حکمائے قدیم نے زندگی کو آگ کے شعلے سے تشبیہ دی ہے کہ نظام جسمانی میں پرانے اجزا کے ضائع ہونے اور اس کی جگہ نئے اجزا کے فراہم ہونے کا عمل ہمیشہ جاری رہتا ہے۔ گویا ہمارے جسم میں مرنے اور جینے کا یہ عمل ہر لمحہ واقع ہو رہا ہے۔ اب اگر موت و پیدائش کی یہ نسبت برابر رہتی ہے یعنی جو خلیات جسم مرجاتے ہیں ان کی جگہ نئے پیدا ہوجاتے ہیں، تب تو بڑھاپا موخر رہتا ہے اور جلدی نہیں آتا، لیکن اگر خلیات اور اجزائے جسم کے مرنے کی رفتار ان کی پیائش کے مقابلے میں زیادہ تیز ہو جاتی ہے تو کمزوری شروع ہونے لگتی ہے اور زندگی کے شعلہ کی لو بھی گھٹنے لگتی ہے۔
اب اگر شعلہ زندگی کو آپ زیادہ عرصے تک قائم رکھنا چاہتے ہیں اور نظامِ جسمانی میں خلیات کی موت و پیدائش کی نسبت کو کبر سنی اور بڑھاپے تک برابر و متوازن رکھنا چاہتے ہیں تو اس کی واحد صورت یہی ہے کہ عضلاتی حرکات کے ساتھ ساتھ پرامید ذہنی کیفیت، پاکیزہ جذبات، صفائی، پرہیزگاری، اعتدال اور صحیح تغذیہ کے ذریعے نظامِ جسمانی کے عمل تحلیل اور فرسودگی کی رفتار میں بریک لگا کر اسے دھیمی کردیں کہ اعادہ شباب اور بڑھاپے کو موخر کرنے کا یہی کارگر اور مجرب ترین نسخہ ہے۔
یہاں میں علی الترتیب متذکرہ بالا ان تینوں خصوصیات کی ضروری تفصیلات سے بحث کروں گا اور نفس مضمون کی حد تک ان کے متعلق ضروری معلومات بھی فراہم کروں گا تاکہ ایک شخص کو عضلاتی حرکات کے ساتھ ساتھ ان خصوصیات سے متعلق کما حقہ واقفیت پہنچ جائے۔
مضبوط قوتِ ارادی
ان عضلاتی حرکات سے وہی شخص کماحقہ فائدہ اٹھا سکتا ہے جو ان کو نہایت باقاعدگی، انہماک اور توجہ کے ساتھ کرے گا۔ اس کے ساتھ اسے اس امر کا بھی کامل یقین ہونا چاہیے کہ ان عضلاتی حرکات سے اس کے نظام جسمانی اور شریانوں میں جو فاسد مادے، کولسٹرول اور کیلشیم کی تہیں جمع ہیں، ان کا اخراج عمل میں آجائے گا۔ جو کوئی بھی اس پر یقین ذہنی کیفیت کے ساتھ عضلاتی حرکات کو کرے گا تو بہت جلد اسے اپنے اندر ترقی و نمو کا احسان ہوگا۔
آج یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ قوتِ متخیلہ سے بڑے بڑے کام لیے جاسکتے ہیں۔ بپناٹزم اور توجہ، اسی کی ترقی یافتہ صورتیں ہیں۔ آپ کو یہ تو معلوم ہوگا کہ طبی دنیا میں بپناٹزم اور توجہ بڑی اہمیت کے حامل سمجھتے جاتے ہیں اور توجہ یا روحانی علاج کو اہل مغرب ’’کرسچین سائنس‘‘ کے شاندار نام سے موسوم کرتے ہیں۔ بے شمار تجربات سے یہ بات ثابت کی جاچکی ہے کہ کسی بیماری کے متعلق محض یہ یقین کرنے سے کہ وہ موجود ہے وہ مرض بن کر کھڑی ہوجاتی ہے اور اسی طرح مرض کی حقیقی موجودگی کے باوجود اگر کسی طرح مریض کو یہ باور کرا دیا جائے کہ اس کے اندر بیماری سرے سے موجود ہی نہیں ہے تو وہ بہت جلد اس سے چھٹکارا پالیتا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ ہماری قوت ارادی کو ہمارے جسموں پر بہت بڑی قدرت اور کنٹرول حاصل ہے، چناں چہ آپ ان عضلاتی حرکات کے متعلق اگر یقین یہ رکھیں گے کہ ان کے تناؤ اور ڈھیل کے اثرات سے ہماری خون کی نالیوں کے تہ نشین مادوں کا اخراج عمل میں آرہا ہے تو آپ بہت جلد اپنی جسمانی و دماغی حالت کے اندر ترقی اور خوشگوار تبدیلی محسوس کریں گے۔
پرامید ذہنی کیفیت
