میں محمد بھائی کے معمولی مکان میں جونہی داخل ہوا مجھے فوراً ہی ماحول کی سوگواری کا احساس ہوگیا۔ اداسی ہر در پر چھائی تھی، خاموشی، رنج اور حیرانی سب آپس میں مل جل گئے تھے اور گھر کی ہر چیز پر ان کا ڈیرہ تھا اور پھر یہ احساسات تیزی سے میرے دل میں گھستے چلے گئے، اس کی دھڑکنیں تیز ہونے لگیں، اور میرا جی بے اختیار رونے کے لیے تڑپ اٹھا۔ مگر میں کیسے روسکتا تھا، میں تو یہاں تسلی دینے آیا تھا، اپنی بھابی کو جس پر یہ دلدوز آفت آن پڑی تھی۔
دالان میں برتن لا پرواہی سے بکھرے پڑے تھے، گندے اور بے ترتیب، پرانی چارپائی پر بوسیدہ سا بستر بچھا تھا اور مرغیاں اس پر براجمان تھیں، شاید کوئی اب انہیں ہٹانے والا بھی نہیں تھا۔ میں بھی کھڑا ہی رہا۔ مجھے لگا کہ دالان کی دیواریں پہلے سے زیادہ کالی ہوگئی ہیں۔ ادھر دالان کے آخری سرے پر نادرہ بیٹھی تھی۔ اس کے چاروں بچے اسے گھیرے ہوئے تھے۔ تین لڑکیاں اور ایک لڑکا سب دس سال کے ادھر۔ نادرہ سیاہ کپڑوں میں ڈوبی ہوئی تھی۔ اس کی آنکھیں روتے روتے سوج گئی تھیں اور اداسی نے اس کے چہرے پر جالے تان دئیے تھے۔
چاروں بچے اپنی ماں کے پاس سمٹے بیٹھے تھے، سہمے ہوئے چوزوں کی طرح، ان کی آنکھوں میں خوف اور ناامیدی کی پرچھائیاں تھیں۔ مجھے لگا جیسے کوئی غم انگیز موسیقی درد سے بھر پور لہریں فضا میں بکھیر رہی ہے۔ میں چارپائی کی طرف بڑھا۔ مرغیوں کو ہانکا اور اس پر بیٹھ گیا۔
کچھ دیر خاموشی رہی، اس درمیان لگا کہ یہ بوجھل فضا میرے سینے کو دبا رہی ہے اور میری سانس گھٹ رہی ہے۔ میں نے دھیرے سے مغموم لہجے میںکہا، مجھے امید ہے تم خود کو ہلکان نہیں کروگی۔ کون جانتا ہے؟ کیا پتہ اس مصیبت کی وجہ سے اور بڑی مصیبت ٹل گئی ہو۔ ہوسکتا ہے جو ہوا اسی میں بہتری ہو۔
نادرہ اپنی جگہ بے سدھ رہی، وہ گفتگو کا دروازہ کھولنا نہیں چاہ رہی تھی۔ ہاں اس نے آنسوؤں کی لگام چھوڑ دی اور وہ اس کے رخساروں پر بہ بہ کر خاموشی سے اپنی کہانی سنانے لگے۔ مصیبت برداشت سے پرے تھی، وہ سب کو ہلا دینے والا بالکل ہی غیر متوقع حادثہ تھا۔ نادرہ پر ہی نہیں پورے خاندان پر اس کا اثر بجلی گرنے کی مانند تھا۔
اس منظر نے میرے دل پر گہرا اثر کیا۔ محمد بھائی پر ہونے والے صریح ظلم نے مجھے بے قابو کردیا تھا۔ ان بیچاروں کو دیکھ کر میری بے چینی اور بڑھ گئی۔ اور تبھی میرے اوپر ایک عجیب جارحانہ جذبہ سوار ہوگیا۔ میرا جی چاہا کہ میں سڑک پر نکل جاؤں، گالی بکوں ، برا بھلا کہوں، توڑ پھوڑ کروں، اس سے آگے بڑھ کر جو بھی میرے سامنے آئے اسے قتل کردوں۔ مجھے لگ رہا تھا کہ پوری دنیا میرے غریب بھائی کی دشمن بن گئی ہے، بلا کسی قصور کے۔
