میٹرو شہروں کی’ مابعد جدید ‘صورت حال میں اب مرد ،عورت کا محافظ و نگر اں نہیں بلکہ اس کا حریف اور مد مقابل ہے۔نئی عورت کی نظر میں مرد کا وہ مقام نہیں رہا جو اب سے چند دہائیوں پہلے تھا۔شوہر ’مجازی خدا ‘یا ’سرتاج‘ کے رول میںپسند نہیں کیا جاتا۔سخت گیر یا غیور قسم کی بیویاںنان و نفقہ تک کے لیے اس کے آگے ہاتھ پھیلانا پسند نہیں کرتیں۔ نئی عورتوں کو ’پالتو ،گھریلو،اطاعت شعار اور خدمت گذار ‘بننا پسند نہیں ۔ وہ مردانہ کرّو فر ،دھونس دھمکی اور روایات و خرافات کے دباؤ میں زندگی نہیں گزارنا چاہتیں۔جدید اعلیٰ تعلیم اور ملٹی نیشنل کمپنیوں نے انہیں جو معاشی فارغ البالی عطا کی ہے اس کی وجہ سے وہ آزادی کی کھلی فضا میں اڑان بھر رہی ہیں۔اب ان کی رول ماڈل سیتا اور ساوتری نہیں ہیں کیوں کہ وہ جانتی ہیں کہ مشرق کی گھریلو زندگی میں خود مختاری کا تاج نہیں غلامی کاطوق پہنایا جاتا ہے۔ گھر نام کے سورگ میں رہنے والی گرہ لکشمی‘ کے جس تصور میںمشرقی عورت جی رہی تھی، فیمی نسٹ خواتین و ’حضرات‘ نے اسے رد کر دیا ہے اور بال بچوں والی گھریلو عورت کو ایسے زاویے سے دیکھنے کی کوشش کی ہے جس سے کہ اس کا مقام و مرتبہ پست اور کمتر قرار پائے:
پڑھیے گیتا، بنیے سیتا / پھر ان سب میں لگا پلیتا /نِج گھر بار بسائیے ہوئیں کٹیلی، لکڑی سیلی،آنکھیں گیلی/گھر کی سب سے بڑی پتیلی بھَر بھَربھات پکائیے ۔۔۔ (رگھوبیرسہائے)
میٹرو شہروں کی نئی خواتین کو مشرقی عورت کے روایتی کردا ر میںلوٹ جانے کا مشورہ دینا اس سے ہمیشہ کے لیے قطع تعلق کر لینا ہے ۔وہ سمجھتی ہیں کہ ’ مشرقی عورت ‘ کی مقدس تصویر ان کے استحصال کا ذریعہ ہے۔ گھر وں میں ٹک کر رہنے کا مطلب ان کی نظر میں یہ ہے کہ عورت سیاست سے کنارہ کش ہو جائے۔ تمام قسم کے دانشورانہ فیصلے مرد کریں اور عورت صرف ان کی تصدیق کرنے اور اطاعت جھیلنے کے لیے زندہ رہے۔ نسائی تحریکات کے مطابق تہذیب، اخلاق ، مذہب اور قانون ،سب کچھ مردوں کے ذریعے تشکیل دیا گیا ہے ۔ اخلاق کے سارے مطالبے عورتوں ہی سے کیے جاتے ہیں۔تقدس اور پاکیزگی کا تصورزیادہ تر عورتوں ہی سے منسوب ہے۔ مرد جو چاہے کرتا رہے۔ ’مشرقی عورت ‘ کے تصور کی تشکیل ہی کچھ اس طرح کی گئی ہے کہ وہ مردوں کے مفاد میں کام کرتی رہے۔ ’ماں ‘ کے فرائض کیا ہیں ،اس کی یاددہانی کرا کر مرد اس کی تذکیرو سرپرستی کرنا چاہتاہے۔ ایسا نہیں ہے کہ وہ ماں کے فرائض انجام نہیں دینا چاہتیں۔اولاد کی خواہش ایک فطری خواہش ہے اور ہر ذی روح کو ہوتی ہے ۔ لیکن ان کا موقف یہ ہے کہ مرد ہوتا کون ہے عورت کو اس کے فرائض کی ادائیگی پر مجبور کرنے والا۔ وہ چاہے تو ماں بنے اور نہ چاہے تو نہ بنے۔ مردوں کی ماتحتی کے کسی فلسفہ میں ان کا یقین نہیں ہے۔ دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم وملزوم ہیں ۔ کسی ایک کو ،دوسرے کا پیدائشی انچارج ، امیر ، بادشاہ ، حاکم ، وغیرہ سمجھنا ظلم اور نا انصافی ہے۔حقوق نسواں کی علمبردار خواتین وحضرات کو اس موقف تک پہنچانے میں مذہبی رہنمائوں کی ایسی باتوں نے بیحد مدد کی ہے،بہ طور نمونہ یہ چند سطریں:
’’عورت ذات کے لیے آزاد نہ ہونا ہی ہرطرح سے مبارک ہے۔۔۔عورتوں میں کام ، کرودھ ، منفی جرأت، عقل کی کمی ، جھوٹ، کپٹ، کٹھورتا ، بغاوت ، اوچھاپن۔۔۔ وغیرہ مخصوص منفی صفات ہونے کی وجہ سے وہ آزادی کے قابل نہیں ہیں ۔۔۔
عورتوں کو مناسب ہے کہ وہ خوش طبعی سے گھر کے کاموں میں مہارت حاصل کریں اور گھر کے سازو سامان کی خاطرخواہ دیکھ بھال کرتی رہیں۔ کم خرچ کرنا ، دولت اور آمد و خرچ کا حساب رکھنا ، مہمان کی خاطر مدارات ، بچے پیداکرنا اور پالنا ۔۔۔ سینا پرونا ، چرخا کاتنا، چکی پیسنا، جھاڑو دینا ، چوکا برتن وغیرہ سب کام وہ خود فرض سمجھ کر محبت اور بے لوثی سے انجام دیں۔‘‘
[گیتا پریس سے لگاتار شائع ہو رہی ایک کتاب’ناری دھرم ‘ سے]
مذہب کے حوالے سے ایسی نصیحتیں ہزارہا سالوں سے کی جاتی رہی ہیں ۔ نا مناسب مردانہ مفادات کے حق میں خواتین کواستعمال کرنے کی کوششیں تقریباً تمام مذاہب کے ماننے والوں کی طرف سے کی گئیں۔قطع نظر اس سے کہ واقعی مذہب نے انہیں اس کا حق دیا تھا یا نہیں۔آج بھی مختلف مذاہب کے ماننے والوں میں یہ خیال پایا جاتا ہے کہ عورتیں ناقص العقل ہوتی ہیں۔ یہ ایک تاریخی سچ ہے کہ مختلف حیلوں اور بہانوں سے عورتوں کے رول کو محدود کر دیا گیا۔ حتیٰ کہ خود خواتین کی طرف سے ان کے استحصال پرمزاحمت بہت کم ہوئی ۔غالباً لمبے عرصے تک کسی نامناسب رویے کو برداشت کرتے رہناان کی فطرت میں داخل ہوگیا ۔مگر کبھی کبھی ان کا دکھ لوک گیتوں میں اجاگر ہوتارہا:
سون چریّا اُڑی اُڑی جیہیںاپنی اپنی جُون
میں تو پاپن پڑی پنجروا مروں بِسور بِسور
صدیوں تک گھروں میں پڑی ، دبی کچلی عورتوں کی یہ’ قوم‘ آخر کا راٹھ کھڑی ہوئی اور اس نے سب سے پہلے مغربی ممالک میں مردوں کے خلاف جنگ کی شروعات کی۔نسوانیاتی فکر( فیمنسٹ تھاٹ) جس کی ابتدا موٹے طور پر اٹھارہویںصدی سے ہوئی وہ اکیلے خواتین کا کارنامہ نہیں ہے بلکہ خواتین کے ساتھ ساتھ مردوں نے بھی اس تحریک کو فکری بنیادوں پراستوار کیا۔ مثال کے طور پر میری وولسٹون کرافٹ کی کتاب A Vindication of the Rights of Women(1792) ہی سے نسوانیاتی فکر کو جواز نہیں ملتا بلکہ اس کے تقریباً ایک صدی کے بعدجان اسٹوارٹ مل کے رجحان ساز کارنامے The Subjection Of Women(1869) نے نسوانیاتی فکر کو مستحکم کرنے میں اہم رول ادا کیا۔آج بھی مردوں کی حمایت کے بغیر یہ تحریک برگ و بار نہیںلا سکتی۔موجودہ دور میں نہ جانے کتنے مردفیمی نسٹ مفکرین ہیںجو اپنی پوری قوت سے ’مردوادی‘ سماج کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ یہ بھی کہا جائے تو مبالغہ نہ ہوگا کہ نسوانیاتی فکر اورنسائی تحریکات کی اصل باگ ڈور درحقیقت مردوں ہی کے ہاتھوں میں ہے ۔لوگوں کو معلوم ہے کہ بیسیویں صدی میںفیمی نزم کی سب سے قد آورنظریہ ساز سیمون دی بووار پرمردوں کے ذریعے تشکیل دیے گئے فلسفہ ٔ وجودیت کا گہرا اثر تھا اور خود بووار ایک فرانسیسی مرد فلسفی ژاں پال سارترسے ذہنی طور پر مرعوب تھیں۔
جب ہم اس حقیقت پر غور کرتے ہیں کہ نسوانیاتی فکر کی تشکیل میں صرف عورتوں کا ہی رول نہیں ہے بلکہ مردوں نے بھی اس میں جم کر حصہ لیا ہے تو پھر اس فکر کی بنیاد پر میٹرو شہروں اور میڈیا میں مبینہ طور پر برپا ہونے والی جنگ میں خواتین تنہا نہیں ہیں بلکہ ان کے ساتھ لازماًایسے مرد بھی ہیں جو نسوانیاتی فکر سے نظریاتی یا عملی طور پر متاثر ہیں۔اور دوسرے فریق میں بھی صرف مرد نہیں ہیں بلکہ ایسی عورتیں بھی ہیں جو مشرقی عورت کی اپنی پہچان کو برقرار رکھتے ہوئے اپنی رضامندی سے مردوں کے ماتحت رہ کر زندگی گزارنا چاہتی ہیں۔اور اس میں ان عورتوں کو اپنی کوئی ہتک بھی نہیں نظر آتی۔ وہ بڑے آرام سے اپنے شوہروں سے نان ونفقہ وصول کرتی ہیں ، ان کی کی لمبی چوڑی آمدنیوں سے فائدہ اٹھاتی ہیں اور ان کی عملی و نظریاتی اطاعت کرتی ہیں۔ یعنی بنیادی طور پر لڑائی دو جنسوںیا جنڈر کے درمیان نہیں بلکہ عورت کے دو نظریوں کے درمیان ہے۔ ان دونوں نظریوں میں سے کون صحیح ہے، یا کسی دوسرے متبادل نظریے کی تحقیق ؍تخلیق کی ضرورت ہے، اس پر غور و فکر کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔
نسوانیاتی مفکروں کا مذہبی موقف
فیمی نسٹ خواتین و حضرات کے لیے مذہب کو نظر انداز کرتے ہوئے آگے بڑھ جانا ممکن نہیں تھا۔ان کی دانست میں مردوں کے ذریعے تشکیل شدہ مذہبی قوانین میں ایسی تبدیلیوں کی ضرورت ہے جس سے کہ مذہبی اعتبار سے خواتین کو مساوی حقوق مل سکیں۔ چوں کہ صنف’ نازک ‘کی ایثار و قربانی اور صابرانہ و شاکرانہ رویے کی وجہ سے صنف ’مضبوط‘ نے مذہبی ، سماجی ،معاشی، سیاسی اور روحانی،غرض ہر اعتبارسے اس پراپنی فوقیت اور اجارہ داری قائم کر لی۔ ان تمام واقعی ناانصافیوں کی وجہ سے محض جذبات میں آکر اور رد عمل کے طور پر نسائی تحریکات کے علم برداروں نے خدا کو نشانہ بنایا تا کہ نہ رہے بانس اور نہ بجے بانسری۔ انہوں نے سمجھا کہ چونکہ مذہب ہی زندگی کو کنٹرول کرتا ہے اس لیے سب سے پہلے مذہب سے لوہا لینا ضروری ہے۔اس لیے بعض نے یہ پروپگنڈا شروع کر دیا کہ خدا نے انسانوں کی تخلیق نہیں کی بلکہ انسانوں نے خدا کی تخلیق کی ہے۔مگرایسے فیمی نسٹ خواتین و حضرات بھی ہیں جنہوں نے معاشرہ میں مذہب کے لازمی رول کو بظاہر تسلیم کیا اور مصلحت آمیز گفتگو شروع کی کہ اگرخدا واقعی انسانی ذہن کی تخلیق ہے تب بھی خدا کا یہ تصور انتہائی خوبصورت تصور ہے اور اس کو باقی رکھنا چاہیے۔مختلف مذاہب میں ایسے لوگ پیدا ہوئے جنہوں نے فیمی نسٹ فکر کے دبائو میں ان کی بہت سی معقول و نامعقول باتوں کو قبول کرنا شروع کیا۔مثلاً عورتوں کو بھی مسجد میں امامت کا حق ہونا چاہیے۔ یہ نکتہ بعض ’اسلامی ‘مفکرین نے صرف اور صرف فیمی نزم کے دبائو میں اچھالاہے ۔ اب یہ صورت حال ہے کہ فیمی نسٹ رجحانات تقریباً تمام مذاہب کے پیروئوں میںابھرنے لگے ہیںاور مذہب کو فیمی نزم کے نقطہ نظر سے ترمیم طلب نظروں سے دیکھا جانے لگا ہے۔ایسے لوگوں کی نظر میں خواہ مذہب کی کوئی حقیقت ہو یا نہ ہو ، اس لحاظ سے یہ خبر ان کے لیے بہت خوش آئند ہوتی ہے کہ فلاں مذہب میں خواتین کے لیے مساوی حقوق کی بات کی جارہی ہے۔مثلاً وہ کسی توحیدی یا بے خدا مذہب میں یقین کریں نہ کریں ، جب لیکن انہیں یہ بتایا جائے کہ فلاںمذہب میں مساوات مرد و زن ہے تو یہ ایک خوشخبری ہوگی اور وہ مذہب محض اسی لیے ایک قابل تعریف مذہب ہوگا۔اس طرح ان کے لیے اہم معاملہ مذہب نہیں بلکہ مساوات ِ مرد و زن ہے۔عورتوں کے حق میں جرح کرنے والے کئی ایسے لامذہب مرد دانشور بھی ہیں جو دلت، عورت اور اقلیت کو ایک درجے میں رکھتے ہیں اور یہ کہتے ہوئے نہیں تھکتے کہ سماجی تبدیلی تبھی آئے گی جب تمام دلتوں ،عورتوں، اقلیتوں اور حاشیے پر پڑے دیگر لوگوں کو عملاً ہر طرح سے مساوات کا حق مل جائے گا۔ مثلاً اگر ہندو مذہب میں کسی دلت کو مندر میں گھسنے کی اجازت نہیں تو اس کے لیے لڑائی لڑی جائے گی ۔اسی طرز پر کبھی ای راماسوامی نائکر نے دلتوں سے کہا تھا کہ انہیں اسلام اس لیے نہیں قبول کرنا چاہیے کہ مرنے کے بعد انہیں جنت ملے گی ، یا وہ ایک سچے مذہب کو قبول کریں گے، بلکہ دلتوں کو اسلام اس لیے قبول کرنا چاہیے کہ یہ مذہب تمام انسانوں کو برابری کا حق دیتا ہے۔ نسائی تحریکات نے بھی کسی مذہب کو اگر کوئی اہمیت دی ہے تو وہ صرف مساوات قائم کرنے کے ایک ہتھیار کے طور پر دی ہے۔یعنی انہوں نے مذہب کومحض حصول مساوات کا ایک ذریعہ اور آلہ سمجھا ہے۔ انسان کی زندگی کا مقصد کیا ہے ، انسان کو کس لیے جینا اورمرنا چاہیے ،عبادت کس کی کرنی چاہیے وغیرہ بنیادی سوالات سے ان کو کوئی خاص لینا دینا نہیں ہے۔
مابعد جدید جنڈر وار
بیسویں صدی کے تقریباً نصف اول کے بعد سے جدیدیت کی کامیابی کا جو بھرم قائم تھا وہ ٹوٹنا شروع ہوا اور جدید نظام زندگی کی کھلی ناکامی کے بعد مابعد جدید رجحانات ابھرے۔ خواتین کی اچھی خاصی تعداد معاشی طور پر طاقتور ہو گئی۔اور سیاسی طور پر طاقت کے حصول کے لیے کوشش کرنے لگی۔ بیسویں صدی کے آخر تک نوبت یہاں تک پہنچی کہ فیمی نسٹ رجحان کے زیر اثر بڑے شہروں میں برپاہونے والی جنڈر وارمیں فیمی نسٹ خواتین وحضرات نے دھیرے دھیرے جنگ کی مدافعانہ حکمت عملی ترک کرنی شروع کی اور اپنی دانست میں آگے بڑھ کر سماج کی ’مرد وادی ‘ساخت کو ڈھانے کی فکری کوشش کرنے لگے۔ مکمل مساوات کی مانگ نے نظریاتی سطح پرایک اور منفی رخ اختیار کیا۔وہ یہ تھا کہ عورتوں کو ان تمام برائیوں کو اختیار کرنے کی کھلی چھوٹ دی جائے جن میں مرد مبتلا ہیں ۔مثلاً اگر مرد سگریٹ اور شراب پیتے ہیں اور عورتوں کا سماج اس کو برداشت کر لیتا ہے تو آخر مرد سماج کیوںعورتوں کی جانب سے اسی طرح کی حرکتیں برداشت نہیں کر سکتا۔یعنی وہ یہ چاہتے ہیں کہ برابری گناہ او ر ثواب دونوں میں ہو۔ یہ نہیں کہ مرد کے گناہ اور جرائم کو تو سماج برداشت کرتا رہے اور عورتوں کے گناہ پر بھڑک اٹھے۔ اس کا یہ مطلب ہے کہ عورتوں سے اخلاق کا زیادہ مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ اسی طریقے سے جسم کی نمائش کا جواز بھی فراہم کر لیا جاتا ہے کہ میں جو چاہے کروں آپ ہوتے کون ہیں روکنے والے۔
میٹرو شہروں میں نئی خواتیناب کسی پر منحصر نہیں ہیں اوربازار میں مختلف سازو سامان کی خرید کا کام بھی انجام دیتی ہیں، اس لیے بازار اور میڈیا میںانہیں اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے مردوں کی عریاں تصویریں چھاپنے کا چلن بڑھا ہے۔اب زندگی کے ہر میدان میں با اختیار عورتیں مردوں کا استحصال کرتی ہیں۔فیمی نسٹ نظریہ سازوں کی نظر میں یہ ایک فطری پروسیس ہے جوعورتوں کے با اختیار ہونے کی وجہ سے شروع ہوا ہے۔یہ الٹی گنگا نہیں بہہ رہی ہے بلکہ عورتوں کے طاقتور ہونے کی دلیل ہے ۔اور جیسے جیسے عورتیں طاقتور ہوتی جائیں گی ویسے ویسے عورتوں کے ذریعے مردوں کے استحصال کی تاریخ لکھی جاتی رہے گی۔ اور ایک وقت ایسا آئے گا جب مرد بھی ویسے ہی مجبور ومقہور ہو جائیں گے جیسی کہ عورت ماضی میں تھی۔
سخت گیر نسوانیاتی نقطہ نظر کے مطابق اب بدلہ لینے کا وقت آگیا ہے۔مثلاً مردوں نے فلموں میں خواتین سے جسم کی نمائش کرائی ہے تو اب یہی فعل مردوں کے ساتھ بھی دہرایا جائے گا۔مردوں نے ماضی میں عورتوں کو کم عقل ،کم ذات اور شرو فساد کی جڑ قرار دیا تو یہی سب کچھ اب ناگزیر طور پر مردوں کو بھی سننا پڑے گا۔ نظریہ ٔمساوات اپنی تمام تر قوت کے ساتھ نافذ ہوگا۔ یہ مکافات کا ایک تاریخی عمل ہے جس میں دخل نہیں دیا جا سکتا۔ مغرب میں فیمی نسٹوں کے زیر اثر میڈیا میں مردوں کو لچا ، لفنگا، بدمعاش اور بد اطوار قرار دینا شروع ہو چکا ہے۔ کناڈا کے دو مصنفوںکی مشترکہ کتاب Spreading Misandry: The Teaching of Contempt for Men in Popular Culture میں تفصیل سے بتایا گیا ہے کہ جدید میڈیا میں مردوں کا مذاق اڑانا، انہیں حقارت کی نظر سے دیکھنا، انہیں مورد الزام ٹھہرانا، ان کی انسانی حیثیت کو مسخ کر کے پیش کرنا اور انہیں راکشش کے طور پر دکھانے کا چلن شروع ہوا ہے ۔کتاب کے آخر میں جو نتائج نکالے گئے ہیںان میں ایک چونکانے والی بات یہ ہے کہ دنیا اب رفتہ رفتہ عورتوں کے معاملات ومسائل اور ضروریات پر مرکوز مردوں کی برائیوں اور بدمعاشیوں پر مرکوز-ہورہی ہے۔
یہ واضح ہے کہ نسوانی تحریکات نے جس جنگ کا آغاز کیا ہے وہ در اصل مساوات کی جنگ ہے۔ زندگی کے ہر شعبے میں مکمل مساوات۔ٹھیک اسی طرح کا کردار ، اسی طرح کے کام جن کو مرد کرتا ہے اور عملاًکرنے کا اختیار رکھتا ہے۔ سیمون دی بووار کے نزدیک عورت پیدا نہیںہوتی بلکہ بنائی جاتی ہے ۔بچپن ہی سے اس کے ذہن میں اس کو اس کی نسوانیت کے کمزور ہونے کا احساس دلایا جاتا ہے اور اسے کمزور بنا دیا جاتا ہے۔
“مساوی” اور” یکساں” کا فرق
سیمون دی بووارنے مردکو ظالم اور عورت کو مظلوم کے روپ میںدیکھا ۔ ٹھیک اسی طرح جیسے مغربی اقوام نے حبشیوںکو غلام بنا لیا تھا اور انہیں ووٹ دینے تک کے حق سے محروم کر دیا تھا۔اس نے اپنی شہرہ آفاق کتاب The Second Sexمیں عورتوں کے حق میں جرح کرتے ہوئے یہ دلیل دی :
Let the Negroes vote and they become worthy of having vote; let woman be given responsibilities and she is able to assume them.
مگر خواتین پر حبشیوں والی بات راست نہیں آتی۔ حبشیوں کی پوری قوم ،جس میں مرد اور عورت دونوں شامل ہیں،کوتنہا عورتوں پر قیاس کر تے ہوئے کوئی مثبت نتیجہ نہیں نکالا جا سکتا۔فیمی نسٹوں کا یہ دعویٰ عملاً بھی ناکام ہو جاتا ہے کہ اگر عورتوں کو کوئی بھی اورکیسی بھی ذمے داری دے دی جائے تو وہ کماحقہ اس کی اہل ثابت ہوں گی۔ [واضح رہے کہ یہی حال مردوں کا بھی ہے۔ انہیں بھی اگرکوئی بھی اور کیسی بھی ذمے داری دے دی جائے تو وہ کماحقہ اس کو ادا نہیں کر سکتے۔ مثلاًانہیں بچوں کی خبرگیری کا کام سونپا جائے تو وہ ہرگز اس مہارت کے ساتھ یہ کام نہیں کر سکتے جس مہارت کے ساتھ عورتیں یہ کام کرتی ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ مغرب زدہ حضرات بچوں کی خبرگیری کے کام کو چھوٹا اورپست خیال کرتے ہیں۔] عورتوں کی فطری ساخت ہی کچھ اس قسم کی ہے کہ وہ مردجیسی مہارت کے ساتھ چند مخصوص کا م نہیں کر سکتیں۔مثلاً آمنے سامنے کی زمینی جنگ کا فرض احتیاطاًخواتین کو تفویض نہیں کیا جا سکتا۔ ہندستان ٹائمس7مارچ 2007 کی ایک خبر کے مطابق یوم خواتین کے موقعے پر ہندستانی وزیر دفاع اے کے اینتھونی نے پارلیمان سے کہا کہ چیف آف اسٹاف کمیٹی (COSC)نے سفارش کی ہے کہ خواتین آمنے سامنے کی جنگ میں حصہ نہیں لے سکتیں کیوں کہ اس میںبہ قول وزیر دفاع:
’’اس میں ان کے دشمن کی گرفت میں آجانے کا بڑا خطرہ ہے۔‘‘
حالانکہ خواتین کی شجاعت سے تاریخ بھری پڑی ہے لیکن یہ مجموعی اعتبار سے عموماً اور اوسطاً مشکل ہوتا ہے کہ خواتین کی ایک فوج اتنی ہی تعداد میں مردوں کی ایک فوج کو آمنے سامنے کی زمینی جنگ میں شکست دے سکے۔1992میں امریکہ میں اسی مسئلے پر تشکیل دیے گئے صدارتی کمیشن کی رائے میں’قریبی جنگ خواہ وہ زمینی ، بحری یا فضائی ہو، اس میں خواتین کونہیں اتارا جا سکتا۔‘یہ ایک الگ بات ہے کہ کسی قوم پر ایسا وقت پڑے کہ ا ضطراری حالت میں خواتین سے بھی اس کا مطالبہ کیا جائے اور وہ اس میں اپنی جاںفشانی اور جدوجہدکی بدولت فتحیاب ہو جائیں۔مولانا مودودی نے اپنی کتاب پردہ میں بحث کرتے ہوئے ثابت کیا ہے کہ عورتوں اور مردوں کا دائرہ کاریکساں نہیں ہے جس کی اندھی وکالت دور جدید میںکی جا رہی ہے۔اس لیے یہ بات کہ خواتین ہر قسم کا کام بالکل مردوں کی طرح کریں یہ قطعی غیر سائنسی اور نسوانی شان سے بالاتر اور ہتک آمیز بات ہے۔اس طرح تو خواتین صحیح معنوں میں مردوں کی نقل کرنے لگیں گی ،ٹھیک ویسے ہی جیسے محکوم اور غلام قومیں حاکم قوموں کی نقل کیا کرتی ہیں۔ مثلاً مردانہ لباس پہنناحقیقتاً مردوں کی ذہنی غلامی کی نشانی ہے۔لیکن فیمی نسٹ حضرات و خواتین اس کو غلامی نہیں سمجھتے۔گنگا الٹی بہہ رہی ہے۔
بات یہ ہے کہ فیمی نسٹ خواتین و حضرات ’مساوی حقوق ‘ کا مطالبہ نہیں کر رہے بلکہ وہ ’یکساں ‘حقوق کا مطالبہ کر رہے ہیں۔یعنی وہ بولتے تو ’مساوی ‘ہیں لیکن ان کے ذہن میں مساوی کا مفہوم ’یکساں ‘ہوتاہے۔یہ دور جدید کی ایک عظیم الشان غلطی ہے ۔یہ کہنا درست ہے کہ عورت اور مرد مساوی ہیں یعنی برابر ہیں،لیکن یہ کہنا غلط ہے کہ دونوں یکساں ہیں ۔ البتہ کچھ اعمال میں یکسانیت ضرور ہے ، لیکن تمام اعمال میں نہیں ۔ اس لحاظ سے یہ بالکل ٹھیک ہے کہ دونوں کے کچھ حقوق یکساں ہیں اور کچھ حقوق مساوی۔لیکن عموماًخواتین کم اور فیمی نزم کے مارے ہوئے’ حضرات‘ ہی زیادہ تریہ لطیف فرق نہیں سمجھتے۔ ایسے مرد آدم و حوا کی جنت میں داخل ہونے والے’’ سانپ‘‘کی طرح ہیںجس کامقصد انسان کو خدا کی نظروں سے گرانا تھا۔ اگر یہ بات نہیں تو یکساں حقوق کی بات کرنے والے کم از کم پرخلوص حماقت میں ضرور مبتلا ہیں۔
اسلامی موقف
ہم نسوانی معاملات و مسائل پر تین ہی طریقوں سے نظر ڈال سکتے ہیں۔(۱) نسوانی معاملات پرنسوانی نقطہ نظر سے نگاہ ڈالنا(۲) نسوانی معاملات پر مردانہ نقطہ نظر سے نگاہ ڈالنا؛ اور (۳) نسوانی معاملات پر انسانی نقطہ نظر سے نگاہ ڈالنا۔غور کرنے سے یہ معلوم ہوگا کہ پہلے دونوں طریقے ناکافی ہیں۔ پہلے دونوں طریقوں سے انسان آدھے ادھورے نتائج اخذ کرے گا اور اگر مرد ہوگا تو عورت اور اس کی زندگی کے تمام تقاضوں کو صحیح صحیح نہیں سمجھ سکے گا۔ اگر وہ عورت ہوگی تو اپنے تقاضوں کو تو بہت کچھ سمجھ جائے گی لیکن مرد کے اس پر کیا حقوق و فرائض ہیں یہ صحیح صحیح نہ سمجھ سکے گی۔اس کی وجہ سے دونوں جنسوں کے تعلقات و روابط میں بے اعتدالیاں پیدا ہوں گی۔تیسرا طریقہ کچھ کار آمد معلوم ہوتا ہے لیکن اس میں بھی دقت یہ ہے کہ ہر انسان کسی نہ کسی جنڈر سے تعلق رکھتا ہے اور غور کرنے کے عمل میں متعصبانہ فیصلے کر سکتا ہے اور کرتا ہے۔
خدا انسان نہیں ہے بلکہ انسانوں کا خالق و پروردگار ہے۔وہ نہ مرد ہے اور نہ عورت۔ وہ متعصب نہیں ہو سکتا۔ اس لیے انصاف کی توقع صرف اسی سے کی جا سکتی ہے۔ اسلام چونکہ زندگی کے تمام معاملات و مسائل پر الٰہی نقطہ نظر سے نگاہ ڈالتا ہے ، اس لیے نسوانی معاملات ومسائل پر اس کی ہدایتیں ہی صحیح ہیں اور باقی تمام افکار و خیالات غیر صحیح ہیں۔
پس جنڈر وار جس کی حقیقی بنیاد مساواتِ مرد وزن پر نہیں بلکہ یکسانیت ِمردو زن پر ہے ،کسی لحاظ سے صحیح نہیں ہے۔بلکہ جنڈر وار کا خیال ہی شیطانی اور طاغوتی ہے۔اس جنگ میں کوئی بھی فریق حق پر نہیں ہے۔نہ وہ حق پر ہیں جو عورت کو مرد کا غلام سمجھتے ہیںاور نہ وہ حق پر ہیں جو ماضی میں مردوں کی غلطیوں اور ناانصافیوں کا بدلہ لینا چاہتے ہیں۔اسلام کا موقف انتقام کے بجائے تلافی کا ہے۔ اور مسلما ن چونکہ امت وسط ہیں اس لیے ان پر دنیا میں مردو زن میںچھڑی ہوئی اس ناحق جنگ کو ختم کرنے اور اس جنگ سے اب تک ہوئے نقصانات کی تلافی کرنے کی ذمے داری عائد ہوتی ہے۔ ایک دوسرے کے ظلم کے شکاردونوں فریقوں کو سمجھوتے کی میز تک لانے اور انہیں خدا کی بندگی و اطاعت پر ابھارنے کا یہ فرض انتہائی مبارک اور عظیم ہے۔