انسانی جسم اللہ تعالیٰ کی کس قدر حیرت انگیز صناعی ہے! ایسی مشینری جو عموماً ہمہ دم مستعد اور ہر دم رواں دواں رہتی ہے اور جس کے مختلف اعضا میں ایک شاندار ربط و یکسانیت پائی جاتی ہے۔ انسان اگر غور کرے تو حیران ہوکر خود پکار اٹھے کہ کیا ’’ایسی کارگزاری بھی یارب اپنے جسمِ ہستی میں ہے؟۔‘‘ ایک ہمہ دم متحرک اور تادم آخر کبھی نہ رکنے اورنہ بند ہونے والا یہ کارخانہ جو انسان صبح و شام، خلوت و جلوت اور اور اندر و باہر ہر جگہ اپنے ساتھ لیے پھرتا ہے! نسوں سے نسیں لگاتار ملی ہوئی، ہڈی پر ہڈی کا کامل جوڑ بیٹھا ہوا، ایک بازو دوسرے بازو سے بالکل یکساں نظر آتا ہوا، ٹانگ دوسری ٹانگ کے عین مطابق، آنکھیں خوبصورت، روشن اور چمکدار اور ناک سونگھنے کی ہر قسم کی صلاحیتوں سے مالامال۔ خواہ وہ ہیبت ناک ہو یا تابناک۔ بے شک! ہمارے رب نے ہمیں ایک خاص تناسب سے ہی پیدا کیا ہے۔ خَلَقہٗ فَقَدَّرَہٗ۔ ہمارے رب نے ہمارے بارے میں یہ بات کہی ہے۔ یعنی اس نے تمہیں تخلیق بھی کیا ہے اور ہر چیز ٹھیک ٹھیک انداز سے بھی دی ہے۔
پھر ان سب میں بھی سب سے زیادہ چشم کشا و لاجواب وہ لہو ہے جو سرخ سرخ اور گرم گرم ہمارے جسم کے اندر یہاں سے وہاں تک میلوں دوڑتا رہتا ہے۔ یہی وہ سرچشمہ ہے جس سے ’’جاوداں، پیہم رواں، ہردم جواں زندگی‘‘ نظر آتی ہے۔ اسی لہو سے زندگی بنتی ہے، متحرک بھی اور جامد بھی۔ زندگی کا سرچشمہ ظاہری طور پر اگر پانی ہے تو باطنی طور پر اس کا سرچشمہ خون ہے۔
انسانوں کو مخاطب کرتے ہوئے رب کائنات نے اپنے کلام میں جابجا دعوتِ فکر و تدبردی ہے ’’ذرا تم اپنے جسموں میں اترکر تو دیکھو، ذرا اپنے اس قد و قامت کا جائزہ لے کر تو دیکھو، اور کبھی اپنے ان ہاتھ پائوں کے جوڑوں اور بندوں کو تو جھانک کر دیکھو، تمہیں وہاں ہمارا ایک حیرت انگیز نظام کارکردگی جاری و ساری دکھائی دے گا اور جس کا مشاہدہ کرکے تم بے ساختہ اقرار کر اٹھوگے کہ ’’بیشک یہ جسم و جان تیرے ہی بنائے ہوئے ہیں۔ اے رب! جس میں کوئی شریک نہیں۔ ’’وفی انفسہم اٰیٰۃ‘‘ ’’تمھارے جسموں میں تمھارے لیے نشانیاں ہیں‘‘۔
پچھلے دنوں ایک بیماری کے سبب ہم سے خون کے مختلف ٹیسٹ کروائے گئے کہ ہماری درست تشخیص کا دارومدار ان ہی ٹیسٹ کے نتائج پر تھا۔ تاہم یہ جان کر ہمیں اچنبھا ہوا کہ کئی اجزاء انسانی خون کے ایسے ہیں جن کا خصوصی تعلق خاص مٹی سے ہے۔ وہی اجزاء جو ایک طرف ہماری مٹی میں پائے جاتے ہیں تو دوسری جانب وہ انسانی جان میں بھی نظر آتے ہیں۔ یعنی فاسفورس، گندھک، لوہا، چونا، دھات، جست، شکر، آئیوڈین اور نمکیات وغیرہ بلکہ خود یہ پانی بھی!
مٹی میں پائے جانے والے یہ وہ عناصر ہیں جو چوبیس گھنٹے ہمارے خون میں گردش کرنے میں مصروف رہتے ہیں۔ بندۂ مؤمن حیرت سے پکار اٹھتا ہے کہ ’’انسان بھی یقینا اسی مٹی سے پیدا کیا گیا ہے۔ خدایا! جسم کے یہ کیمیائی یا ساختیاتی اجزاء پکار پکارکر خود کہہ رہے ہیں کہ انسان کی تخلیق مٹی سے کی گئی ہے۔ بے شک بظاہر وہ گوشت پوست اور ہڈیوں کا چلتا پھرتا مجسمہ (یا انسانِ ناطق) نظر آتا ہے، لیکن اگر توڑ پھوڑکر دیکھا جائے تو سوائے ایک مشت خاک کے وہ کچھ بھی نہیں نکلتا۔ قادرِ مطلق نے لاکھوں سال پہلے کہیں سب سے اوّلین انسان حضرت آدم علیہ السلام کو براہِ راست مٹی سے پیدا کیا تھا۔ خَلَقنٰہ مِن طین (بلکہ من طین لازب) جس کے باعث شیطان نے انہیں سجدہ کرنے میں اپنی سبکی بھی محسوس کی تھی، مگر آج تک کوئی ایک لاکھ نسل انسانی کے دنیا میں جنم لینے اور پھر واپس اپنے مالک کائنات کے پاس جا پلٹنے کی اس الٰہیاتی حقیقت میں کہ انسان کی پیدائش ایک کھنکتی ہوئی مٹی سے کی گئی تھی، ذرہ برابر بھی تبدیلی نہیں ہوئی ہے۔
قرآنِ پاک یاد دہانی کراتا ہے کہ لوگو! مٹی ہی سے تم پیدا کیے گئے تھے، مٹی میں تمہیں واپس لوٹایا جائے گا اور مٹی کے اندر ہی سے تمہیں دوبارہ برآمد کیا جائے گا‘‘۔
مِنْہَا خَلَقْنکْمْ وَفِیْہَا نُعِیْدُکُمْ وَ مِنْہَا نُخْرِجْکْمْ تَارَۃً اُخْرٰی۔ یہی حقیقت ہے جسے میر تقی میر نے بھی کبھی اس طرح سمجھانے کی کوشش کی تھی کہ
نہیں ہے مرجعِ آدم اگر خاک
کدھر جاتا ہے قد خم ہمارا؟
یعنی انسان کا آغاز و انجام اگر مٹی نہیں ہے تو پھر کمر خمیدہ ہمارا یہ جسم آخر کیوں زمین ہی کی طرف جھکا چلا جارہا ہے؟
اس طرح دراصل انہوں نے ایک بہت صحیح بات لوگوں کے سامنے رکھی تھی۔ پھر بات صرف یہی نہیں ہے کہ انسانی جسم ان خاکی اجزاء کا مرکب ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ چشم کشا بات یہ ہے کہ یہ تمام اجزاء ایک خاص تناسب یا ایک خاص اندازے سے جسم کے اندر رکھے گئے ہیں جو (تناسب) اگر وہاں برقرار نہ رہ سکے تو جسم یکایک بدنظمی کا شکار ہونے لگتا ہے۔ یعنی سر درد شروع ہوجاتا ہے۔ متلیاں آنے لگتی ہیں، جسم کی سرخی گھٹنے لگتی ہے، خون کا دبائو الٹ پلٹ جاتا ہے اور بھوک ختم ہوجاتی ہے۔ یہی نہیں بلکہ تھکن بھی طاری ہونے لگتی ہے، دل ڈوبنے لگتا ہے، پیاس بڑھ جاتی ہے، چکر آنے شروع ہوجاتے ہیں، سانس لینا دوبھر ہوجاتا ہے۔ مایوسی اور گھبراہٹ سر پر سوار ہوجاتے ہیں۔ دل کے حملوں کا امکان پیدا ہوجاتا ہے، تشنج کے جھٹکے لگنے لگتے ہیں، پیلیا در آنے لگتا ہے، قبض کی شکایت جنم لینے لگتی ہے اور پیٹ کا درد اپنا راستہ بنانے لگتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ بغیر ڈاکٹری پڑھے ہوئے بھی اتنی ساری انسانی تکالیف تو ہم نے محض چٹکیوں میں آپ کو گنوا دی ہیں جو کہ اگر ڈاکٹر حضرات سے معلوم کی جائیں تو شاید اس سے بھی دگنی فہرست وہ ہمیں مزید تھمادیں۔وجہ ان ساری تکالیف کی عموماً بس ایک ہی سامنے آئے گی کہ جسم میں موجود مٹی کے ان عناصر میںضرور کہیں اتھل پتھل ہوئی ہے۔ ٹھیک ہی تو کہا تھا چکبست نے جب انہوںنے یہ کہا تھا کہ :
زندگی کیا ہے؟ عناصر میں ظہور ترتیب
موت کیا ہے؟ انہی اجزاء کا پریشاں ہونا
ان امراض کے ڈاکٹر پھر یہی علاج تجویز کرتے ہیں مثلاً آپ کے جسم میں لوہے کی مقدار کم ہوگئی ہے، تو اسے بڑھائیں۔ چونا (کیلشیم) کم ہوگیا ہے تو چونے والی غذا یا دوا کا استعما ل کریں اور اگر خون میں گلوکوز (شکر) کا تناسب زیر وزبر ہوگیاہے تو شکر والی اشیاء کم یا زیادہ کرلیں۔ دوسرے الفاظ میں ان زمینی اجزاء کا تناسب آپ ایک بار قدرتی فارمولے پر واپس لوٹا لیں۔
اندرون جسم کے یہ محض ایک پہلو کی جھلک تھی۔ ایمان افروز اور دلچسپ! اب انسانی مشینری کے بعض دوسرے پہلوئوں کو بھی ہم کھولتے ہیں۔ ایک بار ہماری نکسیر ایسی پھوٹی کہ خون کسی طرح نہ رکتاتھا۔ ڈاکٹروں کے علاج سے ہمیں وقتی افاقہ تو ہوا، لیکن ان کے خیال نے ہمیں سوچ میں مبتلا کردیا کہ ’’شاید آپ کا خون پتلا ہو گیا ہوگا۔‘‘ ہیں تو کیا خون پتلا اور گاڑھا بھی ہوتاہے؟ ہم نے سوچا خون کی جانچ رپورٹ سے بہرحال ثابت ہوہی گیا کہ ہمارا خون ان دنوں پتلا ہوچکا ہے۔ محاورتاً تو نہیں، مگر اصلاً ضرور۔ اور اسی لیے وہ جمنے نہیں پا رہا۔ تب اسی سے یہ ایک اور خدائی قدرت سے پردہ اٹھا اور وہ کھل کر ہمارے سامنے آئی کہ ’’انسانی جسم میں خون اگر دے تو اس نوعیت کا پروردگار دے کہ وہ فوری طور پر جم بھی جاتا ہو بلکہ درست معنوں میں خون بہت پتلا بھی نہ ہو (کہ زخم لگے تو بہتا ہی چلا جائے اور پھرانسانی وجود کو دائو پر لگا دے) اور بہت گاڑھا بھی نہ ہو کہ دل کی شریانوں میں رکاوٹیں پیدا کرنے لگے اور انسان کو موت کی طرف سفر شروع کرواد ے ۔ خون میں فوری جم جانے کی یہ صفت اگر اللہ تعالی نہیں رکھتا تو انسان کبھی ز۔دہ ہی نہ رہ سکتا تھا۔ یہی وہ بنیاد ہے جس پر شاعر نے کہا تھا کہ :
خون پھر خون ہے، ٹپکے گا تو جم جائے گا
ڈاکٹر وںکی جراحی (سرجری) بھی اسی لیے قابل اعتماد اور ممکن ہو سکی ہے کہ اعضاء کی چیر پھاڑ کے بعد ادویات کی مدد سے خون اپنے فوری جمنے کا عمل شروع کردیتا ہے۔
ایک اور توجہ طلب پہلو انسانی جسم کا، اس کی یہ موٹی جلد/یا کھال بھی ہے۔ کھال کی ایک بہت عمدہ صفت یہ ہے کہ کٹنے کے بعد بہت ہی کم عرصے میں یہ دوبارہ باہم جڑنے لگ جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ چھوٹے موٹے خراش اور کٹ بغیر دوائی کے آسانی کے ساتھ از خود جڑ جاتے ہیں۔ حتی کہ محض چند دنوں کے اندر اندر ہی کھال کا متعلقہ حصہ ہتھیلی یا بازو وغیرہ ایسے ہوجاتے ہیں جیسے کبھی کٹے ہی نہ تھے او رپھر کیسی جڑائی؟ نہ کوئی لکیر دوسرے حصے کی لکیر سے الگ ہوتی ہے او رنہ کوئی کھال پہلے والی کھال سے علیحدہ جڑی دکھائی دیتی ہے۔ بالکل اصلی اور خوب صورت ! جلد میں اللہ تعالیٰ اگر یہ خاص وصف نہ رکھتا تو انسان کہیں کا نہ رہتا۔ کٹا پھٹا، بدہیئت، ڈروائونا اور افسوسناک! وہ کتنا گھنائونا گھنائونا سا لگتا! خواہ مرد ہوتا یا عورت ہوتی! یہ جو آپریشن سرجن حضرات دن رات کرتے رہتے ہیں، وہ ان کے اسی اعتماد کا مظہر ہیں کہ کاٹی گئی یا توڑی گئی یہ کھال/ہڈی، ایک ڈیڑھ ماہ کے عرصے میں بہت حد تک اپنی اصلی شکل و صورت میں دوبارہ لوٹ آئے گی۔ انسانی کھال میں اگر یہ صلاحیت نہ پائی جاتی تب بھی انسان کی زندگی اذیت ناکی کا ایک دوسرا روپ اختیار کرلیتی اور انسان فریاد کرتا رہ جاتا کہ الٰہی! کیسے کٹے یہ زندگی، کہا ں گزرے گی؟
