جرم و سزا

نائلہ محمودی

اچانک شور اٹھا، نسوانی چیخیں سنائی دیں اور چاروں طرف سراسیمگی پھیل گئی۔ اس وقت پوری بستی اندھیرے میں ڈوبی ہوئی تھی اور کچھ سجھائی نہیں دے رہا تھا۔ ان چیخوں سے خوف پھیل گیا۔ کیونکہ اندھیرے میں تو خوف ہوتا ہی ہے۔ کچھ معلوم کرنے کے تجسس میں لوگ اپنے اپنے گھروں سے نکل کر اس جانب لپکے جہاں سے سہمی ہوئی چیخیں اب بھی آرہی تھیں۔ وہ ایک بیوہ کا گھر تھا جو اپنی نوجوان بیٹی کے ساتھ رہتی تھی۔ گھر کے باہر کھڑے ہوئے لوگ اپنے اپنے طور پر اس ناگہانی کا اندازہ لگانے کی کوشش کرتے رہے۔ اسی دوران اس گھر سے ایک سایہ نکل کر تیزی سے ایک طرف ہولیا۔ سب دیکھتے کے دیکھتے رہ گئے۔ اسی لمحے بجلی آگئی اور پوری بستی روشن ہوگئی۔ دراصل شام ڈھلے اس بستی میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ تھی۔ اب روشنی ہونے سے کئی نوجوان اس سائے کو پکڑنے کے لیے اس کے پیچھے لپکے مگر اسے پہچان کر ٹھٹھک کر رہ گئے اور سہمے سہمے انداز میں ایک دوسرے سے نظریں چرانے لگے۔ وہ ان پر طنز کے تیر برساتا ہوا وہاں سے صاف نکل گیا۔ بیوہ ہراساں اپنے گھر کے دروازے تک آئی۔ اس نے آس پڑوس کے لوگوں کو کھڑے ہوئے دیکھا تو ہمت سے کام لے کر بتانے لگی۔

’’وہ ہمیں دھمکی دینے آیا تھا۔‘‘

’’کیسی دھمکی۔‘‘ کس نے پوچھا۔

’’وہ میری بیٹی سے نکاح کرنا چاہتا ہے۔‘‘

سب نے حیرت سے ایک دوسرے کو دیکھا مگر کچھ کہہ نہ پائے۔

’’میرے انکار پر وہ ہمیں دھمکا کر گیا ہے۔‘‘

اس بات پر بھی لوگوں نے بیوہ کے لیے ہمدردی کا کوئی لفظ ادا نہ کیا۔ کیونکہ کسی میں اتنی جرأت نہ تھی۔ سب کی گردنیں جھکی ہوئی تھیں۔ وہ جانتے تھے کہ اس سے دشمنی مول لے کر اس بستی میں کوئی چین سے نہیں رہ سکتا۔ وہ نہ اس کی مخالفت کرسکتے تھے اور نہ بیوہ سے ہمدردی۔ انہیں چپ دیکھ کر بیوہ نے حقارت سے کہا۔

’’تم لوگ مرد ہو کر اس سے اتنا کیوں ڈرتے ہو؟‘‘

بیوہ کا یہ جملہ سن کر سب چونک پڑے۔ انھوں نے ایک دوسرے کو چور اور متلاشی نظروں سے دیکھا مگر اب بھی خاموش رہے۔ ان کے پاس کوئی مناسب جواب نہ تھا۔ ان سے مایوس ہوکر بیوہ نے جھلا کر اپنے گھر کا دروازہ بند کرلیا۔

اس بستی میں زیادہ تر نچلے متوسط طبقے کے لوگ آباد تھے۔ اپنی روٹی روزی کی تلاش میں وہ صبح سویرے پرندوں کی طرح نکل کھڑے ہوتے اور اندھیرا ہوتے واپس لوٹتے۔ مگر اس بستی کا سکون راجہ نے غارت کررکھا تھا۔ کسی کی مجال نہیں تھی کہ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرسکے۔ کسی کی جان و مال عزت و آبرو اس کے ہاتھوں محفوظ نہیں تھی۔ وہ دکان داروں سے بھتہ لیتا اور جب چاہتا کسی راہ گیر سے رقم اینٹھ لیتا۔ درپردہ کسی نے اس کے خلاف تھانے میں رپورٹ درج کرائی تو کوئی نتیجہ نہ نکلا بلکہ اس کی منہ زوری اور بڑھ گئی۔ پھر اہلِ محلہ کیچڑ میں پاؤں ڈالنے کے بجائے اس سے بچ کر نکلنے لگے۔ یوں اس کا خوف ان کے دلوں میں بیٹھتا چلا گیا۔ البتہ اس نئے واقعے کے بعد عورتیں پہلے سے زیادہ سہم کر رہ گئیں۔

