جنیوا کی نسل پرستی مخالف عالمی کانفرنس

رضوان اللہ

پنجۂ افرنگ میں اقوامِ مشرق کی رگ جاں ہے۔فی الحال موضوع گفتگو جینوا میں منعقد نسل پرستی مخالف بین الاقوامی کانفرنس ہے جس میں مسودئہ تجویز تو منظور ہوگیا ہے، لیکن جس بے دلی کے ساتھ یہ کانفرنس ہوئی ہے، اسی سے اس کاانجام ظاہر ہے۔دنیا کے ایک بنیادی مسئلہ پر منافقانہ عالمی سیاست کی یہ ایک اور مثال ہے۔ ایران کے صدر محمد احمدی نژاد اس کانفرنس میں شریک ہونے والے واحد سربراہ مملکت تھے، جن کی تقریر کا امریکہ اور کئی یوروپین ممالک کے نمائندوں نے بائیکاٹ کیا۔ حالانکہ خود امریکہ نے صدر ابراہم لنکن اور مارٹن لوتھر کنگ کی شہادتوں کی شکل میں نسل پرستی کی سیاست کی زبردست قیمت چکائی ہے۔ اس لیے اس کو نسل پرستی اور دیگر تعصبات کے خلاف کسی کوشش میں بھر پور حصہ لینا چاہیے۔ جہاں تک اسرائیل کے متعلق ایران کی پالیسی اور صدر احمدی نژاد کے خیالات کا تعلق ہے وہ بالکل واضح ہیں۔ آج کی دنیا میں ایران کی ایسی ’’حق گوئی اور بے باکی‘‘ حیرت انگیز ہے۔ ایرا ن کے متعلق میری حیرتیں اور بھی ہیں جو ایک آسیب کی طرح میری فکر پر طاری ہوجاتی ہیں اور ایسے ایسے سوالات سے دوچار کردیتی ہیں جن کے جواب کی تلاش میں
چہ شبہا نشستم دریں سیر گم
تحیر گرفت آستینم کہ قم
’’میں نے کتنی ہی راتیں اس غوروفکر میں بیٹھے بیٹھے گزار دیں بالآخر حیرت نے میری آستین پکڑ کر کہا کہ اٹھ۔‘‘
ان حیرتوں کا ذکر بعد میں، فی الحال اس جینوا کانفرنس کی بات جس کا افتتاح کرتے ہوئے اقوامِ متحدہ کے سکریٹری جنرل بان کی مون نے نسل پرستی کو دنیا کے لیے ایک بڑا خطرہ قرار دیا اور اس کا مقابلہ کرنے کے لیے اقوامِ عالم سے متحد ہونے کی اپیل کی۔ لیکن حیرت ہے کہ انھوں نے دو خاص طرح کی نسل پرستیوں کا ذکر کیا ایک سام واد، دوسرے ’’اسلاموفوبیا‘‘ جبکہ ان دونوں کو صرف بحث برائے بحث کہا جاسکتا ہے۔ ان کی حقیقت کچھ اور ہے۔ سام واد کو صاف صاف لفظوں میں کہیے تو یہودیت ہے۔ قوامِ متحدہ کے سکریٹری جنرل بھی مغربی اقوام کے اس پروپیگنڈے سے متاثر معلوم ہوتے ہیں کہ مسلم اقوام یہودیت کی دشمن ہیں۔ جبکہ حقیقت یہ نہیں ہے ۔
آبادی کے اعتبار سے دنیا بھر میں یہودیوں کی تعداد صرف ایک کروڑ ۴۰ لاکھ ہے اور مسلمان ایک ارب ۵۰ کروڑ۔ بشمول مصرکئی عرب ملکوں میں یہودی آباد ہیں۔ انھیں مسلمانوں سے کوئی شکایت نہیں ، نہ انھیں عربوں نے اس طرح دیس بدر کیا جیسا کہ یوروپین اقوام نے کیا۔ انھوں نے یہودیوں کو ’’سود خور‘‘ اور ’’بدکردار‘‘ قرار دیا۔ ان کے خون کو ’’بدترین خون‘‘ قرار دیا اور ان کو جھاڑ پونچھ کر باہر پھینکنے کے لیے عربوں کی سرزمین پر ایک کوڑے دان تلاش کرکے ان کو یقین دلادیا کہ یہی اسرائیل تمہارا وطن موعود ہے جس کی تلاش میں تم ڈھائی ہزار برس سے سرگرداں تھے۔ پھر خود اس مطعون قرار دی ہوئی قوم کو ایک خنجر کے طور پر عرب اقوام کے سینے میں پیوست کرکے چھوڑ دیا۔ اگر ہولوکاسٹ کی کوئی حقیقت ہے جسے تسلیم کرنے سے ایران انکار کرتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ اپنے زخم دکھا کر دنیابھر سے بھیک مانگنے کی یہودیوں کی حکمتِ عملی ہے تو یہ واقعہ کسی عرب سرزمین پر تو پیش نہیں آیا؟ یہ تو یورپ کی اسی سرزمین پر وقوع پذیر ہوا، جہاں کے سفراء نے صدر احمدی نژاد کی تقریر کے خلاف احتجاجاً واک آؤٹ کیا۔ کیا ان کو اندازہ نہیں تھا کہ صدر ایران اسرائیل کے بارے میں کیا کہیں گے؟ کیا وہ یہ سمجھ رہے تھے کہ صدر ایران اسرائیل کی ستائش میں شاہنامہ فردوسی کا کوئی باب پڑھ کر سنائیں گے؟ مختصر یہ کہ سام واد یا اس کی مخالفت کا اگر کوئی مسئلہ ہے تو عربوں کا پیدا کیا ہوا نہیں ہے۔ وہ اسرائیل کے جنم داتاؤں کا پیدا کیا ہوا ہے۔ انہی کو اپنا منافقانہ رویہ ترک کرکے اس مسئلہ کو حل کرنا چاہیے تاکہ بان کی مون نے اس کی وجہ سے جس اقتصادی تباہی کے برپا ہونے کا اندیشہ ظاہر کیا ہے۔ وہ دور ہو۔ دراصل مسائل کو اس طرح الجھادیا جاتا ہے کہ حقیقت گم ہوجاتی ہے۔ ایران یا کوئی عرب ملک یہودی مخالف نہیں ہے۔ اسرائیل نام کی اس مملکت سے ان کا اختلاف ہے جو ان کی سرزمین پر جبری قبضہ کرکے قائم کی گئی ہے۔ جن عربوں کو وہاں سے بے دخل کیا گیاہے، وہ اپنی سرزمین پر واپسی اور آبادی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ ان کے اس درد کو تو سب سے زیادہ یہودیوں کو محسوس کرنا چاہیے لیکن افسوس کہ انسان دوستی ان کی سرشت میں نہیں۔ ان کے لیے یہ سرٹیفکٹ ان کے نام نہاد دوستوں کا دیا ہوا ہے، عربوں کا دیا ہوا نہیں۔
بان کی مون نے دوسرا موضوع ’’اسلاموفوبیا‘‘ کو بنایا جو کہ مغرب کی گھڑی ہوئی ایک اصطلاح ہے جس کا بلا سوچے سمجھے استعمال ایک فیشن سا بن گیا ہے۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ’’اسلام‘‘ کوئی بڑی بھیانک چیز ہے جس نے ساری دنیا کو لرزہ براندام کررکھا ہے۔ اس کی حقیقت پر گفتگو سے پہلے تو یہی سوال کہ ۱۴؍سو برس سے زیادہ طویل مدت میں آج اسلام کی طرف سے یہ خطرہ اچانک کیونکر پیداہوگیا۔ کسی مسلم ملک نے تو اب تک کوئی ایٹم بم نہیں استعمال کیا نہ اب تک ان میں اس کی صلاحیت پیدا ہوئی ہے۔ کسی مسلم ملک میں تو اب تک ہولوکاسٹ جیسا کوئی واقعہ نہیں وقوع پذیر ہوا۔ کسی مسلم ملک میں نہ تو جلیان والا باغ کا وقوعہ ہوا نہ تیان من چوک کا وقوعہ ہوا نہ کوئی گجرات ہی برپا ہوا پھر یہ ہاہا کار کیسی ہے۔ اس کی حقیقت انگریزی کے لفظ Phobia میں مضمر ہے۔ فوبیا فطری یا واقعی خوف کو نہیں کہتے۔ فطری خوف کو Threat, Terror, Fearوغیرہ کہتے ہیں اور بھی الفاظ ہیں۔ فوبیاایک ذہنی آزار ہے جو کسی خارجی سبب کی وجہ سے نہیں ہوتا بلکہ فرد کی داخلی ذہنی کیفیت کی وجہ سے ہوتا ہے۔ مثلاً وہ رسی کو سانپ سمجھ کر کانپتا رہے یا اپنے سائے کو قاتل سمجھ کر بھاگتا رہے۔ غرض یہ کہ ’’اسلاموفوبیا‘‘ سے اسلام یا مسلم اقوام کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس عارضے میں مبتلا ہونے والوں کو اسلام اور مسلمانوں کے تئیں منافرت اور منافقت کو تر ک کرکے اپنے ذہنی آزار کا علاج کرنا چاہیے۔دراصل عوام کو نفسیاتی خوف میں مبتلا کرکے ان کو مطلوبہ سمت میں ہانکنے کی جدید حکمت عملی ہے جس کا نامقبول جنگ عراق میں خوب خوب استعمال کیا گیا۔ فوبیا کے مرض کی سیکڑوں قسمیں ہیں اور سب قابلِ علاج ہیں۔ اس سیاسی فوبیا کا علاج خود ان لوگوں کو کرنا چاہیے، جو اس میں مبتلا ہیں ۔
امید کی جانی چاہیے کہ یہ جنیوا کانفرنس ’’نشستند و گفتند و برخواستند‘‘نہیں ثابت ہوگی۔ دنیا میں نسلی منافرت کی برائی کے ان گنت روپ ہیں۔ گاندھی جی سے لے کر مارٹن لوتھر کنگ اور گجرات تک اس کی رونگٹے کھڑے کردینے والی مثالیں موجود ہیں۔ عالمی اداروں کو چاہیے کہ الگ الگ خطوں میں نسل پرستی اور نسلی امتیاز کی الگ الگ قسموں کے بنیادی اسباب تلاش کریں اور اگر واقعی سنجیدہ ہیں تو انہیں دور کرنے کی تدبیروں پر غور کریں۔ سوچنے کی بات ہے کہ جب فلسطینیوں کے پاس جنگ کا کوئی حربہ نہیں بچا سوائے جان عزیز کے تو وہ اسے بھی نچھاور کرنے پر مجبور ہیں۔ دنیا اس کو دہشت گردی کہے یا جو نام چاہے دے۔ جب ان کی بڑی نسل اور نوجوانوں کی نسل ختم ہوچکی تو بچوں کی باری ہے جن کا بچپن ان کے ہاتھوں میں غلیل دے کر اسرائیلی ٹینکوں پر حملے کے لیے بھیج دیتا ہے اور وہ اسی جگہ ڈھیر ہوجاتے ہیں۔ ان بچوں کے بعد ظاہر ہے ان کی ماؤں کی باری ہوگی۔ جب خود کو مہذب کہنے والی دنیا غزہ میں برپا سفاکی کی طرف سے آنکھیں بند کرلے گی تو اس کا انجام کیا ہوگا؟ اقوامِ متحدہ کے سکریٹری جنرل بھی جانتے ہوں گے۔
اب کچھ ذکر ایران سے متعلق ان آسیبی حیرتوں کا جن کا اشارہ ابتدا میں ہی کیا جاچکا ہے۔ موجودہ جنگ عراق کے دوران جو بظاہر اپنے اختتامی مرحلے میں ہے ایک مدت ایسی گزری ہے کہ ہر روز ایران پر امریکی حملے کے امکانات ظاہر کیے جاتے رہے، بلکہ اس کی پیشین گوئیاں کی جارہی تھیں لیکن میری آسیبی حیرتیں ہمیشہ اس اندیشے کو مسترد کرتے ہوئے اس کو آخری امکان یا اندیشہ ٹھہراتی رہیں اور میں اس کا اظہار بھی کرتا رہا حالانکہ اس مدت کے دوران ایران، اسرائیل کے وجود کو ختم کرنے کی باتیں کرتا رہا۔ اسی مدت کے دوران ایران اپنے ایٹمی پروگرام کو بند کرنے پر مغربی اقوام کے اصرار کو مسترد کرتے ہوئے اعلانیہ کہتا رہا کہ اس کا ایٹمی پروگرام پرامن مقاصد کے لیے ہے اور وہ ایٹمی پھیلاؤ کے تدارک کے معاہدہ کا پابند ہے اور وہ اقوام متحدہ کی طرف سے اپنے ایٹمی پروگرام کے معائنے کی دعوت دیتا رہا۔
اسرائیل کی انتہائی مخالفت اور ایٹمی پروگرام جاری رکھنے پر اصرار یہ دونوں باتیں امریکہ کے لیے کھلا چیلنج تھیں لیکن اس کے باوجود اس اطمینان کی کیا وجہ کہ امریکہ اس پر حملہ نہیں کرے گا؟ اس سے پہلے بھی امریکہ کو ایران کی طرف سے شدید تر چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑا تھا لیکن امریکہ نے ایران کو اپنی فوجی کارروائی کا نشانہ نہیں بنایا۔ ۱۹۷۹ء کے انقلاب ایران کے نتیجے میں امریکہ کے مقرب محمد رضا شاہ پہلوی کو معزول کردیا گیا۔ ان کی جان تو بخش دی گئی لیکن ایران سے جلا وطن کردیا گیا۔ امریکہ اپنے اس دوست کی آخری پناہ گاہ ڈھونڈھتا رہا جو بالآخر مصر میں مل گئی۔ اسی انقلاب کے دورا ن پاسدارانِ انقلاب ایران نے امریکی سفارت خانے کا محاصرہ کرلیا اور نومبر ۱۹۷۹ء سے جنوری ۱۹۸۱ء تک تقریباً ۱۴؍مہینے تک ۶۲ امریکی سفارت کاروں کو اسی جگہ نظر بند رکھا، اس دوران ان کو ہیلی کوپٹروں کے ذریعہ رات کے اندھیرے میں آزاد کرانے کی ایک کوشش بھی کی گئی لیکن شدید طوفان کی وجہ سے وہ مہم ناکام ہوگئی بالآخر بین الاقوامی سفارت کاری کے ذریعے ان محبوس امریکیوں کی رہائی عمل میں آئی۔ لیکن امریکہ نے ان تمام رسوائیوں کے باوجود ایران پر فوج کشی نہیں کی۔ یہی سبب ہوا اس وقت کے امریکی صدرجمی کارٹر کی دوسرے دور صدارت کے لیے انتخاب میں ناکامی کا !حیرت ہے ایسا کیوں ہوا۔
۱۹۸۳ء کی گرمیوں میںسانفرانسسکو کے مشہور عالم گولڈن گیٹ برج پر سے ایک امریکی خاتون کی کار میں گزرتے ہوئے میں نے اپنی اس حیرت کا اظہار کیا اور ان سے اس کا سبب دریافت کیا۔ وہ ایک بینکر تھیں۔ انھوں نے انقلابِ ایران کو اپنے زاوئیے سے دیکھا تھا۔ وہ کہنے لگیں کہ ایک عرصے سے ایرانی اپنا سرمایہ ایران سے امریکہ منتقل کررہے تھے۔ آخر ہماری حکومت نے اس کے اسباب پر کیوں نہ غور کیا؟ یہی ناکامی صدر کارٹر کے دوبارہ انتخاب میں ناکامی کا سبب ہوئی۔
میری حیرتیں اتنی ہی نہیں، اس سے پہلے بھی تھیں۔ جب ۱۹۵۳ء میں ایرانی وزیر اعظم ڈاکٹر محمد مصدق نے ایران میں اینگلو ایرانی تیل کمپنی کو قومی ملکیت میں لے لیا اور شاہ ایران پایہ تخت چھوڑ کر فرار ہوگئے۔ شام میں پناہ لی۔ وہ انقلاب ناکام ہوگیا۔ شاہ ایران واپس آگئے، ڈاکٹر مصدق کے کوئی نصف درجن ساتھیوں کو پھانسی کے تختے پر لٹکا دیا گیا لیکن قوم کی عظیم خدمت کے اعتراف کی بنا پر ڈاکٹر مصدق کی جان بخشی کرکے انھیں گھر میں نظر بند کردیا گیا۔ جہاں وہ آخر دم تک رہے ۔ ۱۹۶۷ء میں انتقال ہوا۔ امریکہ نے کوئی مداخلت نہیں کی لیکن چند برس بعد ہی جب مصر نے نہر سوئز کو قومی ملکیت میں لیا اور اس کے خلاف انتقامی کارروائی کے طور پر برطانیہ اور فرانس نے سوئز پر حملہ کردیا توامریکہ نے ہی مداخلت کرتے ہوئے انھیں مزید کارروائی سے باز رکھا۔ قومیانے کی ان دونوں کارروائیوں کے درمیان یہ امتیاز کیوں؟
یوروپین اقوام نے ایشیا اور شمالی افریقہ کے کتنے ہی عرب اور غیر عرب مسلم ممالک کواپنی فوجی چوگان بازی کا میدان بنایا لیکن ایران کی تاریخ میں ایسا کچھ نہیں ہوا۔ صرف ۱۹۰۷ء کے خفیہ معاہدے کے تحت شمالی ایران میں زار روس کی اور جنوبی ایران میں برطانیہ کی فوجیں موجود رہیں اور انقلاب روس کے ساتھ ہی یہ فوجیں بھی واپس ہوگئیں لیکن استعماری تسلط جیسا کوئی واقعہ ایران کے ساتھ نہیں پیش آیا۔ کیوں؟ تیل اور گیس کے معدنی وسائل تو وہاں بھی ہیں نا؟
سوالات اور بھی ہیں اور ان کے کچھ جوابات بھی جنھیں آئندہ کسی اور موقع کے لیے اٹھا رکھتے ہیں۔
——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں