جنوبی ایشیا دہشت کے سائے میں —نئے اقتصادی نظام کی طرف…

شمشاد حسین فلاحی

ممبئی دہشت گردانہ واقعات سے قارئین نہ صرف واقف ہیں بلکہ کسی نہ کسی صورت میں متاثر بھی ہیں۔ میڈیا کی ہیجان انگیز رپورٹنگ نے پورے ملک کو جذباتی طور پر یرغمان بنانے کی کوشش کی لیکن ناکام رہا۔ اس بار دہشت گردی کا شکار غیر ملکی سیاح، بڑے تاجرین اور وی آئی پی افراد ہوئے ہیں۔ ان واقعات میں پانچ یہودی شہریوں کی ہلاکت بھی واقع ہوئی ہے جس کے بارے میں بعض اسرائیلی تحقیق کاروں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ ان کی موت ہندوستانی سیکورٹی فورسیز کی گولیوں سے ہوئی ہے۔ واقعات کے بعد کی سیاست پر بھاجپا نے فرقہ پرست کارڈ کھیلنا چاہا لیکن بیدار رائے دہندگان نے دہلی، راجستھان اور میزروم میں انھیں اقتدار سے باہر رکھا۔ اب سوال یہ ہے کہ ملک دہشت گردی کے مسئلے سے کیسے نبرد آزما ہو، دہشت گردی کے مسئلے پر غور کرنے کے لیے چند امور پر توجہ دینا لازم ہوگا۔
٭ اولاً دہشت گردی ایک بین الاقوامی مسئلہ ہے، اس لیے اس کے لیے بین الاقوامی جدوجہد اقوام متحدہ کے زیرِ نگرانی انجام دی جانی چاہیے۔ ہر ملک اپنی اپنی لڑائی نہ تو لڑسکتا ہے اور نہ یہ لڑائی مفید ہے۔ ہندوستانی عوام اور پاکستانی عوام یاکوئی اور کسی بھی جنگ کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ ہندوستان کے بعض انتہا پسند عناصر دہشت گردی کو یک طرفہ مسئلہ بتاتے ہوئے پاکستان پر حملہ کرڈالنے کے حماقت آمیز اور جوشیلے مشورے دے رہے ہیں۔ وہی لوگ یہ بھی مشورہ دے رہے ہیں کہ ہندوستان دہشت گردی سے نپٹنے کے لیے امریکہ اور اسرائیل کے گینگ میں شامل ہوجائے۔ بعض حکومتی ذمہ داران کے لہجے بھی اسی طرح کے ہیں لیکن انھیں عراق اور افغانستان میں امریکی شکست سے سبق لینا چاہیے اور بین الاقوامی اداروں کو مضبوط کرنا چاہیے۔
٭ ثانیاً جنوبی ایشیا کی سطح پر دہشت گردی ایک علاقائی مسئلہ بھی ہے۔ ہندوستانی حکومت اس بات سے بہتر طرح سے واقف ہے کہ دہشت گردی کا شکار صرف ہمارا ہی ملک نہیں ہے بلکہ سری لنکا، بنگلہ دیش اور پاکستان بھی ہیں۔ آر ایس ایس اینڈ کمپنی کا تجزیہ کہ ہندوستان کے خلاف ’’جہادی اسلام‘‘ کھڑا ہے بالکل ویسا ہی فرضی ہوّا ہے جیسا جارج بش کو WMD(عراق میں عام تباہی والے ہتھیاروں) کے بارے میں ان کے ٹولے نے دکھایا تھا۔ سمجھوتہ ایکسپریس، مکہ مسجد، مالیگاؤں اور آسام بم بلاسٹ میں ہندو رائٹ ونگ فورسیز کے لنکس پائے گئے ہیں۔ ابھی یہ نہیں معلوم یہ افراد سرحد پار دوسری ممالک میں دہشت گردانہ سرگرمیوں کے لیے کیا کررہے ہیں اور کیسے کررہے ہیں؟ اس طرح سے نکسل آندولن آہستہ آہستہ اپنے پیر جما چکا ہے اور حکومت ان کو کنٹرول کرنے میں ناکام ہے۔ بنگلہ دیش ہندوستان اور پاکستان میں سیکڑوں افراد سیکورٹی فورسیز کے ہاتھوں اغوا کیے جاتے ہیں اور ان کا پتہ نہیں چل پاتا ہے۔ ان کا استعمال کبھی کبھی mercinariesکے طور پر کیا جاتا ہے۔ منشیات کے نیٹ ورک پر مافیا گروپ جنوبی ایشیا میں سرگرم ہیں اوران کی موٹی موٹی رشوتوں سے کتنے سیاست داں اور نوکر شاہ مالا مال ہوئے ہیں۔ انسانی اسمگلنگ کا نیٹ ورک اس خطے کی بدقسمتی ہے جہاں بھاجپا کے بابو بھائی کٹارا نامی ممبر پارلیمنٹ کو ایئر پورٹ پر رنگے ہاتھوں پکڑ لیا جاتا ہے۔ ان سبھی حقائق کا اعتراف کرتے ہوئے خطے کی تمام حکومتوں کو دہشت گردی کے خلاف مشترکہ لائحہ عمل بنانا ہوگا اور مشترکہ جدوجہد کے ذریعے اس لعنت پر قابو پانا ہوگا۔ گلوبلائزیشن کا فائدہ جہاں اقتصادی خوشحالی ہے وہیں اس کا نقصان جرائم کی آسان حرکت و عمل بھی ہے۔ جس طرح سے حکومتیں تجارتی معاہدوں کے لیے مشترکہ فورم بنارہی ہیں اسی طرح سے جرائم اور دہشت گردی کے خلاف بھی مشترکہ اقدامات لازم ہیں۔
