جموں و کشمیر میں تباہ کن سیلاب نے تاحال سیکڑوں جانیں لے لی ہیں۔ ہلاک شدگان کی حقیقی تعداد کا اندازہ فی الحال اس لیے لگانا ممکن نہیں کہ سیلاب کی صورتِ حال ابھی تک تباہ کن بنی ہوئی ہے۔ لیکن اندیشہ ہے کہ مرنے والوں کی تعداد معلوم تعداد سے کہیں زیادہ ہوسکتی ہے۔ جب کہ لاکھوں افراد بے گھر اور بے سہارا ہوکر امداد کے منتظر ہیں۔ اگرچہ حکومت کی مشینری اور فوج اپنے ذرائع کے ساتھ راحت رسانی میں لگی ہوئی ہے لیکن اس کے باوجود وہ تاحال (۱۴؍ ستمبر تک) تمام متاثرین تک پہنچنے اور انہیں امداد فراہم کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی۔ بعض مقامات پر عوام نے غصہ اور اشتعال کا بھی مظاہرہ کرتے ہوئے حکومتی مشینری پر راحتی کام میں سستی اور تعصب کا بھی الزام لگایا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ حکومت سیاحوں اور خصوصی افراد کے نکالنے کو ترجیح دے رہی ہے۔ ایسے سنگین اور تکلیف دہ حالات میں حکومت کو چاہیے کہ وہ ہر قسم کے تعصب سے اوپر اٹھ کر پریشان حال لوگوں کے لیے راحت رسانی کا کام کرے اور عوام کے ذہن میں کسی بھی قسم کی عصبیت، سستی اور تساہلی کا تصور پیدا ہی نہ ہونے دے تاکہ مشکل کی گھڑی میں عوام کا صبر و تحمل اور حکومتی نظام پر اعتماد بحال بھی رہے اور مضبوط بھی ہو۔ جموں و کشمیر کی ریاست کے سلسلہ میں تو یہ بات خاص طور پر حکومت کے پیش نظر رہنی چاہیے اور اس موقع کو کشمیری عوام کے دل جیتنے کے لیے استعمال کرنا چاہیے۔
سیلاب کی اس صورت حال کے ختم ہوتے ہی کشمیر کے خطے میں بیماریوں کے پھوٹ پڑنے کاپورا امکان ہے جیسا کہ عام طور پر سیلاب زدہ علاقوں میں سیلاب کے بعد ہوتا ہے۔ اس صورت حال سے نمٹنے اور کشمیر کے عوام کو وبائی امراض سے بچانے کے لیے جہاں حکومتی نظام سے مستعدی درکار ہے وہیں ہندوستانی عوام کا بھی تعاون درکار ہے۔
کشمیر میں آنے والا یہ سیلاب جس قدر سنگین ہے اور جس وقت آیا ہے اس نے بے مثال تباہی کے مناظر پیش کیے ہیں۔ سری نگر شہر کے بلند ترین مقامات پر بنے گھروں کی بھی دوسری منزل تک پانی پہنچ گیا۔ ایسے میں ان گھروں کا کیا ہوا ہوگا، جو کسی قدر نشیب میں واقع ہوئے تھے۔ اسی طرح یہ وقت کشمیر کے عوام کی اقتصادی زندگی کے لیے بھی بڑا اہم وقت تھا۔ تمام فصلیں تیار تھیں جو اس سیلاب میں تباہ و برباد ہوگئیں۔ ایسے میں کشمیر کے لاکھوں گھروں کی معیشت کا کیا ہوگا یہ ایک بڑا سوال ہے؟
ہم اللہ پر توکل کرتے ہیں اور یہ یقین رکھتے ہیں کہ رزق اللہ کے ہاتھ میں ہے اور وہ اپنے بندوں کو جب اور جس طرح چاہے گا فراہم کرے گا۔ لیکن ساتھ ہی اس طرف توجہ دلانا بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے کمزور اور مصیبت زدہ بندوں کی مدد کرنے کی ذمہ داری خوش حال اور سکون سے ہم کنار انسانوں پر ڈالی ہے اور اسے پسندیدہ عمل قرار دیا ہے۔ اللہ کے رسولؐ نے فرمایا! بے شک اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی مدد کرتا ہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد کرتا ہے۔‘‘ کشمیر کے عوام انسانی رشتے سے بھی ہمارے بھائی ہیں اور دینی رشتہ سے بھی ہمارے بھائی۔ اس موقع پر ہندوستان کے ہر گوشے سے ان کے لیے دست تعاون دراز کرنا دینی، انسانی اور قومی فریضہ ہے۔
اس موقع پر اس حقیقت کی طرف اشارہ کرنا بھی مناسب ہے جس کو ماہرین ماحولیات و ارضیات اس طرح کے واقعات کا سبب قرار دیتے رہے ہیں۔ دو سال قبل اترا کھنڈ میں بھی اسی قسم کی تباہی کے بعد ملک میں کہرام مچ گیا تھا۔ اس وقت ماہرین ماحولیات نے بڑے پیمانے پر یہ بات حکومت اور عوام کو بتائی تھی کہ انسان اپنے تجارتی اور مالی مفاد کی خاطر جس طرح قدرت اور فطرت کے ساتھ کھیل رہا ہے اس سے اس طرح کی کیفیت عام ہوجانے کا امکان ہے۔ ماہرین نے اس وقت حکومت اور عوام کو آگاہ کیا تھا کہ پہاڑوں اور جنگلات کے ساتھ یہ کھیل اگر بند نہ کیا گیا تو اس سے بھی بڑے اور خراب نتائج دیکھنے کے لیے لوگوں کو تیار رہنا چاہیے۔
اب جب کہ کشمیر میں اسی طرح کی صورت حال پیدا ہوئی ہے تو ماہرین پھر اسی بات کا اعادہ کر رہے ہیں اور وارننگ دے رہے ہیں کہ اگر قدرت کے ساتھ چھیڑ چھاڑ بند نہ ہوئی تو میدانی علاقوں میں بھی اسی طرح کے حالات پیش آسکتے ہیں۔
حقیقت میں انسان نے اپنے مادی اور تجارتی مقاصد کے لیے جس قدر قدرتی وسائل کی تباہی موجودہ دو دہائیوں میں کی ہے وہ کبھی پہلے نہ ہوئی تھی۔ پانی اور ماحولیات کی آلودگی، زمین میں پانی کے ذخائر کی کمی اور مسلسل گرتی زیر زمین پانی کی سطح انسانوں کے اپنے اعمال کا ہی نتیجہ ہیں۔
اس وقت ضرورت ہے کہ ہم اور ہماری حکومتیں ان آفات سے سبق لے کر فطرت کی بقا کے لیے کوشش کریں اور نظامِ قدرت کے ساتھ چھیڑ چھاڑ سے باز آئیں۔ ورنہ ہوسکتا ہے کہ مستقبل اور زیادہ شدید مسائل لیکر آئے۔lll