کردار:
۱۔فقیر
۲۔ کالے خاں (دیہاتی)
۳۔ بھورے خاں (دیہاتی )
۴۔ سر پنچ
۵۔ مولوی صاحب
[پہلا منظر]
(گاؤں کی چوپال پر کالے خاں حقہ پیتا بیٹھا ہے۔سامنے سے بھورے خاں تیزتیز جاتاہے۔ )
کالے خاں: کیوں بھورے خاں اتنی تیزی سے کہاں بھاگا جا رہا ہے؟
بھورے خاں: تجھے حقہ پینے سے فرصت ملے تو کچھ معلوم بھی ہو۔
کالے خاں: اب ایسا بھی کیا پہاڑ ٹوٹ پڑا ہے!
بھورے خاں: ہمارے گاؤں میں ایک پہنچے ہوئے فقیر آگئے ہیں۔
کالے خاں: بھائی ہمارے گاؤں میں سب کچھ تھا، ایک پہنچے ہوئے فقیر کی کمی تھی بس۔ اللہ نے وہ بھی پوری کردی۔
بھورے خاں: لوگ کہہ رہے ہیںوقت کے قلندر ہیں۔
کالے خاں: اچھا!! ہماری خوش قسمتی ہے کہ وہ یہاں آگئے۔
بھورے خاں: لیکن سنا ہے بڑے جلالی فقیر ہیں۔
کالے خاں: مطلب؟
بھورے خاں: ارے بھائی، بہت غصہ والی شخصیت ہیں۔ جب وہ گاؤں کے پاس پہنچے تو کچھ عورتیں کنویں سے پانی نکال رہی تھیں، حضرت نے پینے کے لیے پانی مانگا، دینے میں تاخیر ہونے لگی تو بولے جلدی پانی پلاؤ ورنہ میں اس گاؤںکے ساتھ بھی وہی کروں گا جو میں نے پچھلے گاؤںکے ساتھ کیا ہے۔عورتیں ڈر گئیں اور انھیں پانی پلا کر اپنے اپنے گھر کی طرف بھاگ کھڑی ہوئیں۔
کالے خاں: اوہ، بیچاریاں اور کیا کرتیں بھلا؟
بھورے خاں: خدا جانے پچھلے گاؤں کے ساتھ حضرت نے کیا کیا ہوگا۔
کالے خاں: ہاں بھائی، اللہ والوں کی زبان سے جو نکل جائے پورا ہوجاتا ہے۔
بھورے خاں: بلکہ اللہ اپنے ولی کے ساتھ برائی کرنے والے کو خود سزا دیتا ہے۔
کالے خاں: اولیاء اللہ سے ڈرنا ہی چاہیے۔
بھورے خاں: کیا تو زیارت کے لیے نہیں چلے گا؟
کالے خاں: اس وقت کہاں ہیں؟
بھورے خاں: تیرے ہی کھیت کے پاس ڈیرا ڈالا ہوا ہے۔
کالے خاں: پھر تو میری زیادہ ذمہ داری ہے کہ ان کی خدمت کروں۔
(لوگوں کے شور کی آواز: ولی کا دامن -نہیں چھوڑیں گے۔ )
بھورے خاں: ارے حضرت تو ادھر ہی آ رہے ہیں۔
کالے خاں: (فوراً کھڑا ہو کر)اوہ، تونے یہیں باتوں میں لگا دیا۔
بھورے خاں: میں نے !! میں نے تجھے باتوں میں لگا دیا؟؟
کالے خاں: اچھا میں نے باتوں میں لگا دیا۔ ٹھیک ہے؟(دونوں دوڑ کر جاتے ہیں۔)
(ایک بہت فربہ فقیر اور اس کے ساتھ آٹھ دس افراد چوپال کے پاس پہنچتے ہیں۔)
کالے خاں: ولی کا دامن
بھیڑ: نہیں چھوڑیں گے۔نہیں چھوڑیں گے۔
فقیر: میں یہیں قیام کروں گا۔
(فقیر چبوترہ پر بیٹھ جاتا ہے۔ایک شخص تکیہ لاکر دیتا ہے۔ )
فقیر: (نیم دراز ہو کر) میرےلیے گرم چاے لاؤ۔ ورنہ میں اس گاؤںکے ساتھ بھی وہی کروں گا جو میں نے پچھلے گاؤںکے ساتھ کیا ہے۔
سرپنچ: نہیں نہیں بابا،(دست بوسی کرتا ہے۔) ایسا نہ کیجیے گا۔ کالے خاں جلدی گرم چاے لا۔
کالے خاں: ابھی لایا ۔
فقیر: یہاں پانچ اگر بتیاں بھی لگادو۔ فرشتوں کو خوشبو پسند ہے۔
سرپنچ: کالے خاں اگربتیاں بھی لانا۔
کالے خاں: جی ، جی۔ (دوڑ کر جاتا ہے)
فقیر: میں بہت دور سے چل کر آیا ہوں، کسی کو توفیق نہیں کہ ذرا میرے پاؤں داب دے۔
بھورے خاں: (کان پکڑ کر) غلطی ہوگئی، بہت معذرت۔ (چبوترہ پر بیٹھ کر پیر دابتا ہے۔)
سرپنچ: آپ بس حکم کیجیے۔ پورا گاؤں خدمت میں حاضر ہے۔
فقیر: ٹھیک ہے۔ میں رات کے کھانے میں صرف دال چاول کھاتا ہوں۔ ساتھ میں اچار، پاپڑ اور میٹھا لازمی ہوں گے۔ اور سونے سے پہلے ایک گلاس گائے کا دودھ ۔
سرپنچ: جی ، بالکل۔ناشتہ اور دوپہر کا کھانا ؟
فقیر: وہ میں وقت سے گھنٹہ بھر پہلے بتایا کروں گا۔
(کالے خاں چائے لاکر دیتا ہے۔ فقیر چائے پینے لگتا ہے۔)
[دوسرا منظر]
(فقیر نیم دراز حالت میںکیلے کھا رہا ہے ۔ آس پاس کھانے پینے کی چیزوں کا ڈھیر لگا ہے۔ایک طرف اگربتیاں جل رہی ہیں۔ بھورے خاں پیر داب رہا ہے۔)
کالے خاں: (کچھ فاصلہ سے) بھورے خاں، بھورے خاں۔
بھورے خاں: (آہستہ سے)کیاہے؟
کالے خاں: (اشارہ سے بلا تا ہے)
بھورے خاں: (اٹھ کر اس کے پاس جاتا ہے۔) یار، میں حضرت کے پیر داب داب کر تھک گیا۔
کالے خاں: اور میں گرم چائے پلا پلا کر۔گھر والی مجھے بہت کوس رہی ہے۔
بھورے خاں: پورا گاؤں کھِلا کھِلا کر تھک چکا ہے۔
کالے خاں: سب کوشش کر رہے ہیں کہ حضرت ناراض نہ ہوجائیں۔ اورانھوں نے پچھلے گاؤں کے ساتھ جو کیا ہے وہ ہمارے گاؤں کے ساتھ نہ کریں۔
بھورے خاں: لیکن اس گاؤں کے ساتھ انھوں نے کیا کیا؟
کالے خاں: اللہ جانے اور اس گاؤں کے رہنے والے جانیں۔
بھورے خاں: اور یہ جانیں۔
کالے خاں: کیوں نہ پھر انھیں سے پوچھ لیں؟
بھورے خاں: ہاں، یہ اچھا خیال ہے۔ تو پوچھ لے۔
کالے خاں: مجھے حضرت سے ڈر لگتا ہے بھائی۔ تو روزانہ ان کے قدموں میں بیٹھ رہا ہے ، تو ہی پوچھ لے۔
بھورے خاں: اچھا۔
(دونوں فقیر کے پاس جاتے ہیں۔)
بھورے خاں: (پیروں پر ہاتھ رکھ کر) اجازت ہو تو آپ سے ایک بات پوچھنی تھی۔
فقیر: (کیلا چھیلتے ہوئے)ہاں ہاں، پوچھو۔
بھورے خاں: آپ نے پچھلے گاؤں کے ساتھ کیا کیا؟
فقیر: میں نے اس گاؤںکو اپنے وجود کی برکت سے محروم کردیا اور یہاں چلا آیا، اب اگر تم لوگوں نے میری قدر نہ کی تو میں اس گاؤں کو بھی اپنے قدموں کی برکت سے محروم کر دوں گا۔
بھورے خاں: سنا کالے خاں، حضرت نے پچھلے گاؤں کے ساتھ کیا کیا؟
کالے خاں: (ہنستے ہوئے)ہاں بھائی سن لیا۔
بھورے خاں: تو پھر کیا خیال ہے ؟
کالے خاں: (آگے بڑھ کر فقیر کے ہاتھ سے کیلا چھین لیتا ہے۔)
فقیر: (غصہ سے) یہ کیا بد تمیزی ہے؟
کالے خاں: ہم چاہتے ہیں کہ آپ ہمارے ساتھ بھی وہی کریں جو آپ نے پچھلے گاؤں کے ساتھ کیا ہے۔
فقیر: تمھارے دل میں خدا کا خوف نہیں؟
کالےخاں: اگر ہمارے دل میں خدا کا خوف ہوتا تو تم سے کیوں خوف زدہ رہتے؟؟
مولوی صاحب: سچ کہا، بھورے خاں۔ ڈرنے کامستحق تو صرف اللہ ہے۔
کالے خاں: ارے ، مولوی صاحب۔السلام علیکم۔
مولوی صاحب: وعلیکم السلام۔میاں بڑی جرات کا مظاہرہ کیا تم نے اور ماشاء اللہ حق بات کہہ دی۔
بھورے خاں: (دھیرے سے) واہ بیٹا، بیوی کی دتکار نے تجھے معرفت عطا کردی۔
کالے خاں: شش۔
فقیر: (کھڑا ہوکر) تم پر لعنت ہو۔ تم نے اس گاؤں کو رحمتوں اور برکتوں سے محروم کردیا۔
مولوی صاحب: بہت ہوا، اب نکلویہاں سے۔
فقیر: اس گاؤں کی بد قسمتی کے لیے تم ہی ذمہ دار رہوگے۔
بھورے خاں: (دونوں ہاتھ آگے لے جاکر) میں صرف پیر نہیں بلکہ گلا بھی …
(فقیر فوراً اٹھ کر بھاگ جاتا ہے۔ تینوں قہقہہ لگاتے ہیں۔)