نادرہ کی بلکتی آواز پر میں اپنے خونی خیالات سے باہر نکل آیا۔ وہ کہہ رہی تھی دس سال قید بامشقت— میں نے غصے سے کہا: ہاں نام نہاد انصاف کی یہی منطق ہے۔ اس نے سخت لہجے میں بھنچی ہوئی مٹھی ہلاتے ہوئے کہا: انھوں نے کوئی قتل نہیں کیا تھا۔ میں جانتا ہوں۔ انھوں نے چوری بھی نہیں کی تھی۔ مگر وہ اس منحوس دن ۲۶ جنوری کو شاہ کے خلاف مردہ باد کا نعرہ لگانے والوں میں تھے۔ وہ پاگل ہیں۔ بے شک اور ان کے ساتھ شاہ بھی۔ وہ دانت چباتے ہوئے بولی: میں نہیں مان سکتی کہ وہ انقلاب میں شامل ہوئے ہوں گے۔ وہ تو سیدھے سادے کاریگر ہیں۔ دکان سے گھر تک ان کی ساری کائنات تھی۔ غریب اور پھر اتنی ساری ذمہ داریاں، مولیٰ کیا مصلحت ہے تیری۔
وہ بس مقدر کا فیصلہ تھا جو انہیں فؤاد اسٹریٹ تک لے گیا۔ وہ شور مچاتی بھیڑ میں شامل ہوگئے۔ ایسے ہنگامے اور تحریک میں آدمی خود کو فراموش کردیتا ہے سب کچھ بھول جاتا ہے ، سوائے اس کے کہ بہتے ہوئے دھارے میں ضم ہوجائے۔ مگر کیا اتنی سی بات کی اتنی بڑا سزا، دس سال قید، کیا وہ ان کا گھر برباد کرنے پر تلے ہیں؟
میرے سامنے بھائی کی تصویر گھوم گئی، پینتیس سال کا منحنی سا بدن۔ جیل کے نیلے رنگ کے کپڑوں میں ملبوس۔ کڑی دھوپ میں یا سخت جاڑے میں پہاڑ کے دامن میں پتھر توڑتے ہوئے۔ یہ سب محض اس وجہ سے کہ وہ اتفاقاً فواد اسٹریٹ پر مظاہرین کے درمیان پائے گئے۔ ان کی پوری زندگی تو دو روٹی کے لیے محنت و مشقت کرتے گزری تھی۔ دیندار تھے گھر والوں کا خیال رکھتے تھے۔ بیوی بچوں کے لیے بیحد مخلص تھے۔ یہ سب تصور کرکے میں اندر سے چیخ اٹھا، مولیٰ رحم کر۔
میں اپنے گھر لوٹتے ہوئے سنجیدگی سے اس چھوٹے سے خاندان کے مستقبل کے بارے میں سوچ رہا تھا، انہیں روٹی کہاں سے میسر ہوگی؟ کپڑے کہاں سے آئیں گے؟ گھر کا کرایہ کیسے ادا ہوگا؟ میں بھی بھائی کی طرح معمولی کاریگر ہوں، وہ میرے سوتیلے بھائی ہیں۔ پھر مجھے شادی بھی کرنی ہے، میری عمر بھی پچیس سال ہوگئی ہے۔ اس کے بعد اور کتنا انتظار کروں۔
میری سوچ جب خاص اس نکتہ پر یعنی شادی پر پہنچی تو میرے اوپر عجیب سے خیالات حملہ آور ہوگئے۔ وہ گندے اس لیے لگ رہے تھے کہ میں خاص اس موقعہ پر انہیں دل میں لانے سے جھجھک رہا تھا۔ میں کیا کہہ رہا ہوں؟
ہمارے اندر ایک شر کا عنصر بھی ہے آپ چاہیں تو اسے پستی یا گراوٹ کہہ لیں۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ جب میں بھائی کے گھر تسلی دینے جارہا تھا تو میرے ذہن پر زیادہ تر نادرہ کا خیال سوار تھا۔ لیکن ہم اپنی زبانوں کو وہی کچھ کہنے کی اجازت دیتے ہیں جو ہماری روایات سے ہم آہنگ ہو۔ اسی لیے میں نے اپنے سارے احساسات کو دبا کر صرف بھائی کی مصیبت پر بات کی تھی۔ اور ایک لفظ سے بھی خود اپنی آزمائش کی طرف اشارہ نہیں کیا تھا۔ حالانکہ میں نادرہ سے بہت دنوں سے محبت کرتا تھا۔ مجھے اس کی ہر چیز پسند تھی، اس کی آنکھیں، اس کی خاموشی، اس کے خدو خال، اس کی خوش مزاجی، اس کی زندہ دلی، صرف اس کی ایک بات مجھے پسند نہیں تھی اور وہ یہ کہ وہ میری بھابی تھی۔ اس سے بھی زیادہ ناپسند مجھے یہ بات تھی کہ وہ میری تقریباً ہم عمر ہونے کے باوجود مجھ سے اپنے بچوں جیسا سلوک کرتی تھی اور اس کی یہی بات مجھے پاگل کردیتی تھی۔ اس کی محبت میرے دل میں چھپی ہوئی تھی۔ اور میں اسی کی جنت و دوزخ میں جی رہا تھا۔
