جنت کدہ

محمد اجمل خاں نجمی

اسے پیٹ بھر کھانا کھائے ہوئے کئی روز ہوچکے تھے۔ حالات ہی کچھ ایسے تھے، جن سے نمٹنا اس کے بس سے باہر ہوتا جارہا تھا۔ ایک عدد نخریلی بیوی اور چار چھوٹے چھوٹے بچے، دو جوان بہنیں اور ایک بیمار و بوڑھی ماں۔ گھر کے ان آٹھوں افراد کا بوجھ اس کے کمزور کاندھوں پر تھا۔ اس کے پاس نہ علم تھا نہ کوئی ہنر۔ بس وہ تو ایک عام قسم کا مزدور تھا۔ کسی دن کام مل گیا، کسی روز نہیں۔ جس دن کام مل جاتا چولہا روشن اور توا سیدھا ہوجاتا۔ ورنہ پھر چھوٹے بڑے سب فاقے سے رہتے تھے۔ جوہری جب کبھی بھی کسی سے ملتا تو اپنی بدقسمتی کا دکھڑا ضرور سناتا۔ اسے اپنی تقدیر پر سے ہی نہیں بلکہ تقدیر بنانے والے سے بھی شکایت تھی۔ اس کا کہنا تھا کہ اللہ میاں بھی خوب ہیں۔ بھرتے کو اور بھرتے ہیں مجھ جیسے نادار اور مفلس پر ان کو بھی ترس نہیں آتا۔(نعوذ باللہ)
ایک دن میری بھی اس سے ملاقات ہوگئی۔ علیک سلیک کے بعد مختصر تعارف اور کچھ رسمی گفتگو ہوئی۔ تو اس نے اپنی عادت کے مطابق میرے سامنے بھی وہی اپنی بدقسمتی کا دکھڑا شروع کردیا۔ میں بڑی خاموشی کے ساتھ اس کے سب گلے شکوے سنتا رہا۔ جب اسکے دل کا بوجھ ہلکا ہوگیا تو میں نے اسے بڑی محبت کے ساتھ سمجھایا۔ دیکھو جوہری خدا کسی پر ظلم نہیں کرتا۔ وہ ارحم الراحمین ہے۔ اور ایک ماں سے زیادہ اپنے بندوں پر شفیق ہے۔ سارے بادشاہوں کا بادشاہ اور سارے منصفوں کا منصف ہے۔ وہ کبھی کسی کی حق تلفی نہیں کرتا۔ جس بندے کے حق میں جو چیز بہتر سمجھتا ہے۔ اسے عطا کرتا ہے۔ اور کبھی کبھی وہ اپنی نعمتوں سے محروم رکھ کر امتحان لیتا ہے کہ کون بندہ کتنا شکر گزار اور صابر ہے۔
مجھے نہیں معلوم کہ میری یہ باتیں اس کی سمجھ میں آئیں یا نہیں۔ تاہم میں نے اتنا ضرور محسوس کیا کہ میری اس گفتگو سے اس کے دل کو تسلی ضرور ہوئی ہے۔ میں نے جوہری سے معلوم کیا کہ تم کیا کیا کام جانتے ہو اس نے بتایا درانتی، کھرپا اور پھاوڑا چلاناجانتا ہوں۔ ضرورت ہو تو کلہاڑی بھی چلا لیتا ہوں۔ میں نے کہا۔ پڑھنا لکھنا کچھ نہیں جانتے؟ کہنے لگا ماں باپ نے پڑھایا ہی نہیں۔ باپ بے چارے خود ان پڑھ تھے۔ میں نے تو جب سے ہوش سنبھالا ۔ کھرپا، درانتی اپنے ہاتھ میں پایا۔ یہ سن کر مجھے اس سے کچھ ہمدردی پیدا ہوئی۔ اور میں نے جوہریؔ سے دریافت کیا کہ کیا تم میری نرسری پر کام کروگے؟ وہ خوش ہوکر کہنے لگا۔ کیوں نہیں بھائی صاحب اگر کام نہیں کروں گا۔ تو کھاؤں گا کیا؟ بچوں کا پیٹ کیسے پالوں گا؟ اگر آپ مجھے اپنے یہاں ملازم رکھ لیں گے تو مجھ غریب پر آپ کا بڑا احسان ہوگا۔