یہاں اس کا مطلب یہ نہ سمجھ لیا جائے کہ ان عضلاتی حرکات میں تو اپنی جگہ یہ خصوصیت ہے نہیں کہ ان پر عامل ہونے سے خون کی نالیوں کا تہ نشین مادہ خارج ہوجائے، بلکہ جو چیز دراصل کام کرتی ہے، وہ ان کے متعلق اس طرح کا یقین کرلینا ہے، نہیں ہے۔ ان عضلاتی حرکات کی اہمیت کو تو کسی طرح کم نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن یہاں جس چیز پر زور دینا مقصود ہے، وہ یہ ہے کہ پرامید ذہنی کیفیت کے ساتھ جس کام کو بھی کیا جائے گا، اس میں کامیابی جلد اور یقینی ہوتی ہے اور یاس اور شکست خوردہ ذہنیت کے ساتھ جو کام کیا جائے گا اس میں کامیابی کا امکان کم رہ جاتا ہے، لہٰذا ان عضلاتی حرکات پر مشتمل کورس کو بھی نہایت پرامید ذہنی کیفیت کے ساتھ کیا جائے تاکہ جوانی کو واپس لانے اور بڑھاپے کو موخر کرنے میں قوت ارادی او رقوت متخیلہ سے بھی پورا پورا فائدہ اتھایا جائے۔
پاکیزہ جذبات
مضبوط قوت ارادی اور پرامید ذہنی کیفیت کے علاوہ ایک چیز اور ہے جو انسان کی جوانی اور تندرستی قائم رکھنے یا اسے بیمار اور بوڑھا کرنے میں معاون ثابت ہوتی ہے اور وہ ہے اس کے جذبات و تصورات۔ انسان کے دماغ میں تعمیری خیالات اورصحت مند جذبات موجود ہوں گے، تو اس کی قوت حیات اور توانائیاں پروان چڑھیں گی، لیکن اگر اس کے اندر خطرناک جذبات اور تخریبی خیالات موجزن ہوں گے، تو اس کی قوتِ حیات اور صحت بالکل تباہ ہوجائے گی۔
ہمدردی و محبت، مہربانی و رافت، قناعت و خوش باشی، یہ وہ اعلیٰ و ارفع خصوصیات ہیں جو ہمارے نظامِ جسمانی میں صحت مند لہریں پیدا کرتی ہیں اور ہماری قوتِ حیات کو بیماریوں کے مقابلے کے لیے تیار کرتی اور مضبوط بناتی ہیں۔ یہ گویا تعمیری خیالات و صحت مند جذبات ہیں جو ہماری قوت حیات اور توانائیوں کو نشو و نما دیتے ہیں۔
نفرت و عداوت، غم و غصہ، لالچ و خود غرضی، یہ وہ اسفل اور ارذل خصائل ہیں جو ہمارے نظام جسمانی میں مضر صحت اور نقصان دہ لہریں پیدا کرتے ہیں جس کے باعث ہماری قوت حیات کمزور اور نظام جسمانی بیماریوں میں گھر جاتا ہے۔ یہ گویا تخریبی خیالات اور خطرناک جذبات ہیں جو ہماری صحت کو تباہ اور جسم کو روگی اور بوڑھا کردیتے ہیں۔
ہنستے اور مسکراتے رہیں!
صحت و تندرستی قائم رکھنے اور بیماری اور بڑھاپے سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ آپ خوش و خرم رہیں، دوسروں سے محبت و ہمدردی کریں اور اس بات کی کوشش کریں کہ آپ کا مسکراتا ہوا چہرہ دیکھ کر لوگوں میں سکون و اعتماد پیدا ہو، گھبراہٹ، پریشانی اور خوف دور ہو۔ اپنے لیے مستقلاً یہ اصول بنالیں کہ جہاں اور جس طرح بھی آپ رہیں گے ہنستے اور مسکراتے رہیں گے۔ اپنی مسکراہٹ سے جتنی محبت کی لہریں آپ اپنے گرد و پیش پیدا کریں گے، آپ خود بھی مطمئن رہیں گے اور دوسروں کو بھی خوش و خرم رکھیں گے۔
مرض کو دور کرنے کا مجرب ترین نسخہ
اگر کبھی غصہ اور بغض و حسد کی آگ آپ کے اندر بھڑکے تو قوت ارادی سے کام لے کر فوری طور پر اس کو بجھا دیں اور عفو و درگزر سے کام لیں۔ ان شاء اللہ آپ کا دل بہت جلد ہلکا ہوجائے گا اور محبت و مسکراہٹ آپ کے ہونٹوں پر پھر سے کھیلنے لگے گی۔ اپنے دل سے تمام قسم کے خوف نکال کر صرف خدائے واحد کا خوف پیدا کیجئے کہ اس سے آپ کے اندر قانون قدرت کے مطابق زندگی گزارنے کا جذبہ پیدا ہوگا اور خدا کے سامنے جواب دہی کا احساس آپ کے اندرون کو تمام اسفل ااور ردی جذبات و تصورات سے پاک رکھے گا کہ مرض اور ضعف کو دور کرنے کا یہ مجرب ترین نسخہ ہی