جرائم سے خواتین کا تحفظ

شمشاد حسین فلاحی

اناؤ، ہاتھرس، بدایوں، گورکھپور، باندہ، بلندشہر اور پھر راجستھان، ہماچل اور اڑیسہ کے مقامات گزشتہ دنوں میڈیا کی خبروں میں رہے۔ معلوم ہے کیوں؟ اس لیے کہ یہاں ہائی پروفائل ریپ اور گینگ ریپ کے واقعات رونما ہوئے۔ ان میں یقیناً کٹھوعہ (کشمیر) کی آصفہ شامل نہیں ہے جس معصوم کا کچھ درندوں نے مندر میں گینگ ریپ کرکے قتل کردیا تھا۔ اس جرم میں کئی سیاسی اثرورسوخ رکھنے والے افراد کے نام سامنے آئے تھے اور کچھ سیاست دانوں نے ان کی حمایت میںمظاہرے بھی کیے تھے۔ اس طرح کے شرمناک اور گھناؤنے جرائم کی خبریں آئے دن اخبارات میں شائع ہوتی رہتی ہیں۔ کچھ واقعات شہرت پاجاتے ہیں اور کچھ محض کاغذات کی فائلوں میں دب کر رہ جاتے ہیں۔ جو ہائی پروفائل بن جاتے ہیں انہیں دیکھ کر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ قانون و انتظام کتنا حساس، ذمہ دار اور انصاف پسند ہے۔

ان واقعات میں ’’غیرت قومی‘‘ سے ڈوب مرنے کے کئی پہلو اور بھی ہیں:

 اڑیسہ کی متاثرہ کی عمر محض تین سال تھی۔

 باندہ کی مظلوم محض آٹھ سال کی تھی۔

 بلند شہر کی معصوم جسے ریپ کے بعد جلا دیا گیا تھا اس کی عمر محض12 سال تھی۔

 ان میں کم عمر بچیوں کو ان کے جاننےوالوں ہی نے اپنی ہوس کا شکار بنایا تھا۔

 اناؤ کیس میں ملزم، لوکل ایم ایل اے تھا جس کا اثرورسوخ حکومت کے ایوانوں تک تھا۔

بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک این جی او CRY کے مطابق ہمارے ملک میں ہر 17منٹ میں ایک بچے کے ساتھ جنسی زیادتی کا جرم واقع ہوتا ہے اور اس قسم کے واقعات میں گزشتہ دس سالوں میں 500 فیصد کا اضافہ نوٹ کیا گیا ہے۔ نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کی رپورٹ 2019 کے مطابق شمالی ہند کی ریاست اترپردیش، جسے موجودہ وقت میں ’’اتم پردیش‘‘ باور کرانے کی کوشش کی جارہی ہے، سرِ فہرست ہے۔ یہاں خواتین کے خلاف سب سے زیادہ جرائم وقوع پذیر ہوئے۔ جو پورے ملک کے واقعات کا 7.14 فیصد بنتا ہے۔ یہی اتم پردیش لڑکیوں کے خلاف “POCSO”کیسز میں نمبر ایک رہا اور بچیوں کے ساتھ ریپ میں دوسرے نمبر پر کھڑا ہے۔

قابلِ ذکر ہے کہ اٹارنی جنرل کے کے وینو گوپال کے ذریعہ سپریم کورٹ کو دی گئی معلومات کے مطابق گزشتہ سال 43000 معاملے “POCSO”کے تحت درج کیے گئے تھے۔ جبکہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ گزشتہ سال اس نوعیت کے معاملات میں 99 فیصد معاملات دسمبر 2020 تک عدالتوں میں زیرِ التوا رہے۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جنسی جرائم کے معاملے میں خصوصاً بچوں کے خلاف معاملات میں عدلیہ اور انتظامیہ کتنی سنجیدہ اور فعال ہے۔

خواتین اور بچیوں کے خلاف جنسی جرائم کا سیلاب دنیا بھر میں دیکھنے کو مل رہا ہے اور ہندوستان بھی اس کی زد میں ہے۔ اس میں حکومت اور انتظامیہ کا رول صرف اتنا ہے کہ وہ اپنی ذمہ داری انجام دینے میں ناکام ہیں۔ اس ذمہ داری کے دو پہلو ہیں۔ ایک یہ کہ حکومتیں ایسے اقدامات نہیں کرپارہی ہیں جن کے ذریعہ ان جرائم پر روک لگ سکے۔ دوسرے یہ کہ واقعہ ہونے کی صورت میں مجرم کو سزا اور مظلوم کو انصاف دلانے کا سنجیدہ عمل پوری ایمان داری کے ساتھ انجام دیا جانا چاہیے۔ ہندوستان اس معاملے میں منفرد ہے کہ یہاں عام افراد کے ساتھ ساتھ وہ افراد بھی اس جرم میںملوث نظر آتے ہیں جو سیاسی ا ور سماجی رسوخ رکھتے ہیں۔ اسی لیے دیکھنے میں آتا ہے کہ حکومت اور انتظامیہ ظالم مجرم کو سزا دلانے کے بجائے اسے تحفظ فراہم کرتی نظر آتی ہے۔ جبکہ مظلوم کو دھمکیاں ملتی ہیں اور حکومت و انتظامیہ کے افراد اس کا حصہ بنتے نظر آتے ہیں۔ ایسا اس وجہ سےہوتا ہے کہ ہمارے یہاں سیاست جرائم پیشہ افراد کے لیے تحفظ کے حصول کا ذریعہ بن گیا ہے۔ یہ بات صرف جنسی جرائم ہی کے سلسلے میں نہیں کہی جاسکتی بلکہ دیگر جرائم کے بارے میں بھی ایسا ہی دیکھنے میں آتا ہے۔ اس کی مثال لکھیم پور کے واقعے میں نظر آئی جہاں ایک وزیر کے بیٹے نے احتجاجی کسانوں کی بھیڑ پر اپنی جیپ چڑھا دی تھی جس میں کئی افراد ہلاک ہوگئے تھے۔

بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ گزشتہ چند سالوں میں خواتین کے خلاف جنسی جرائم کے واقعات کی جو صورت حال ہے اور جس طرح کچھ ’ہائی پروفائل‘ معاملات میڈیا میں زیر بحث آئے اس سے عالمی سطح پر ہندوستان کی شبیہ خواتین کے خلاف ’غیر محفوظ ملک‘ کی تو بنی ہی بنی، ہندوستان اس میدان میں بہت سے ’اراجکتا‘ والے ممالک سے بھی آگے بڑھ گیا۔

یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ محققین اور اس میدان میں کام کرنے والے ادارے یہ کہتے ہیں کہ جنسی جرائم سے متعلق جو بھی اعداد و شمار پیش کیے جاتے ہیں، ان میں ہمارے یہاں 99فیصد معاملات رپورٹ میں نہیں آتے۔ (MINT-E-Paper)

اگر ہم اسباب و جوہات کی بات کریں تو اس میں سب سے اہم رول ’پورنوگرافی‘ کا ہے جس نے انسانوں کے جنسی جذبات، خصوصاً نوجوانوں کے جذبات کو ہیجانی بنادیا ہے۔ ’انڈین جنرل آف سائیکولوجیکل میڈیسن‘ کی تحقیق کے مطابق گندہ جنسی مواد پروسنے والی ویب سائٹس اس کا بڑا سبب ہیں، جہاں دنیا بھر میں لوگ ہر سیکنڈ تین ہزار سے چار ہزار ڈالر خرچ کرتے ہیں۔ اس طرح پورنوگرافی ایک بڑے کاروبار کی صورت اختیار کرتا جارہا ہے۔