اگلی صبح راجہ کے چہرے پر مزید سفاکی نظر آئی۔ وہ گلیوں میں مکاری سے مسکراتا ہوا گزرا۔ اچانک اس کی نظر بیوہ کی بیٹی پر پڑی جو اس وقت کالج یونی فارم پہنے ادھر سے گزر رہی تھی۔ وہ لپک کر اس کے قریب جاپہنچا۔ لڑکی نے حقارت سے دیکھا۔ وہ بے نیازی سے کہنے لگا: ’’دیکھو میری بات مان جاؤ، تم ماں بیٹی کا سارا خوف جاتا رہے گا۔‘‘

لڑکی کوئی جواب دئیے بغیر لاپروائی سے آگے بڑھ گئی۔ راجہ کو یوں لگا جیسے اس نے بھرے بازار میں منہ پر تھوک دیا ہو۔ وہ اپنی اس ہتک پر تلملا کر رہ گیا اور اپنی شرمندگی مٹانے اور بھرم رکھنے کی خاطر رحیم دکاندار کی طرف جاپہنچا۔

’’اس مرتبہ مہربانی کردو۔‘‘ رحیم نے گھگھیا کر کہا۔

’’میں کسی پر مہربانی نہیں کیا کرتا۔‘‘

’’محنت مزدوری کی عادت ڈالو۔‘‘ رحیم کی آواز میں خوف نمایاں تھا۔

’’بھلا محنت کی کیا ضرورت ہے۔‘‘ راجہ نے طنزیہ جواب دیا۔

’’ا س طرح ضمیر مطمئن رہتا ہے۔‘‘

’’ضمیر محض اپنے آپ کو بہلانے کانام ہے۔‘‘ یہ کہہ کر راجہ نے سفاکی سے اسے گھورا۔ چنانچہ معاملے کی نزاکت محسوس کرکے رحیم نے چند نوٹ اس کی طرف بڑھا دیے اور وہ بے حیائی سے ہنستا ہوا چلا گیا۔

شام ڈھلے بستی کے بازار میں حسبِ معمول کافی چہل پہل تھی۔ اسی دوران وہاں ایک ٹیکسی آکر ٹھہری۔ اُس میں سے راجہ اتر کر ایک طرف جانے لگا۔ ڈرائیور نے کرایہ طلب کیا تو اس نے پلٹ کر حیرانی سے دیکھا۔ اب اس کے چہرے پر غصے کی لہر سانپ کی طرح رینگ گئی۔

’’اس کا مطلب ہے تو مجھے نہیں جانتا۔‘‘

’’مزدور تو صرف اپنی مزدوری کو جانتا ہے۔‘‘ ڈرائیور نے لاپرائی سے جواب دیا۔ یہ سن کر راجہ نے اس کے گریبان پر ہاتھ ڈال دیا۔ اب ڈرائیور بھی پھنکارتا ہوا باہر نکلا۔ اسی لمحے آس پاس سے راجہ کے خوشامدی نوجوان وہاں آموجود ہوئے۔ چنانچہ ڈرائیور نے وہاں سے چپ چاپ واپس چلے جانے ہی میں اپنی عافیت سمجھی۔ راجہ ہلکے ہلکے قہقہے لگا تا فاتحانہ انداز میں ان نوجوانوں کے ہمراہ قریبی ہوٹل میں جابیٹھا۔ وہ نوجوان پہلے ہی سے وہاں بیٹھے اس کا انتظار کررہے تھے۔ اس نے ہر ایک کے سامنے اس کے حصے کی ہڈی کے طور پر چند نوٹ ڈال دیے۔ چائے پیتے ہوئے وہ یکایک سنجیدہ ہوگیا۔ دراصل وہ بیوہ کی بیٹی کے ہاتھوں اپنی بے عزتی ابھی تک نہیں بھولا تھا۔ وہاں سے اٹھ کر وہ سیدھا اسی کے دروازے پر جاپہنچا۔ دروازہ کھلا تو بیوہ نے جھانک کر دیکھا اور سہم کر رہ گئی۔ مگر بظاہر اس نے پراعتماد لہجے میں پوچھا:

’’کیوں آئے ہو؟‘‘

’’تمہاری بیٹی نے راہ چلتے میری بے عزتی کی ہے۔‘‘

اس موقع پر بیوہ کی بیٹی بھی قریب آگئی۔ ماں کے بجائے اس نے پھر کر جواب دیا۔

’’تم نے مجھے راستے میں کیوں روکا تھا۔‘‘

اس لہجے سے اب راجہ پر ہیجانی کیفیت طاری ہوگئی۔ کیونکہ وہ ایسے رویے کا عادی نہیں تھا۔ بیوہ کی بیٹی نے اسی ناگواری سے دوبارہ کہا۔

’’وہ تو میں بات بڑھانا نہیں چاہتی تھی۔‘‘

راجہ کے چہرے پر مختلف رنگ دیکھ کر بیوہ خوف زدہ ہوگئی۔ تاہم اس کی بیٹی لاپروائی سے بولی۔

’’تم باز آجاؤ ورنہ …‘‘ اپنی بات نامکمل چھوڑ کر اس نے راجہ کو حقارت سے دیکھا۔

اب بیوہ نے معاملے کو نمٹانے کے لیے کمزور سا احتجاج کیا۔

’’تمہارے خلاف قانون کی مدد لوں گی۔‘‘

اس بات پر پہلے تو راجہ تلملا کر رہ گیا، پھر سختی سے کہنے لگا:

