انگریزی کا مشہور مقولہ ہے: ’’جلد سونا اور صبح سویرے اٹھنا انسان کو صحت مند، دولت مند اور عقل مند بناتا ہے۔‘‘رات کو جلد سونے اور صبح سویرے بیدار ہونے کی اہمیت و افادیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا، تمام اطبا اور ماہرینِ حفظانِ صحت اس پر زور دیتے ہیں۔
اسلام میں ہر مسلمان پر روزانہ پانچ نمازیں وقت پر پڑھنا فرض ہے … ان میں تین نمازوں (ظہر، عصر اور مغرب) کا تو دن کے کام کاج کے درمیان وقت آتا ہے جب کہ دو نمازوں (عشاء اور فجر) میں سے ایک نماز کوسونے سے پہلے جبکہ دوسری نماز کو پو پھٹتے ہی ادا کرنے کا حکم آیاہے، رات اور صبح کی دو نمازیں بڑی اہمیت رکھتی ہیں۔ اس کے ساتھ اول وقت پر نمازیں ادا کرنے کی بھی ہدایت ہے۔ عشاء کی نماز ادا کرنے کے بعد یہ حکم ہے کہ اس کے فوراً بعد سوجانا چاہیے اور بلا ضرورت رات گئے تک فضول باتوں یا کاموں میں وقت ضائع نہیں کرنا چاہیے اور صبح کی نماز کے لیے پو پھٹتے ہی اٹھ کھڑا ہونا چاہیے۔
عشاء اور فجر کی نمازوں کا اندازہ اس سے ہوسکتا ہے کہ خاتم النبیین محمد رسول اللہ ﷺ بعض دفعہ فرمایا کرتے تھے: ’’اے لوگو! میرا جی چاہتا ہے کہ تم تو نماز پڑھو اور میں جنگل میں جاکر خشک لکڑیاں جمع کرلاؤں اور ان لوگوں کے گھر پھونک دوں جو عشاء کی نماز میں نہیں آتے اور صبح کی نماز کے وقت بستروں میں پڑے سوتے ہیں۔‘‘
پھر آپ ﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ منافق پر صبح اور عشاء کی نماز گراں گزرتی ہے، ان نمازوں میں شامل ہونے کے لیے گھٹنوں کے بل چل کر آنا پڑے تو بھی آؤ (یعنی سچے مسلمانوں کو ان نمازوں کو ادا کرنے میں کسی کسملندی اور سستی کا اظہار ہرگز نہ کرنا چاہیے) اس کے علاوہ آپ ﷺ کا یہ ارشاد بھی ہے کہ سویرے اٹھا کرو کیونکہ اس کے بڑے فائدے ہیں۔
نیز رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’رات اور دن کے فرشتے فجر اور عصرکی نماز کے وقت جمع ہوتے ہیں۔ (رات والے فرشتے) آسمان پر جاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ اُن سے دریافت فرماتا ہے، حالانکہ اُسے اُن سے (یعنی فرشتوں سے) خود زیادہ علم ہے۔ (ربِ کریم اُن سے پوچھتا ہے) تم نے میرے بندوں کو کیسے چھوڑا، وہ کہتے ہیں ہم نے ان کو نماز پڑھتے چھوڑا ہے اور جب ہم گئے تھے، اُس وقت بھی نماز پڑھ رہے تھے۔
یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ عصر اور فجر کی نمازوںکا ذکر اس لیے آیا ہے کہ عصرکاروبار کی گہما گہمی اور مشغولیت کا وقت ہوتا ہے جبکہ فجر نیند اور آرام کا، جو شخص ان نمازوں کو بروقت ادا کرسکتا ہے، وہ باقی نمازیں بھی ضائع نہیں کرے گا، اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ کوئی شخص اگران دو نمازوں کی حفاظت کرلے تو باقی معاف ہوجاتی ہیں۔
اس آیت مبارکہ پر بھی غور کرلیجیے، جس سے فجر کے وقت کی اہمیت واضح ہوجاتی ہے:
أَقِمِ الصَّلاَۃَ لِدُلُوْکِ الشَّمْسِ إِلَی غَسَقِ اللَّیْْلِ وَقُرْآنَ الْفَجْرِ إِنَّ قُرْآنَ الْفَجْرِ کَانَ مَشْہُوداًo (بنی اسرائیل:۷۸)
’’(مسلمانو!) نماز قائم کرو زوالِ آفتاب سے لے کر رات کے اندھیرے تک اور فجر کے قرآن کا بھی التزام کیا کرو کیونکہ قرآنِ فجر مشہود ہوتا ہے۔‘‘
لدلوک کے معنی زوال (آفتاب ڈھلنے) کے اور غسقکے معنی تاریکی کے ہیں، آفتاب ڈھلنے کے بعد ظہر اور عصر کی نمازیں اور رات کی تاریکی تک سے مراد مغرب اور عشاء کی نمازیں ہیں۔ اور قرآن الفجر سے مراد فجر کی نماز ہے۔ یہاں قرآن، نماز کے معنی میں ہے۔ اس کو قرآن سے اس لیے تعبیر کیا گیا ہے کہ نمازِ فجر میں قرأت لمبی ہوتی ہے، اس طرح اس آیت میں پانچوں فرض نمازوں کا اجمالی ذکر آجاتا ہے، جن کی تفصیلات احادیث میں ملتی ہیں اور جو امت کے عملی تواتر سے بھی ثابت ہیں۔‘‘ (احسن البیان)
پھر سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو آپ ﷺ نے مرض الموت میں نمازِ فجر کے بارے میں خاص طور پر فرمایا: ’’خواہ ساری رات عبادت میں گزارو، نمازِ فجر بیدار ہوکر ضرور پڑھنا۔‘‘
رسول اللہ ﷺ کے عہدِ سعادت میں خواتین بھی نماز کے لیے مسجد میں آتی تھیں اور نمازِ فجر پو پھٹنے پر ہی ادا کرلی جاتی تھی۔ سیدہ عائشہ ؓ فرماتی ہیں: ’’رسول اللہ ﷺ نمازِ فجر ادا فرماتے اور عورتیں چادر لپیٹ کر واپس ہوتیں، اندھیرے کی وجہ سے پہچانی نہ جاسکتیں۔‘‘
اسلام کی پاکیزہ تعلیمات جسم و روح دونوں کو نکھارتی ہیں اور دنیا اور آخرت میں کامیابی کی نوید عطا کرتی ہیں۔ مگر افسوس کہ مسلمان اس دولت گرانمایہ سے غافل ہیں تو شاعرِ مشرق کے ہم نوا ہوکر یہ کہنا پڑتا ہے:
کس قدر تم پہ گراں صبح کی بیداری ہے!
ہم سے کب پیار ہے؟ ہاں نیند تمہیں پیاری ہے
طبع آزاد پہ قیدِ رمضاں بھاری ہے
تمہیں کہہ دو یہی آئینِ وفاداری ہے
قوم مذہب سے ہے، مذہب جو نہیں، تم بھی نہیں
جذبِ باہم جو نہیں، محفلِ انجم بھی نہیں
صبح کا وقت کھونا بہت بڑی دولت ضائع کرنا ہے۔ صحت کی برباد ی کے علاوہ وقت کا بھی ناقابلِ تلافی نقصان ہے۔ اگر ہمارے پہلو میں حق شناس دل ہے تو وہ یقینا گواہی دے گا کہ پرندے بھی فضا میں اور درختوں کی ٹہنیوں پر چہچہا کر ربِ کائنات کی تسبیحات میں مصروف ہوتے ہیں اور کائنات کی تو ہر چیز اُس کی حمد و ثنا میں مصروف ہوتی ہے۔ افسوس کہ انسان اشرف المخلوقات ہونے کے باوجود غفلت کا شکار ہے، ہاں اللہ کے نیک بندے یقینا اپنے رب سے لو لگائے ہوتے ہیں:
’’اللہ تعالیٰ کی پاکی تو ساتوں آسمان اور زمین اور وہ ساری چیزیں بیان کررہی ہیں جو آسمان و زمین میں ہیں، کوئی چیز ایسی نہیں جو اُس کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح نہ کررہی ہو، مگر تم اُن کی تسبیح سمجھتے نہیں، حقیقت یہ ہے کہ وہ بڑا ہی برد بار اور درگزر کرنے والا ہے (یہ اس کا حلم ہے کہ وہ بار بار لوگوں کو معاف فرماتا رہتا ہے کہ شاید وہ سنبھل کر راہِ راست پر آجائیں۔) (بنی اسرائیل: ۴۴)
——