میں سے کوئی کسی کی غیبت نہ کرے، کیا تمہارے اندر کوئی ایسا ہے جو اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھانا پسند کرے گا؟ دیکھو تم خود اس سے گھن کھاتے ہو۔‘‘ (الحجرات)
’’آپس کے معاملات میں فیاضی کو نہ بھولو۔‘‘ (البقرہ)
اس معاملے میں اللہ کے رسولﷺ کا فرمان ہے کہ’’کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک وہ اپنے بھائی کے لیے وہی کچھ پسند نہ کرے جو وہ اپنے لیے کرتا ہے۔‘‘
ایک اور جگہ حضورﷺ نے فرمایاکہ ’’تمہارا اپنے بھائی کے لیے مسکرانا بھی صدقہ ہے۔‘‘
حضور ﷺ نے فرمایا ہے کہ ’’اللہ کے کچھ بندے ایسے ہیں جو اگرچہ نبی نہیں ہیں مگر نبی اور شہید ان پر رشک کرتے ہیں، صحابہؓ نے عرض کیا یارسول اللہ یہ کون لوگ ہیں؟ آپﷺ نے فرمایا؛ یہ وہ لوگ ہیں جو نور الٰہی کی بنا پر ان لوگوں سے محبت کرتے ہیں جو ان کے رحم اور ان کے نسب سے نہیں ہیں، ان کے چہرے نورانی ہوں گے اور وہ نور کے ممبروں پر بیٹھے ہوں گے جب لوگ خوف زدہ ہوں گے انہیں کوئی خوف نہیں ہوگا اور نہ انہیں کوئی غم ہوگا۔‘‘
ہر مومن کے لیے ضروری ہے کہ وہ نفرت اور ترک تعلق میں بھی توازن اور اعتدال سے کام لے۔ اسلام نے انسان کو ہدایت کی ہے کہ وہ شراور برائی کو ہر رنگ اور ہر صورت میں ناپسند کرے اور انہیں برا سمجھے ۔ اسلام نے حکم دیا ہے کہ ظلم خواہ کسی صورت میں ہو اور کسی بھی نوعیت میں ہو یہ بہرحال ایک برائی ہے، جسے براسمجھنا چاہیے۔ اس سے بچنا اور بھاگنا چاہیے جیسا کہ حدیث قدسی ہے کہ
’’آپﷺ نے فرمایا اللہ سبحانہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ اے میرے بندو! میں نے اپنے اوپر ظلم کو حرام کرلیا ہے اور تمہارے مابین بھی حرام قرار دے دیا ہے اس لیے اب تم باہم ظلم نہ کرو۔‘‘
اسی طرح کسی پرزیادتی کرنا بھی برائی ہے۔ اس لیے اس برائی اور شر کی مزاحمت ضروری ہے۔ معاشرے کے کمزور، پچھڑے، اور پسے ہوئے لوگوں سے ناانصافی کرنا بھی شرہے۔ اس کو بھی برا سمجھنا چاہیے،اس سے نفرت کرنی چاہیے اور اس کی مزاحمت کرنی چاہیے۔ جیسا کہ فرمان الٰہی ہے کہ
’’آخر کیا وجہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں ان بے بس مردوں، عورتوں اور بچوں کی خاطر نہ لڑو جو کمزور پاکر دبالیے گئے ہیں اور فریاد کررہے ہیں کہ خدایا! ہم کو اس بستی سے نکال جس کے باشندے ظالم ہیںاور اپنی طرف سے ہمارا کوئی حامی ومددگار پیداکردے۔‘‘ (النساء)
اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ اسلام کمزوروں، مظلوموں اور دبے کچلے انسانوں سے بھی محبت کرنا سکھاتا ہے اور اس محبت کا تقاضا یہ قرار دیتا ہے کہ ان کے حقوق کے لیے لڑا جائے اور ان کو مظلومیت سے نکال کر امن وسکون کی زندگی عطا کی جائے۔ اسی جنگ کا نام جہاد ہے۔ جہاد دراصل کمزوروں اور مظلوموں کے لیے لڑنے کا نام ہے جو اہلِ ایمان پر اس لیے لازم ہے کہ وہ اللہ اور اس کے رسولؐ سے محبت کرتے ہیں۔
ہمارے رسول پاکؐ کا اسوہ تو یہ ہے کہ آپؐ دشمنوں سے بھی نفرت نہیں کرتے تھے اور اس سلسلے کے بے شمار واقعات ہمیں سیرت میں ملتے ہیں۔ وہ بڑھیا جو آپ پر روزانہ کوڑا پھینکتی تھی، اس کی عیادت کے لیے بھی آپؐ گئے۔ اور فتح مکہ کے وقت جن دشمنوں نے آپؐ کو مکہ سے نکالا اور آپؐ سے جنگیں لڑیں انھیں بھی آپؐ نے معاف فرمایا۔ یہ ہے ہمارے رسولؐ کا اسوہ اور یہی نہیں آپؐ نے فرمایا:’’بہترین انسان وہ ہے جو انسانوں کے لیے نفع کا ذریعہ بنے۔‘‘ بلا تفریق مذہب و فرقہ انسانوں کو فائدہ پہنچاناان سے محبت کی دلیل نہیں تو اور کیا ہے؟
یہ تعلیمات نبویؐ ہمارے جذبۂ محبت و نفرت کا تزکیہ کرتی اور اس جذبے کو اعتدال فراہم کرتی ہیں۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں