الفاظ اس کے ہونٹوں پر سے لرز لرز کر ٹوٹ رہے تھے۔ سوزی! برسات کی پہلی بوند نے آج پھر میری رگِ جان پر مضراب رکھ دی ہے۔ اور ایک مضطرب و بے چین نغمہ میری روح تک پر سوار ہوگیا ہے۔ گرمی کی تپش سے جھلسی ہوئی دھرتی کے سینے سے دیکھو۔ دھواں سا ابل رہا ہے اور میرے سینے میں کھولتا ہوا آتش فشاں بھی پھٹ جانے کو ہے جیسے میرے سینے کی دیوار اگلے لمحے ٹوٹ جائے گی اور یہ دنیا کبھی نہ بجھنے والی آگ کی لپیٹ میں آجائے گی — مگر کہاں —؟ ایسا کب ہوتا ہے۔ ایسا کب ہوا ہے کہ کوئی کسی کے غم کی آگ میں جل گیا ہو۔ اور یہ آتش فشاں تو ہر سال یونہی کھولتا ہے، کبھی تو نہیں پھٹتا — ہر سال بارش کے پہلے چھینٹے کے ساتھ گم گشتہ یادوں کے دیپک میری ویران زندگی کے اندھیاروں کو روشنی دے جاتے ہیں۔ اور پھر زمانے کے جھکڑ ان ٹمٹماتے دیوں کو بجھا دیتے ہیں۔ دس سال بیت گئے ہیں اور ان دس سالوں نے میری زندگی سے قہقہے چھین لیے۔ میرے ہونٹوں سے مسکراہٹیں نوچ لیں اور حد ہے کہ آنکھوں کے آنسو بھی لوٹ لیے ہیں۔ اب صرف آہیں باقی رہ گئی ہیں۔
مشرقی دریچے میں کھڑی وہ اپنے جیون میں بکھرے ہوئے موتی اور پتھر اکٹھے کررہی تھی — موتی — جن پر والدین کی شفقت کا اجلا پانی تھا اور — ندیمؔ کے بوسوں کی لہریں تھیں۔ پتھر — جن پر زمانے کی چیرہ دستیوں کے نشان تھے اور عزیزوں کی بے مہری کے داغ — پتھر جو قسمت نے سمیٹ کر اس کے ریشمی پلو میں باندھ دئے تھے۔ اور وہ نازک سا پلوان سنگریزوں کے بوجھ کو سہار نہ سکا تھا وہ پھٹ گیا تار تار ہوگیا۔ اور دھجیاں اس کا مقدر بن گئیں۔ وہ ان دھجیوں کو سمیٹے — زمانے کی سنگ دلی کو سینے سے لگائے زندگی کے خارزاروں میں کھو گئی۔ انجم مرگئی۔ اور ایک نرس نے جنم لے لیا۔
میں اس نرس کو پچھلے دو سال سے جانتی ہوں۔ ہر بہار اس کے لیے خزاں کا پیغام بن کر آتی ہے۔ اس کا غم اپنا ہے — صرف اپنا۔ کوئی شریک نہیں — کوئی بھی غمخوار نہیں اور بتاتی بھی تو نہیں آج جانے کیوں — اور کیسے کھلی جارہی ہے۔
رات بھیانک حد تک تاریک ہے۔ مریض کچھ سوگئے ہیں — کچھ کراہ رہے ہیں۔ اور آسمان پر ستارے بادلوں کے دامن میں منہ چھپائے جیسے چپکے چپکے رو رہے ہیں۔ ان کی سسکیوں تک کی آواز نہیں ہے۔ البتہ ان کے ٹوٹ ٹوٹ کر گرتے ہوئے آنسوؤں کا دھیما دھیما جلترنگ ضرور ہے۔ اور اس کی آنکھوں میں ویران سائے سمٹ آئے ہیں اور اس کے ہونٹوں پر سے کانپ کانپ کر ٹوٹتے ہوئے الفاظ کی مالا بکھری جارہی ہے۔