ہمارا یہ جسم جو اگر چہ کئی فٹ کا ہے لیکن بس یہ ایک ننھے سے دل کے اشارے ہی پر حرکت کرتاہے۔ اسی کی حرکت سے باقی سارے اعضاء خاموشی اختیار کرتے ہیں۔
اصل میں یہ دل کیاہے؟ ایک ایسا متحرک آلہ یا چالو مشین جسے ستر سے اسّی سالوں تک عموماً کسی بھی ’’ریسٹ‘‘ کی ضرورت پیش نہیںآتی۔ ماں کے پیٹ سے یہ اپنی دھڑکن کا آغاز کرتاہے اور زندگی کی آخری سانس تک چوبیس گھٹنے مسلسل دھڑکتا ہی رہتاہے۔
دنیا کی طاقت ور سے طاقت ور مشین بھی ستر اسّی سالوں تک لگاتار کام نہیں کرسکتی۔ دس بارہ گھنٹوں کے لیے وقفے وقفے سے انہیں ایک بڑا ’’شٹ ڈائون’‘ ضرور درکار ہوتاہے۔ مگر ایک یہ دل؟ اسے اس طرح کے کسی وقفہ جاتی ’’شٹ ڈائون‘‘ کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ فیول (غذا او رپانی) کی تو اس دل کو ضرورت رہتی ہے۔ لیکن ایک طویل مرمت سے یہ بالکل بے نیاز ہے۔ اس کا شٹ ڈائون تو دراصل کسی کی موت کا سبب بن جاتا ہے۔ بہت کم افراد ہوتے ہیںجنہیں بائی پاس آپریشن/مرمت سے گزر کر اپنے دل کو تروتازہ کرنا پڑتا ہے۔ یہ چلن ہمارے معاشرے میں ایسا کوئی بہت عام بھی نہیں ہے۔
دل ہے تو دھڑکنے کا بہانہ کوئی ڈھونڈے
پتھر کی طرح بے حس و بے جان سا کیوں ہے؟
یعنی دل او رنہ چلے؟ اور رک کر کھڑا ہوجائے؟ یہ تو ہو ہی نہیں سکتا، کیوں کہ وہ رکے گا تو زندگی جان سے گز رجائے گی۔
حیرت انگیز امر یہ بھی ہے کہ جسم کے تمام اعضاء کی نقل و حرکت اگر دل کی دھڑکن کے ساتھ وابستہ ہے تو ان تمام اعضا پر کنٹرول چھوٹے سے دماغ کا ہے۔ اسی کی منشا و مرضی کے مطابق یہ عمل کرتے ہیں کہ کب انہیں کون سا کام کرنا ہے او رکب انہیں کسی کام سے رک جانا ہے؟
دنیا میں آج تک بننے والی تمام مشینیں، چھوٹی یا بڑی ، جسمانی مشقت والی یا الیکٹرانک سہولت والی، دل دہلادینے والی یا دل شادمان کرنے والی، ان تمام مشینوں میں سے بس ایک انسانی جسم کی مشینری ہی ایسی ہے جسے حیرت انگیز طور پر آج تک مکمل طور پر سمجھا ہی نہیں جاسکا ہے اور جو سب سے زیادہ پیچیدہ اور سب سے زیادہ حیران کن ہے ۔ اس مشینری پر لاتعداد کتابیں مسلسل شائع ہوتی چلی جا رہی ہیں۔ کل بھی اس پر بیش قیمت کتابیں لکھی جایا کرتی تھیں اور آئندہ بھی
لکھی جائیں گی کتاب جسم کی تفسیریں بہت
سچی بات یہ ہے کہ انسان کے پاس سوچنے والا کوئی دل ہو تو ساڑھے پانچ اور چھ فٹ والا صرف یہ جسم ہی اسے اللہ کے احسانات یاد دلانے کے لیے کافی ہے۔ ’’مگر اللہ کے بندوں میں سے کم ہی لوگ ہیں جو اس کے شکرگزار بنتے ہیں‘‘ و قلیل من عبادی الشکور
الٰہی! ہر چیز سے ہے تیری کاریگری ٹپکتی
یہ کارخانہ تو نے کب رائیگاں بنایا؟
——