میں نے جوہریؔ کو ڈھائی ہزار روپئے ماہوار پر ملازم رکھ لیا۔ اس نے ذمہ داری اور محنت کے ساتھ کام شروع کردیا۔ ایک دن ٹہلتے ٹہلتے صبح کو میں نرسری کی طرف نکل گیا۔ نرسری میں پہنچا تو میرے کانوںمیں گانے کی آواز آئی۔ اس گانے میں کس قدر کشش، مٹھاس اور درد تھا۔میں آپ کو بتا نہیں سکتا۔ میں نہایت خاموشی کے ساتھ دبے دبے قدموں سے وہاں پہنچ گیا۔ جہاں سے گانے کی وہ سریلی آواز آرہی تھی۔ میں نے دیکھا کہ جوہری ایک گلاب کی کیاری میں بیٹھا ہوا بڑی مستی کے ساتھ یہ غزل گا رہا تھا۔
زندگی کی راہوں میں رنج و غم کے میلے ہیں
بھیڑ ہے قیامت کی پھر بھی ہم اکیلے ہیں
جوہری اپنے کام میں اور گانے میں ایسا مگن تھا کہ اسے کانوں کان پتا بھی نہیں چلا کہ میرے پیچھے کوئی کھڑا ہے۔ صبح کے سہانے وقت میں جوہری کی جادو بھری آواز اور درد انگیز الفاظ نے مجھے کچھ ایسا متاثرکیا کہ ایک دفعہ کو میرا دل بھی بھر آیا۔ غزل ختم ہوئی تو میں نے پیچھے سے داد دی۔ بہت خوب، بہت خوب۔ جوہری اچانک میری آواز سن کر اچھل پڑا۔ اور ایک قسم کی گھبراہٹ اس کے چہرے پر نظر آنے لگی۔ بالکل ایسی گھبراہٹ جیسے کوئی چور رنگے ہاتھوں پکڑ لیا جائے۔ میں نے کہا جوہری گھبراؤ نہیں۔ مجھے یہ معلوم نہیں تھا کہ تمہاری آواز اس قدر دلکش ہے۔ اب تو میں روز صبح کو تم سے غزل سنا کروں گا۔
مگر جوہری ذرا مجھے یہ تو بتاؤ کہ تم اکیلے کس طرح ہو۔ ماشاء اللہ تمہارے تو بیوی بچے بھی موجود ہیں۔ پھر تم اکیلے کیسے ہو؟ تم ابھی ابھی یہ شعرپڑھ رہے تھے نا۔
زندگی کی راہوں میں رنج و غم کے میلے ہیں
بھیڑ ہے قیامت کی پھر بھی ہم اکیلے ہیں
جوہریؔ میرے اس سوال پر کچھ سٹپٹایا۔ پھر کہنے لگا : صاحب وہ بات ایسی ہے کہ بعض لوگ کچھ ایسے بدنصیب ہوتے ہیں جو سب کچھ ہوتے ہوئے بھی اس دنیا میں تنہا ہوتے ہیں۔ میں بھی ان بدنصیبوں میں سے ایک بدنصیب ہوں کہ سب کچھ ہوتے ہوئے بھی اکیلا ہوں۔ میں نے اس کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے کہا، جوہری یہ تو تم ٹھیک ہی کہہ رہے ہو۔ مگر اصل بات ابھی میری سمجھ میں نہیں آئی۔ میں نے ازراہِ مذاق اس سے کہا۔ میاں جوہری میری عقل کچھ موٹی ہے۔ اس لیے بات ذرا دیر سے سمجھ میں آتی ہے۔ میرے اس جملے پر وہ کھلکھلا کر ہنسنے لگا اور بولا آپ میرا کیوں مذاق اڑا رہے ہیں۔ اگر آپ عقلمند نہ ہوتے تو اتنی بڑی نرسری کا انتظام کیسے سنبھالتے؟ میں نے جوہری سے کہا : اچھا تم ادھر ادھر کی باتوں کو چھوڑو۔ اور مجھے یہ بتاؤ کہ تمہاری تنہائی کی وجہ کیا ہے۔ جب تک مجھے تمہاری تنہائی کا راز معلوم نہ ہوگا۔ میں یہاں سے نہیں جاؤں گا۔ یہ کہہ کر میں ہری ہری گھاس کے لان پر پلوتھی مارکر بیٹھ گیا۔ جوہری کہنے لگا: آپ مجھ غریب کی داستان سن کر کیا کیجیے گا۔ آپ کروڑ پتی اور میں دو پیسے کا مزدور۔ اب آپ ہی بتائیے میرا اور آپ کا کیا جوڑ؟