یہ بات اب عام ہوگئی ہے کہ انٹرنیٹ کے ذریعہ ہر انٹرنیٹ یوزر چاہے ان چاہے اس کی زد میں ہے۔ یہ بات بھی سب لوگ جانتے ہیں اس عریانیت کا براہ راست تعلق خواتین کے خلاف جرائم سے ہے اور وہی اس کا ہدف بنتی ہیں۔ ایسے میں کیا یہ تصور نہیں کیا جاسکتا کہ دنیا بھر کی حکومتیں اپنے یہاں انٹرنیٹ پر موجود فحش مواد پر پابندی لگائیںاور اسے کاروبار نہ بننے دینے کی خاطر خصوصی قانون سازی کریں۔ جس طرح دنیا دہشت گردی، ماحولیاتی تحفظ اور غربت و افلاس کے خاتمے کے لیے کوشش کرتی نظر آتی ہے اور اس کے لیے عالمی معاہدے کیے جارہے ہیں، یہ بھی ضروری ہے کہ پوری دنیا انٹرنیٹ کو فحاشی سے پاک کرنے کی مہم چلائے۔ یہ ممکن ہے اور بالکل ممکن ہے مگر دنیا کی بڑی طاقتیں شاید اس کا خاتمہ کرنا نہیں چاہتیں اور نہ خواتین اور بچوں کو جنسی جرائم سے تحفظ فراہم کرنے میں سنجیدہ ہیں۔

جہاں تک سماجی اعتبار سے موجودہ معاشرے میں خواتین اور بچوں کے تحفظ کی بات ہے تو اب اس کا واحد راستہ یہی ہے کہ والدین اپنی اولاد کا خود تحفظ کریں اور اس سلسلے میں سب سے اہم بات یہی ہے کہ اپنے گھر پر، اداروں میں، اور دیگر مقامات پر انٹرنیٹ کا محفوظ اور زیر نگرانی استعمال ہو، ساتھ ہی بچوں کی اخلاقی اور روحانی تربیت اس قدر مضبوط ہو کہ وہ برائی اور بھلائی کے درمیان فرق کرتے ہوئے برائی کو چھوڑنے اور اچھائی کو اختیار کرنے کی صلاحیت کے حامل ہوجائیں۔

بچوں کی محفوظ آمد ورفت اور گھر سے باہر تحفظ کو یقینی بنانے کے عملی اقدامات پر اعتماد کرلینے کے ساتھ ساتھ والدین کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے بچے بچیوں کو خود حفاظتی کے فن سے بھی آراستہ کریں۔ ریاستی حکومت کی جانب سے پولیس کے علاوہ دیگر رفاہی تنظیمیں اور این جی اوز اس میدان میں والنٹیرس کی حیثیت سے کام کررہی ہیں اور اب ملک بھر میں اس طرح کا نیٹ ورک فروغ بھی پارہا ہے۔ ضرورت ہے کہ اپنے بچو کو اس طرح کی خدمات فراہم کرنے والے اداروں سے جوڑ کر انہیں خود حفاظتی میں مہارت فراہم کی جائے۔

خواتین کو عام طور پر قانون اور ضوابط کا علم نہیں ہوتا۔ اس لیے ضروری ہے کہ انہیں حقوق، اختیارات اور اصول و قانون کی بنیادی معلومات فراہم کی جائیں۔

موجودہ حالات کے پیش نظر جبکہ ملک خواتین کے لیے غیر محفوظ خطہ بنتا جارہا ہے باشعور عوام کو اس خطرہ کو سمجھنا چاہیے اور ایک مضبوط آواز کے ساتھ حکومت پر دباؤ بنانا چاہیے کہ وہ قانون سازی کے بجائے عدالتی نظام کو بہتر کرے جس سے مجرمین کے سزا پانے کا عمل یقینی ہو اور ان اسباب وعوامل کے خاتمہ کے لیے سنجیدہ کوشش کا مطالبہ کرنا چاہیے جو اس صورت حال کا سبب بنیں۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو آنے والا وقت بڑا بھیانک ہوسکتا ہے۔ شاید اسی صورت حال کے پیش نظر ایک عورت نے کہا تھا:

’’ہے بھگوان مجھے اگلے جنم میں عورت نہ بنائیو!‘‘

ویڈیو دیکھنے کے لیے کلک کریں!

عورت اور قانون۔ فیضان مصطفیٰ

مزید پڑھیں!

https://hijabislami.in/3660/

https://hijabislami.in/8592/

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146