میں کیا کروں؟ ہمارے جذبات دیوانے ہوتے ہیں وہ ہماری روایات کے پابند نہیں ہوتے۔ ہماری خواہشات اکثر ہمارے اوپر غالب آجاتی ہیں اور ہم سے مذاق کرتی ہیں۔ اسے میں نے خود محسوس کیا۔ تم اسے دنائت کہہ سکتے ہو، پستی یا شر کہہ سکتے ہو یا جو چاہو۔ مگر یہ وہ کڑوا سچ ہے جسے میںنے بہت جھیلا ہے، مگر خبردار یہ مت سمجھو کہ میں مردہ ضمیر اور رذیل فطرت ہوں۔ بات اتنی سادہ نہیں تھی۔ میں نے اپنے جذبات کے سامنے مکمل طور سے سپر نہیں ڈال دی تھی، بلکہ میرے دل کے اندر ایک نہ رکنے والی شدید جنگ چھڑی ہوئی تھی۔ میں جو کچھ کرسکتا تھا وہ یہ کہ نادرہ کا سامنا نہ کروں۔ اس میں مجھے مدد اس سے ملی کہ میرے خیال کے مطابق وہ بھائی کو بہت ٹوٹ کر چاہتی تھی۔ اور پھر وہ دیندار لڑکی تھی۔ اور مجھے اس طرح دیکھتی تھی جیسے ماں اپنے بچے کو دیکھتی ہے۔ اس سب کے باوجود میرے جذبات کا شعلہ سرد نہیں ہوا۔ میں خوب دیکھتا رہا۔ رات رات بھر نادرہ کے خواب۔ اس کی اٹھتی ہوئی جوانی اور اس کی پرکشش نسوانی شخصیت کے خواب۔ اسی دوران میرے بھائی گرفتار کرلیے گئے۔ میں نے ایک خبیث نشہ اپنے پورے وجود میں سرایت کرتے ہوئے محسوس کیا۔ وہ میری روح کو مدہوش کررہا تھا۔ میرے تاریک آسمان میں امید کے ستارے جگمگانے لگے۔ یقینا یہ شرمناک کیفیت تھی۔ مگر ایسا ہی ہوا۔ دوسری طرف میں اپنے بھائی کے انجام پر فکر مند اور مغموم بھی تھا۔ مجھے نہیں پتہ کہ ایک دل میں یہ دونوں متضاد احساسات کیسے جمع ہوگئے تھے۔
دن گزرتے رہے، میں ایک سخت گیر چکی میں پستا رہا۔ اب میں رات بھائی کے گھر پر گزارتا تھا۔ دلیل مضبوط تھی۔ بچوں کی دیکھ بھال اور گھر کی حفاظت۔ یہ وہ مقدس فریضہ تھا جسے سب جانتے تھے۔ دھیرے دھیرے میری نگاہیں پھر نادرہ کا طواف کرنے لگیں۔ دن گزرنے کے ساتھ اس کے ساتھ بیباکانہ اور طویل گفتگووں کا سلسلہ بڑھنے لگا۔ جیل میں زندگی کے دن کاٹ رہے بھائی کی یاد اب دھندلی ہوتی چلی گئی۔ اب میں لطیفے بھی سنادیتا جس پر بچے زور سے ہنستے اور وہ بھی مسکرادیتی۔ اس کے سفید دانت دکھائی دیتے اور گال سرخ ہوجاتے۔ اس کی طرف میری کشش بڑھتی جارہی تھی۔ بچے سوجاتے اور میرے دل میں یہ شیطانی خیالات دستک دینے لگتے۔ کیا میں اتنا گرا ہوا ہوں کہ سب سوچنے لگوں؟ میرا ضمیر کچوکے لگاتا، اس کی دیندار طبیعت میری راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ تھی۔ میرے دل میں ایک دوسرا خیال آیا، مگر کیا اس کے لیے حالات ابھی مناسب ہیں؟
