آج صبح سے ہی رخشی گھر کی صفائی اور کچن میں مصروف تھی۔ وجہ اس کی یہ تھی کہ رات اس کی سہیلی سارہ کا فون آیا تھا کہ وہ اور ان کی مشترکہ تین سہیلیوں نے رخشی کے گھر کھانے کا پروگرام بنایا ہے۔ رخشی بہت خوش تھی اور اب بڑے جوش کا مظاہرہ کرتے ہوئے صبح ہی سے لگی تھی۔ ساتھ ہی اس نے امی اور بہنوں کو بھی مصروف کردیا تھا۔ دوپہر بارہ بجے تک وہ گھر کی صفائی ستھرائی اور دوسرے ضروری کاموں سے فارغ ہوچکی تھی، اب وہ اپنی سہیلیوں کی آمد کی منتظر تھی۔
ڈیڑھ بج گیا لیکن کسی کا اتا پتا نہ تھا۔ چنانچہ اس سے رہا نہ گیا۔ باری باری سب کو فون ملاتی چلی گئی، لیکن کسی کا نمبر نہیں لگ رہا تھا۔ آخر کار پھر انتظار کی گھڑیاں گننے لگی۔ ایک نظر گھڑی پر تو دوسری ٹیلی فون پر تھی، اور کان دروازے کی اطلاعی گھنٹی پر، لیکن کسی کی کوئی اطلاع نہ تھی۔ کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔ وقفے وقفے سے وہ کبھی کسی کو اور کبھی کسی کو فون ملاتی، لیکن جواب ندارد۔ آخر کار جب چار بچ گئے تو وہ سچ مچ روہانسی ہی ہوگئی۔ امی، بہنیں بھی الگ پریشان کہ ماجرا کیا ہے، آخر خدا خدا کرکے شام پانچ بجے سارہ کا فون آیا۔
رخشی نے لپک کر فون اٹھایا۔ دوسری طرف سارہ بڑے چونچال موڈ میں تھی۔ رخشی ابھی کچھ پوچھنے بھی نہ پائی تھی کہ سارہ کا اونچا قہقہہ سنائی دیا۔
’’کیا بات ہے، تم لوگ اب تک آئے کیوں نہیں؟‘‘ رخشی نے پریشانی سے پوچھا۔
’’کیوں کہ ہمیں آنا ہی نہیں تھا۔‘‘ سارہ نے ہنستے ہوئے کہا۔
’’لیکن کیوں؟‘‘ وہ حیران تھی۔
’’تمھیں پتا ہے آج کیا تاریخ ہے؟‘‘ سارہ مزے سے بولی۔
’’یکم ہے، تو…‘‘
’’تو یہ کہ ہم نے تمھیں اپریل فول بنایا ہے۔‘‘ سارہ کی ہنسی بند نہیں ہورہی تھی۔
’’اپریل فول… کیا مطلب؟‘‘ رخشی حیرت زدہ تھی۔
’’مطلب تم خود سمجھی رہو بھولی لڑکی۔‘‘ سارہ نے ہنستے مسکراتے فون بند کردیا اور رخشی ہکا بکا رہ گئی۔ یعنی وہ جو کل رات سے اتنی خوش اور پر جوش تھی… تو یہ سب صرف ایک مذاق تھا۔ اس مذاق کی وجہ سے وہ بعد میں اپنے گھر والوں کے سامنے کتنی شرمندہ ہوئی تھی، کتنی کوفت میں مبتلا ہوئی تھی! امی کے آگے وہ الگ پشیمان تھی کہ ان کو اس کی سہیلیوں کی وجہ سے کتنے کام کرنے پڑے، جب کہ وہ بلڈ پریشر اور شوگر کی مریضہ بھی تھیں۔ کتنے دن وہ چپ چپ رہی، کئی دن تک اس نے اپنی سہیلیوں کا بائیکاٹ کیے رکھا۔
٭٭
’’یہ کارڈ کیسا ہے؟‘‘ شہلا نے ثمن سے پوچھا۔
’’کلاس فیلو کی شادی ہے، اس کا کارڈ ہے… کہہ رہا تھا ایمرجنسی میں تاریخ ٹھیری ہے۔ بہت اصرار کررہا تھا آنے کے لیے۔‘‘ ثمن نے جواب میں کہا۔
’’کیا پھر تم جاؤگی؟‘‘ شہلا نے سوال کیا۔
’’سوچ رہی ہوں— عظمی بھی بہت کہہ رہی تھی کہ آجانا۔‘‘ ثمن سوچتے ہوئے بولی۔
’’جاؤگی کیسے؟‘‘وہ حیران تھی۔
’’ظاہر ہے ابو کے ساتھ ہی جانا پڑے گا۔ کوئی بھائی تو ہمارا ہے نہیں۔‘‘ ثمن نے کندھے اچکائے۔
’’راضی ہوجائیں گے ابو…؟‘‘ شہلا نے حیرت سے پوچھا۔
’’دیکھو، کیا رہتا ہے… لے چلیں تو اچھا ہے ورنہ خیر ہے۔‘‘ ثمن نے بات کرتے ہوئے اپنی کتابیں کھول لیں۔
بہرحال ابو کو راضی کرکے وہ شادی ہال میں پہنچی تو کیا دیکھتی ہے کہ دولہا میاں پرانے کپڑوں اور گھسی چپلوں میں سر جھاڑ منہ پھاڑ، ادھر ادھر پھر رہے ہیں۔ کلاس کے کچھ اور لڑکے، لڑکیاں بھی تھے۔ رشتہ دار، ماں باپ ندارد، دلہن غائب، قاضی غیر حاضر… استفسار پر معلوم ہوا کہ کچھ دیر میں آنے والے ہیں۔
گھنٹہ گزرگیا۔ عجب چہ میگوئیاں شروع ہوگئیں۔ بس دوست احباب ہی نظر آرہے تھے۔ ابو بھی بیزار بیٹھے تھے۔ آخر وہی ہوا، بڑی دھوم دھام سے مہمانوں کو اپریل فول بنایا جارہا تھا۔ لڑکے (کلاس فیلو) کے چچا کا شادی ہال تھا۔ لہٰذا انتظامات کرنے میں کوئی پریشانی نہ ہوئی۔ واپسی کا سارا راستہ اور اس کے بعد کئی دن ثمن ابو سے نظر نہ ملاپائی۔ ابو بھی اس کے کلاس فیلو کی شان میں زمین آسمان کے قلابے ملاتے رہے۔
٭٭
راحت کے ہاں بیٹی کی ولادت ۳۱؍مارچ کو ہوئی۔ چوں کہ وہ میکہ آئی ہوئی تھی جو اس کے سسرال سے چند گھنٹے کی مسافت پر دوسرے شہر میں تھا۔ اس کی کزن نے اس کے سسرال فون کرکے مذاق میں بیٹے کی خوش خبر دے دی۔ ساس اور شوہر جب لدے پھندے صبح راحت کے پاس پہنچے اور جب انھیں بیٹے کے بجائے بیٹی کی نوید ملی تو دونوں کے منہ اتر گئے۔ راحت نے بڑی مشکل سے ان کے خراب موڈ کو ٹھیک کیا۔ لیکن اس کے باوجود کئی مہینے تک سسرال والے، خاص طور پر میاں اکھڑے اکھڑے ہی رہے اور راحت ایک ناکردہ مذاق کی سزا بھگتتی رہی۔
٭٭
’’رخشی باجی! آپ کی سہیلی سارہ کا فون ہے۔‘‘ رخشی کی چھوٹی بہن نے اسے آواز دی۔
’’کہہ دو وہ گھر پر نہیں ہیں۔‘‘ رخشی بیزاری سے بولی۔
’’لیکن آپ تو…‘‘
’’میں نے کہا کیا ہے…‘‘ وہ تیزی سے بولی۔
’’جی اچھا…‘‘ اس کی بہن نے یہ کہہ کر فون پر سارہ کو ٹال دیا۔
’’رخشی بیٹا یہ غلط بات ہے۔‘‘ امی نے ساری کارروائی دیکھ کر اسے ٹوکا۔
’’بس امی میرا سارہ سے بات کرنے کو دل نہیں چاہتا۔‘‘
’’اس دن بھی سارہ نے فون کیا تب بھی تم نے ٹال دیا، اب جب کہ وہ سوری کہہ رہی ہے تو بات ختم کرو۔‘‘ امی نے سمجھایا۔
’’امی! ایک سوری کہہ دینے سے کیا ہماری وہ تمام دن کی پریشانی دور ہوجائے گی۔‘‘
’’لیکن بیٹا اب تو اس بات کو بھی بیس بائیس دن ہوگئے۔ اب غصہ تھوک دو، چھوڑو ختم کرو۔‘‘ امی نے حسبِ معمول اس کو درگزر کی صلاح دی۔
’’نہیں امی ان لوگوں نے مجھے بہت تنگ کیا، ان کے اس مذاق نے مجھے کس طرح پریشان کیا، یہ لوگ شاید سوچ بھی نہیں سکتیں۔‘‘ وہ افسوس سے بولی: ’’ہم آخر کب تک غیرمسلموں کے ان طریقوں اور رسوم کو سینے سے لگائے رکھیں گے۔‘‘
’’بس بیٹا اس کے لیے تو عقل و سمجھ کی ضرورت ہے۔ ان لوگوں (غیرمسلموں) کا تو مقصد ہی صرف اور صرف مسلمانوں کو نیچا دکھانا اور ان کا مذاق اڑانا ہے۔ یہ تو ہماری غلطی ہے نا، کہ ہم نے اپریل فول کا کبھی پس منظر جاننے کی کوشش ہی نہ کی۔‘‘ امی نرمی سے بولیں۔
’’اب سارہ، بینا وغیرہ کو ہی دیکھیں۔ ان کا مقصد Just for Enjoymentہی تو تھا۔ انھیں اندازہ ہی نہیں کہ اس طرح مجھے اور میرے گھر والوں کو کتنی تکلیف پہنچے گی۔‘‘ رخشی کے لہجے میں ناراضی تھی۔
’’ارے باجی! یہ تو کچھ بھی نہیں، لوگ تو اس سے زیادہ سنگین مذاق کرتے ہیں اور وہ بھی صرف لمحاتی تفریح کے لیے۔‘‘ رخشی کی بہن بولی۔
’’چاہے اس سے لوگوں کی زندگی ہی کیوں نا تباہ ہوجائے۔‘‘ رخشی کو افسوس تھا۔
’’بالکل …‘‘
’’حالانکہ ہمارے مذہب میں تو مذاق اور بڑے سے بڑے مشکل حالات میں بھی جھوٹ سے احتراز بتایا گیا ہے۔‘‘ امی کا لہجہ بھی آزردہ تھا۔
’’لوگ سمجھیں تب نا…‘‘
’’بیٹا یہ تو ہمارا کام ہے کہ ہم اس بات کو آگے پہنچائیں۔ اب تم ایسا کرو سارہ سے بات کرو اور اپنی ناراضی ختم کرو، اور کسی وقت باتوں باتوں میں اسے اپریل فون جیسی خرافات کے بارے میں بتاؤ، اور آئندہ کے لیے اسے اس سے اجتناب اور اس کے نتائج کے بارے میں آگاہ کرو۔ وہ سمجھ دار بچی ہے، مجھے امید ہے کہ سمجھ جائے گی۔‘‘ امی نے مزید کہا۔
’’جی امی!‘‘ رخشی بولی اور سارہ سے بات کرنے اور اپنی ناراضی ختم کرنے کے لیے اٹھ کھڑی ہوئی۔
—