ہیرا لال شری واستو اپنے باپ دادا کی پرانی وضع کے رئیسوں میں شمار کیے جاتے تھے۔ شاہی زمانے میں باپ دادا کسی اچھے عہدے پر رہے ہوںگے۔ اسی زمانے کا لکھنوی اینٹ کا مکان لکھنؤ کے محلے مولوی گنج میں ابھی تک موجود ہے۔ مکان کا ایک حصہ ساٹھ سترروپے ماہوار پر اٹھا ہوا ہے۔ باقی حصے میں خود رہتے ہیں۔ باہر کے کمرے میںپرچون کی دوکان کرلی ہے۔ پہلے اچھی چلتی تھی لیکن جب سے سامنے کے مکان کی ایک دوکان سندھی نے لے کر پرچون ہی کا کام شروع کرلیا ہے تب سے ہیرا لال کی بکری بہت ہی کم ہوگئی ہے۔ تجارت کا جو فن نئے سندھی کو آتا ہے ہیرا لال اس سے بالکل ناواقف ہے۔ وہ منافع بھی چاہتے ہیں اور عزت بھی۔ محلے سے تھوڑی بہت عزت تو مل جاتی ہے لیکن اب منافع بالکل نہیں ملتا۔ پرانی پونجی پر دو بیٹیوں کو بیس ہزار خرچ کرکے بیاہ کرسکے ہیں۔ اور اب تیسری منورما کی باری ہے۔ بس یہی تین لڑکیاں ہیں۔ منورما کے بعد انھیں دنیا کے جھمیلوں سے نجات مل جائے گی پھر نہ دوکان کے چکر میں پڑیں گے اور نہ گرتی ہوئی لکھوری اینٹوں کی دیواروں کو بنانے کی فکر باقی رہے گی۔ آج کل منورما کی ماں سے کچھ اسی طرح کی باتیں ہوتی ہیں۔ دوکان تینوں لڑکیوں کے نام لکھ کر بنارس چلے جائیں گے۔ باقی زندگی وہیں رہ کر گیان دھیان اور مذہبی کتابوں کا علم حاصل کرنے میں گزار دیں گے۔ دنیا کے جنجال میں پڑ کر ابھی تک نہ تو پوجا پاٹ ہی کرسکے ہیں اور نہ دھرم کا گیان ہی حاصل کرپائے ہیں۔ نجات کے لیے جتنی پونجی کی ضرورت ہے اس میں سے ابھی کچھ بھی ان کو حاصل نہیں ہوسکی ہے۔
مگر منورما کا رشتہ ابھی تک طے نہیں ہوسکا ہے۔ اچھے لڑکوں کا بھاؤ بہت بڑھ گیا ہے۔ کچھ تو اچھے لڑکوں کی کمی ہوگئی ہے اور کچھ روپے کی قیمت گھٹ گئی ہے۔ جب وہ اپنی دونوں لڑکیوں کے بیاہ پر دس بیس ہزار دینے کی بات کہتے ہیں تو لڑکے والے ناک بھوں چڑھا کر جواب دیتے ہیں۔ اس وقت کے مقابلہ میں اب دس ہزار کی حیثیت ہی کیا رہ گئی ہے۔ ایک ٹرک سیمنٹ کا پرمٹ بیچنے پر دس ہزار آسانی سے مل جاتے ہیں۔
ہیرا لال جواب دیتے: ’’مگر میں یہ کام کہاں کرتا ہوں۔‘‘
جواب ملتا: ’’آپ نہ کریں ہم تو کرتے ہیں۔ پندرہ بیس ہزار میں تو لڑکے نے بی اے کیا ہے۔ تیس ہزار سے کم میں تو بیاہ ہو ہی نہیں سکتا۔‘‘
ہیرا لال نے کئی جگہ بات چلائی۔ بچوانی پردو سوروپیہ بھی خرچ کیا۔ مگر ابھی تک چودہ پندرہ ہزار سے کم کی مانگ کہیں سے نہیں آئی۔
ایک دن باتوں باتوں میں انھیں اپنے ایک دوست کے لڑکے کی خبر ملی۔ ان کے دوست لالہ گیا پرشاد کی کپڑے کی دوکان لکھنؤ سے چوبیس کلو میٹر دور قصبہ ملیح آباد میں تھی۔ ان کا خاندان بھی پرانے زمانے کا چھوٹا موٹا زمیندار تھا۔ مزاج میں پرانی آن بان اور وضع داری تھی۔ ہیرا لال کو بڑی امید تھی کہ یہ رشتہ ضرور پکا ہوجائے گا۔
بہت دن کے بعد ایک دن صبح ہی ملیح آباد پہنچ گئے۔ لالہ گیا پرشاد نے اپنے دوست کو گلے سے لگالیا۔ دونوں دوست اتنے دنوں کے بعد مل کر آبدیدہ ہوگئے اور پھر لالہ گیا پرشاد ہیرا لال کو لے کر گھر کے اندر چلے گئے۔ اپنی بیوی، شادی شدہ لڑکی اور اسی سال ایل ایل بی کرنے والے لڑکے سے ہیرا لال جی کا تعارف کرایا اور پھر ایسی خاطر مدارات کی جیسے سچ مچ بہت دن کا کھویا ہوا سگا بھائی گھر آگیا ہو۔
پرانی دوستی اور محبت کے قصوں کا گھر والوں پر بڑا اثر پڑا او رہیرا لال جی نے اپنے دل میں فیصلہ کرلیا کہ ان کی غریبی کو دیکھ کر بھگوان نے ایسا اچھا رشتہ اپنی طرف سے کرادیا ہے۔
لڑکا بہت ہی تندرست اور خوبصورت تھا۔ کسی طرح کا کوئی عیب نہیں تھا۔ تعلیم تو تھی ہی۔ اتنی ہی دیر میں ہیرا لال جی نے سمجھ لیا کہ بہت ہی سعادت مند اور طبیعت کا شریف لڑکا ہے۔ رمیش نے اپنے پتا جی کے ایسے اچھے دوست کی خاطر مدارات میں بہت دلچسپی لی تھی۔
دنیا داری کی تمام باتوں کے بعد ہیرا لال نے منورما کا ذکر کیا۔ اپنی دو لڑکیوں کی شادی پر دس دس ہزار دینے کا ذکر کیا۔ منورما کے دسواں پاس ہونے کا ذکر کیا۔ سندرتا اور گھر گرہستی میں ہوشیاری کا ذکر کیا۔ یہ بھی بتادیا کہ اب ان کی حیثیت دس ہزار دینے کی بھی نہیں رہ گئی ہے۔ رشتے تلاش کرتے کرتے تھک چکے تھے۔ ہر طرف سے ناامید ہوکر اب اپنے دوست کی خبر سن کر آئے ہیں۔
انھوں نے ڈبڈبائی ہوئی آنکھوں کے ساتھ کہا ’’بھائی گیا پرشاد اب شریف لوگ کہیں نہیں ملتے۔ سب تجارت پیشہ ملتے ہیں۔ تم سے رشتہ کرکے میری آتما کو سکون مل جائے گا کہ کم سے کم میری ایک لڑکی بکنے سے بچ گئی اور میرے شریف دوست کے گھر کی لکشمی بن گئی۔
لالہ پرشاد نے ہمدردی کے ساتھ اپنے دوست کی بات سنی۔ پھر کہا: ’’اب تم آئے ہو تو دوچار روز ٹھہرو۔ بھگوان کی جو مرضی ہوگی وہی ہوگا۔ لڑکے کے بیاہ کی بات تو ابھی سوچی نہیں تھی۔ اب تم نے کہا ہے تو گھر کے لوگ بیٹھ کر کوئی فیصلہ کریں گے۔‘‘
مگر ہیرا لال گھر میں کسی کے نہ ہونے کا عذر کرکے لکھنوواپس چلے آئے۔ لالہ گیا پرشاد نے دوچار روز بعد اپنی رائے بتانے کا وعدہ کیا۔ پھر لالہ گیا پرشاد جی کے یہاں جو بات چیت ہوئی اس میں فیصلہ کیا گیا کہ اُن کے لڑکے کی قیمت تو بیس پچیس ہزار روپئے سے کم نہیں لیکن پرانی دوستی کا خیال کرکے اگر لڑکی پسند آگئی تو بارہ ہزار میں رشتہ کرلیں گے۔ اس سے کم نہیں۔ جب یہ خط لکھا جانے لگا تو رمیش نے اپنی ماں سے اتنا ہی کہا۔’’ماتا جی اگر لڑکی پسند آجائے تو جو کچھ چاچا جی دے سکیں لے لیجیے روپیہ تو میں خود ہی پیدا کرلوں گا۔‘‘
باپ نے اس پر صرف اتنا کہا: ’’تم ابھی بچے ہو دنیا کو نہیں جانتے۔‘‘
خط دیکھ کر ہیرا لال کا دل ٹوٹ گیا اور پھر انھوں نے کسی سے اس خط کا ذکر تک نہیں کیا۔ یہاں تک کہ منورما کی ماں سے بھی نہیں۔ پھر ایک دن بچوانی نے ایک اور رشتہ بتایا۔ لڑکا کوئلے کنٹرول کی دکان کرتا تھا۔ شاید کوئلے کا کوئی ٹکڑا آنکھ میں پڑگیا تھا جس سے ایک آنکھ جاتی رہی تھی۔ لیکن پتھر کی آنکھ لگا کر لڑکے کا یہ عیب چھپا دیا گیا تھا۔ بس داہنی ٹانگ میں تھوڑا سا لنگ تھا جو چھپ نہیں سکا تھا۔ بچوانی نے سات ہزار پر رشتہ پکا کرلیا تھا۔ اس سے کم ریٹ پر لڑکے کا ملنا ممکن نہیں تھا۔ ہیرا لال نے حساب لگایا ان کی پرچون کی دوکان سندھی خریدنا چاہتا ہے۔ وہ پانچ ہزار روپیہ دے دے گا، مہاجن سے بات کی تھی۔ وہ مکان گروی رکھنے پر راضی تھا۔ بیس ہزار کے مکان پر چار ہزار سے زیادہ دینے کو تیار نہ تھا۔ اس طرح تو نو ہزار روپے میں وہ کسی نہ کسی طرح لڑکی کو رخصت کرسکتے تھے اور کلیجے پر پتھر رکھ کر انھوں نے کالے اور لنگڑے لڑکے سے رشتہ منظور کرلیا۔
بیاہ میں بہت کم لوگوں کو بلایا۔ اپنے دوست گیا پرشاد کو بہت تاکید کے ساتھ لکھا کہ اگر وہ نہ آئے تو بڑا ہی دکھ ہوگا۔ مگر لالہ گیا پرشاد اپنے دوست سے آنکھ ملانے کی ہمت نہ کرسکے۔ انھوں نے بیاہ کے دن رمیش کو پانچ سو روپیہ نیوتا دے کر بھیج دیا۔
کل بیاہ کی تاریخ ہے۔ پانچ ہزار روپئے سندھی سے لے کر دوکان اس کے حوالے کردی ہے۔ لیکن آج شام تک مہاجن نے روپیہ نہیں دیا ہے۔ ٹال مٹول کررہا ہے۔ ہیرا لال دن میں کئی چکر لگا چکے ہیں اب مہاجن نے رات کو بلایا ہے۔
کوئی دس بجے رات کو مہاجن نے یہ کہہ کر انکا کردیا کہ سرکاری کاغذات میں مکان کا دوسرا حصے دار ہیرا لال کا ایک بھائی بھی ہے جو بیس سال سے گمشدہ ہے۔ معلوم نہیں کب آجائے اور مکان کا دعوے دار بن جائے۔
دوسرے دن براتی آگئے۔ دھڑکتے ہوئے دل کے ساتھ بیاہ منڈپ میں داماد اور سمدھی کے سامنے ہیرا لال بیٹھ گئے۔ پنڈت نے لین دین کی بات کی۔ ہیرا لال نے کانپتے ہوئے ہاتھوں سے ایک ایک پیسہ جوڑ کر پانچ ہزار روپئے سمدھی کے سامنے رکھے ۔ روپیہ گن کر سمدھی نے کہا: ’’یہ تو پانچ ہزار ہیں۔‘‘
ہیرا لال نے کانپتے ہوئے کہا: ’’بھیا اتنے رکھ لو، دو ہزار گھر بیچ کردوںگا۔‘‘
سمدھی نے اپنے لڑکے کا ہاتھ پکڑکر اٹھاتے ہوئے کہا: ’’چل بیاہ ہوچکا۔ پانچ ہزار لے کر خاندان کی ناک تھوڑی کٹواؤں گا۔‘‘
ہیرا لال نے ایک مرتبہ پھر اسی طرح کہا: ’’بھیا دو ہزار کے لیے مجھے بے عزت مت کرو۔‘‘ مگر سمدھی لڑکے کو لے کر منڈپ سے باہر جاچکے تھے۔
ٹھیک اسی وقت رمیش سمادھی کی جگہ پر بیٹھ گیا۔ بولا: ’’پنڈت جی پہلے یہ بیاہ میرے ہی ساتھ ہورہا تھا۔ میرا نام رمیش ہے۔ لالہ گیا پرشاد ملیح آبادی کا لڑکا ہوں۔ اپنے منتر پڑھو اور میرے ساتھ بیاہ کردو۔‘‘
پنڈت نے ہیرا لال کی طرف دیکھا لیکن ہیرا لال کی آنکھیں کھلی ہوئی تھیں وہ دور افق میں کچھ ڈھونڈ رہے تھے۔ اب کیا ہورہا ہے اس کی جیسے انھیں خبر ہی نہ ہو۔ پانچ ہزار کے نوٹ جس طرح بکھرے پڑے تھے، اسی طرح پڑے رہ گئے۔
بڑے داماد نے ان کا شانہ پکڑ کر ہلایا۔ ’’چاچا جی کیا رمیش کے ساتھ بیاہ کردیا جائے؟‘‘ ہیرا لال نے اتنا ہی کہا تھا: ’’بھیا پانچ ہزار لے لو دو ہزار گھر بیچ کر دے دوں گا۔‘‘
منورما نے گھونگھٹ ہٹا کر اپنے پتا کا چہرہ دیکھا۔ چند بوند آنسو ٹپک کر گود میں گر پڑے پھر اس نے پنڈت جی سے آہستہ سے کہا ’’پنڈت جی بیاہ کردو۔‘‘
اب دوسرا سال چل رہا ہے یہ ٹھیک ہے کہ منورما لالہ گیا پرشاد کے گھر کی لکشمی بن گئی ہے مگر ہیرا لال کسی کسی وقت چیخ اٹھتے ہیں’’ بھیا پانچ ہزار رکھ لو، دو ہزار گھر بیچ کر دوں گا۔‘‘
اس کے سوا انھیں کچھ یاد نہیں ہے شاید منورما کے بیاہ کے بعد انھیں دنیا کے جنجال سے نجات مل گئی ہے۔
(’’پاسبان‘‘ چنڈی گڑھ سے ماخوذ)