جلائیں چراغ ابھی اور کہ اندھیرا ہے بہت

اعجاز احمد اعجاز اکولہ

ہماری قوم میں اولوالعزمی، بلندحوصلگی ،شجاعت و بہادری ،سائنس و حکمت جیسے اوصاف کو زندگی کا جزولانیفک سمجھا جاتا ہے ۔انہی اوصاف کو بروئے کار لاتے ہوئے ہم نے ہر عہد میں دنیا کو علم ودانش اور سائنس و حکمت کے قوانین و ضوابط سے روشناس کیا ہے۔ساتھ ہی زیور تعلیم کو اپنے گلے سے لگائے رکھا ۔یہی وجہ تھی کہ دنیا جہاں کے علوم و فنون مسلمانوں کے پاس تھے اور وہ بام عروج پر تھے ۔لیکن آج اس کے بر عکس پچھلی چند دھائیوں میں حالات کا شکار ہوکر تمام شعبوں پر ہماری گرفت کمزور ہوئی ہے ۔شعبہ تعلیم بھی اس سے نہ بچ سکا ۔ ۔ آج کا دور تعلیمی ترقی کا دور ہے جو اس دور کے شانہ بہ شانہ چلا سمجھئے وہ کامیاب ہوگیا اور جس نے حصول تعلیم سے کوتاہی برتی وہ جہالت و پستی کے ایسے دلدل میں پھنسا جہاں سے رہائی ممکن نہیں ۔علم یا تعلیم قوموں کی ترقی کی ضمانت ہے یہ وہ اٹل حقیقت ہے جس سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔

جس قوم میں تعلیم عام ہوتی ہے وہ بام ترقی پر ہوتی ہے اور اس سے منہ موڑنے والی قومیں جہالت ، پسماندگی،جرائم ،انتشار ،کے گہرے سمندروں میں غرق ہوجاتی ہیں ۔تاریخ شاہد ہے کہ ہر دور میں تعلیم پر اجارہ داری قائم کرنے والی قوموں نے دنیا میں ترقی پائی ہے ،اس کے برعکس تعلیم سے دوری قوموں کی ہلاکت کا ذریعہ بنی ہے ۔آج امت مسلمہ تعلیمی پسماندگی کے دور سے گذر رہی ہے ۔قوم میں اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جن کے نزدیک تعلیم گویا شجر ممنوعہ ہے ۔ان کی کوشش بس یہی ہوتی ہے کہ دو وقت کی روٹی کہیں سے مل جائے ،گویا روٹی کا حصول ہی زندگی جینے کا واحدمقصد ہو ۔ اس کے برعکس دلت اور دیگر پسماندہ لوگوں کی یہ سوچ بن گئی ہے کہ کھانا چاہے ایک وقت ملے لیکن تعلیم ضرور حاصل کرنی چاہیے ۔اور یہی وجہ ہے کہ دیگر پسماندہ قومیں بھی تعلیمی میدان میں ہم سے آگے ہوگئی ہیں اور ہم پسماندہ قوم بن کر رہ گئے ہیں ۔کیا ہم سیرت پاک ﷺ سے واقف نہیں، کیاہمیں معلو م نہیں کہ نبی ﷺ نے تعلیم کومسلمانوں کیلئے کتنا ضروری قرار دیا ۔ ہم جانتے ہیں کہ طلب العلم فریضۃ علٰی کلِ مسلم۔’’ علم کا حاصل کرنا ہرمسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے‘‘ آج اگر حصول تعلیم ہماری زندگی کا مقصد ہے تو سمجھئے کہ ہم زندہ ہیں ،ہم میں کچھ کرنے کا جذبہ موجود ہے ،اس جذبہ کی کمی ہمیں موت سے قریب کر دیتی ہے ۔ حصول تعلیم سے فرار نہ صرف شخص کا نقصان ہے بلکہ پوری قوم کا نقصان عظیم ہے ۔تعلیم سے متعلق سرسید احمد خان فرماتے ہیں۔

’’جن لوگوں کا یہ خیال ہے کہ سیاسی امور پر بحث و مباحثہ کرنے سے ہماری قومی ترقی ہوگی ،میں ان سے اتفاق نہیں کرتا۔ اس کے برخلاف میرا خیال تو یہ ہے کہ تعلیم اور صرف تعلیم ہی کے ذریعے قوم کی تعمیر نو کی جاسکتی ہے لہٰذا اس وقت ہمیں اپنی قوم میں تعلیم کی ترویج کے سوا کسی اور مسئلہ پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت نہیں ہے ‘‘۔

