جنسی تربیت سے مراد یہ ہے کہ بچہ جب ان معاملات کو سمجھنے کے قابل ہوجائے جو جنس اور انسانی خواہشات سے تعلق رکھتے ہیں تو مربیوں کو ان امور کی طرف توجہ دینی چاہیے، جو مندرجہ ذیل ہیں:
۱- گھر یا کمرہ میں آنے کے لیے اجازت طلب کرنے کے آداب۔
۲- دیکھنے کے احکام۔
۳- بچے کو جنسی جذبات ابھارنے والی چیزوں سے دور رکھنا۔
۴- بچے کو بالغ ہونے سے پہلے اور بعد کے احکام سکھلانا۔
۱-اجازت طلب کرنے کے آداب
قرآن میں ارشاد ہے کہ ’’جب بچے بالغ ہونے کی عمر کو پہنچ جائیں تو (داخلہ کے وقت) اجازت لے لیں۔‘‘ اجازت لینے سے مراد یہ ہے کہ وہ دوسروں کی خلوت میں اچانک دھڑلے سے داخل نہ ہوں بلکہ کمرہ یا گھر میں داخل ہونے سے پہلے اپنی موجودگی کی اطلاع دیں، اس طرح وہ دوسروں کی خلوت میں بیجا مداخلت سے محفوظ رہیںگے۔
۲-دیکھنے کے احکام
الف- محارم کی طرف دیکھنے کے احکام: جن عورتوں سے نکاح کرنا انسان پر ہمیشہ کے لیے حرام ہے انہیں مرد کا محارم کہاجاتاہے وہ مرد جن سے عورت کو ہمیشہ کے لیے نکاح حرام ہو انہیں عورتوں کا محارم کہا جاتاہے۔ تو اس لحاظ سے محارم میں یہ لوگ داخل ہیں:
نسب کی وجہ سے حرام ہونے والی عورتیں سات ہیں، جن کاذکر اللہ تعالیٰ نے اپنے اس ارشاد پاک میں فرمایاہے:
حُرِّمَتْ عَلَیْْکُمْ أُمَّہَاتُکُمْ وَبَنَاتُکُمْ وَأَخَوَاتُکُمْ وَعَمَّاتُکُمْ وَخَالاَتُکُمْ وَبَنَاتُ الأَخِ وَبَنَاتُ الأُخْت (النساء۲۳)
’’تم پر حرام کی گئیں تمہاری مائیں اور تمہاری بیٹیاں اور تمہاری بہنیں اور تمہاری پھوپھیاں اور تمہاری خالائیں اور بھتیجیاں اور بھانجیاں ۔‘‘
وہ عورتیں جو رشتۂ ازدواج کی وجہ سے حرام ہوتی ہیں، وہ چار ہیں:
والد کی بیوی، بیٹے کی بیوی، بیوی کی والدہ، بیوی کی بیٹی، یہ سب قرآن پاک سے ثابت ہے۔
وَأُمَّہَاتُکُمُ اللاَّتِیْ أَرْضَعْنَکُمْ وَأَخَوَاتُکُم مِّنَ الرَّضَاعَۃِ (النساء ۲۳)
’’اور (تم پر حرام کی گئیں) تمہاری وہ مائیں جنہوں نے تم کو دودھ پلایاہے اور تمہاری وہ بہنیں جو دودھ شریک ہیں۔‘‘
اور نبی کریم کاارشاد ہے:
یحرم من الرضاع مایحرم من النسب (مسلم)
’’رضاعت کی وجہ سے بھی وہ عورتیں حرام ہوجاتی ہیں جونسب کی وجہ سے حرام ہوتی ہیں۔‘‘
لہٰذا نسب کی وجہ سے وہ عورتیں حرام ہیں جیسے ماں، بیٹی، بہن، پھوپھی، خالہ، بھتیجی، بھانجی۔ اس طرح یہ رشتے رضاعت یعنی دودھ کی وجہ سے بھی حرام ہوجاتے ہیں۔ جیسے رضاعی ماں، رضاعی بہن، رضاعی بیٹی وغیرہ۔
ب- جس سے شادی کرنے کا ارادہ ہو، اس کی طرف دیکھنے کے احکام:
شریعت اسلامیہ نے شادی کرنے والے کو اپنی ہونے والی بیوی کو دیکھنے کی اجازت دی ہے، اسی طرح لڑکی کو بھی اس بات کی اجازت ہے کہ وہ اپنے ہونے والے شوہر کو دیکھ لے تاکہ دونوں شریک حیات ایک دوسرے کو خوش دلی سے پسندکرلیں۔ جیساکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے ارشاد فرمایا:
انظرالیہا فانہ ادخری ان یودم بینکما (مسلم)
’’اس کو دیکھ لو۔ اس لیے کہ اس کی وجہ سے تمہارے رشتۂ ازدواج کو دوام ملے گا۔‘‘
یعنی دیکھ لیناباہم الفت و محبت کو دوام بخشتا ہے۔
لیکن اس دیکھنے کے بھی آداب ہیں جن کی رعایت ضروری ہے۔ وہ حسب ذیل ہیں:
۱- اگرلڑکے کا کسی لڑکی سے نکاح کرنے کاپکا ارادہ ہو، تو اس کے چہرے اور ہاتھوں کو دیکھ سکتا ہے۔
۲- اگر ضرورت محسوس ہوتو اس لڑکی کی صورت کو اپنے ذہن میں رکھنے کے لیے کئی بار نظرڈال سکتا ہے۔
۳- لڑکی اور لڑکا دیکھنے اور شادی طے ہونے والی مجلس میں ایک دوسرے سے بات چیت بھی کرسکتے ہیں۔
۴- ہاںلڑکی سے مصافحہ کرنے کی کسی صورت میں اجازت نہیں ہے، کیوں کہ شادی سے قبل وہ لڑکی اجنبیہ ہوتی ہے اور اجنبیہ سے مصافحہ کرنا حرام ہے۔
۵- اسی طرح لڑکی کے کسی عزیز کے بغیر تنہائی میں دونوں کااکٹھاہونا بھی جائزنہیں ہے۔
اس کے ساتھ ہی اس جانب بھی اشارہ کردینا ضروری معلوم ہوتاہے کہ آزاد خاندانوں میں آج کل جو عام رواج ہے کہ لڑکا اور لڑکی بغیر کسی قید وبند کے ملتے جلتے رہتے ہیں جس کا جواز یہ بیان کیاجاتاہے کہ دونوں ایک دوسرے کی عادات و اخلاق سے واقف ہوجائیں تو یہ طریقہ اسلام کے بالکل خلاف ہے، اس لیے کہ اگر شادی طے نہ ہوئی تو پھر اس کا ضرر لڑکی کو خاص طور سے یہ پہنچے گا کہ لڑکی بدنام ہوجائے گی اور لوگ ایسی لڑکی کے ساتھ شادی کرنے سے گریز کرنے لگیںگے، جس کا نتیجہ یہ ہوگاکہ لڑکی بغیر شادی ہی کے بیٹھی رہ جائے گی۔
ج- اجنبی عورت کی طرف دیکھنے کے احکام:
اجنبی مرد وہ ہے جس سے عورت کے لیے نکاح کرناجائز ہو، جن میں چچا زاد بھائی، پھوپھی زاد بھائی، ماموں زاد بھائی، خالہ زاد بھائی اور بہن کا شوہر اور خالہ کا شوہر (مگر جب کہ بہن اور خالہ سے رشتۂ زوجیت ختم ہوچکاہو) بھی شامل ہیں۔
اجنبی عورت وہ ہے جس سے نکاح کرنا درست ہو جن میں چچا زاد بہن، پھوپھی زاد بہن ، ماموں زاد بہن وغیرہ بھی شامل ہیں۔ اس کی تفصیل فقہ کی کتابوں سے معلوم کی جاسکتی ہے۔
اجنبی عورتوں کی طرف دیکھنے کے حرام ہونے کی اصل دلیل اللہ تعالیٰ کا فرمان ذیل ہے:
قُل لِّلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِہِمْ وَیَحْفَظُوا فُرُوجَہُمْ ذَلِکَ أَزْکَی لَہُمْ إِنَّ اللَّہَ خَبِیْرٌ بِمَا یَصْنَعُون oوَقُل لِّلْمُؤْمِنَاتِ یَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِہِنَّ وَیَحْفَظْنَ فُرُوجَہُنَّ (النور:۳۰-۳۱)
’’آپ مسلمان مردوں سے کہہ دیجیے کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں، یہ ان کے لیے زیادہ صفائی کی بات ہے۔ بیشک اللہ تعالیٰ کو سب خبر ہے جو کچھ لوگ کیا کرتے ہیں اور اسی طرح مسلمان عورتوں سے بھی کہہ دیجیے کہ وہ بھی اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں۔‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ جل شانہ سے روایت کرتے ہیں کہ ’’نگاہ بدشیطان کے زہریلے تیروں میں سے ایک تیر ہے، جومیرے ڈر سے اسے چھوڑدے گا تو میںاس کے بدلہ میں اس کے دل میں ایسا ایمان پیدا کروںگا جس کی شیرینی وہ اپنے دل میں محسوس کرے گا۔ (طبرانی، حاکم)
نیز حضورﷺ نے ارشاد فرمایا: کوئی مسلمان ایسا نہیں جس کی نظر کسی عورت کے حسن و جمال پر پڑے اور پھر وہ اپنی نگاہ اس سے جھکالے، مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ اسے ایسی عبادت کی توفیق دیتے ہیں جس کی حلاوت اسے اپنے دل میں محسوس ہوتی ہے۔ (احمد، طبرانی)
د- عورت کے اجنبی مردوں کی طرف دیکھنے کے احکام:
مسلمان عورت راستوں میں چلتے ہوئے جائز قسم کے کھیلوں میں مشغول یا کاروبار وغیرہ میں مصروف مردوں کو دیکھ سکتی ہے۔ جیساکہ حضور ﷺ نے ۷ھ میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو اہل حبشہ کے لوگوں کو نیزہ بازی کرتے ہوئے دکھلایاتھا۔ (بخاری ومسلم)
رہی وہ حدیث جس میںحضرت ام سلمہ اور حضرت میمونہ رضی اللہ عنہما کو نابینا صحابی حضرت ام مکتوب رضی اللہ عنہ کے دیکھنے سے منع فرمایاہے وہ اس لیے کہ یہ حضرات ایک ہی مجلس میںموجود تھے۔ اسی وجہ سے امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایاکہ ہم یہ نہیں کہتے کہ مرد کاچہرہ عورت کے لیے بالکل ایسا ہی ہے جیساکہ عورت کاچہرہ مرد کے لیے۔ لہٰذا اگر فتنے کاخوف ہوتو عورت کا مرد کی طرف دیکھنا حرام ہوگا، ورنہ نہیں۔ اس لیے کہ مرد ہمیشہ سے چہرے کھلارکھتے آئے ہیں اور عورتیں نقاب ڈالتی آئی ہیں، لہٰذااگردونوں کاحکم ایک ہی ہوتا تو مردوں کو بھی نقاب ڈالنے کا حکم ہوتا یا عورتوں کو گھر سے نکلنے سے بالکل منع کردیاجاتا۔
خلاصہ یہ کہ عورت اجنبی مردوں کو دو شرطوں کے ساتھ دیکھ سکتی ہے:
۱- دیکھنے کی وجہ سے کسی فتنے کا اندیشہ نہ ہو۔
۲- ایک ہی مجلس میں آمنے سامنے روبرو نہ بیٹھے ہوں۔
۳- بچے کو جنسی جذبات ابھارنے والی چیزوں سے دور رکھنا۔
مربی پر اسلام نے جوذمہ داریاں عائد کی ہیں، ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ اپنے بچے کو ان تمام چیزوں سے دور رکھے جو اسکے جنسی جذبات کو بھڑکانے اور اخلاق کو خراب کرنے کا ذریعہ بن سکیں اور یہ کام اس وقت سے شروع کردینا چاہیے جب بچہ بالغ ہونے کی عمر کے قریب پہنچ جائے، اور یہ نو یا دس سال کی عمر سے بالغ ہونے تک کا زمانہ ہے۔ اس لیے بچے کو نو ہی سال کی عمر کے بعد سے عورتوں کے پاس جانے کا موقع نہیں دینا چاہیے۔
چنانچہ حدیث میں ہے کہ نبی کریم ﷺ نے دس ذوالحجہ کو حضرت فضل بن عباس رضی اللہ عنہ کو سواری پر اپنے پیچھے بٹھالیا تھا، اس وقت وہ قریب البلوغ تھے۔ حضرت فضل قبیلہ خشعم سے تعلق رکھنے والی ایک عورت کی طرف دیکھنے لگے جو نبی کریم ﷺ سے دینی امور میں کچھ پوچھ رہی تھی تو نبی کریم ﷺ نے حضرت فضل کی ٹھوڑی پکڑکر ان کاچہرہ اس عورت کی طرف سے دوسری جانب پھیردیا۔
اس باب میں مربی حضرات کی ذمہ داری دوباتوں میں منحصر ہے:
۱-داخلی نگرانی
۲-خارجی نگرانی
۱-داخلی نگرانی
بچے کو خاص اوقات میں گھر میں داخل نہ ہونے دینا (جس کاذکر پہلے آچکاہے)، بچہ کو خوبصورت عورت کے پاس جانے سے روکنا، دس سال کی عمر کے بعد بہن یا بھائی کے بستر پر نہ سونے دینا، گھر میںٹیلی ویژن وغیرہ میں اس کے علاوہ مخرب اخلاق ڈراموں کے دیکھنے سے منع کرنا، بچے کو ننگی تصاویر یا محرک جذبات کیسٹ رکھنے سے باز رکھنا، یہ سب مربی کی ذمہ داری ہیں۔
۲-خارجی نگرانی
سنیما، تھیٹر اور ڈراموں سے جو جنسی جذبات کو برانگیختہ کرنے والے ہوں، ان سے روکنا۔ اسی طرح ان بازاری فتنہ سامانیوں اور عریاں لباس کو دیکھنے سے بھی باز رکھنا لازمی ہے جن کو دیکھ کر نوجوان لڑکے اپنا دماغی استقلال اور ہوش وحواس کھوبیٹھتے ہیں۔
اسی طرح مربی حضرات کے لیے ضروری ہے کہ غلط قسم کے ہوٹلوں کے فساد سے بچوں کو دور رکھیں، اس لیے کہ وہاں ایسے لوگ رہتے ہیں جن میں شرافت وغیرت اور حمیت نام کی کوئی چیز نہیں پائی جاتی اور ایسی عورتیں جمع ہوتی ہیں جن کے دل میں حیا، پاکدامنی اور عزت و کرامت کی کوئی قیمت نہیں ہوتی۔
یہ ایک ایسی متعدی بیماری ہے جو مغربی تہذیب کی اندھی تقلیدکی وجہ سے ہمیں بھی لگ گئی ہے۔ چونکہ ہم نے اس مغربی تہذیب کے صرف ظاہر کو دیکھا اور باطن پر غور نہیں کیا، اس لیے اس مرض میں ہم بھی گرفتارہوگئے، جس کانتیجہ یہ ہے کہ ہم اپنے وقت کو لغویات میں برباد اور زندگی کے قیمتی سرمایہ کو ضائع کررہے ہیں۔ العیاذ باللہ تعالیٰ۔
۴-بچے کوبالغ ہونے سے پہلے اور بعد کے احکام سکھلانا
۱-ذہن سازی:
اگر شروع ہی سے بچے کو ذہن نشین کرادیاجائے کہ معاشرتی فساد اور اخلاقی بے راہ روی جو اسلامی معاشرے میں پھیلی ہوئی ہے، یہ یہودی، صہیونی اور صلیبی و استعماری سازشوں کاہی نتیجہ ہے تو بچے کو اس کی حقیقت بخوبی سمجھ میں آجائے گی جو اسے شہوات ولذات میں پڑنے سے روک دے گی اور بہت سے فتنوں سے رکاوٹ بن جائے گی۔
دین دشمن قوتیں چاہتی ہیں کہ شراب، جنسی ڈراموں، رسالوں، اخبارات، ریڈیو، ٹیلی ویژن کے پرگراموں اور لادینی کتابوں، اخلاق سوز قصوں، کہانیوں کے ذریعے اسلامی معاشرے کو ختم اور تباہ کردیاجائے، اس لیے اے تربیت کرنے والو! آپ کافرض یہ ہے کہ آپ اپنی اولاد اور جگر گوشوں میں دین کی صحیح سوچ اور سمجھ پیدا کریں، تاکہ وہ دشمنوں کے دام اور مکاریوں کے جال سے واقف ہوجائیں۔
۲-ڈرانا اور متنبہ کرنا:
بچے کو حرام سے روکنے اور فواحش سے باز رکھنے کے لیے یہ کامیاب ترین سلسلہ وذریعہ ہے، اس لیے کہ یہ بچے کے سامنے ان خطرات کی حقیقی صورت پیش کردے گا جو فواحش کے سیلاب میں بہنے اور آزادی کے جال میں پھنسنے کالازمی اثر ہوتاہے۔
ماں باپ اور اساتذہ کی ذمہ داری ہے کہ جب بچہ سمجھدار ہوجائے تو اسے شرعی احکام سمجھائیں جن کا تعلق فطری جذبات اور جنسی پختگی سے ہے، اس تعلیم کے دینے میں لڑکا اور لڑکی برابر ہیں، اس لیے کہ شرعاً دونوں ہی مکلف ہیں۔
بچے کے بلوغ، احتلام اور غسل وغیرہ کے بہت سے احکام و مسائل ہیں جن کی شرعی احکام کے مطابق بچے کو تعلیم دینی چاہیے۔
۵-کیا جنسی مسائل بچے کے سامنے بیان کرنے چاہیئں؟
بہت سے مربی حضرات یہ دریافت کرتے ہیں کہ کیا مربی کے لیے جائز ہے کہ بچے سے صاف صاف وہ تمام مسائل بیان کردے جو اسے بالغ ہونے سے پہلے اور بالغ ہونے کے وقت پیش آتے ہیں۔
تو شرعی دلائل سے یہ معلوم ہوتاہے کہ مربی اپنے بیٹے یا بیٹی کو ایسے امور بتلاسکتا ہے جن کا تعلق جنس اور شہوت سے ہو، بلکہ بعض دفعہ ان کا بتلانا واجب ہوجاتاہے جب کہ کوئی شرعی حکم اس پر مرتب ہوتا ہو۔
چنانچہ بہت سی آیتوں میں جنسی اتصال وملاپ کاتذکرہ ملتاہے اور یہ بھی مذکور ہے کہ انسان نطفے سے پیداہواہے، اس کے علاوہ زنا وغیرہ کا بھی ذکر ملتاہے نیز بعض آیتیں نہایت وضاحت کے ساتھ یہ بتلارہی ہیں کہ انسان کو اپنی شرمگاہ کی حفاظت کس سے کرنی چاہیے اور کس سے نہیں، اور یہ کہ رمضان میں ہمبستری کی جاسکتی ہے یا نہیں؟ اور حالت حیض میں عورتوں سے دوری اختیار کرنی چاہیے، یہ سب چیزیں خواہش نفس ہی سے متعلق ہیں۔ پس اگر بچہ سن شعور کو پہنچ جائے اور اس کا استاد و مربی ان حقائق کو اس کے سامنے بیان نہ کرے تو وہ ان آیات کو کیسے سمجھے گا؟ اس کے علاوہ یہ قرآن کریم کی دعوت تدبر کے بھی خلاف ہے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:
کِتَابٌ أَنزَلْنَاہُ إِلَیْْکَ مُبَارَکٌ لِّیَدَّبَّرُوا آیَاتِہِ وَلِیَتَذَکَّرَ أُوْلُوا الْأَلْبَاب(ص۲۹)
’’یہ بابرکت کتاب ہے جس کو ہم نے آپ پر اس واسطے نازل کیاہے تاکہ لوگ اس کی آیتوں میں غورکریں اور تاکہ اہل فہم نصیحت حاصل کریں۔‘‘
بلکہ قرآن کریم ایسے لوگوں پر نکیر کرتاہے جو قرآن کریم پڑھ کر ان آیتوں پر غور نہیںکرتے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
أَفَلَا یَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ أَمْ عَلَی قُلُوبٍ أَقْفَالُہَا(محمد۲۴)
’’تو کیا یہ لوگ قرآن پاک میں غور نہیں کرتے یا ان کے دلوں پر قفل لگ رہے ہیں؟‘‘
اس سے ہم کو یہ بھی معلوم ہوتاہے کہ جیسے قرآن کریم اور دیگر علوم ومعارف پر مشتمل ہے، اسی طرح ضرورت کے مطابق جنسی مسائل پر بھی مشتمل ہے لہٰذا مسائل کو بھی سمجھنا ضروری ہے۔
لیکن آپ کو دو اہم چیزوں کو یاد رکھناچاہیے:
۱-عمر کے ہر حصے سے متعلق احکام کی تعلیم اسی کی مناسبت سے دیجیے۔ لہٰذا یہ قطعاً نامعقول بات ہے کہ آپ دس سال کی عمر کے بچے کو جنسی ملاپ کے اصول بتلائیں۔
۲-لڑکی کو یہ جنسی مسائل سکھانے کاکام ماں کو انجام دیناچاہیے، لیکن اگر کسی لڑکی کی ماں موجود نہ ہو تو اس کی جگہ کوئی اور عورت یہ کام انجام دے تو بہتر ہے۔
ll