بارش کئی گھنٹے برس کر ابھی تھمی تھی۔ نکھری نکھری فضا، دھلا دھلا ماحول، ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا کے روح پرور جھونکے، نیلے آسمان پر بادلوں اور سورج کی آنکھ مچولی۔ ایسے عالم میں شاعرانہ مزاج کے مالک اکبر علی خاں کا دل گھر میں بھلا کیسے لگتا۔ چھڑی اٹھائی اور نکل کھڑے ہوئے موسم کی نیرنگیوں کا لطف اٹھانے۔ایک جگہ سڑک پار کررہے تھے کہ بغلی سڑک سے ایک کار دندناتی ہوئی نمودار ہوئی اور انھیں چھوتی ہوئی زن سے گزرگئی۔ اکبر علی خاں کھڑے کے کھڑے رہ گئے۔ کار کے ڈرائیور کی ذرا سی چوک آج انہیں ملکِ عدم پہنچاگئی ہوتی۔ اس خیال ہی سے جسم میں تھرتھراہٹ پیدا ہوگئی۔ ابھی حواس درست نہیں کرپائے تھے کہ وہی کار کچھ آگے جاکر رکی۔ اس میں سے ادھیڑ عمر کا ایک خوش پوش اور باوقار شخص برآمد ہوا اور تیز قدموں سے ان کی طرف بڑھنے لگا۔ قریب آکر وہ بولا:
’’کیا آپ کا نام اکبر علی خاں ہے؟‘‘
’’جی ہاں فرمائیے۔‘‘ بڑے جلے بھنے لہجے میں انھوں نے جواب دیا۔ اگرچہ ایک اجنبی کے منہ سے اپنا نام سن کر وہ پریشان بھی ہوگئے۔
’’کیسا پہچانا!‘‘ بے ساختہ اجنبی کے منہ سے نکلا۔ خوشی سے اس کا چہرہ دمک اٹھا تھا۔ مگر جب اس کی نظر اکبر علی خاں کے سپاٹ چہرے پر پڑی تو وہ کچھ کھسیانا سا ہوگیا۔’’معاف کیجیے شاید آپ نے مجھے نہیں پہچانا میں فیاض ہوں، ہم اسکول میں اکٹھے پڑھا کرتے تھے۔‘‘ اس نے وضاحت کی۔
کچھ دیر تو وہ خالی خالی نظروں سے اس کی صورت تکتے رہے پھر ایک دم ان کی آنکھیں حیرت سے پھٹ سی گئیں۔ وہ زیرِ لب بڑبڑاتے ہوئے جیسے خود سے بولے: ’’فیاض حسین‘‘ اجنبی نے مسکراتے ہوئے اثبات میں سرہلایا اور بازو پھیلا کر ان سے لپٹ گیا۔ خاصی دیر معانقہ کرنے کے بعد دونوں جدا ہوئے تو اکبر علی خاں نے غور سے فیاض کے سراپا کا جائزہ لیا۔ ان کی نظریں اس کے قیمتی سوٹ، بیش قیمت گھڑی اور سنہری فریم کی عینک اور چمکتے جوتوں سے ہوتی ہوئی وہاں سے پلٹیں تو اپنے ملگجے کپڑوں اور پرانے جوتوں پر آکر رک گئیں۔ پل بھر میں ان کی ساری گرمجوشی ہوا ہوگئی۔ انھیں اپنا وجود فیاض کے سامنے بہت چھوٹا اور حقیر سے لگا۔
ادھر فیاض ان کے اندرونی جذبات سے بے خبرسوالات کی بوچھاڑ کررہا تھا جیسے پچھلے تیس پینتیس برس کے حالات آج ہی جان لینا چاہتا ہو۔ اکبر علی ہونٹوں پر مصنوعی مسکراہٹ سجائے بے دلی سے ہوں ہاں کررہے تھے اور دل ہی دل میں کہہ رہے تھے نہ جانے کب چھوڑے گا پیچھا۔
آخر قدرت کو ان پر رحم آہی گیا۔ فیاض نے گھڑی پر نظرڈالی اور بولا: ’’اچھا یار! اس وقت تو اجازت دو جلدی میں ہوں، پھر ملاقات ہوگی۔ یہ میرے گھر کا پتہ اور فون نمبر ہے۔ تمہارا انتظار کروں گا۔ آنے سے پہلے فون ضرور کردینا۔‘‘ اس نے ایک کارڈ انھیں تھماتے ہوئے کہا اور خدا حافظ کہہ کر گاڑی میں جا بیٹھا۔ وہ چلا گیا تو اکبر علی خاں نے سکون کا سانس لیا، مگر اب سیروتفریح کا موڈ ہی کہاں رہ گیا تھا، چنانچہ بیتے دنوں کی یادوں میں غرق سرجھکائے بوجھل قدموں سے وہ واپس اپنے گھر کی طرف چل دیے۔
فیاض نے ماضی کی راکھ کو کیا کریدا کہ چنگاریاں سی دل میں سلگ اٹھیں۔ بچپن اور لڑکپن کا حسین اور شاندار دور آنکھوں میں پھر گیا۔ انھیں وہ شام و سحر یاد آنے لگے، جب وہ اپنے آبائی وطن میں ایک شہزادے کی سی زندگی بسر کرتے تھے۔ ان کے خاندان کا شمار شہر کے قدیم اور معزز ترین خاندانوں میں ہوتا تھا۔ قسمت نے انھیں دنیا کی تمام نعمتوں سے مالا مال کررکھا تھا۔ وسیع حویلی نما رہائش گاہ، خدمت کے لیے نوکر چاکر، ناز اٹھانے کے لیے والدین اور بہنوں کے علاوہ بے شمار ماموں، چچا، خالائیں اور پھوپھیاں، دل بہلانے کے لیے دوستوں کی فوج ظفر موج، اچھے سے اچھا کھانا، عمدہ سے عمدہ لباس، کوئی غم نہ فکر، ہر طرف عیش و عشرت کا دور دورہ تھا۔
ان دنوں وہ مقامی ہائی اسکول میں زیرِ تعلیم تھے اور اپنی اس دولتمندی کے سبب اپنی جماعت کے بھی بے تاج بادشاہ بنے ہوئے تھے۔ تمام لڑکے ان کے اشاروں پر ناچتے، فیاض بھی ان کا ہم جماعت تھا۔ دبلا پتلا سانولا سا۔ نچلے طبقے سے تعلق ہونے کے سبب بے چارہ ہر وقت سہما سہما رہتا۔ ایسے لڑکوں کو وہ زیادہ منہ لگانے کے قائل نہ تھے۔ غریب لوکوں کو وہ حقارت کی نظر سے دیکھتے اور ان سے ذرا فاصلے پر رہتے تھے۔
اسی طرح ہنستے کھیلتے انھوں نے میٹرک پاس کرلیا۔ بعض ذہین ساتھیوں کی دیکھا دیکھی کالج میں داخلہ بھی لیا، مگر سیر و شکار، دوستوں کی رنگا رنگ محفلوں اور دوسرے دلچسپ مشاغل سے فرصت ہی کہاں ملتی تھی کہ تعلیم پر توجہ دیتے۔ مہینے میں ایک آدھ بار کالج بھی جھانک آتے۔ ماں باپ کے اکلوتے اور خاندان بھر کے لاڈلے چہیتے تھے۔ روکنے ٹوکنے والا کون تھا۔ رفتہ رفتہ پڑھائی سے دل اچاٹ ہوتا گیا۔ فرسٹ ائیر کے امتحان میں بری طرح فیل ہوئے تو رہی سہی کسر بھی پوری ہوگئی۔ اب کیسی پڑھائی اور کہاں کا کالج۔ اب تو وہ تھے اور ان کی دلچسپیاں۔
زندگی پرسکون ندی کی طرح گاتی گنگناتی بہہ رہی تھی کہ برصغیر میں تقسیم کا عمل شروع ہوتے ہی سارے ملک میں فسادات کی آگ بھڑک اٹھی۔ اگرچہ ان کا شہر نسبتاً پرسکون رہا مگر اس کی رونقیں اجڑنے لگی تھیں۔ پاکستان کے قیام کا اعلان ہوتے ہی مسلمانوں کے قافلے کے قافلے ہجرت کرکے جانے لگے تھے۔ پہلے تو ان کے والد اختر علی خاں اپنا آبائی وطن چھوڑ کر جانے پر کسی طرح آمادہ نہ ہوتے تھے مگر جب ایک ایک کرکے تمام دوست احباب اور رشتے دار پاکستان چلے گئے اور شہر میں ہندوؤں کی اکثریت ہوگئی تو طرح طرح کے مسائل پیدا ہونے لگے۔ سب سے بڑا مسئلہ بچوں کی شادیوں کا تھا۔ چار بیٹیاں گویا سینے پر دھری چار بھاری سلیں تھیں جن کے اٹھنے کی اب یہاں کوئی سبیل نظر نہ آتی تھی۔ اپنے پیاروں کی جدائی الگ مارے ڈالتی تھی۔ بیوی بچے بھی اداس اداس پھرتے۔ آخر دل پر پتھر رکھ کر انھوں نے بھی جانے کا فیصلہ کر ہی لیا۔
وہاں پہنچ کر پہلا مرحلہ تو کلیم اور الاٹ منٹ کا تھا۔ خدا خدا کرکے اس سے فراغت ملی تو بچوں کی شادیوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ یہ اختر علی خاں کی سادہ لوحی تھی یا ناعاقبت اندیشی کہ وہ حالات کے تقاضوں کو سمجھ نہ سکے۔ انھوں نے نئے حالات میں بھی تمام شادیوں میں شاہ خرچی کی۔ خاندانی وضع داری اور روایات کو اس طرح نبھایا جیسے وہ اپنے پرانے وطن میں ہوں۔ کوئی رسم ایسی نہ تھی جو ادا نہ کی گئی ہو اور ہر ہر رسم پر دل کھول کر روپیہ لٹایا گیا۔ بیٹیوں کو اتنا جہیز ملا جو اُن کی سات پشتوں کو کافی ہو۔ شہر بھر میں دھوم تو مچ گئی مگر رہنے کے مکان کے سوا تمام جائیداد بک گئی۔
ماں باپ تو اپنے فرائض ادا کرکے بہت جلد سکون سے قبر میں جاسوئے مگر لاڈلے بیٹے کو زمانے کے سردوگرم تھپیڑے کھانے کے لیے تنہا چھوڑ گئے۔ بے چارے نے پہلے تو بچی کھچی پونجی پر گزارہ کیا پھر زیورات بکنے لگے۔ نوبت شاید فاقوں تک آجاتی کہ ایک عزیز نے دوڑ دھوپ کرکے ایک سرکاری ادارے میں کلر ک کی ملازمت دلوادی۔ عیش و عشرت کی زندگی تو اب خواب و خیال ہوچکی تھی۔ بھوکوں مرنے سے بچ گئے یہی بہت تھا۔ ایک ہمدرد دوست نے انھیں کوئی ہنر سیکھنے کا مشورہ بھی دیا مگر وہ اتنے ناراض ہوئے کہ بے چارہ اپنا سا منہ لے کر رہ گیا۔ اس نے بات ہی اتنی ناقابلِ برداشت کہہ دی تھی۔ اگر حالات نے انھیں ایسی ملازمت قبول کرنے پر مجبور کردیا تھا جو کسی طرح ان کے شایانِ شان نہیں تھی تو اس کا مطلب یہ تو نہیں تھا کہ وہ بالکل ہی گر جاتے اور ان لوگوں کی سطح پر آجاتے جنھیں وہ ہمیشہ سے ذلیل اور گھٹیا سمجھتے آئے تھے۔ رسی جل گئی تھی تو کیا ہوا بل تو ابھی باقی تھے۔
بہرحال سفید پوشی کا بھرم قائم تھا اور محلے میں کچھ عزت بھی بنی ہوئی تھی۔ اور یہ اسی میں مگن تھے۔ لوگ جب ’خان صاحب‘ کہہ کر بلاتے تو فخر سے ان کی گردن اکڑ جاتی۔
ویسے بھی اب تو انھوں نے اپنے حالات سے پوری طرح سمجھوتہ کرلیا تھا۔ صبر و شکر، قناعت اور سادگی جیسی اعلیٰـ صفات کے فوائد ان پر آشکارا ہوچکے تھے۔ ایسے لوگوں سے انھیں سخت نفرت تھی جو دولت کمانے کی دھن میں مشین بن کر رہ جاتے ہیں۔ ’’اتنا کما کر کیا کرنا ہے بھائی۔ قبر میں تو خالی ہاتھ ہی جانا پڑے گا جو سکون و اطمینان سادہ زندگی میں ہے وہ بھلا دولت کے انباروں میں کہاں۔‘‘ وہ اکثر اپنے دوستوں کی محفل میں کہا کرتے اور خدا کا لاکھ لاکھ شکر ادا کرتے کہ اس نے انھیں لالچ اور پیسے کی ہوس جیسی برائیوں سے پاک رکھا تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ عالیشان کوٹھیاں اور چمکتی کاریں دیکھ کر ایک حسرت سی ان کی نگاہوں میں جھلکنے لگتی۔
رات کو کھانے پر انھوں نے بیوی سے بھی اس واقعے کا ذکرکیا اور بولے:’’میں حیران ہوں کہ فیاض کے پاس اتنی دولت آئی کہاں سے؟ جائیداد کے نام کی ایک کوٹھڑی بھی اس کے باپ کے پاس نہیں تھی۔ تعلیم اس نے بھی میٹرک تک حاصل کی پھر ایسا کونسا الہ دین کا چراغ مل گیا اسے؟‘‘
’’آپ بھی کمال کرتے ہیں۔ آج کل دولت مند بننا کونسا مشکل کام ہے، لوگ راتوں رات لکھ پتی اور کروڑ پتی بن جاتے ہیں۔ اسمگلنگ کرتا ہوگا یا منشیات کا دھندا!‘‘
بیوی نے گویا ان کے دل کی بات کہہ دی۔ خوش ہوکر بولے: ’’تم ٹھیک کہتی ہو، ایسے لوگوں سے اور توقع بھی کیا کی جاسکتی ہے۔ خاندانی اور غیر خاندانی لوگوں میں یہی تو فرق ہے۔ ہمیں دیکھو کیا تھے اور کیا ہوگئے، مگر کبھی حرام کی کمائی کا خیال تک نہیں آیا۔ خیر ہمیں کیا۔ کرلے عیش چند روز اور کبھی نہ کبھی تو پکڑا جائے گا۔ پھر دھرے رہ جائیں گے یہ ٹھاٹ باٹ اور دو کوڑی کی ہوجائے گی یہ جھوٹی عزت۔ ہونہہ۔‘‘
کئی دن گزر گئے۔ ایک روز دفتر سے واپسی پر راستے میں فیاض پھر آن ٹکرایا اور لگا شکوے شکایت کرنے کہ ’’تم مجھ سے ملنے نہیں آئیے، میں تمہارا انتظار ہی کرتا رہا۔‘‘ اکبر علی خاں جواب میں آئیں بائیں شائیں کرکے رہ گئے۔ ’’چلو بیٹھو‘‘ اس نے اپنی گاڑی کا دروازہ کھولا اور ہاتھ پکڑ کر انھیں زبردستی اندر بٹھا لیا، اکبر علی خاں نے کچھ دبا دبا سا احتجاج بھی کیا مگر اس نے ایک نہ سنی اور بولا: ’’نہ جانے پھر کب ہاتھ آؤ گے۔ اس لیے آج تو تمہاری کچھ نہ چلے گی۔‘‘
وہ انہیں اپنے خوبصورت آراستہ پیراستہ بنگلے میں لے گیا جس میں آرام و آسائش کی ہر چیز موجود تھی اور بے حدنفیس اور بیش قیمت۔ ان کے پہنچتے ہی پرتکلف کھانا لگادیا گیا۔ کھانے کے بعد کافی کا دور چلا۔ سارا وقت فیاض بلبل کی طرح چہکتا رہا، پرانے دنوں کی باتیں کرتے اس کی زبان نہ تھکتی تھی، مگر اس نے اپنے ذریعۂ آمدنی کے متعلق ایک لفظ بھی نہ کہا، چنانچہ اکبر علی خاں کا یہ شبہہ اور بھی تقویت پکڑ گیا کہ وہ کوئی شریفانہ کام نہیں کرتا۔
کچھ دیر کے بعد فیاض بولا: ’’آؤ ذرا گھومنے چلتے ہیں۔ موسم بھی اچھا ہے۔ دونوں دیر تک سبک رفتار گاڑی میں کراچی کی فراخ سڑکوں پر گھومتے اور اپنے زمانۂ طالب علمی کے دلچسپ قصے دہراتے رہے۔ اکبر علی خاں کو اس وقت بڑا سرور آرہا تھا۔ فیاض کی بے تکلفی اور گرمجوشی نے ان کی ساری سرد مہری کو پگھلا کر رکھ دیا تھا۔ اب وہ بھی پوری طرح اس کی باتوں اور قہقہوں میں شریک تھے۔
کار کا رخ صدر کی طرف ہوگیا تھا۔ وہ بھیڑ بھاڑ میں رینگتی راستہ بناتی چلی جارہی تھی کہ فیاض نے ایک بہت بڑی اور شاندار ٹیلرنگ شاپ کی طرف اشارہ کیا اور بولا: ’’یہ میری دکان ہے۔‘‘ دکان کی شان و شوکت اور ٹیپ ٹاپ دیکھ کر پتہ چلتا تھا کہ متوسط طبقے کا کوئی آدمی اس میں قدم رکھنے کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ درزیوں کا بہت بڑا عملہ اپنے اپنے کاموں میں مصروف تھا۔
’’میری دکان کا شمار شہر کی بہترین ٹیلرنگ شاپس میں ہوتا ہے۔ پینتیس برس پہلے ایک چھوٹی سی دکان سے ابتدا کی تھی۔ محنت سے کام کیا اللہ نے برکت دی اور آج سوسائٹی میں مقام ہے، عزت ہے، بڑے بڑے لوگ اپنے کپڑے یہیں سے سلواتے ہیں۔‘‘ فیاض کسی فخر و غرور کے بغیر بتارہا تھا اور اکبر علی خاں کا ذہن چالیس بر س پہلے کی یادوں میں کھویا ہوا تھا۔ میٹرک کے بعد فیاض ایک درزی کی دکان پر کام سیکھنے لگا تھا تو انھوں نے اور ان کے ساتھیوں نے اس کا ناطقہ بند کردیا تھا۔ وہ سب طرح طرح سے اس کا مذاق بناتے اور نئے نئے طریقوں سے ذلیل کرتے حتی کہ وہ عاجز آکر رو رو پڑتا۔
گاڑی صدر کی حدود سے نکل چکی تھی۔ فیاض اب کسی اور موضوع پر بات کررہا تھا، مگر وہ کھڑکی سے باہر دیکھتے رہے۔ ان میں اب فیاض کی طرف دیکھنے کی ہمت نہ تھی اور ہوتی بھی کیسے اس کا سر تو آسمان کو چھورہا تھا۔ (ماخوذ ، اردو ڈائجسٹ)