جنت، صرف جنت

سید قطب شہیدؒ

بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم
لا یغرنک تلقب الذین کفروا فی البلادo متاع قلیل ثم ماوٰہم جہنم وبئس المہادo لٰکن الذین اتقوا ربہم لہم جنّٰتٌ تجری من تحتہا الانہٰر خٰلدین فیہا نزلا من عند اللّٰہ وما عند اللّٰہ خیر للابرارo (ال عمران: ۱۹۶-۱۹۸)
’’شہروںمیں اہلِ کفر کی چلت پھرت سے دھوکے میں نہ آنا۔ یہ بس تھوڑا ہی فائدہ ہے۔ پھر ان کا ٹھکانا جہنم ہے اور بہت بڑا گہوارہ ہے وہ۔ برعکس اس کے، جن لوگوں نے اپنے رب کی نافرمانی سے بچتے ہوئے زندگی گزاری، ان کے لیے باغات ہیں، جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے، سامانِ ضیافت ان کے رب کے پاس سے اور جو اللہ کے پاس ہے، وہ (لذائذ دنیا سے) کہیں بہتر ہے، حق شناسوں کے لیے ہے۔‘‘
شہروں اور ملکوں میں اہلِ کفر کی چلت پھرت اس بات کی مظہر ہے کہ وہ نعمتوں سے مالا مال اور صاحبِ مرتبت و اقتدار ہیں۔ یہ ایسی صورتِ حال ہے جس سے دلوں میں لامحالہ خلش محسوس ہوتی ہے، خصوصاً اہلِ ایمان کے دلوں میں، جو تنگ دستی اور محرومی کی مشقت جھیل رہے اور اذیت، ظلم و ستم اور جہاد کی زحمتیں اٹھا رہے ہیں۔ اس صورت حال سے غافل اور بے خبر عوام کے دل بھی متاثر ہوتے ہیں۔ وہ اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں کہ حق اور اہلِ حق زحمتوں اور مشقتوں سے دوچار ہیں اور اہلِ باطل نہ صرف یہ کہ ان زحمتوں سے نجات پائے ہوئے ہیں، بلکہ خوش حالی کی زندگی گزار رہے ہیں (یہ صورتِ حال ان کے لیے فتنہ بن سکتی ہے)۔ پھر اس صورتِ حال کا اثر خود گمراہ اہلِ باطل کے دلوں پر پڑتا ہے اور وہ ضلالت، کبر و عناد اور شر اور فساد میں بڑھتے چلے جاتے ہیں۔
جاودانی نعمتیں اور اللہ کا اعزاز
تب دلوں کو چھونے والی یہ آیت آتی ہے:
لا یغرنک تقلب الذین کفروا فی البلادo متاع قلیل ثم ماوٰہم جہنم وبئس المہادo (آل عمران: ۱۹۶-۱۹۷)
’’شہروں اور اہلِ کفر کی چلت پھرت سے دھوکے میں نہ آنا۔ یہ بس تھوڑا ہی فائدہ ہے۔ پھر ان کا ٹھکانا جہنم ہے اور بہت برا گہوارہ ہے وہ۔‘‘
تھوڑا سا سامان یا تھوڑا سا فائدہ جو جلد ختم ہوجائے گا، اس کے بعد اس کا دائمی و ابدی ٹھکانا جہنم ہے اور وہ بہت برا گہوارہ ہے (مہاد کے معنی بچھونے، گہوارے اور آرام کی جگہ کے ہیں۔ اس میں شدید طنز ہے کہ ان کے لیے اگر کوئی آرام کی جگہ ہے تو وہ دوزخ ہے۔ مترجم)۔
اس قلیل اور فانی و ناپائدار متاع کے مقابلے میں جنتیں (باغات)، ہمیشگی اور اللہ کی جانب سے اعزاز و اکرام ہے:
جنت تجری من تحتہا الانہار خالدین فیہا نزلا من عند اللّٰہ وما عنداللّٰہ خیر للابرار۔ (آل عمران: ۱۹۸)
’’باغات، جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے، سامانِ ضیافت ان کے رب کی طرف سے۔ اور جو اللہ کے پاس ہے، وہ (لذائذِ دنیا سے) کہیں بہتر، حق شناسوں کے لیے ہے۔‘‘
