کون یقین کرے گا کہ برف کا تودا جلتا ہے؟ یقینا کوئی بھی نہیں کرسکتا۔ لیکن یہ سچ ہے۔ ہمارے فریج میں رہنے والے برف کے ٹکڑے کو اگر آپ آگ پر رکھیں گے تو وہ آگ تو بجھ جائے گی۔ تو پھر جلنے والا برف کا تودا کون سا ہوسکتا ہے؟ جی ہاں! یہ ایک عجیب و غریب قسم کا تودا ہے جو سمندر کی گہرائی یا تھل میں پایا جاتا ہے۔
زمین پر پائی جانے والی چیزیں عام طور پر ٹھوس (سخت)، پانی یا گیس کی حالت میں پائی جاتی ہیں۔ یوں کہیے کہ ہر چیز میں یہ تین خاصیتیں پائی جاتی ہیں۔ یہ تو ہم سب جانتے ہیں کہ ہر چیز کی خصوصیت اس کی اندرونی تپش پر منحصر ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر عام تپش (حرارت) میں پانی بہاؤ کی حالت میں رہتا ہے۔ اس کی تپش کو ۱۰۰ ڈگری تک بڑھادیا جائے تو بھاپ بن جاتا ہے۔ صفر ڈگری تک اتار دینے سے برف کا ڈھیلا بن جاتا ہے۔ چیزوں کی خصوصی تبدیلی بھی صرف تپش کے علاوہ اس کے دباؤ پر بھی منحصر ہوتی ہے۔ تپش کو کم کرنے کے بجائے دباؤ کو بڑھا دینے سے بھی گیس بہاؤ کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔مائیکل فیرڈے نے عام تپش سے ہی کلورین گیس پر زیادہ دباؤ استعمال کرکے اس کی بہنے والی خصوصیت سے آگاہ کیا ہے۔ یہ تجربہ ۱۸۲۳ء میں کیا گیا۔ تب سے کئی گیسوں کو دباؤ کے استعمال سے بنی ہوئی اور بہنے والی اشیاؤں کو ٹھوس شکل میں تبدیل کرنا ممکن ہوا ہے۔
میتھین ہائیڈریٹ
سمندر کی تہ میں سیڈیمنٹ (Sediment) جمع رہتی ہے۔ سیڈیمینٹ میں رہنے والے بیکٹیریا آرگینک (Organic) چیزوں کو کھا کر میتھین گیس تیار کرتے ہیں۔ میتھین گیس کو فضائی گیس یا ماحولی گیس کے نام سے پکارا جاتا ہے۔
سمندر کی گہرائی میں گرمی کی مقدار کم ہوتی ہے لیکن دباؤ زیادہ جب کہ سمندر کے تھل میں رہنے والے پانی یا آبی ذرات منجمد ہوکر پنجرہ کی طرح مربع نما شکل اختیار کرتے ہیں۔
اس کے اندر میتھین کا ذرہ پھنس جانے سے وہ میتھین ہائڈریٹ کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ وہ ایک سرخ رنگ کے برفی ٹکڑے کی طرح دکھائی دیتا ہے۔ اس کو آگ لگنے سے جلنا شروع ہوتا ہے۔ یہی ہے وہ جلنے والا برف کا تودا۔