جنون کی موت

کوثرچاندپوری

رات تاریک اور سنسان تھی سڑک پر کہیں کہیں لائٹیں جل رہی تھیں اور شام ہی سے تاریکی اور روشنی میں جنگ چھڑی ہوئی تھی۔ کمرہ کی کھڑکیاں کھلی ہوئی تھیں اور میں پلنگ پر پڑا شہر کی مشینی زندگی سکوت پر غور کررہا تھا۔ کائنات اونگھتی محسوس ہورہی تھی کہ اسی وقت سڑک کے دونوں طرف کسی کے آنے کی آہٹ ہوئی اور کھڑکی کے سامنے آکر گفتگو میں تبدیل ہوگئی۔

کیا خبر ہے؟ ایک آواز آئی۔

’’وہ مرگیا پاگل خانے میں۔‘‘

’’مرگیا دیوانہ‘‘

’’ہاں! دیکھنا ہے ویرانے پر کیا گزرتی ہے۔‘‘

کچھ بھی گزرے مرنے والے کو اس سے کیا؟ شہر کی ہنگامہ خیزی میں کسی کے مرنے جینے کی تو کوئی اہمیت نہیں، لوگ مرتے ہی رہتے ہیں۔ سڑک پر موٹر سے بھی کچل کر آدمی مرتا ہے اور آپس کے جھگڑوں میں زخمی ہوکر جنرل وارڈ میں بھی آدمی ہی دم توڑدیتا ہے۔ یہ سب روز مرہ کی باتیں ہیں، لیکن پاگل خانے میں کسی کے مرنے کی خبر میرے لیے بالکل نئی تھی، عجیب اور حیرت انگیز بھی۔ وہ دونوں دیوار کے قریب کھڑے تھے۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے خبر سنانے اور سننے والے کو اس واقعہ سے گہری دلچسپی ہو۔

’’کیا ہوگیا تھا اسے؟‘‘

’’ہوتا کیا، اس کا دماغ خراب ہوگیا تھا، سڑکوں پر شور مچاتا پھر رہا تھا آخر پاگل خانے بھیج دیا گیا اور آج وہیں وہ چل بسا۔‘‘

’’بہت بری خبر لائے ہو رام اوتار سمجھ لو اس کے ساتھ ہم دونوں بھی زندہ دفن ہوگئے۔ کہتے ہیں کہ وہ شہر بھر کے لیے ایک مصیبت تھا۔ کسی کی عزت اور دولت اس کے ہاتھ سے محفوظ نہ تھی دنگا کرادینا تو اس کے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا۔ وہ کسی کا دوست نہیں تھا۔‘‘

’’میرا اور تمہارا بھی نہیں؟‘‘

’’کسی کا نہیں۔‘‘

اب میری سمجھ میں آیا کہ یہ اس شخص کا ذکر ہے جس کو رام اوتار بھی کہاجاتا تھا۔ اور غلام نبی بھی،یوں اس کا کوئی نام نہیں تھا، عام طور پر اسے فساد اور بدامنی کا سمبل سمجھا جاتا تھا۔ وہ مرتے دم تک اپنے کردار پر قائم رہا۔ اونچے قد کا لمبا تڑنگا آدمی تھا، چہرے میں کوئی خاص بات نہ تھی۔ آنکھوں میں شرارت کی چمک ضرور تھی۔ اس کا لہجہ بہت دھیما تھا۔ دن بھر وہ ہوٹلوں، کیفوں اور چائے خانوں کی رونق بڑھاتا، رات کو کسی پار ک میں بیٹھا یا چوراہے پر کھڑا نظر آتا، افواہیں پھیلانا اور چھوٹی چھوٹی باتوں کو بڑھا چڑھا کر بیان کرنا اس کا دلچسپ مشغلہ تھا۔ اس کی پھیلائی ہوئی افواہیں پر لگاکر اڑا کرتی تھیں، کوئی پوچھتا:

’’کیا ہورہا ہے شہر میں؟‘‘

وہ یقین دلانے کے انداز میں کہتا:

’’ہر شخص اپنے بچاؤ کی فکر کررہا ہے۔ سوڈے کی بوتلیں جمع کی جارہی ہیں، اس بار ہولی خیریت سے گزرتی دکھائی نہیں دیتی بڑے زور شور سے تیاریاں ہورہی ہیں۔‘‘

’’کس بات کی؟‘‘

’’مقابلے کی۔‘‘

سیکڑوں رام اوتار اور غلام نبی اس کی جماعت میں شامل تھے۔ وہ آن کی آن میں اس کونے سے اس کونے تک یہ خبریں پھیلادیتے۔ شہری زندگی پر فالج گر پڑتا، لوگ ایک دوسرے کو شک کی نگاہوں سے دیکھنے لگتے اور پھر کوئی فساد ہوجاتا۔ امن و امان ہوجانے پر بھی وہ لوگوں کو چین سے نہ بیٹھنے دیتا۔ برابر یہی کہتا پھرتا۔

’’آگ ابھی بجھی نہیں، اندر ہی اندر سلگ رہی ہے، دوسری ٹکّر ضرور ہوگی۔ دوکانیں لوٹنے اور گھروں میں آگ لگانے کے پلان بنائے جارہے ہیں۔‘‘

اب تک اس نے نہ جانے کتنے ہنگامے کرادیے تھے۔ اس کی تاریخ انہی ہنگاموں سے بھری ہوئی تھی۔ پولنگ اسٹیشن سے پبلک جلسوں تک اس نے جال بچھا رکھا تھا۔ کہیں نہ ہونے پر بھی وہ ہر جگہ موجود رہتا تھا۔ تہواروں پر نہایت سختی سے بندوبست کیا جاتا، خراب شہرت کے لوگوں کو پکڑ کر بند کردیا جاتا لیکن وہ کسی کے ہاتھ نہ آتا۔ بڑے بڑے دنگے ہوئے، آگ لگائی گئی، قتل بھی ہوئے مگر اس پر کسی قسم کی آنچ نہ آئی۔ ایک دن وہ ہوٹل میں بیٹھا چائے پی رہا تھا۔ آس پاس بہت سے آدمی چائے کافی یا اورنج جوس میں مشغول تھے۔ بڑے اطمینان سے باتیں ہورہی تھیں، گفتگو نئے چیئرمین کے متعلق تھی جس کو آج اسی ہوٹل میں شہریوں کی طرف سے پارٹی دی جارہی تھی۔

’’شری مادھورام آرہے ہیں اس وقت۔‘‘

’’بہت اچھے آدمی ہیں۔‘‘

’’اب کوئی دنگا نہیں ہوگا۔‘‘

’’کبھی نہیں، مادھو بابو غنڈوں کا دشمن ہے۔‘‘

وہ غور سے باتیں سن رہا تھا اور ساتھ ہی اپنی غفلت پر افسوس کررہا تھا وہ سوچ رہا تھا رام اوتار اور غلام نبی بڑے کام چور ہیں، انھوں نے مجھے وقت پر اطلاع کیوں نہ دی۔ دونوں کا کورٹ مارشل کردوں گا۔ پارٹی ساڑھے پانچ بجے دی جارہی تھی اور اس وقت پانچ بج رہے تھے۔ اس نے چائے کی پیالی میز پر رکھ دی اور کا جو کا ایک دانہ منہ میں ڈال کر آہستہ آہستہ چبانے لگا۔ جس رفتار سے منہ چل رہا تھا۔ اس سے دوگنی تیزی کے ساتھ دماغ میں خیالات کا چکر چل رہا تھا۔ وہ سوچ رہا تھا اور اسے کیا کرنا ہے، اس موقع پر جب بھی کوئی بڑی تبدیلی ہوا کرتی تھی، وہ اس کا خیر مقدم ضرور کرتا تھا۔ مادھو رام جی کا چیئرمین بن جانا اور پھر اس پارٹی میں شریک ہونا بھی کوئی معمولی بات نہ تھی۔

رام اوتار

غلام نبی

تم کہاں مرگئے۔

اس نے کا جو چباتے ہوئے اتنے زور سے کہا کہ لوگ اس کی طرف متوجہ ہوگئے۔

پہلی پیالی پی چکنے کے بعد عادت کے خلاف اس نے ایک اور چائے لانے کو کہا۔ اس کے خالی ہونے تک سوا پانچ بج گئے۔ مہمانوں کی آمد شروع ہوگئی۔ چیئرمین صاحب بھی ٹھیک وقت پر آگئے۔ وہ پتلے دبلے گندمی رنگ کے آدمی تھے اور اس کے لیے نئے نہیں تھے۔ وہ جانتا تھا کہ مادھو رام امن کے پجاری ہیں، ہر فرقہ کے لوگ ان پر بھروسہ رکھتے ہیں، انتظامات نہایت شاندار تھے۔ میزیں پھلوںاور مٹھائیوں سے بھری ہوئی تھیں، مادھورام تالیوں کی گڑگڑاہٹ میں تقریر کے لیے کھڑے ہوئے۔ انھوں نے کہا:

’’باہمی میل جول سے زندگی پر نکھار آتا ہے، اور اس کی پوری ذمہ داری ہم ناگرکوں پر آتی ہے میں چاہتا ہوں کہ ہر معاملہ کو بات چیت سے سلجھایا جائے۔‘‘

اس نے بظاہر پارٹی میں کوئی حصہ نہیں لیا۔ چیئرمین صاحب کی تقریر سن کر اسے یوں لگا جیسے وہ اس کے وجود کو جھٹلارہے ہوں، وہ جانتے ہی نہیں کہ ایک طاقت اور بھی ہے جس سے سمجھوتہ کیے بغیر کوئی اسکیم کامیاب نہیں ہوسکتی۔ اسے بہت غصہ آیا وہ ہنسا اور آہستہ سے بولا:

’’تم میل جول قائم نہیں رکھ سکو گے مادھو رام تم بھاشٹر دے سکتے ہو کام نہیں کرسکتے۔‘‘

اسی وقت مادھو رام چیئرمین نے زور سے اپنے ہاتھ کو جھٹکا دیا ان کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔ معلوم ہوا کہ ان کے ہاتھ پر کسی نے پتھر ماردیا ہے۔

پارٹی ختم ہوگئی، مہمان رخصت ہونے لگے، وہ بھی ہوٹل سے نکل کر سڑک پر آگیا۔

رات کو بجلی کی سی تیزی سے ہر گلی کوچے میں یہ خبر پھیل گئی کہ نئے چیئرمین نے ایک تاریخی یادگار کو گراکر اس کے اوپر سے سڑک نکال دی، اگلے دن اسی ہوٹل کے سامنے بہت بڑا ہنگامہ ہوگیا۔ فساد زیادہ پھیلنے نہیں پایا، پھر بھی کافی نقصان ہوگیا۔ بہت سے راہ گیر گھائل ہوکر ہسپتال چلے گئے۔ ایک لڑکی وہیں ختم ہوگئی وہ دودھ کی خالی بوتل ہاتھ میں لیے گھر سے نکلی۔ سامنے سے جلوس نعرے لگاتا آگیا۔ لڑکی کے سر پر کسی نے پتھر ماردیا، وہ چکرا کر گرپڑی، اسی وقت لاؤڈ اسپیکر پر چیئرمین صاحب کی آواز گونجی۔

’’پاگل نہ بنو – ہوش میں آؤ!‘‘

پھر وہ زور سے چیخے

’’کسی بے خطا پر ہاتھ مٹ اٹھاؤ غصہ اتارنا ہے تو مجھ پر اتار لو۔‘‘

چیئرمین صاحب کھلی جیپ میں سوار تھے۔ ان کی گاڑی میں بندوق یا مشین گن نہیں تھی۔ وہ موٹر میں کھڑے بول رہے تھے اور جب انھوں نے کہا سب اپنے اپنے گھر چلے جائیں تو ہجوم کا جوش ذرا ٹھنڈا پڑا۔ چیئرمین صاحب کی آواز میں بڑی تاثیر تھی۔ وہ ایک پتلی سی گلی میں کھڑا تھا۔ دوڑ کر لڑکی کے پاس آیا جو نیم بے ہوشی کے عالم میں دھیرے دھیرے کہہ رہی تھی۔

’’منا بھوکا ہے، جلدی دودھ دو۔‘‘

بوتل کے ٹکڑے زمین پر بکھرے ہوئے تھے وہ انہیں اکٹھا کرنے لگا جیسے بوتل کے ذرّے نہ ہوں۔ اس کے اپنے دل کے ٹکڑے ہوں۔ جب تک کانچ کے چمکتے ہوئے ریزے جمع ہوئے لڑکی ہمیشہ کے لیے خاموش ہوچکی تھی۔ وہ دیر تک ٹکڑے جوڑ کر بوتل بنانے کی ناکام کوشش کرتا رہا۔ تھک کر لڑکی سے بولا:

’’تمہیں مرنے نہیں دیا جائے گا — تم زندہ رہوگی۔‘‘

لڑکی کے ہونٹوں کو جنبش نہ ہوئی۔ اس کی آنکھیں پتھرا چکی تھیں، اس نے بگڑ کر کہا:

شیشی ٹوٹ گئی۔

ریزے بکھر گئے

لڑکی مرگئی

ذرے جڑ نہیں سکتے۔

لڑکی زندہ نہیں ہوسکتی۔

شیشی میں نے توڑی۔

لڑکی کو میں نے مارا ہے۔

مادھو صاحب آپ سچ مچ اچھے آدمی ہیں اور میں …… اس کا جملہ ادھورا رہ گیا۔ وہ تیزی سے چیئرمین صاحب کی آواز کی طرف دوڑنے لگا۔ شاید وہ چاہتا تھا کہ ان کے سامنے پہنچ کر اپنے جرم کا اقرار کرلے۔ چلتے چلتے اس کے کان گونجنے لگے طرح طرح کی آوازیں آنے لگیں۔

تم مجرم ہو – فسادتم نے کرایا ہے۔

اور پھر جیسے بہت بڑا طوفان آگیا ہو۔ بادل گرجا، بجلی کڑکی، اس کے بعد خاموشی چھاگئی۔ وہ بھاگتا رہا،تیز بہت تیز، اس کے بعد وہ کسی کیفے یا ہوٹل میں نہیں دیکھا گیا، جنگلوں اور ویرانوں میں گھومتا رہا، ہر شخص سے کہتا:

’’چیئرمین نے مجھے شہر سے نکال دیا۔ میں مجرم تھا۔‘‘

وہ پاگل ہوچکا تھا، اس کا جنون شہر کے لیے امن کا پیغام بن چکا تھا، کوئی دنگا نہ ہوا، کوئی لڑکی نہ مری، دودھ کی کوئی شیشی نہ ٹوٹی، مہینوں وہ جنگلوں میں گھومتا رہا، شہر کی سمت آنے سے اسے ڈرلگتا۔ نہ جانے کس نے اسے پاگل خانے بھیج دیا۔ جس روز وہ مرنے والا تھا اس نے ڈاکٹر سے پوچھا:

’’منا بھوکا ہے، اسے دودھ ملا؟‘‘

ڈاکٹروں نے مذاق کے موڈ میں جواب دیا:

’’دودھ تم پی گئے، منا اب بھی بھوکا ہے۔‘‘

اس نے پریشان ہوکر کہا:

’’دودھ میں نے پی لیا، منا اب بھی بھوکا ہے؟‘‘

یہ کہہ کر وہ ایک دم بپھر گیا، اپنے کپڑے پھاڑنے لگا، پھر بے ہوش ہوکر گر پڑا اور کبھی ہوش میں نہ آیا اور اس وقت رام اوتار اور غلام نبی دونوں باتیں کررہے تھے، ایک کہہ رہا تھا:

’’وہ مرگیا پاگل خانے میں‘‘

میں نے سوچا پاگل خانے میں مرکر اس نے اپنے اور عوام کے ساتھ بڑا انصاف کیا ہے۔ موت اس کی نہیں ہوئی جنون اور پاگل پن کی ہوئی اور اس کے لے پاگل خانہ ہی بہترین جگہ تھی۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146