جسم فروشی سے نکلے تو کٹرپنتھ میں چلے

اروڑ کمار ترپاٹھی

جس طرح کبھی ایک شدید مرض میں مبتلا کسی شخص کے اندر شفا یاب ہونے کے آثار نظر آتے ہیں تو کبھی نئی بیماریاں جنم لیتی ہیں ٹھیک اسی طرح کشمیر کی سیاسی زندگی میں سیکس اسکنڈل ایک نئی بیماری کی شکل میں سامنے آیا ہے۔ اس میں جی اے میر اور رمن مٹو جیسے دو سابق وزیر اور امن فورسز کے اعلیٰ افسران کے ساتھ ساتھ سابق دہشت گرد کے شامل ہونے سے حکمراں طبقہ کی شبیہ استحصال کرنے والے اور سازشی کی حیثیت سے بنی ہے۔ لیکن اس حادثہ نے جہاں دہشت پسندی کو نیا بارود فراہم کیا ہے وہیں دوسری طرف سیاست اور سماج کو اپنے آپ کو صاف و ستھرا کرنے کا ایک موقع فراہم کیا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ یہ بیماری دبانے سے جتنی شدید بن کر ابھری ہے دفاع کرنے سے اتنی ہی کپکپی طاری کردینے والی ہوتی جارہی ہے۔ تشدد پسند اور ان سے جڑے ’’دخترانِ ملت جیسی خواتین تنظیم‘‘ کو یہ ثابت کرنے کا اچھا موقع ہاتھ آگیا ہے کہ حکومت میں بیٹھے لوگ کس طرح کشمیر کی مظلوم اور بے روزگار لڑکیوں کو نوکری کا لالچ دے کر جسم فروشی کا کاروبار چلارہے ہیں۔ وہ یہ دکھانا چاہتے ہیں کہ جمہوری طریقے سے منتخب سرکار بے راہ روی اور بداخلاقی کو عام کررہی ہے۔ جبکہ انتہا پسند اسی بے راہ روی کو ختم کرنے کے لیے لڑ رہے ہیں۔ جبکہ پندرہ سال کی مدت میں انتہا پسندوں نے بھی عورتوں پر کم ظلم نہیں کیے۔ اس دوران کشمیر میں عورتوں کی عزت کا سوال الگ الگ طریقوں سے اٹھتا رہا ہے کبھی حفاظتی دستوں کے ذریعہ انسانی حقوق کی پامالی کے بہانے یہ سوال اٹھایا گیا تو کبھی غیر ملکی انتہا پسندوں کے ذریعہ عورتوں کے استحصال کے بہانے۔ بیچ بیچ میں ایسی خبریں بھی آئیں کہ اب مقامی انتہا پسند خارجی انتہا پسندوں سے قطع تعلق کررہے ہیں اور عوام میں یہ پیغام دے رہے ہیں کہ ہم عورتوں کی کتنی عزت کرتے ہیں لیکن اس طرح کے پیغامات اور کوششوں سے اصل مسئلہ نظروں سے اوجھل ہوتا رہا کہ کشمیر میں تشدد کے دوران وہاں کی عورتوں کا کتنا استحصال کیا گیا او ران پر کتنے ظلم ڈھائے گئے اور وہ اس اندھی گلی سے نکلنے کے لیے کیا کررہی ہیں۔ کچھ سال پہلے کالی فار وومین کی جانب سے ’’کشمیر میں عورتوں کی حالت‘‘ پر ایک رپورٹ شائع کی گئی تھی جو رپورٹ اس بات کی وضاحت کرتی ہے کہ خاندان کے لوگوں کو مار دئے جانے یا انتہا پسند بن جانے کے بعد عورتیں کس طرح کی مشکلات کا سامنا کرتی ہیں اور کس طرح اپنے بچوں کی پرورش کرتی ہیں اور کس طرح کے معاشی و سیاسی بحران کا شکار ہوتی ہیں۔ لیکن جنگی ماحوں سے گھرے سماج میں اس طرح کے سروے یا رپورٹوں پر گفتگو کرنے کے لیے کسی کے پاس وقت نہیں ہوتا ہے نہ ہی اس طرح کے معاملات کو کوئی سرکاری یا غیر سرکاری ادارہ عوام کے سامنے لانے کی کوشش کرتا ہے۔ ظاہر ہے کہ کشمیر کے سیاسی جذباتیت سے بھرے اور حساس سماج میں سیکس کیس پر گفتگو اور ردعمل اتنا عام نہیں ہوسکتا جتنا ممبئی، اترپردیش، بہار یا اترانچل میں ہوسکتا ہے۔ یقینا وہاں پر جذباتیت اور تشدد بھڑک اٹھنے کی زیادہ گنجائش رہے گی لیکن خطرہ اس بات کا ہے کہ اس پر ہونے والے جذباتی رد عمل سے عورتوں کی عزت اور ان کے حقوق کی یہ جنگ پھر انتہا پسندی اور کٹرواد کی بھینٹ چڑھ سکتی ہے پھر عورتوں کو اسکول کالج جانے سے روکنے، نوکری کرنے سے روکنے اور حجاب کا سختی سے استعمال کرنے کی کوشش ہوسکتی ہے۔ ایسے میں کسی جمہوری حکومت اور مہذب سماج کا یہ فرض بنتا ہے کہ جسم فروشی کے اس معاملہ میں ملوث تمام لوگوں کو سزا دلانے اور جسم فروشی کے گورکھ دھندوں کو روکنے کے لیے پختہ اور مضبوط کوششیں کرے۔ دوسری جانب وہ کشمیر کی بے سہارا لڑکیوں کی حالت زار کو روزگار اور حقوق انسانی کے وسیع تناظر میں دیکھے اور مذہبی اعتبار سے غیر جانب دار سیکولر انداز میں اس کا حل نکالے۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146