تنگ حالی سے نپٹنے کے لیے نادرہ نے پڑوسیوں کے لیے کچھ سلائی کڑھائی کا کام شروع کردیا تھا۔ میری مدد بھی معمولی ہی تھی، وہ شدید تنگ دستی سے گزر رہی تھی، پھر بھی وہ نماز کی حد درجہ پابند تھی۔ اور شوہر کی یاد کو مقدس صحیفے کی طرح سینے سے لگائے رکھتی۔ اس کی زبان سے برابر یہ الفاظ نکلتے: وہ اللہ کی راہ کے مجاہد ہیں۔ مظلوم کی آہ سیدھے عرش تک پہنچتی ہے اللہ پاک انہیں ضروررہائی دلائے گا۔ برے دنوں کے ساتھ اچھے دن بھی ہوتے۔
میں جب یہ باتیں اس کے منھ سے سنتا تو خود کو پسپا ہوتا محسوس کرتا، بزدلی میرے اوپر حاوی ہوجاتی، اور میں خوابوں کی جگالی میں خود کو مصروف کرلیتا۔ ایک دن میں نے سرسری انداز سے تاکہ اسے شک نہ ہو اس سے پوچھ لیا۔ کیا تم دس سال تک ان کاانتظار کرتی رہو گی؟
اس نے مغموم آواز میں کہا: اصل تو اللہ کا فیصلہ ہے اور وہ بڑا رحم والا ہے۔
میں اسی طرح کئی ماہ تک بے چینی کا شکار رہا۔ محبت مجھے اس کی طرف ڈھکیلتی اور انجانا ڈر مجھے اس سے دور کردیتا۔ بالآخر میں نے ساری رکاوٹوں اور تحفظات کو بالائے طاق رکھ دیا۔ یہی ہوتا ہے کہ اکثر جب جذبات ہم پر حاوی ہوجاتے ہیں تو ہم خود کو دھوکہ دے دیتے ہیں اور عقل سلیم کی آواز پر دھیان نہیں دیتے۔ میں نے ایک بھروسہ مند عورت کو نادرہ کے پاس جانے کے لیے تیار کیا۔ ہاں اسے بھیجا کہ وہ نادرہ کو تیار کرے کہ وہ بھائی سے طلاق لے کر مجھ سے شادی کرلے۔ اسے دلیل کچھ یوں سمجھائی کہ مجھے اپنے بھائی کی عزت کی فکر ہے۔ میں اس کے بچوں کی دیکھ بھال اور صحیح تربیت کرنا چاہتا ہوں۔ دس سال کا عرصہ تھوڑا نہیں ہوتا ہے۔ میں نے شادی کی خواہش کو غیرت انسانیت اور ہمدردی کے نقلی غلاف میں چھپا کر پیش کیا تھا۔ میرا منصوبہ کتنا احمقانہ تھا!! مگر میں اس کے سوا کر بھی کیا سکتا تھا؟
قاصد نے مجھے بتایا کہ وہ کل شام میری بات کا جواب دے گی۔
دوسری شب میں اس کے سامنے بیٹھا تو میرا سر جھکا ہوا تھا جیسے کوئی نیا شرمیلا طالب علم ماہر اور تجربہ کار استاذ کے سامنے بیٹھا ہو، یا کوئی دوشیزہ جو شرم سے جھکی جارہی ہو، اور اس کے گال سرخ ہورہے ہوں، جبکہ میری تو گھنی سیاہ موجھیں تھیں اور داڑھی روز شیو بنایا کرتا تھا۔ کیا یہ کیفیت میری مردانگی کے شایانِ شان تھی۔
اس رات نادرہ سیاہ لباس میں تھی، اس کی آنکھوں میں شدت کی تیزی تھی۔ اس کے خدوخال بہت کچھ کہہ رہے تھے۔ نادرہ نے معنی خیز لہجے میں کہا:
تمہارے التفات اور جذبہ ہمدری سے میں بہت خوش ہوں۔
میں خاموش رہا اور کوئی جواب نہیں دیا۔ اس نے بات جاری رکھی: مگر تم نے خود کیوں نہیں یہ بات چھیڑی تو آسان سا معاملہ تھا۔ اس کے آخری الفاظ نے میرے اندر کچھ بہادری کو پیدا کیا جس کا ابھی میرے دل میں وجود تک نہ تھا۔ میں نے کہا:
واقعی، میرے سامنے صرف بچوں کی بہتر تربیت اور گھر کی عزت کی حفاظت ہے، مگر میں اس موضوع پر خود بات نہیں کرسکتاتھا حالانکہ یہ خیال بہت عرصے سے میرے دل میں تھا۔