جو شخض اس حصے (متاعِ دنیا) کو ایک پلڑے میں رکھے گا اور اس حصے (جزائے اخروی) کو دوسرے پلڑے میں رکھے گا، اسے اس امر میں کوئی شک نہ رہے گا کہ جو اللہ کے پاس ہے وہ متاعِ دنیا سے کہیں بہتر ہے اور وہ ابرار کے لیے ہے اور اس کے دل میں کوئی شبہہ نہ رہے گا کہ متقین کا پلڑا کفار کے مقابلے میں کہیں جھکا ہوا ہے۔ ہر صاحبِ عقل اسی حصے کو اپنا ناپسند کرے گا، جسے ’اولی الالباب‘ اپنے لیے پسند کرتے ہیں۔
صرف اخروی وعدہ:
تربیت اور اسلامی فکر کی بنیادی قدروں کو بیان کرنے کے موقع پر اللہ تعالیٰ اہلِ ایمان سے فتح و نصرت کا وعدہ نہیں کررہا، نہ یہ وعدہ کررہا ہے کہ ان کے دشمن مغلوب ہوں گے، نہ یہ وعدہ کہ انھیں زمین میں غلبہ حاصل ہوگا۔ وہ اس دنیا کی اشیا میں سے —جن کا دوسرے بہت سے مواقع پر وہ ان سے وعدہ فرماتا ہے اور جنھیں وہ اپنے دوستوں کے لیے، ان کے دشمنوں سے جنگ کے مواقع پر مقدر اور لازم قرار دیتا ہے — کسی بھی شے کا وعدہ نہیں کرتا۔
وہ یہاں ان سے صرف ایک شے کا وعدہ کرتا ہے: ’’اس اجر کا جو اللہ کے پاس ہے۔‘‘ یہی اس دعوت کی اصل اور بنیاد ہے اور اس عقیدے کی راہ پر چلنے کا، اسی پر انحصار ہے۔ ہر ہدف، ہر غایت اور ہر طمع سے کٹ کر صرف اجرِ آخرت کے لیے یکسوئی! یہاں تک کہ مومن کو یہ خواہش بھی نہ رہے کہ اس عقیدے کو غلبہ، اللہ کے کلمے کو سربلندی اور اللہ کے دشمنوں کو مغلوبیت نصیب ہو۔ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ وہ اس خواہش سے بھی خود کو یکسو کرلیں، اپنے معاملہ کو بالکلیہ اللہ کے حوالے کردیں اور اپنے دلوں کو اس خواہش سے پاک کرلیں (بلاشبہہ مومن سب کچھ رضائے الٰہی اور اجرِ آخرت کے لیے کرتا ہے، خواہ وہ دنیا میں کچھ بھی نہ پاسکے۔ لیکن حق کے غلبے، باطل کی مغلوبیت اور اللہ کے کلمے کی سربلندی کی خواہش فطری ہے، اس سے دل کو پاک نہیں کیا جاسکتا اور نہ یہ مطلوب ہے۔ مترجم)
اسلام ہر چیز کی قربانی کا نام:
یہ عقیدہ سب کچھ قربان کرنے، عہد کو پورا کرنے اور ذمہ داریوں کو ادا کرنے کا نام ہے۔ بغیر اس کے کہ اس کے معاوضے میں دنیا کا کوئی سازو سامان مطلوب ہو اور بغیر اس کے کہ اس کے عوض فتح و نصرت، غلبہ، تمکن فی الارض اور سربلندی چاہیے ہو۔ ان سب کے بجائے ہر چیز صرف آخرت میں چاہنا ہے اور اس کا انتظار کرنا ہے۔
عقیدے کی ذمے داروں کو اس طرح ادا کرنے کے بعد فتح و نصرت حاصل ہوتی ہے اور تمکن فی الارض اور سربلندی بھی نصیب ہوتی ہے، مگر یہ اللہ سے معاہدے میں داخل نہیں ہے، اور نہ اس سے کی ہوئی بیعت کا کوئی جز ہے۔ معاہدہ اور بیعت میں دنیا کی کوئی چیز شامل نہیں ہے، یہاں تو ذمہ داریوں کو ادا کرنا، عہد کو پورا کرنا، سب کچھ قربان کرنا اور آزمائشوں سے گزرنا ہے، اور بس!
مکہ معظمہ میں اسی پر بیعت اور دعوت کی بنیاد تھی اور اسی پر اللہ سے بیع و شرا کا معاملہ ہوا تھا اور اللہ نے مسلمانوں کو نصرت، تمکن فی الارض اور سربلندی سے اسی وقت سرفراز کیا اور انھیں زمین کی کنجیاں اور انسانیت کی قیادت اسی وقت بخشی، جب وہ آخرت کے لیے بالکل یکسو ہوگئے اور انھوں نے پوری طرح ایفائے عہد کیا۔
محمد بن کعب قرظی اور دوسرے اصحاب نے کہا کہ عبداللہ بن رواحہؓ نے بیعتِ عقبہ کی رات میں رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا، آپ اپنے رب اور اپنی ذات کے لیے ہم سے جو چاہے عہد لے لیجیے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: (جب کہ اوس اور خزرج کے نمائندے نبی ﷺ سے آپؐ کی ہجرت کے لیے بیعت کررہے تھے( میں اپنے رب کے لیے اس بات کا عہد لیتا ہوں کہ تم اس کی بندگی کرو گے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو گے، اور اپنے لیے یہ عہد لیتا ہوں کہ جس طرح تم اپنی جان اور مال کی حفاظت کرو گے، اسی طرح میری حفاظت کرو گے۔ عبداللہ بن رواحہؓ نے کہا: ہم یہ سب کچھ کردیں تو ہمیں کیا ملے گا؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جنت‘‘۔ انھوں (انصار کے ذمہ داروں) نے کہا: سودا نفع بخش ہے۔ ہم نہ اس معاہدے کو خود فسخ کریں گے اور نہ اسے فسخ کرنے کا مطالبہ کریں گے۔
جی ہاں، جنت، اور صرف جنت! فتح و نصرت، عزت وحدت، قوت، تمکن فی الارض، قیادت، دولت اور خوش حالی،یہ سب چیزیں جو اللہ نے انھیں بخشیں اور ان کے ہاتھوں میں دیں، ان کا اللہ تعالیٰ نے تذکرہ نہیں کیا کیوں کہ یہ چیزیں معاہدے سے خارج تھیں۔
یہی بات تھی جو اوس اور خزرج کے نقبا نے کہی: ’’سودا نفع بخش ہے، ہم اسے نہ خود فسخ کریں گے، نہ آپؐ سے اسے فسخ کرنے کا مطالبہ کریں گے۔‘‘

امت کی تربیت:

اللہ تعالیٰ نے اس طرح اس جماعت کی تربیت کی جس کے سلسلے میں اس نے طے کررکھا تھا کہ زمین کی کنجیاں اور قیادت کی زمام اس کے ہاتھ میں دے گا اور عظیم امانت اس کے سپرد کرے گا، بعد اس کے کہ وہ اپنی تمام خواہشات و مفادات سے کٹ گئے ہوں۔ یہاں تک کہ ان خواہشات سے بھی، جو اس دعوت سے متعلق تھیں، جس کے وہ حامل تھے، اس نظام سے متعلق تھیں، جسے وہ برپا کررہے تھے، اس عقیدے سے متعلق تھیں، جس کے لیے وہ جان دے رہے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس امانت کبریٰ کے حامل وہی لوگ ہوسکتے ہیں، جن کی، اپنی ذات کے لیے کوئی خواہش باقی نہ رہی ہو۔ اس صورت میں وہ اللہ کی اطاعت (سِلْم) میں پوری طرح داخل ہوسکتے ہیں۔

(فی ظلال القرآن، ج۲، ترجمہ: سید حامد علی، ص: ۴۹۶-۵۰۰)

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146