’’قسم کھانا درست نہیں۔‘‘ ارسلان بولا۔
’’تمہیں کس نے بتایا؟‘‘ اطہر نے نگاہیں اس کے چہرے پر مرکوز کرتے ہوئے پوچھا۔
’’وہی اپنے مولوی صاحب بتا رہے تھے۔ وہ یہ بھی بتا رہے تھے کہ اللہ تعالیٰ کی قسم کھانا، چاہے وہ سچی ہو یا جھوٹی، بہت بڑا گناہ ہے۔‘‘ ارسلان فوراً بولا۔
اطہر نے دال والے پکوڑے کا آخری ٹکڑا منہ میں ٹھونس کر چکنا ہاتھ قمیص پر رگڑتے ہوئے کہا: ’’بھائی! مگر مولوی صاحب تو خود بتا رہے تھے کہ قرآن پاک میں کئی مقامات پر قسم کھائی گئی ہے جیسے سورۃ العصر میں زمانے کی قسم کھائی گئی ہے۔‘‘
’’بالکل ٹھیک ہے، لیکن وہ اللہ تعالیٰ کا اپنا خطاب اور پیغام ہے نا … البتہ انسانوں کو بات بے بات ، موقع بے موقع، وقت بے وقت قسمیں کھانا اور وہ بھی اللہ تعالیٰ کی، کچھ زیب نہیں دیتا۔‘‘
’’ارے وہ اپنا فہد ہے نا… اللہ جھوٹ نہ بلوائے پورا دن بھانت بھانت کی قسمیں کھاتا رہتا ہے۔ کبھی اپنی امی کی قسم، کبھی بڑے بھائی جان کی قسم، کبھی اپنے ابوکی قسم اور کبھی اللہ پاک کی قسم!‘‘ اطہر نے بتایا۔
’’یہ تو اور بھی گناہ کی بات ہے۔ ویسے آپ نے بھی دوگناہ کیے، اول تو یہ کہ فہد کی چغلی کھائی اور دوسرا یہ کہ بغیر تصدیق کیے وہ تمام قسمیں من و عن بیان کردیں۔ بھائی! تمہارا منہ تو شب برات والا انار ہوگیا کہ ذرا سی آگ دکھلاتے ہی چھوٹ پڑا۔‘‘
ارسلان کی بات پر اطہر جھینپ گیا۔
’’یار سب چلتا ہے آج کل۔‘‘
’’نہیں چلتا پیارے‘‘ … ارسلان نے اس کے کاندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا: ’’بالکل بھی نہیں چلتا… نہ چلانا چاہیے۔ غلط بات تو بغیر پہیوں والی سواری کی طرح ہوتی ہے۔ لاکھ اسٹارٹ کیجیے، زور لگائیے مگر چل کر ہی نہ دے۔‘‘
’’اچھا بھئی فلسفہ تو رہنے دو۔ مانا کہ آٹھویں پاس کرنے والے ہو۔ بات قسم سے شروع ہوئی تھی اور کہاں پہنچ گئی۔ اب ختم کرو اس موضوع کو… ہاں البتہ عشاء کی نماز آج کیوں نامسجد میں ادا کرلی جائے۔‘‘ اطہر نے پوچھا۔
ارسلان نے کچھ دیر سوچ کر جواب دیا’’مسجد گھر سے دور ہونے کی وجہ سے امی جان فجر اور عشاء کی نمازوں کی اجازت مسجد میں ذرا مشکل سے ہی دیتی ہیں، کیونکہ مدرسہ کے بعد راستے میں بیابان راستہ بھی تو پڑتا ہے نا، اور پھر اپنی جان کی حفاظت تو اللہ میاں نے بھی بتلائی ہے۔ اس لیے میں فجر اور عشاء کی نمازیں عموماً گھر پر ہی ادا کرلیتا ہوں۔ البتہ آج سے امتحانات میں کامیابی کے خصوصی دعا کرنی ہے، اس لیے آؤں گا مسجد میں۔‘‘
’’وعدہ!‘‘ اطہر نے پوچھا۔
’’مولوی صاحب کہتے ہیں کہ انسان واقف نہیں کہ پل بھر میں اور پل بھر بعد زندہ بھی رہے گا یا نہیں۔ انسان کو اپنے مستقبل کے بارے میں کچھ نہیں معلوم… اگر اللہ تعالیٰ نے عشاء کے وقت تک مجھے صحیح سلامت رکھا تو ضرور باجماعت نماز ادا کرنے آؤں گا۔‘‘ ارسلان نے ٹھہر ٹھہر کر اپنی بات مکمل کی۔
’’اچھا بھئی ٹھیک ہے۔ میرا خیال ہے اب چلنا چاہیے، اللہ حافظ دوست!‘‘
عشاء کی نماز ختم ہوچکی تھی۔
فضا میں جھینگروں کی موسیقی رچی بسی تھی۔ مسجد چونکہ آبادی سے ذرا دور تھی اس لیے یہاں نمازیوں کی تعداد بھی ذرا کم ہی ہوا کرتی تھی۔ پسماندہ بستی تھی جہاں کے لوگ ’’عبادت‘‘ کوبھی ’’غرض‘‘ سمجھ کر کیا کرتے تھے۔ یعنی کوئی کام سر پر سوار ہوا تو نماز پڑھنا شروع کردی۔ فلاں مسئلہ حل ہوجائے اور نمازی بن گئے۔ جمعہ کے جمعہ تو مسجد آباد ہوہی جایا کرتی تھی مگر ان لوگوں کو یہ حقیقت معلوم نہ تھی کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت ’’غرض‘‘ نہیں بلکہ فرض ہے۔ ہر حال میں بندے کو اپنی پیشانی اللہ تعالیٰ کے آگے سجدہ گاہ پر رکھنے اور جھکانے کا حکم ہے۔
ارسلان اور اطہر بھی نماز مکمل کرنے کے بعد دیر تک دعائیں کرتے رہے۔ پاس ہونے کی دعا مانگی۔ دولت مند ہونے کی دعا۔ تمام دلی خواہشات پوری ہونے کی دعا اور بہت سی دوسری دعائیں۔
مسجد آہستہ آہستہ نمازیوں سے خالی ہوتی جارہی تھی۔ اندھیرا بھی بڑھتا جارہا تھا اور جھینگروں کی آوازیں تیز ہوتی جارہی تھیں۔ دونوں کے باپ ’’بزرگ ٹولی‘‘ کے ساتھ روانہ ہوچکے تھے۔
’’آمین!‘‘ اطہر نے ہاتھ چہرے پر پھیرتے ہوئے زیرِ لب کہا اور پھر برابر میں بیٹھے ہوئے ارسلان کو مصروفِ دعا دیکھ کر بولا: ’’اب چلو بھائی ارسلان بہت دیر ہوچکی ہے۔‘‘
ارسلان نے بھی دعا ختم کی اور اٹھتے ہوئے بولا: ’’بڑے کہتے ہیں کہ کسی کو دعا مانگتے، کھانا کھاتے یا سوال کرتے ہوئے ٹوکنا نہیں چاہیے۔ آپ نے غلط حرکت کی!‘‘
’’افوہ ایک تو اس کے سر پر ہر وقت نصیحت سوار رہی ہے۔‘‘ اطہر بڑبڑانے لگا۔ دونوں آہستہ آہستہ چلتے ہوئے مسجد سے باہر آگئے۔ چبوترے پر رکھی جوتیاں پہنیں اور مسجد سے ملحقہ مدرسے کی عمارت تک آگئے۔
اطہر اور ارسلان آہستہ آہستہ گھر کی جانب بڑھ رہے تھے۔ مدرسے کی عقبی دیوار کے ساتھ ساتھ گھنی جھاڑیاں تھیں، جو رات کے اندھیرے میں اور بھی زیادہ پراسرار اور خوفناک محسوس ہورہی تھیں۔
’’ادھر سے نہ جاؤ!‘‘ ارسلان نے اطہر کو روکا۔
’’ڈرگئے۔‘‘
’’نہیں… امی نے کہا تھا احتیاط سے گھر آنا، پگڈنڈی والا راستہ اختیار کرلیتے ہیں۔ وہاں ابھی نمازیوں اور لوگوں کی آمدو رفت ہوگی۔‘‘
’’ٹھیک ہے چلو!‘‘
ابھی دونوں مدرسے کی عقبی دیوار کے قریب موڑ پر ہی پہنچے تھے کہ جھاڑیوں کے پیچھے سے اچانک ایک ہانپتا کانپتا ہوا شخص نمودار ہوا۔ اس کا سانس بے انتہا پھولا ہوا تھا جیسے میلوں دور سے بھاگ کر آیا ہو۔
اس کے داہنے ہاتھ میں شاید تازہ لہو لگا خنجر تھا، اندھیرے میں خنجر کی چمک دکھائی دے رہی تھی۔ چاندنی میں وہ آدمی بے حد خوفناک لگ رہا تھا۔ اسے دیکھتے ہی اطہر اور ارسلان نیچے بیٹھ گئے۔ دیوار کا موڑ ہونے کی وجہ سے قاتل نے دونوں کو نہیں دیکھا۔ اس نے فوراً اپنی قمیص اتاری ، خنجر قمیص میں لپیٹا اور مدرسے کی بمشکل پانچ فٹ اونچی دیوارکو پھاند کر اندر کود گیا۔
’’اطہر…‘‘ ارسلان کی خوف میں ڈوبی ہوئی آواز ابھری۔
ارسلان نے اطہر کا ہاتھ تھام لیا، وہ برف کی طرف ٹھنڈا ہورہاتھا۔
’’آیت … تل … کر…کرسی پڑھو!‘‘ اطہر کی ٹوٹتی ہوئی سرگوشی ابھری۔
’’کک … کس بے چارے کا قتل کرکے اندر کودا ہے یہ؟‘‘
’’معلوم نہیں!‘‘ گرم گرم سانسیں تیزی سے خارج ہونے لگیں۔
’’ہم کیا کریں اب؟‘‘
’’میں نے سوچ لیا ہے۔‘‘
’’کیا؟‘‘
’’تم راضی ہوجاؤ گے؟‘‘
’’پہلے بتاؤ تو سہی۔‘‘
’’دیکھو ہم پر آنچ آئے یا نہ آئے مگر اللہ میاں کے گھر کوئی ڈاکو، چور، قاتل چوری چھپے داخل نہ ہو۔‘‘
’’یہی میں بھی سوچ رہا ہوں۔ پھر کیا کریں ہم؟‘‘
’’شور مچا کر قاتل کو پکڑوا دیتے ہیں۔‘‘
’’اندرکودوگے؟‘‘
’’ہاں!‘‘ لہجے میں چٹانوں کی سی مضبوطی تھی، ایمان کی مضبوطی۔
’’مگر… مگر اس کے پاس ہتھیار ہے اور تم نے دیکھا ہے کہ خنجر کی دھار چمک رہی تھی۔ وہ ہمیں مارسکتا ہے۔ وہ قاتل ہے اور ہم کمزور بچے۔ ذرا سوچو!‘‘
’’کوئی بات نہیں … اگر اللہ کی راہ میں موت آجائے تو کوئی حرج نہیں، اس سے اچھی کوئی موت نہیں ہوسکتی۔ چلو اٹھو، شور مچا کر لوگوں کومتوجہ کرتے ہیں اور پھر اندر کود جاتے ہیں۔ وہ بزدل ہے اور جرم کرکے اللہ پاک کے پاک گھر میں پناہ لینے آیا ہے۔‘‘
اچانک فضا میں ایک تیز سیٹی کی آواز گونجی، پولیس ملزم کے تعاقب میں تھی۔ اطہر منمنایا ’’شور مت مچانا ورنہ وہ ہم پر حملہ کردے گا۔ چپکے سے اندر جاکر کسی طرح اسے کوٹھڑی میں بند کردیتے ہیں۔ جیسے ہی وہ اندر جائے گا ہم باہر سے کنڈی لگادیں گے اور پھر لوگوں کو مدد کے لیے بلائیںگے۔‘‘ دونوں دبے پاؤں، بڑی آہستگی کے ساتھ مدرسے کی دیوار پھاند گئے۔ مدرسے کے مولوی صاحب نے بڑے چاؤ سے آیت الکرسی بڑے سے چوکھٹے میں لگا کربچوں کو درس دینے والے چبوترے کے اوپر آویزاں کروا رکھی تھی۔ اطہر اور ارسلان دونوں پنجوں کے بل اندر کودے اور سیمنٹ کی بنی ہوئی پانی کی ٹنکی کے نیچے رکھی ہوئی پیٹیوں کے پیچھے چھپ گئے۔ پھیلتی ہوئی چاندنی میں وہ اسے تلاش کررہے تھے۔
’’ارے وہ دیکھو، وہ کیا کررہا ہے… وہ رہا ادھر۔‘‘ارسلان کے کہنے پر اطہر نے چونک کر دیکھا۔
ملزم نے جھٹ پٹ قمیص میں لپٹا خون آلود خنجر آیت الکرسی کے فریم کے پیچھے چھپا دیا۔ چڑیا کے بنائے ہوئے گھونسلے کے ایک دو تنکے گرگئے، جب ہی چوں چوں کی آوازیں آنی شروع ہوگئی تھیں۔
چوکھٹا اوپری جانب سے اچھا خاص نیچے کو جھکا ہوا تھا اور نچلی سطح سے دیوار پر لگا تھا۔
اطہر اور ارسلان سانس روکے ہوئے سب کچھ دیکھ رہے تھے۔ پولیس کی سیٹیوں اور گالیوں کی آوازیں قریب آتی جارہی تھیں۔ ذرا ہی دیر بعد پولیس مدرسے کے ہلکے سے دروازے کو اپنے بھاری بھرکم بوٹوں سے کھولتی، ٹاٹ کے پردوں کو ہٹا کر اندر داخل ہوگئی۔
’’یہیں ہے … یہاں ہی آیا ہے… ادھر ہی ہوگا۔ ڈھونڈواسے… رسول بخش اس کو تلاش کرو، سونگھ اس حرامی پلّے کی بو، وہ ابھی کرم دین کا قتل کرکے ادھر ہی آیا ہے۔ بزدل چوہا۔‘‘
انسپکٹر نے اپنا ڈنڈا اپنی ٹانگ پر آہستہ آہستہ مارتے ہوئے کہا۔
’’قتل … کس کرم دین کا قتل؟ اپنا چاچا کرمو تو نہیں؟‘‘
’’اللہ جانے!‘‘
اطہر اور ارسلان سر سے پیر تک کانپ کر رہ گئے۔ سپاہیوں کے ہاتھوں میں ٹارچیں تھیں۔ وہ اسے تلاش کررہے تھے۔ وہ اچانک چھپ گیا تھا مگر اطہر اور ارسلان کو چاندنی میں اس کا ننگا سیاہ بدن اور سر چمکتانظر آرہا تھا۔
’’وہ دیکھو وہ اپنی پناہ گاہ سے نکل رہا ہے۔‘‘ اطہر نے سرگوشی میں ارسلان کو بتلایا۔
’’ہاں شاید باہر کودنا چاہتا ہے کیونکہ پولیس اندر گئی ہے۔ یہ یقینا باہر کھیتوں میں جاکر روپوش ہونا چاہتا ہے۔‘‘ ارسلان بولا۔ دونوں نے دیکھا کہ مجرم پنجوں کے بل آہستہ آہستہ اٹھنے کی کوشش کررہا تھا۔ اب دونوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور اسے پکڑنے کے لیے اٹھے ہی تھے کہ اچانک مجرم کے منہ سے ہلکی سی چیخ نکل گئی، اٹھتے وقت اس کا پاؤں مڑگیا۔ نہ معلوم کتنی تکلیف ہوئی تھی کہ اس جیسا سخت جان بھی چیخ اٹھا۔ بہرحال یہاں قسمت نے اس کا ساتھ نہ دیا اور چیخ کی آواز سن کر پولیس نے اسے دبوچ لیا۔
پھر پولیس نے اس کا جو حشر کیا اسے دیکھ کر اطہر اور ارسلان دونوں کانپنے لگے۔
’’بول قتل تو نے ہی کیا ہے؟‘‘
’’اللہ پاک کی قسم… اللہ پاک کی قسم… میں نے قتل نہیں کیا۔‘‘ وہ گڑگڑانے لگا۔
اوئے مار کے آگے تو بڑے بڑے بھوت پناہ مانگتے ہیں۔ سچ سچ بک تو نے قتل کیا ہے کہ نہیں کرمو کا۔‘‘ ایک اور ڈنڈا پڑا۔ ہائے ربّا میں کسی کرمو کو نہیں جانتا… اللہ پاک کی قسم سنتری جی! ‘‘ اس کی ایک ہی رٹ تھی۔
’’ڈھونڈ … اوئے… کمالے … ڈھونڈ اوئے ثبوت کو… … آلۂ قتل کو!‘‘
ذرا ہی دیر میں مدرسے کا چپہ چپہ چھان لیا گیا لیکن آیت الکرسی والے چوکھٹے کی طرف کسی کا دھیان نہیں گیا۔
’’سر جی ثبوت نہیں مل رہا!‘‘ایک سپاہی نے آکر بتایا۔
’’بتا اوئے… کدھر چھپایا ہے؟‘‘
پھر تو جیسے قاتل پر ڈنڈوں کی بارش سی ہونے لگی، مگر اس کاایک ہی کلمہ تھا: ’’اللہ پاک کی قسم! میں نے قتل نہیں کیا ہے۔‘‘
’’اوئے بے شرما… مسلمان ہے کہ نہیں … خدا کے گھر میں جھوٹی قسم کھاتا ہے۔ شرم کر اوئے۔‘‘ ایک سپاہی دہاڑا۔
’’کلام پاک کی قسم، نبی پاک کی قسم، میں جھوٹی قسم نہیں کھاتا۔ میں نے قتل نہیں کیا ہے۔‘‘ وہ چلا رہا تھا، گڑگڑارہا تھا۔
پولیس مایوس ہوتی جارہی تھی۔
انسپکٹر تذبذب کے عالم میں تھا۔
پورے مدرسے اور ملحقہ مسجد کی تلاشی لے لی گئی مگر ثبوت کہیں سے برآمد نہیں ہوا۔ ادھر اس کو مار مار کر ادھ موا کردیا گیا تھا لیکن اس کی ایک ہی رٹ تھی ’’اللہ پاک کی قسم میں نے قتل نہیں کیا۔‘‘
’’اللہ پاک کی قسم میں نے کرمو کا قتل نہیں کیا، میں تو یہاں سے گزر رہا تھا کہ پولیس کی سیٹی سن کر ڈر کے مارے اندر کود گیا۔‘‘
’’اوہ میرے اللہ، کہیں یہ مر نے جائے پٹ پٹ کر، جھوٹا بار بار اللہ میاں کی قسم کھا رہا ہے۔ میرا تو جی چاہ رہا ہے کہ اٹھ کر بتلادوں کہ خنجر اس نے کہاں چھپایا ہے۔‘‘ اطہر بدبدایا۔
’’خاموش بیٹھے رہو۔ مفت میں دھر لیے جائیں گے۔ اور ہمارے اماں ابا، گھر والے، تھانے میں بیٹھے ہوں گے۔ دعا کرو یہ لوگ یہاں سے جلدی چلے جائیں۔ اماں پریشان ہورہی ہوں گی۔ اچھا ہی ہوا کہ مجرم خود ہی چیخ پڑا۔‘‘ ارسلان نے سرگوش کی، دونوں وضو کرنے والی سیمنٹ کی ٹنکی کے نیچے پیٹیوں کے پیچھے دبکے تھے، صرف چہرہ باہر نکال کر دیکھتے اور پھر پلک جھکتے میں سر اندر کرلیتے۔
اچانک آیت الکرسی والے فریم کے پیچھے بنے ہوئے چڑیوں کے گھونسلے میں چڑیوں کا شور تیز ہوگیا، چوکھٹا اچانک ہی لرزنے لگا اور پلک جھپکتے میں نیچے آرہا۔ آواز سن کر انسپکٹر اسے مارتے مارتے چونکا اور بھر ٹارچ کی روشنی وہاں ڈالی، اچانک اس کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔
آگے بڑھ کر عقیدت سے فریم کو اٹھا کر بوسہ دیا اور سینے سے لگا کر بولا:
’’واہ میرے مولا! اپنے گھر میں اس نابکار کی جھوٹی قسم کا راز خود ہی فاش کردیا اور کتنے انصاف کے ساتھ درست فیصلہ بھی کردیا۔ واہ میرے رب!‘‘
یہ کہتا ہوا وہ ثبوت کی جانب بڑھ گیا، جو کیل نکل جانے کی وجہ سے نیچے گر پڑا تھا۔
’’دیکھا … جھوٹی قسم کھانا درست نہیں! اللہ میاں ایسے شخص کو کبھی معاف نہیں کرتا۔‘‘
ارسلان نے اپنی خوشی کو دباتے ہوئے کہا۔
——