میں نے اس سے کہا جوہریؔ پہلے تو تم اپنے دل و دماغ سے امیری اور غریبی کے بھید بھاؤ کو نکال دو۔ میری نظر میں امیری غریبی کوئی چیز نہیں۔ سارے انسان اللہ کے بندے ہیں۔ اور باوا آدم کی اولاد ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ جسے سن کر شاید تمہیں خوشی بھی ہوگی کہ مجھے امیروں کے مقابلے میں غریبوں سے زیادہ محبت اور ہمدردی ہے۔ اگر تم غریب ہو تو کیا ہوا، انسانیت کے ناتے تو تم میرے بھائی ہو اور بھائی پر بھائی کی مدد کرنا فرض ہے۔
میری ان باتوں سے جوہری کے دل کو بڑی تقویت ملی اور جوہری نے ایک ٹھنڈی سانس لیتے ہوئے کہا اگر ایسی ہی بات ہے تو پھر آپ سے کیا چھپاؤں۔ حقیقت یہ ہے کہ میری بیوی سے نہیں بنتی ہے وہ بڑی بدمزاج ہے، بات بات پرجھگڑنے کے لیے تیار رہتی ہے۔ بچوں کو بے دردی کے ساتھ مارتی اور کوسنے دیتی ہے۔ نند وبھاوج میں تو بس ہر وقت ٹھنی رہتی ہے۔ وہ بدبخت میری بوڑھی ماں کو بھی نہیں بخشتی۔ انھیں طرح طرح کے طعنے دیتی ہے۔ کہتی ہے کہ میرے ماں باپ نے مجھے تمہارے نکھٹو بیٹے سے بیاہ کر میری قسمت ہی پھوڑ دی۔ اگر درمیان میں کبھی میں بول پڑتا ہوں تو کہتی ہے۔ لو سنبھالو اپنے بچوں کو میں تو اپنے میکے جارہی ہوں ، کبھی زیادہ جلال آتا ہے تو پھر مجھے اس قسم کی دھمکیاں دیتی ہے کہ میں تیل چھڑک کر آگ لگا لوں گی پھر تم زندگی بھر جیل میں پڑے سڑتے رہنا۔ بچوں کو کبھی مجھے پیار نہیں کرنے دیتی کہتی ہے کہ ان کاپیشاب پاخانہ، نہلانا دھلانا میں کرتی ہوں، پھر تم کون ہوتے ہو ان پر پیار کا حق جتانے والے۔
بھائی صاحب اب آپ ہی بتائیے کہ ایسے گھر اور ایسے ماحول میں آدمی کو گھٹن اور تنہائی کا احساس نہیں ہوگا تو کیا ہوگا؟ ایسی زندگی سے تو موت بہتر ہے۔ کبھی کبھی میرا دل چاہتا ہے کہ میں خود کشی کرلوں۔ ایک دن تو میں خودکشی کے ارادے سے ریلوے لائن پہنچ گیا تھا اور میں نے اپنی گردن پٹری پر رکھ دی تھی۔ پورب کی طرف سے آسام میل دندناتی ہوئی چلی آرہی تھی۔ مجھے اور گاڑی کو مشکل سے ایک فرلانگ کا فاصلہ رہ گیا تھا۔ اچانک میرے کانوںمیں بوڑھی ماں اور چھوٹے بیٹے اسامہ کی آوازیں گونجنے لگیں۔ جن میں التجا محبت، درد اور سوز و گداز سب کچھ تھا۔ ماں کی محبت اور بیٹے کے پیار نے مجھے مجبورکردیا۔ اس سے پہلے کے ٹرین کے تیز رفتار پہیے میری گردن کے ٹکڑے کرتے میں ایک جھٹکے کے ساتھ اٹھ کر کھڑا ہوگیا۔ بھائی صاحب میں آپ کو کیا بتاؤں کہ اس بدنصیب بیوی نے میرے دل کا چین اور راتوں کی نیند حرام کرکے رکھ دی ہے۔ اتنا کہہ کر جوہری خاموش ہوگیا۔ میں نے اس خاموشی کو توڑتے ہوئے کہا کہ جوہری نہ تم بدنصیب ہو اور نہ تمہاری بیوی۔ میں اب تک کی گفتگو سے اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ تمہاری ان تمام پریشانیوں ، نااتفاقیوں اور شکوے شکایات کی اصل بنیاد تمہاری تنگ دستی ہے۔ اور اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ جس گھر میں غریبی کا یہ عفریت داخل ہوجاتا ہے اس گھر میں بے شمار بلائیں خود بخود گھس جاتی ہیں۔ اور پھر یہ بھیس بدل بدل کر بے چارے غریب کو خوب ستاتی اور پریشان کرتی ہیں۔ میں نے محض غربت اور افلاس کی وجہ سے بہت سے ازدواجی رشتوں کو مجروح ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔
جوہری مجھے یقین ہے کہ چند دنوں کے اندر سب ٹھیک ہوجائے گا۔ بس تم یہ بدگمانی اپنے ذہن سے نکال دو کہ تم یا تمہاری بیوی بدنصیب ہے۔ میرے ان تسلی آمیز جملوں کا جوہری پر کوئی خاص اثر نہیں ہوا۔ کہنے لگا: جناب آپ کو معلوم نہیں ہے کہ میری بیوی کس قدر بداخلاق اور ضدی ہے۔ جس روز سے اس نے گھر میں قدم رکھا ہے میرے جنت جیسے گھر کو جہنم بنا دیاہے اور میں اس کے بنائے ہوئے جہنم کی آگ میں دس سال سے مستقل جل رہا ہوں۔ یہ جملہ کہتے ہوئے اس کی بڑی بڑی آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے۔ میں نے جوہری سے کہا کہ میں عورتوں کی نفسیات سے اچھی طرح واقف ہوں۔ بس تمہارا کام صرف اتنا ہے کہ جیسے میں کہوں ویسے ہی کرتے رہنا۔ میں اس بات کی ضمانت لینے کو تیار ہوں کہ اگر تم نے میرے کہنے کے مطابق عمل کیا تو انشاء اللہ بہت جلد ہی تمہاری خانگی زندگی خوشگوار ہوجائے گی۔ میں نے دو سو سو کے نوٹ جوہری کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔ جوہری ! شام کو جب گھر جاؤ تو اپنی بیگم کے لیے پاؤڈر کا ڈبہ، کریم، لپسٹک، تیل اور صابن وغیرہ لیتے جانا۔ بچوں کے لیے کھلونے بہنوں کے لیے چوڑیاں اور اپنی والدہ کے لیے پھل بھی خرید لینا اور پھر مجھے بتانا کہ تم نے گھر جاکر کیا محسوس کیا۔ جوہری جب شام کو کام سے فارغ ہوا تو اس نے میرے کہنے کے مطابق بیوی کے لیے میک اپ کا سامان،بچوں کے لیے کھلونے، بہنوں کے لیے چوڑیاں اورماں کے لیے پھل خریدے۔ جب وہ اپنے دونوں ہاتھوں میں سامان لیے ہوئے گھر میں داخل ہوا تو بچے دروازہ ہی سے شور مچانے لگے۔ ابا چیز لے کر آگئے۔ ابا چیز لے کر آگئے۔ جوہری کی وہی بیوی گل رخ جو بڑی بے رخی کے ساتھ پیش آتی تھی۔ آج اس نے ایک دلفریب مسکراہٹ کے ساتھ شوہر کا استقبال کیا۔ جوہری نے میک اپ کا سامان بیوی کے ہاتھوں میں تھماتے ہوئے کہا: گل رخ یہ میں تمہارے لیے لایا ہوں۔ یہ سن کر گل رخ کا چہرہ مسرت سے کھل اٹھا۔ اس نے کچھ شرماتے ہوئے کہا شکریہ، جوہری اس کے بعد اپنی بیمار ماں کے پاس پہنچا اور سرخ سرخ سیب ماں کی گود میں رکھتے ہوئے بولا: اما جان یہ سیب میںآپ کے لیے لایاہوں۔ ماں نے اسے بے شمار دعائیں دیں اور فرطِ مسرت سے بیٹے کی پیشانی چوم لی۔ اس کے بعد جوہری کاکلؔ اور کوکبؔ کے پاس گیا۔د ونوں بہنیں نیم کے نیچے بیٹھے ہوئی چرخہ کات رہی تھیں۔ جوہری نے ہنستے ہوئے کہا کہ تم لوگ ہر وقت بیٹھی ہوئی چرخہ چلاتی رہتی ہو، کیا تمہارے ہاتھ نہیں تھکتے؟ بند کرو اس چرخے کو دیکھو میں تمہارے لیے کیا لایا ہوں۔ جوہری نے اپنے دونوں ہاتھوں سے کاکل اور کوکب کے چرخے کو روک دیا۔ اور ڈبے میں سے اپنی لائی ہوئی خوبصورت چوڑیاں انھیں دکھانے لگا۔ بہنوں کے لیے بھائی کا تحفہ تو ویسے بھی قابلِ قدر ہوتا ہے۔ کاکل اور کوکب نے بڑی عقیدت اور احترام کے ساتھ تحفہ قبول کیا اور دونوں بہنوں کے درماندہ چہروں پر مسرت کی لہر دوڑ گئی۔
آج گھر کا بچہ بچہ جوہری سے خوش تھا۔ گل رخ نے اس سے آکر کہا آپ تھکے ہوئے ہیں میں نے غسل کے لیے پانی رکھ دیا ہے۔ آپ پہلے نہا لیجیے اس کے بعد میں کھانالے کر آتی ہوں ، وہ غسل سے فارغ ہوکر کھانا کھانے کے لیے دسترخوان پر پہنچا تو دیکھا کہ پلیٹ میں آج چٹنی کے بجائے انڈوں کا آملیٹ رکھا ہوا ہے۔
گل رخ نے شوہر کو پنکھا جھلتے ہوئے کہا۔ یہ انڈے میں نے آپ ہی کے لیے جمع کررکھے تھے۔ جوہری یہ سن کر دل ہی دل میں مسکرایا کیوں کہ وہ خوب اچھی طرح جانتا تھا کہ آج اس پر نوازشات کی بارش کیوں ہورہی ہے؟
کھانا کھاکر وہ اپنی ٹوٹی ہوئی چارپائی پر لیٹ گیا۔ اس کے چاروں بچے اکرم، اسامہ، جوہی اور سنبل بھی اپنے اپنے کھلونے لے کر اسی کے پاس آگئے۔ جوہری خود بھی تھوڑی دیر کے لیے ان کے ساتھ بچہ بن گیا۔
آج اس نے اپنے چاروں بچوں کو جی بھر کر پیا رکیا۔ مگر گل رخ نے اسے نہ کوئی طعنہ دیا اور نہ کوئی احتجاج اور مداخلت کی۔ بچے کھیلتے کھیلتے سوگئے۔ جوہری نے آسمان کی طرف نظر اٹھا کر دیکھا تو بے شمار ستارے جگمگارہے تھے اور شمال مشرق کی طرف چودھویں کا چاند مسکرا رہا تھا۔ وہ یہ منظر دیکھ کر کہنے لگا کتنا حسین منظر ہے یہ بالکل میرے سندر سپنوں کی طرح یہ سپنے بھی کس قدر کمزور ہوتے ہیں۔ اگر آدمی کے پاس پیسہ نہ ہو تو یہ سپنے ذرا سی دیر میں چکنا چور ہوجاتے ہیں۔ آج کے زمانے میں سارے رشتے، ساری محبتیں، ساری نوازشات اور ہمدردیاں دولت کے حصار میں محصور ہوکر رہ گئی ہیں۔ جس کے پاس دولت ہے اس کے سب شیدائی اور متوالے ہیں۔ جس کے پاس دولت نہ ہو اس سے سب بچتے اور کتراتے ہیں چاہے وہ اپنے ہوں یا پرائے ، بیوی ہو یا بچے۔ دوست ہوں یا احباب۔ اور اس نے ایک آہِ سرد بھرتے ہوئے کہا کاش میرے پاس بھی پیسہ ہوتا تاکہ مجھے ہر روز آج ہی کی طرح سارے گھر کی محبتیں اور خوشیاں حاصل رہتیں۔
صبح کو جوہری کی ملاقات مجھ سے ہوئی تو سلام کے بعد سب سے پہلے اس نے مجھے یہی خوش خبری سنائی کہ جناب آپ کی بتائی ہوئی تدبیر بڑی مفید اور کارگر ثابت ہوئی۔ کاش میرے آنگن میں یوں ہی خوشیاں مسکراتی رہیں اور میرا گھر جنت کدہ بن جائے۔ میں نے کہا آمین! جوہری مستقبل چھ ماہ میری حکمتِ عملی پر کاربند رہا۔ اور پھر سچ مچ اس کا گھر ’’جنت کدہ‘‘ بن گیا۔
——

 

 

 

 

 

 

 

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں