نئی اور پرانی نسل کے درمیان فاصلہ کوئی نئی بات نہیں، کبھی اسے generation gap کا نام دیا گیا اور کبھی کچھ اور مگر مضبوط معاشرتی اقدار کے باعث بڑوں اور چھوٹوں کے درمیان بہرحال ایک تعلق قائم رہا ۔ بچے اپنے بڑوں کا احترام کرتے تھے اور ان کے تجربے کو اپنے لیے باعثِ تقلید سمجھتے تھے، اور بڑے اپنے چھوٹوں کے ساتھ شفقت کا برتاؤ کرتے تھے اور ہر معاملے میں ان کی رہنمائی کرتے اور مشورہ دیا کرتے تھے۔
مگر جیسے جیسے معاشرہ تنزلی کا شکار ہوتا گیا اعلیٰ اقدار اور صفات ناپیدا ہوتے گئے۔ اب نہ ہی بزرگوں کا وہ احترام باقی رہا اور نہ صبر و برداشت۔ بڑوں کی روک ٹوک بری معلوم ہونے لگی تو بڑوں نے بھی اسی میں عافیت جانی کہ اپنے چھوٹوں کے منہ نہ لگا جائے مبادا کہیں رہی سہی عزت نہ چلی جائے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ درمیان میں خلابڑھتا جارہا ہے۔ آج کے نوجوان اپنے معاملات میں بزرگوں کی مداخلت پسند نہیں کرتے، بلکہ ان سے مشورہ طلب کرنے میں عار محسوس کرتے ہیں۔
دوسری طرف یہ رجحان بھی تیزی سے پھیل رہا ہے کہ والدین بچوں کی مادی ضروریات پوری کرنے میں تو کوئی کسر نہیں اٹھا رکھتے مگر ان کی جذباتی اور نفسیاتی ضروریات کو اہمیت نہیں دی جاتی۔ مثلاً اس بات کا تو پورا احساس ہے کہ انہیں اچھے سے اچھا لباس اور بہترین خوراک مہیا کی جائے، مگر وہ کیا سوچتے ہیں اور ان کے احساسات کیا ہیں اس جانب کوئی توجہ نہیں۔
سونے پہ سہاگہ آج کے دور کے ’’لوازمات‘‘ یعنی ٹی وی، انٹرنیٹ اور موبائل فون نے رہی سہی کسر پوری کردی۔ آج کا نوجوان ان ایجادات کے ذریعے دنیا کے کونے کونے سے تو متعلق رہتا ہے مگر اپنے ہی گھر کے دوسرے افراد سے دور ہوتا جارہا ہے۔ اپنی ذات کے حصار میں قید یہ نوجوان… ان کے لیے ان کے دوست بہت اہم ہیں مگر والدین اور قریبی رشتے اجنبی ہوچکے ہیں۔ گھر میں کوئی ان کے مسائل کو سمجھنے والا نہیں، یا یوں کہیے کہ وہ کسی کو اس قابل نہیں سمجھتے کہ انہیں شریک کیا جائے۔
پہلے ہمارے گھرانوں میں یہ طریقہ تھا کہ روز شام میں ایک وقت ایسا ضرور ہوتا تھا کہ جب گھر کے تمام افراد ایک ساتھ بیٹھ کر اپنے قصے سناتے، ساتھ ہی چھوٹے بڑے مسائل زیر بحث لائے جاتے، یوں آپس میں ایک اعتماد کی فضا قائم تھی اور ایک دوسرے کی ضروریات اور جذبات سے آگاہی بھی حاصل ہوتی تھی۔ مگر اب صورتِ حال کافی حد تک تبدیل ہوچکی ہے۔ اب اگر گھر کے تمام افراد اکٹھے دکھائی بھی دیتے ہیں تو ان سب کا رخ ٹی وی کی طرف ہوتا ہے اور ساری توجہ اس پروگرام کی جانب مرکوز ہوتی ہے۔ آپ کے سامنے بیٹھا ہوا بچہ آپ کی موجودگی سے بے خبر موبائل فون پر اپنے کسی دوست کے ساتھ گفتگو میں مصروف ہوتا ہے، اور ایسے میں آپ کی طرف سے پوچھے گئے کسی بھی سوال کا جواب دینا اسے گراں گزرتا ہے۔ انٹرنیٹ chatingمیں گھنٹوں مصروف رہنے والے ان لوگوں کے لیے اپنے گھر والوں کے لیے چند منٹ نکالنا بھی دشوار ہے۔ یہ وہ منظر نامہ ہے جو آج تقریبا ً ہر گھر میں دیکھا جاسکتا ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس ساری صورتِ حال میں خسارے میں کون ہے؟ اس مسئلہ میں بزرگوں سے زیادہ ہماری نئی نسل ہی گھاٹے میں ہے۔ ان کی جذباتی نشو ونما پر اس کا بہت برا اور گہرا اثر پڑتا ہے۔ غلط راستے پر چلنے اور بری صحبت میں پڑنے کے مواقع بڑھتے جارہے ہیں۔ اور والدین کو جب پتا چلتا ہے تو اکثر پانی سر سے اونچا ہوچکا ہوتا ہے۔ آج کل کے بہت سے نفسیاتی مسائل کی وجہ ہی رابطے کا فقدان ہے۔
اس سلسلے میں یقینا بڑوں کو پہل کرنی چاہیے۔ بچوں کو اپنے پاس بٹھا کر اُن کی بات توجہ اور غور سے سنیں، ان کے جذبات اور احساسات سے آگاہی حاصل کریں۔ بچوں کے چھوٹے بڑے قصور معاف کردینے میں ہی آپ کی عزت اور بڑائی ہے۔ آپس میں دوستانہ ماحول کو فروغ دیں تاکہ آپ کی اولاد آپ پر اعتبار کرے اور اپنے مسائل آ پ کے ساتھ شیئر کرے۔ اس طرح ان میں خود اعتمادی بڑھے گی اور آپ کو بھی اُن سے کچھ شکایتیں ہیں تو ان کا ازالہ ممکن ہوگا۔ یقین کریں آپ کی یہ اولاد آپ کا سب سے قیمتی سرمایہ ہے۔ ان کی بہترین تربیت اور پرورش آپ کی اور ان کی دنیا اور آخرت دونوں کو سنوارسکتی ہے۔
——