سرسید کے مطابق ہمیں زیادہ سے زیادہ تعلیم پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ہماری ترقی کا راز تعلیم میں پنہاں ہے ۔قوم کی تعمیر نو کے لئے ہمیں تعلیم کی طرف متوجہ ہوجانا چاہئے۔ تعلیم سے بڑھ کر کوئی دولت نہیں۔ اپنی ترجیحات میں ہم تعلیم کو اولین ترجیح دیں ساتھ ہی ہمیں عملی طور پر بھی تعلیم کو عام کرنے کی کوشش کرنی چاہئے ۔ہمیںخود اپنی حالت زار کو بدلنا ہوگا۔ بقول جگر مراد آبادی:

بیکراں ہوتا نہیں،بے انتہا ہوتا نہیں

قطرہ جب تک بڑھ کر قلزم آشنا ہوتا نہیں

والدین کو چاہیے کہ اپنے بچوں کی تعلیمی طور سے صحیح رہنمائی کریں ۔اس کیلئے منظم لائحہ عمل ترتیب دیں ۔ والدین کو یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ اسکول میں بچے صرف چھ گھنٹے اساتذہ کی نگرانی میں ہوتے ہیں اور بقایا اٹھارہ گھنٹے وہ والدین کے زیر نگرانی ہوتے ہیں ۔ان اٹھارہ گھنٹوں کی مناسب منصوبہ بندی کریں ان کی جائز ضروریات کو سمجھیں اور انھیں پورا کرنے کی کوشش کریںگھر کے مسائل اورپریشانیوں کا بچوں کے سامنے تذکرہ نہ کریں کیونکہ کچھ بچے انتہائی حساّس ہوتے ہیں اور وہ والدین کے مسائل اور پریشانیوں سے پریشان ہوجاتے ہیں اس کا اثر ان کے تعلیمی کیرئیر پر پڑتا ہے ۔وہ ہائیپر ٹینشن کا شکار ہو سکتے ہیں ۔اور ان کی تعلیمی کارکردگی متاثر ہوسکتی ہے ۔ بچوں کے تعلیمی مسائل کو حل کرنے کی کوشش کی جائے ممکن ہو تو ان کے اساتذہ سے جاکر ملاقات کریں اور اس سلسلہ کو جاری رکھیں ۔اگر بچہ کسی مضمون میں کمزور ہو تو کمزوری کی وجہ جاننے اور اسے دور کرنے کی کوشش کریں ۔اگر کسی وجہ سے اسکول کے استاد سے مناسب رہنمائی نہ مل پارہی ہو تو ایسی صورت میں کسی دوسری اسکول کے ایکسپرٹ ٹیچر کی رہنمائی حاصل کریں ۔اپنے بچوں میں پڑھائی کے تئیں دلچسپی پیدا کریں ۔انھیں یہ بتایا جائے کہ ان کے لئے تعلیم کس قدر ضروری ہے اور یہ کہ تعلیم ہی انھیںموجودہ غربت کی زندگی سے نجات دلاسکتی ہے اور ان کے لئے ترقی کی راہیں ہموار ہوسکتی ہیں ۔اپنے بچوں کے عادات و اطوار پر سختی سے نظر رکھیں ۔ٹی وی اور موبائیل کے غیر ضروری استعمال سے انھیں روکیں۔ سوچ کے غلط زاویوں کو پیار و محبت سے صحیح سمت میں موڑا جائے ۔بچے ماحول کا اثر جلد قبول کرتے ہیں ممکن ہے والدین سے صحیح رہنمائی نہ ملنے پر وہ غلط راستے پرنکل پڑے اور اپنی زندگی تباہ و برباد کرلے ۔ ہمیں بچوں کی صحیح رہنمائی کرنی ہوگی تاکہ ہمارے بچوں میں خود اعتمادی ،مضبوط قوت ارادی،اور حوصلوں کی بلندی کے چراغ روشن ہوکر جہالت ،ناخواندگی ،اور بڑھتے ہوئے جرائم کے اندھیرے ختم ہوسکیں ۔

دوستو جاگتی قوموں کو ہی ملتاہے عروج

ہم جو سوئے تو کس طرح قدر جاگے

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146