دیکھو — بہت دور کوئی پندرہ سال پیچھے — ایک پیار— ایک اجالا — ندیمؔ۔ میری زندگی کا ہمراہی۔ شادیانے — شہنائیاں — ایک بارات — تکمیل آرزو— آرزو کی موت۔ اور آخر — تشنہ لبی۔ ندیمؔ کے چہرے پر لہراتی ہوئیں سہرے کی لڑیاں۔ پیار کے رشتوں میں گندھے ہوئے امیدوں کے پھول — کتنی مٹھاس اور کتنا رس تھا ان لمحوں میں اور وہ کیف آگیں لمحے کس قدر مختصر تھے۔ بس پلک جھپکتے ہی بیت گئے تھے۔ بچپن کی ماں کی ممتا۔ باپ کی شفقت اور بھائی بہنوں کے پیار کے سائے تلے چھوڑ کر ایک نئے گھر میں آئی۔ مگر — یہ گھر نیا کہاں تھا — یہ تو میرا اپنا گھر تھا — ایسا لگتا تھا جیسے جنم جنم سے اسی گھر میں رہتی آئی ہوں۔
اور ندیم — اس کی صحبت میں جیسے زمانے بھر کی خوشیاں تھیں — نغمے تھے — ایک سکون تھا — ایک سلجھی ہوئی زندگی تھی۔ کتنی امیدوں کے چراغ ہم نے روشن کیے تھے۔ کتنے حسین خواب ہم نے اکٹھے کیے تھے۔ زندگی انہی چراغوں کی روشنی میں آگے بڑھتی رہی — زندگی کے شام وسحر اسی سکون اور اسی ٹھیراؤ میں گزرتے رہے۔ چار سال بیت گئے —
اور پھر — اس سکوت میں ایک ہلکا سا ارتعاش — اس ٹھیراؤ میں ایک دھمی سی جنبش— جیسے کسی طوفان کا پیش خیمہ ہے — میری روح جیسے لرز اٹھی — عزیزوں کی مشکوک نگاہیں — بے پناہ نفرت اگلتی ہوئی — یہ نفرت کے تیر — مجھے گھائل کرنے لگے۔
ندیمؔ بھی تو جیسے بدل سا گیا تھا — اس کا پیار — اس کی محبت — جیسے آگ بجھ چکی تھی — راکھ ٹھنڈی ہوگئی تھی۔ ابھی چند ماہ ہی گزرے تھے — تقدیر نے ایک دفعہ پھر کروٹ بدلی۔ عزیزوں کے ہونٹوں پر مہربان مسکراہٹیں رقص کرنے لگیں۔ امی کہتیں — انجم بیٹی چیزیں نہ اٹھاؤ، بہو کو کہو وہ یہ کام کرے گی۔
ندیمؔ کہتے — انجم دن بھر کام میں مت جٹی رہا کرو۔ تمہیں آرام کی ضرورت ہے۔ قہقہے پھر میری زندگی میں لوٹ آئے — خوشیاں پھر میری راہوں سے لپٹنے لگیں۔
اور پھر — ایک ایسی طوفانی رات تھی برسات کی پہلی بارش۔ جب وہ لمحہ آگیا — امیدوں کی تکمیل کا۔ ’’بڑے بے چین ہیں آپ کے وہ۔‘‘ نرس نے چٹکی لی۔
اور میں جیسے کٹ کر رہ گئی۔ میرے لبوں پر پیار کے ساغروں کی ڈوبی ہوئی مسکراہٹیں لہراگئیں اور — پھر — میرے کانوں سے ایک آواز ٹکرائی — معلوم سی آواز — میں نے دھیرے دھیرے آنکھیں کھول دیں۔ ’’بیٹی‘‘ — نرس نے میرے کان میں بتایا اور پھر دروازے تک چلی گئی۔
’’بتا آئی ہوں — بڑے بے صبر تھے آپ کے وہ‘‘ اس نے پھر چٹکی لی۔
اور باہر موٹر سائیکل کے اسٹارٹ ہونے کی آواز آئی۔
ندیمؔ غالباً گھر خبر دینے چلے گئے تھے۔