’’دیکھو میں تمہاری بیٹی کو بدنام کرکے رکھ دوں گا، تم اپنی شکل دکھانے کے قابل نہیں رہوگی۔‘‘

’’کیا کیا ہے میں نے … ‘‘لڑکی نے آگے بڑھ کر پوچھا۔

’’بدنامی کے لیے کچھ کرنا ضروری نہیں ہوتا۔‘‘ راجہ نے سفاکی سے قہقہہ لگایا۔ اب ماں بیٹی کی زبان سے کوئی لفظ نہیں نکل پایا۔ وہ دونوںسکتے کی حالت میں راجہ کو دیکھنے لگیں۔

’’تب تمہاری بیٹی کا ہاتھ تھامنے والا کوئی نہیں ہوگا۔‘‘

یہ سن کر دونوں ماں بیٹی اپنے اپنے وجود کے اندر دہل کر رہ گئیں۔ بیٹی کی آنکھوں سے بے بسی کے آنسو بہہ نکلے۔ اس لیے ماں نے بات بڑھانے کے بجائے اسے سہارا دے کر دروازہ بند کردیا۔ باہر سے راجہ کے بے ترتیب قہقہے دیر تک سنائی دیتے رہے۔

رات کے اندھیرے میں جنگلوں سے آنے والے خون خوار بھیڑیوں کا خوف بستی والوں کے دل میں بیٹھ جاتا ہے۔ ایسا ہی خوف راجہ کا بھی تھا۔ کسی جرم میں دو تین روز تھانے میں بند رہ کر وہ اپنے گھر کی طرف آرہا تھا۔ اُس وقت چند عورتیں گلی میں کھڑی آپس میں باتیں کررہی تھیں۔ راجہ کو دیکھ کر انہیں سانپ سونگھ گیا اور وہ اپنے گھروں میں گھس گئیں۔ اس بات کو نظر انداز کرتے ہوئے راجہ اپنے گھر میں داخل ہوا تو حسبِ معمول نہ بیوی نے اس کے غائب رہنے کی وجہ معلوم کی اور نہ خود اس نے کچھ بتایا۔ البتہ خلاف توقع راجہ کی بیوی نے اسے دیکھ کر کسی ناگواری کا کوئی تاثر بھی نہیں دیا، بلکہ اس وقت وہ خوش تھی۔ اس تبدیلی سے راجہ کو تعجب ہوا۔ قریب آکر وہ رازداری سے بتانے لگی۔

’’ہماری بیٹی کے لیے رشتہ آیا ہے، کل شام وہ لوگ آرہے ہیں۔‘‘

آنے والوں نے لڑکی کو پسند کیا اور رشتہ طے کرکے خوشی خوشی رخصت ہوگئے۔ راجہ اور اس کی بیوی اس رشتے پر مطمئن تھے۔ گویا ان کے سینے سے کوئی بوجھ اٹھ گیا ہو۔ چنانچہ دونوں شادی کی تیاریوں میں مصروف ہوگئے۔ اسی دوران جہیز کا سامان خرید کر ایک روز راجہ گھر پہنچا توبیوی کو برعکس حالت میں دیکھا۔ وجہ دریافت کرنے پر بیوی نے تلخی سے جواب دیا:

’’لڑکے والوں نے انکار کردیا ہے۔‘‘

’’کیوں‘‘ راجہ نے حیرانی سے پوچھا تو بیوی نے نفرت سے اس پر نظر ڈالی۔

’’وجہ جاننا چاہتے ہو؟‘‘

راجہ نے اس غیر متوقع بات پر صرف سوالیہ انداز میں اسے دیکھا۔ اس کی بیوی نے اپنی آنکھوں سے گرتے ہوئے آنسوؤں کے درمیان کہا:

’’انھوں نے کہا ہے کہ وہ کسی غنڈے کی بیٹی سے رشتہ نہیں کرسکتے۔‘‘

راجہ کو اپنے متعلق ایسی بات سن کر غصہ تو آیا مگر اس نے اپنے آپ کو سنبھالتے ہوئے پوچھا:

’’وہ اس بستی کے رہنے والے تو نہیں، انہیں میرے بارے میںکیسے علم ہوا؟‘‘

اب اس کی بیوی نے اپنے آنسو خشک کرتے ہوئے مایوسی سے جواب دیا:

’’ایسی بات ڈھکی چھپی نہیں رہتی۔ بدنامی نیک نامی سے زیادہ سے پھیلتی ہے۔‘‘

اب یکایک راجہ کے کانوںمیں بستی کے لوگوں کے طنزیہ قہقہے گونجنے لگے اور ذہن میں کسی آنے والے خطرے کی گھنٹیاں بجنے لگیں۔ وہ سامنے کھڑی اپنی بیٹی کی سوال کرتی آنکھوں کی تاب نہ لاسکا اور اپنا سر تھام کر بیٹھ گیا

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146