کیا کہا بہت عرصہ سے؟
میں نے سر جھکالیا۔ اور کپکپاتی ہوئی آواز میں کہا: ہاں
تم سمجھتے ہو کہ چار بچوں کی اماں کے ساتھ تم خوش رہو گے؟
میں نے زور دے کر کہا: آخر حد تک، میں تمہارے لیے اپنی جان نچھاور کرنے کے لیے تیار ہوں۔
نادرہ ہنسی اور اس نے کہا: کیا تمہیں میرا اتنا خیال ہے۔
میں نے خواب کی سی مدہوشی میں کہا: میری نگاہیں اس کی حسین آنکھوں میں بھٹک رہی تھیں، میں تو پرستش کی حد تک تم سے پیار کرتا ہوں۔ میرے گال پر ایک تھر پڑا جس نے میرے چہرے کی گھنٹیاں بجادیں۔ میرا منھ کھلا کا کھلا رہ گیا۔ نادرہ کے چہرے سے غصہ کی چنگاریاں اڑ رہی تھیں۔ وہ چیخ رہی تھی، تم سب بھیڑیے ہو، بھائی اپنے بھائی کا گوشت کھانے کے لیے تیار ہے۔ ہائے کتنا شاندار منظر ہوگا جب تمہارا بھائی لوٹ کر آئے گااور مجھے تیری گود میں دیکھے گا۔ بے شرم، میں قسم کھاتی ہوں جیل جاکر اسے ساری بات بتاؤں گی، سن میں تیرا منھ یہاں دوبارہ نہ دیکھوں۔
آہ میں نے یہ سب کیسے کردیا، یہ حرکت مجھ سے کیونکر سرزد ہوئی، مجھے اپنی حرکت بہت گھناؤنی لگ رہی تھی، مجھے لگا کہ میرے ماتھے پر ہمیشہ کے لیے کلنک کا ٹیکہ لگ گیا ہے۔ اس کے تھپڑ سے میں اپنے سارے وسوسوں اور شیطانی خوابوں سے باہر آگیا تھا۔ ہائے خیانت۔
میں تھوڑی سی ہمدردی کے عوض کتنی بھاری قیمت مانگ رہا تھا، صحیح ہے۔ میں بھیڑیا ہوں بلکہ ایک حقیر کتا، میں کہاں جاؤں؟ اس بڑے گناہ کو کیسے مٹاؤں، بھائی سے میں کیا کہوں گا؟ کیا میں یہ کہوں گا کہ میں نے آپ کی بیوی کو چرانے کی کوشش کی تھی۔ اس کی نسوانی کمزوری اور معاشی تنگی سے فائدہ اٹھانا چاہا تھا، مگر وہ تو ہر ترغیب سے طاقتور نکلی۔ حادثات بھی اس کے قدم نہیں ہلاسکے۔ وہ ان کی عزت و شرف کی بہترین محافظ تھی۔
میری بے چینی اس وقت اور بڑھ گئی جب چند ماہ بعد ہی شاہ کا تختہ پلٹ گیا اور بھائی سمیت سب قیدیوں کی رہائی کا حکم صادر ہوگیا۔ رہائی کے دن ایک غیر محسوس قوت مجھے وہاں کھینچ لے گئی۔ وہ سامنے سے آتے دکھائی دیے، میں بھاگتا ہوا ان سے لپٹ گیا، میں رو رہا تھا اور انہیں چوم رہا تھا، پھر میں ان کے قدموں میں گر کر ان کے پاؤں آنسوؤں سے تر کرنے لگا۔ میں چاہتا تھا کہ اپنا گناہ مٹادوں مگر کیسے میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔
نادرہ مسکرائی اور کہا اب بس کرو، پھر میرے کان میں سرگوشی کی۔ میں نے انہیں کچھ نہیں بتایا ہے۔
اس کے ظرف کی وسعت اور کردار کی قوت نے مجھے بیتاب کردیا۔ میںنے جوشیلے لہجے میں کہا: بھائی اللہ کا شکر ادا کرئیے۔ اللہ نے آپ کو کائنات کی نایاب نعمت اور سب سے اچھی بیوی دی ہے۔
چھوٹا سا قافلہ گھر کی طرف چل پڑا، تھکا ماندہ قافلہ جسے آندھی نے بدحال کر دیا تھا، پھر فضا صاف ہوگئی اور قافلہ دوبارہ چل پڑا، اپنی منزل کی طرف، پچھلے گناہوں کو خدا معاف کرے۔