کئی گھنٹے گزر گئے مگر ندیمؔ لوٹ کر نہ آئے۔ ہاں ایک خبر آئی۔
’’مسز ندیم کون ہیں؟‘‘ نرس کی آواز تھی۔
’’جی!‘‘ — میں نے جواب دیا۔ اور دوسرے لمحے تیر کی مانند اس کے الفاظ سینے میں پیوست ہوگئے۔ نرس کہہ رہی تھی۔ ’’مسٹر ندیمؔ کا ایکسیڈنٹ ہوگیا ہے ان کی حالت سیریس ہے۔ سرجیکل وارڈ روم نمبر :۶ میں ہیں آپ کو بلا رہے ہیں۔‘‘
جانے کیوں اس وقت میں چیخ بھی نہ سکی، آنکھوں کے سوتے بھی خشک ہوگئے اور میری آنکھیں جیسے پھٹ کر رہ گئی تھیں — ٹرالی پر مجھے ان کے کمرے تک چھوڑا گیا۔ کمرے میں چیخیں تھیں اور نوحے — مجھے ایسے محسوس ہوا جیسے یہ ایک لمحے کی خوشیاں — خوشیوں کے بھڑکتے ہوئے چراغ کی آخری لَو تھی۔ اور اب میرے چاروں طرف اندھیرا تھا اور ویرانیاں تھیں — ندیمؔ ایک ہمراہی — ایک رہبر اب ہمیشہ کے لیے راستہ بدل گیا تھا۔
گھر کے لوگوں کی نگاہوں میں پھر نفرت ابل آئی تھی اور اس ننھی سی جان کو منحوس اور جانے کیا کیا خطاب دئے جارہے تھے۔ میں نے سوچا ’’کیا معصوم روحیں بھی منحوس ہوسکتی ہیں۔‘‘ ماں کی ممتا چیخ اٹھی ’’نہیں — ایسا نہیں ہے۔‘‘
وہ گھر جو میرا تھا، جنم جنم سے میرا تھا۔ اب میرا نہیں رہا — پہاڑ سی زندگی — امی کا تقاضہ، دوسری شادی، بھائیوں کی چبھتی چبھتی باتیں — اور ندیم کی یادوں کے جلتے بجھتے دیپ — اور وہ ننھا سا دیپک — جسے میں زندگی کی روشنی سمجھے بیٹھی تھی۔
نہیں، اب شادی کبھی نہیں ہوگی۔ یہ میرا آخری فیصلہ تھا — اس فیصلے نے میرے ضمیر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔
’’اب تمہارا یہاں کیا دھرا ہے — کیوں بھائیوں کے ٹکڑوں پر آپڑی ہو؟
خیالات میرے ضمیر کو چرکے لگارہے تھے۔
اور آخر — میں نے زندگی کو اس نئی ڈگر پر ڈال دیا۔ اور میں اپنے آپ کو اس ہسپتال میں لے آئی۔ جہاں میرے سہاگ کی چوڑیاں ٹوٹی تھیں۔ اور پھر ایک حادثہ اور میری قسمت میں تھا۔ میری گڑیا جو میرا واحد کھلونا تھی، روٹھ کر چلی گئی۔ شاید اس لیے کہ اس معصوم کو بے درد اور ناانصاف زمانے کے الفاظ برے لگ گئے۔ وہ ’’منحوس‘‘ کے لفظ کو جھیل نہ سکی اوروہ بے درد زمانے پر لعنت بھجتی ہوئی اس دنیا سے رخصت ہوگئی۔
میں نے دس سال اس ہسپتال میں گزار دئے۔ جب بھی کوئی سیریس مریض یہاں آتا ہے، تو میری آنکھوں میں بے ساختہ آنسو آجاتے ہیں۔
ہر روز یہاں خوشیاں بھی جنم لیتی ہیں اور روزانہ یہاں سے جنازے بھی اٹھتے ہیں۔ یہ خوشیاں — یہ جنازے — زخمی یادوں کو کریدتے ہیں اور یہی یادیں کبھی کبھی ناسور بن جاتی ہیں۔