٭ دہشت گردی کا سب سے خطرناک پہلو ملکوں کی داخلی سیاست ہے۔ پاکستانی حکومت میں شریک کوئی بھی پارٹی کسی انتہا پسند گروپ کے خلاف ایکشن لینے میں اسی طرح ہچکچاتی ہے جس طرح ہندوستانی حکومت بابری مسجد شہید کرنے والوں کے خلاف، اور تمل ناڈو کی پارٹیاں تملوں کے خلاف یا بنگلہ دیش کی پارٹیاں اپنے گروپوں کے خلاف۔ اس لیے جب تک حکومتیں دہشت گردوں کے خلاف داخلی سیاست میں حوصلے کا مظاہرہ نہ کریں اور سیاسی قوت ارادہ نہ دکھائیں دہشت گردی پر قابو پانا ناممکن ہے۔ پرگیہ ٹھاکر اور کرنل پروہت کے دہشت گرد نیٹ ورک کی جڑیں ہندوستانی فوج، سیاسی جماعتوں، امریکہ اور برطانیہ اور ملیشیا میں موجود ہندو انتہا پسند جماعتوں سے ملتی ہیں لیکن ان کے خلاف ایکشن لینے کے لیے سبھی سیاسی جماعتوں کو جس طرح کا اتحاد اور قوت ارادی ظاہر کرنا چاہیے تھی، ووٹ بینک کی سیاست نے انھیں روک دیا۔ جو پارٹیاں مسلم دہشت گردی کے خلاف بڑی بہادر تھیں اچانک ہندو دہشت گردی پر خاموش ہوجاتی ہیں۔ اس لیے اب میڈیا، سیاسی جماعتوں اور سماجی تنظیموں کی مشترکہ جدوجہد ضروری ہے کہ عوام کو بیدار بنایا جائے اور کہا جائے کہ دہشت گردوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا اور ان کے خلاف سخت سے سخت کارروائی کرنے کا مطلب کسی مذہب کو ٹارگیٹ کرنا نہیں ہوتا، یہ حوصلہ عملاً ظاہر ہونا چاہیے۔
افسوس یہ ہے کہ ممبئی حملے کے بعد ملک کی سیاسی جماعتیں متحد ہوکر نفرت کی سیاست کرنے اور خطہ میں کشمکش کو بڑھانے میں لگی ہوئی ہیں۔ مشترکہ جدوجہد سے انکار کرکے حکومت ہندنے دہشت گردی کے خلاف لڑائی کو کمزور کیا ہے۔
٭٭٭
سرمایہ دارانہ نظام معیشت کے قلب امریکہ نے رسمی طور پر قبول کرلیا ہے کہ وہ مالیاتی بحران کا شکار ہے۔ اس لَو بلڈ پریشر نے صرف امریکہ ہی نہیں بلکہ ان تمام ممالک کی اقتصادی نبض کو سست کردیا ہے جو بظاہر بڑے چاق و چوبند اوربے مثال نظر آتے تھے۔ ان میں سے کئی نے گزشتہ دس پندرہ برس قبل ہی اس سرمایہ دارانہ قلب سے اوپن مارکیٹ اور گلوبلائزیشن کے نام پر اپنی اقتصادی رگیں جوڑی تھیں۔ ان ممالک میں ہمارا ملک بھی شامل ہے، جس کے حکمراں مسلسل یہی کہہ رہے ہیں کہ اس عالمی مالیاتی بحران کا اثر ہندوستان پر نہیں پڑا ہے۔ حالانکہ پرائیویٹ سیکٹر میں نوکریوں کی چھٹنی، سروس سیکٹرس میں ٹھٹھرن، بی پی اوز کی واپسی، شیئر بازار کا مایوس کن رویہ، کمپنیوں کو بچانے کے لیے سرکاری پیکجز کا اعلان وغیرہ سب کچھ جاری ہے۔ بیشتر ماہرین اقتصادیات کا خیال ہے کہ یہ عالمی مالیاتی بحران کئی سالوں تک چل سکتا ہے۔ اور اس بحران کے سب سے برے نتائج ان ممالک پر پڑیں گے جو حالیہ دنوں میں بڑے پرجوش تھے مثلاً ہندوستان، افریقہ، لیٹن امریکہ اور کچھ حد تک چین بھی۔ امریکی نو منتخب صدر نے اگر اپنے اقتصادی نظریے کے تحت بی پی اوز کو واپس بلانے کی کوشش کی تو پھر ان ممالک میں ایک ’’پروفیشنل بے روزگاری‘‘ کا دور آئے گا جہاں ایم بی اے اور ایم سی اے کیے ہوئے ہزارہا نوجوان پہلے سے کھڑے غیر پروفیشنل بیروزگاروں کی بھیڑ میں شامل ہوں گے۔ یہ نہیں کہا جاسکتا کہ حالات بہت ہی بدتر ہو جائیں گے لیکن اتنا طے ہے کہ حالات پہلے جیسے نہیں رہیں گے۔ اس پورے بحران پر اسلامی نقطہ نظر سے بھی تجزیے کیے جارہے ہیں، لیفٹ فرنٹ کے ماہرین اقتصادیات کی نکتہ چینی بھی جاری ہے اور خود سرمایہ دارانہ نظام اقتصاد کے اندر خانہ جنگی کی سی کیفیت طاری ہے۔ ان سبھی تنقیدوں، جائزوں سے چند اہم نتائج سامنے آتے ہیں:
٭ ڈیمانڈ اور سپلائی کا فارمولہ حقیقت اورامرِ واقعہ سے دور کی چیز ثابت ہوگیا ہے۔کیونکہ گذشتہ چند برسوں میں دنیا کے سامنے وہ ’ڈیمانڈ‘ پیش کی گئی جو حقیقت میں نہیں تھی اور اسی طرح سپلائی بھی۔ اس کو آپ ببل اکانومی Bubble Economy کا نام دے سکتے ہیں۔ جہاں غیر حقیقی ڈیمانڈ پیدا کی جارہی ہے اور غیر حقیقی سپلائی کے لیے مارکیٹ میں پیسہ لگایا جارہا ہے۔
٭ سروس سیکٹر میں ترقی اور ہیومن ڈیولپمنٹ میں بہتری کے درمیان بڑا فاصلہ ہے۔ گزشتہ چند برسوں میں سروس سیکٹر کی ضرورتوں کے مطابق تعلیمی پالیسیاں بنائی گئی ہیں، جبکہ ہیومن ڈیولپمنٹ میں کوئی قابلِ ذکر بہتری نہیں درج ہوئی ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ پوری اقتصادی ترقی سے فائدہ اٹھانے والوں کی تعداد چند کروڑ ہے اور محروموں کی تعداد اربوں میں ہے۔ ساتھ ہی ماحولیات کو مارکیٹ فورسیز کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے اور ہیومن رائٹس کو ایڈہاک پر رکھا گیا ہے۔ نتیجتاً ایک بڑی تعداد اقتصادی سرگرمیوں سے دور کھڑی شیئر مارکیٹ کا تماشا دیکھ رہی ہے۔
٭ لبرلزم اور کھلی اقتصادیات کے نام پر اقتصادی امور کو چلانے( ریگولیٹ) کرنے کا کام بھی سرکاروں نے بند کرکے منافع خوروں کے حوالے کردیا تھا۔ امریکی حکومت کو یہ پتہ ہی نہیں چل سکا کہ ’لیہ مین بردرس‘ میں کھربوں ڈالرس کا منافع اور پھر دیوالیہ پن اچانک کیسے ہوگیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ وہی منافع خور جو کہتے تھے کہ اقتصادی امور میں حکومتوں کو دخل نہیں دینا چاہیے، حکومتوں سے ’’بچاؤ، بچاؤ‘‘ کی صدائیں بلند کررہے ہیں اور حکومتیں ان کے لیے بیل آؤٹ پیکج تیار کرکے دے رہی ہیں۔ اقتصادی ریگولیشن کی مضبوط اتھارٹی کی ضرورت صرف مارکیٹ کو ہی نہیں بلکہ کنزیومرس، عوام کو بھی ہے۔
٭ اسلامی نقطۂ نظر سے دیکھیں تو پورا اقتصادی نظام اس نعرے پر مرکوز ہے، ’’خوب خرچ کرو چاہے قرض لے کر‘‘ ہمارے رسول ﷺ نے فرمایا تھاکہ خرچ میں میانہ روی معاشی مسائل کا حل ہے۔ اور رسول اللہ ﷺ نے ایک حدیث میں مارکیٹ کو سب سے خراب جگہ قرار دیا تھا۔ اس کا مطلب اقتصادی سرگرمیوں کا بائیکاٹ نہیںبلکہ ایک ایسا اقتصادی کلچر لا نے کے لیے تھا، جہاں بازار انسانی تہذیب میں ایک جزو رہے نہ کہ انسانی تہذیب کی نکیل پکڑنے والا ادارہ۔ رسول اللہ کی یہ حدیث دراصل اسلامی مفکرین کے لیے حکم ہے کہ وہ ایک نئے اقتصادی نظام کی ایجاد کے لیے فکری و عملی سرگرمی تیز تر کردیں۔
شمشاد حسین فلاحی

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146