بعض لوگوں میں یہ خیال پایا جاتاہے کہ ہمارے نیک اعمال کی بنیاد اللہ سے ملاقات کا جذبہ ہونا چاہیے۔ رویت باری تعالیٰ ہی ہمارا منشائے اصلی ہونا چاہیے۔ اعمال کے صلے میں جو جنت اور اس کی نعمتیں ملیں گی، اگر ان کو اپنا مقصود بنالیا جائے تو یہ حجاب بن جاتی ہیں اور اعمال میں اخلاص باقی نہیں رہتا، بلکہ اس کی جگہ غرض آجاتی ہے۔ لہٰذا اصلاً ان نعمتوں کی تمنا نہیں کرنی چاہیے، بلکہ محبوب حقیقی کا وصل ہی ہمارے اعمال کا جذبۂ محرکہ ہونا چاہیے۔ دیکھنا یہ ہے کہ انسانی عمل میں کیا ہوتا ہے؟ کیا ان لوگوں کا یہ خیال محض خیال ہی ہے یا فی الواقع اسے بروئے کار لانا ممکن ہے؟
جب کوئی بندہ ایمان لاتا ہے تو اسے حرام اشیا ترک کرنی پڑتی ہیں اور صرف حلال ذرائع ہی پر اکتفا کرنا پڑتا ہے۔ اسے اپنے گردو پیش میں گونا گوں مزاحمتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔کئی رنج اور تکلیفیں برداشت کرنی پڑتی ہیں۔ ایسے میں اللہ سے تعلق اس کا سہارا بنتا ہے۔ دنیا کی محرومیوں کے مقابلے میں جنت کی ابدی نعمتیں ملنے کی امید اس کا حوصلہ بڑھاتی ہے۔ ایک مادی وجود اپنی بقا کے لیے کھانے پینے، سانس لینے اور بدن کو راحت پہنچانے کا محتاج ہوتا ہے۔ وہ ان بندھنوں سے آزاد نہیں ہوسکتا۔ یہ لوگ ان مادی ضرورتوں کو کم کرکے ان سے آزاد ہونے کا تصور ضرور دیتے ہیں، لیکن عملی طور پر ایسا ہونہیں پاتا۔ پھر یہ بھی ہے کہ انبیاء علیہم السلام اپنے پیروکاروں کو جنت کی نعمتوں کی ترغیب دیتے آئے ہیں اور راہِ حق کے مصائب کے مقابلے میں فردوس کی راحتوں کو پانے کی آرزو پیدا کرتے آئے ہیں۔ قرآنِ مجید ان نعمتوں کے بیان سے پُر ہے۔ اس لیے یہ نظریہ کہ علائق مادیہ سے اٹھ کر محض رویت باری تعالیٰ کو اپنا مقصود بنایا جائے، بشری سطح پر ناقابلِ عمل نظر آتا ہے۔ سب سے بڑا مقصود البتہ یہی ہونا چاہیے کہ اللہ کی خوش نودی حاصل کی جائے اور اس کی ناراضی سے بچا جائے۔ لیکن چونکہ اللہ نے خود ان نعمتوں کی طمع دلائی ہے، اس لیے ہم ان کے حصول کی خواہش ترک نہیں کرسکتے۔
آنحضورﷺ ہمیں ایسے کام کرنے کی ترغیب دیتے تھے جو ہمیں جنت میں لے جائیں۔ ایمان اور عمل صالح ہی جنت کی ضمانت دے سکتے ہیں۔ اس جنت کو پانے کی دعا کرنا اور اس کی خواہش رکھنا جائز ہی نہیں، بلکہ محمود بھی ہے۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بتاتے ہیں کہ رسول اللہ کا فرمان ہے:
’’جو اللہ سے تین بار جنت مانگتا ہے، جنت کہتی ہے: اے رب اس آدمی کو جنت میں بھیج دیجیے اور جو شخص دوزخ سے تین بار پناہ مانگتا ہے، دوزخ کہتی ہے اسے دوزخ سے پناہ دیجیے۔‘‘ (ترمذی، رقم ۲۵۷۲)
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی ایک اور روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’’جنت مشکلات سے گھیر دی گئی ہے اور دوزخ خواہشات و لذات سے گھری ہوئی ہے۔‘‘ (مسلم: ۷۱۳۰)
مشکلات کا مطلب نفس پر قابو پانا اور اسے ہمت والے کاموں پر آمادہ کرنا ہے، جبکہ خواہشات کے پیچھے بے سوچے سمجھے چل پڑنا، دوزخ تک پہنچا دیتا ہے۔
اگر جنت کے حصول کی خواہش پسندیدہ نہ ہوتی تو اس کو مشکلات سے گھیر کر رکھنا اور ایمان و اعمالِ صالحہ کی شرط سے مقید کرنا ضروری نہ تھا۔ بنی آدم کو دوزخ سے بچنے کا ٹارگٹ دیا گیا اور اس کا طریقہ یہ بتایا گیا کہ تکمیل خواہشات میں من مانی نہ کرو اور سوچ سمجھ کر اپنی لذات و خواہشات کو حاصل کرو، کیونکہ اگر انسان خواہشات کو پورا کرنا اور اپنی مرضی کی تکمیل ہی کو اپنا وطیرہ بنالے تو اس کے دوزخ میں جانے کا امکان بہت بڑھ جاتا ہے۔ایک دفعہ نبی ﷺ نے خطبہ دیا اور فرمایا:
’’اہلِ جنت تین قسم کے ہوں گے۔ پہلا وہ صاحبِ اقتدار جو انصاف کرتا ہو، صدقہ و خیرات کرتا ہو اور جسے بھلائی کے کاموں کی توفیق ہو، دوسرا رحم دل رشتہ دار اور ہر مسلمان کے لیے رقت قلب رکھنے والا شخص اور تیسرا بچ بچا کر چلنے والا اور گناہوں سے گریزاں عیال دار آدمی۔‘‘ (مسلم: ۷۲۰۷)
ہمارا مقصود و مطلوب ہر حال میں خدا کی رضا ہی ہونی چاہیے۔ رضا کی بات حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کی اس روایت سے بخوبی سمجھ میں آجاتی ہے جو مسلم میں بیان ہوئی ہے۔ نبی ﷺ نے فرمایا:
’’اللہ تعالیٰ اہلِ جنت کو مخاطب کرے گا۔ اے جنت کے باسیو! وہ کہیں گے لبیک سب بھلائی آپ کی قدرت ہی میںہے۔ اللہ تعالیٰ پوچھے گا کہ کیا تم راضی ہو؟ اہلِ جنت جواب دیں گے: اے رب! ہمارے راضی نہ ہونے کی کوئی وجہ ہی نہیں رہی۔ تو نے ہمیں وہ کچھ عطا کردیا ہے جو اپنی مخلوق میں سے کسی کو نہ دیا۔ اللہ فرمائے گا: کیا تمھیں اس سے بہتر عطا نہ کروں؟ وہ پوچھیں گے: اے رب! ان سے بہتر کیا شے ہے؟ اللہ فرمائے گا: میں تم پر اپنی رضا نازل کرتا ہوں، پھر اس کے بعد میں تم سے کبھی ناراض نہ ہوں گا۔‘‘ (مسلم: ۷۱۴۰)
گویا اللہ کی خوشنودی حاصل کرنا اور اس کی رضا پالینا ہی اعلیٰ ترین مقصد ہوگا جو جنتی حاصل کریں گے۔ ہم جنت کی نعمتوں کو اللہ کی رضا کا لازمی نتیجہ کہہ سکتے ہیں، کیونکہ جن سے ناراض ہوا جاتا ہے، انھیں دھتکارا جاتا ہے، عطا نہیں کیا جاتا اور جنھیں عطا کیا جاتا ہے، یہ عطان ان سے راضی ہونے کی بڑی علامت بن جاتی ہے۔ یہ ارشادِ نبوی قرآنِ مجید کے لفظ رضوان کا مصداق ہے جو جنت کی نعمتوں کے بیان کے ساتھ بالعموم آتا ہے، یعنی اہلِ جنت کو جنت کے ساتھ، اللہ کی رضوان یا خوشنودی بھی ملے گی۔ سورئہ توبہ کی آیت ۷۲ میں فرمایا: ’’اللہ کی خوشنودی سب (نعمتوں) سے بڑھ کر ہے۔‘‘
اہلِ ایمان کا بھی یہ وصف بیان ہوا ہے کہ وہ اللہ کی رضوان کی طلب رکھتے ہیں۔ سورئہ فتح میں رسول اللہ ﷺ کے صحابۂ رضوان اللہ علیہم کے بارے میں ارشاد ہے:
’’اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں، وہ کفار پر سخت ہیں اور آپس میں رحم دل ہیں۔ تم ان کو اللہ کے فضل اور اس کی خوشنودی کی طلب میں رکوع و سجود میں سرگرم پاؤگے۔‘‘ (فتح: ۲۹)
ان میں سے مہاجرین کا ذکر کرتے ہوئے یہ وصف بیان ہوا:
’’وہ اللہ کافضل اور اس کی خوشنودی چاہتے ہیں۔‘‘ (الحشر:۸)
یہ خوشنودی یا ’’رضوان‘‘ اللہ اور اس کے پیغمبر کے بتائے ہوئے طریقِ کار ہی کو اختیار کرکے حاصل کی جاسکتی ہے۔ خود اپنے پاس سے نیا طریق یا سلوک وضع کرلینا یا وحی کے علاوہ کسی دوسرے ذریعے کو معرفت کا رستہ سمجھ لینا گمراہی کاباعث بن جاتا ہے۔ یہ معاملہ نصاریٰ کا ہوا۔ انھوں نے خوشنودی کا مطلب دنیا سے کٹ کر ہمہ وقت دھیان اور گیان میں مشغول رہنا سمجھ لیا۔ چنانچہ سورئہ حدید میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
’’اور رہبانیت انھوںنے (حضرت عیسیٰ کے پیروکاروں) خود ایجاد کرلی۔ ہم نے ان کے اوپر صرف اللہ کی خوشنودی کی طلب فرض کی تھی، مگر انھوں نے آپ ہی یہ بدعت نکالی اور پھر اس کی پابندی کرنے کا جو حق تھا اسے ادا نہ کیا۔‘‘ (حدید: ۲۷)
ہمیں بھی کتاب و سنت کے بیان کردہ لائحۂ عمل کو بعینہٖ اختیار کرنا چاہیے اور حق کی طلب میں بھی آگے بڑھ کر از خود کوئی عمل اختیار نہیں کرنا چاہیے۔ یہی ہماری عافیت اور ہمارے حسنِ انجام کا ضامن ہوسکتا ہے۔
——