جہاں آرا صبح سویرے ہی اپنے گھر سے محنت مزدوری کے لیے نکل جاتی ہے۔ اسے اپنی منزل تک پہنچنے کے لیے یکے بعد دیگرے دو ٹیمپو بدلنے پڑتے ہیں، پھر اسے تین کلو میٹر پیدل چلنا پڑتا ہے۔ اس کی ماہانہ آمدنی ۷۰۰ روپئے کا زیادہ تر حصہ کرایہ کی نذر ہوجاتا ہے۔ اگر اس کا مالک شرافت کا مظاہرہ نہ کرے تو جہاں آرا کو اپنے اور اپنی تین بیٹیوں کے لیے دو وقت کی روٹی کا انتظام کرنا مشکل ہوجائے۔ مالک اسے اپنے گھر کا بچا کچھا کھانا اور اپنی بیٹیوں کے پرانے اترے ہوئے کپڑے بھی دے دیتا ہے۔
جہاں آرا اپنی دو چھوٹی بیٹیوں زبیدہ اور فریدہ کے دوپہر میں کھانے کے لیے کچھ تیار کرکے رکھ جاتی ہے۔ دونوں بچیاں احساس محرومی کا جیتا جاگتا نمونہ ہیں۔ ان کے آس پاس اینٹ پتھر اور گردوغبار کے سوا کچھ نہیں ہے یا پھر بہت دور کھیتوں میں گیہوں کی فصل پکی ہوئی کھڑی ہے اور چند درختوں پر پرندوں کے جھنڈ چہچہاتے پھرتے ہیں جو کبھی کہیں سے اڑ کر چلے آتے ہیں اور جب چاہتے ہیں اسی طرح اڑ کر کہیں چلے جاتے ہیں۔ دونوں بچیاں ایک دوسرے کے ساتھ ہی کھیلتی رہتی ہیں۔ زبیدہ اپنی چھوٹی بہن کی دیکھ بھال کا چارج بہت سنجیدگی کے ساتھ سنبھالتی ہے۔ اس سے کہتی ہے گھر سے باہر کہیں دور مت جانا کیوںکہ وہ اپنی بہن کو پریشانی سے بچا کر رکھنا چاہتی ہے۔
جہاں آرا اب سے کچھ دن پہلے لکھنؤ کی ایک جھونپڑپٹی میں رہتی تھی جو ایک گندے نالہ سے قریب ایک کھلے میدان سے متصل تھی۔ نالہ پلاسٹک کی پھینکی ہوئی تھیلیوں سے بھرا رہتا تھا۔ اس کے گھر میں فیکڑیوں سے اڑ اڑ کر پولیتھن، جوٹ اور لکڑی کا برادہ گرتا رہتا تھا۔ یہ زمین محکمہ ریلوے کی تھی۔ اس لیے اس بستی کو ہر وقت انہدامی کارروائی کا خطرہ رہتا تھا۔ وہ اپنے شوہر اور چار بیٹیوں کے ساتھ رہتی تھی۔ اس جگہ کا فائدہ ان کی نظر میں صرف یہ تھا کہ وہ اس کے شوہر کے حالات کے لحاظ سے موزوں و مناسب تھی جو کرائے کا سائیکل رکشہ چلاتا تھا۔ یہاں سے جہاں آرا کے لیے وہ گھربھی قریب تھا جہاں وہ کام کرتی ہے۔ اسے اس کالونی تک پہنچنے کی آسانی تھی جہاں خوشحال و سفید پوش لوگ رہتے ہیں۔ اس کا شوہر محض کھیت مزدوری جیسے کام ہی کرپاتا تھا ،جس سے اسے ۵۰، ۶۰ روپے مل جاتے تھے جبکہ جہاں آرا مہینہ میں ۷۰۰ روپے کما لیتی تھی۔
۲۰۰۰ء کے شروع میں جہاں آرا کا شوہر بیمار ہوگیا۔ اب کوئی کام اس کے بس کا نہ رہا تھا۔ جھونپڑپٹی میں ہی ایک ڈاکٹر کے پاس گیا، جس نے اسے شوگر کی بیماری بتائی چونکہ وہ نہ دوا خرید سکتا تھا نہ ہی ڈاکٹروں کی فیس دے سکتا تھا۔ اس کے پاس کوئی جمع پونجی بھی نہیں تھی کہ کچھ دن آرام ہی کرلیتا۔ وہ برابر کام کرتا رہا۔ ایک سال کے بعد اس کی بیماری شدت اختیار کرگئی اور ۲۰۰۲ء میں جہاں آرا کو اپنا اور چار بیٹیوں کا بوجھ اٹھانے کے لیے تنہا چھوڑ کر ہمیشہ کے لیے آنکھیں موند لیں۔
جہاں آرا کی سب سے بڑی بیٹی اسماء کی شادی ۱۵ سال کی عمر میں ہوگئی۔ باقی بیٹیاں ۱۱، ۷ اور ۴ سال کی تھیں۔ ان کی آمدنی کا سب سے اہم ذریعہ جاتا رہا تھا۔ اب آمدنی ایک چوتھائی سے بھی کم رہ گئی تھی جبکہ ان کے سر پر کسی محافظ مرد کا سایہ بھی نہ تھا۔ جہاں آرا بری طرح ٹوٹ چکی تھی اور جن لوگوں کے درمیان رہتی تھی اور جن کی وجہ سے خود کو محفوظ تصور کرتی تھی اب ان سے اپنے اور اپنے بچوں کے لیے خطرہ محسوس کرنے لگی تھی۔
ایسے وقت میں حکومت نے ایک ہزار نئے مکان ایسے لوگوں کے لیے بنانے کا فیصلہ کیا جنہیں ہندوستان میں کمزور طبقات کہا جاتا ہے۔ اس مقصد کے لیے گیہوں اگانے والے کھیتوں کو ایکوائر کیا گیا۔ گاؤوں میں یہ زمین زرعی طور پر زرخیز زمین کہلاتی تھی۔ یہ مکان یک منزلہ ایک ایک روم کے تھے، جن میں چھوٹے چھوٹے کچن اور باتھ روم بھی بنے ہوئے تھے۔ عام حالات میں ایسے مکان بھی غریبوں کی رسائی سے باہر ہوتے ہیں کیونکہ ان کی قیمت ۲۰ ، ۲۵ ہزار روپے ہوتی ہے۔
اب جہاں آرا بیوہ تھی، جس کی تین چھوٹی چھوٹی بیٹیاں تھیں۔ اس کے مالک نے اسے ان میں سے ایک مکان خریدنے کے لیے رقم کی پیش کش کردی۔ انھوں نے اسے مکان کی قیمت کا ایک بڑا حصہ دے دیا باقی رقم کا انتظام اس کے مرنے والے شوہر کے والدین نے کردیا، جنھوں نے اپنی زندگی بھر کی کمائی اور جمع پونجی اسے دے دی۔ گھریلو کام کاج کرنے والیوں کے مالکوں میں ایسی مثالیں شاذو نادر ہی ملتی ہیں کہ وہ اپنے ملازموں کے معاملات میں زیادہ دلچسپی لیں۔ انہیں صرف اپنے کام سے دلچسپی ہوتی ہے۔ ان کے گھر کا کام ہوگیا بس معاملہ ختم۔ لیکن یہ ایک عملی پیشہ ور اور کاروباری خاندان ہے۔ جہاں فرقہ واریت کا تصور نہیں پایا جاتا۔ اور اپنے قابل اعتماد ملازم کے لیے جو کچھ کرسکتا ہے وہ کرتا ہے۔ انھوں نے یہ کارخیر بھی بہت خاموشی سے انجام دیا، جس کا کسی اور کوکوئی پتہ بھی نہیں چلا۔
نئے مکانات ۱۰، ۱۰ کی لائن میں بنے ہوئے ہیں اس لائن میں ابھی دو تین خاندان ہی اور آکر بسے ہیں۔ یہ آبادی سے الگ تھلگ جگہ ہے۔ دوسرے لوگ بھی اپنے اپنے کام سے چلے جاتے ہیں۔ کمروں پر تالے پڑجاتے ہیں، جس کی وجہ سے دن میں بھی ہر طرف ویرانی اور تنہائی کا احساس ہوتا ہے۔ پانی کی سپلائی بھی برائے نام ہی کبھی کبھی ہوتی ہے۔ ٹائلٹ بھی کام نہیں کرتا۔ ایک گھر ایک پرائیوٹ ڈاکٹر کا ہے، جس نے سرمایہ کاری کے لیے دانشمندی کا مظاہرہ کیا تھا۔ اس نے اس وقت کے لیے پیشگی انتظام کرلیا ہے جب لوگ علاج کے لیے اس کے پاس آنا بند کردیں گے۔
ہم جہاں آرا کے گھر ایک گرم دوپہر کے بعد پہنچے۔ اس کی دونوں چھوٹی بیٹیاں گھر پر ہی تھیں۔ وہ اب ۹ اور۵ سال کی ہوگئی ہیں وہ باہری دروازے کے سامنے زمین پر ہی بیٹھی ہوئی کنکریوں سے کھیل رہی تھیں۔ بڑی بہن زبیدہ نے کہا۔ ہماری کوئی دوست یا سہیلی نہیں ہے۔ اس کی ذمہ داری اپنی بہن فریدہ کی دیکھ بھال کرنا ہے۔ اس کے ساتھ کھیلنا، گھر کو صاف رکھنا، برتن بھانڈے دھونا ہے۔ جہاں آرا کی عمر ۳۶ سال ہوگئی ہے لیکن گہرے رنگ کے بالوں سے جو پیٹھ پر الجھے پڑے رہتے ہیں اور زندگی سے تھکی و مایوس آنکھوں کی وجہ سے اپنی عمر سے زیادہ بوڑھی اور کمزور معلوم ہوتی ہے۔ اسے صبح سویرے ہی کام کے لیے اپنے گھر سے نکلنا پڑتا ہے وہ دو بیٹیوں کو دن بھر کے لیے گھر پر ہی چھوڑ جاتی ہے۔ آس پاس کوئی اسکول نہیں ہے اور کوئی ان کی دیکھ بھال کرنے والا بھی نہیں ہے۔ جب وہ جھگی میں رہتی تھی ان سب کو اپنے ساتھ ہی لے جاتی تھی جہاں وہ خود ان کی دیکھ ریکھ کرتی تھی۔ اب یہ ناممکن ہوگیا ہے۔
اب وہ بڑی بیٹی عشا کو اپنے ساتھی لے جاتی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ وہ اسے اس لیے لے جاتی ہے کہ وہ بھی کچھ کام جھاڑوپونچھا لگانا، برتن وغیرہ دھونا اور سبزیاں کاٹنا سیکھ لے لیکن یہ اس کی اصلی وجہ نہیں ہے۔ وہ سمجھتی ہے کہ عشا ابھی بچی ہے جسے ان گھروں میں رہنے میں زیادہ خطرہ ہے اب وہ ۱۳ سال کی ہوگئی ہے اس لیے اس کی شادی کی عمر قریب آگئی ہے۔
ماں کو عجیب کشمکش کا سامنا ہے وہ بڑی بیٹی کو گھرپر نہیں چھوڑسکتی کیونکہ کسی کو کیا معلوم آس پاس کون اور کیسے لوگ رہتے ہیں۔ ننھی بچی ان کے ساتھ کس قدر مزاحمت کرسکتی ہے، یہی بہتر ہے کہ چھوٹی چھوٹی بچیوں کو ہی گھر پر چھوڑ دیا جائے اگرچہ ان کے لیے بھی خطرہ ہے۔ لیکن جہاں آرا سوچتی ہے شاید کہ اس کی یہ سوچ غلط ہی ہو کہ لوٹ مار کرنے والے انہیں نشانہ بنائیں گے جو آس پاس گھومتے اور منڈلاتے پھرتے رہتے ہیںچونکہ یہ نئی بستی ہے۔ وہ اپنے آس پاس کے لوگوں کو نہیں جانتے۔ ان کے درمیان ابھی ربط ضبط نہیں بڑھا ہے، گھل مل کر رہنے کا ماحول نہیں بنا ہے، جہاں آرا کو عشا کو اتنی دور مالک کے گھر لے جانے کے لیے کرایہ چکانا پڑتا ہے۔
ماں کو اپنی پوزیشن بڑی دل دوز اندوہناک اور ناقابل برداشت معلوم ہوتی ہے۔ ۱۳ سالہ لڑکی کی اتالیق کی ذمہ داری اپنے سر لے رکھی ہے جبکہ وہ چھوٹی چھوٹی بیٹیاں روزانہ ۸، ۱۰ گھنٹے کے لیے اکیلی گھر پر رہتی ہیں۔ ایک سنگل روم میں ایک لکڑی کی چارپائی پڑی ہے اور ایک پرانی سلائی کی مشین رکھی ہے، جس سے جہاں آرا رات میں جب بچیاں سوجاتی ہیں اپنی آمدنی بڑھانے کی کوشش کرتی ہے۔ بستر پر ایک تکیہ رکھا ہے اور پتلا سا بستہ لپٹا رکھا ہے۔ کمرے میں کچھ کھانے پکانے کا سامان اور کچن میں کچھ برتن پلیٹ، پیالے اور گلاس وغیرہ ہیں۔ اترے ہوئے کپڑے دونوں دیواروں میں ٹھونکی گئی میخوں کے درمیان بندھی ایک رسی پر لٹکے ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ ان کی کوئی پونجی نہیں ہے۔
ننھی بچیاں بہت سمجھدار اور اپنی ماں کی فرماں بردار ہیں وہ اجنبیوں کے لیے دروازہ نہیں کھولتی ہیں۔ ان کی ایک پڑوسن ہے، جس کا کہنا ہے کہ وہ ان کی دیکھ بھال کرتی ہے لیکن اس کی ایک معذور بیٹی ہے جو چل پھر نہیں سکتی، اس کا شوہر شرابی ہے اسے اپنے مسائل سے ہی فرصت نہیں ملتی۔
جہاں آرا دنیا بھر میں غریب عورتوں کی دردبھری داستانوں کی ایک علامت ہے اس کی اپنے خاندان کو اپنے حساب سے چلانے کی خواہش روپے پیسے کمانے کی فکر اور کوشش میں دب کر رہ گئی ہے۔ وہ جہاں کام کرتی ہے وہ لوگ پیسے والے ہیں، خاوند وکیل ہیں اور بیگم صاحبہ کی عجیب و غریب ذمہ داریاں ہیں جو انہیں اپنی دوستوں اور سہیلیوں کے ساتھ پارٹیوں اور میٹنگوں میں جانے پر مجبور کرتی رہتی ہیں،جس کی وجہ سے انہیں اپنے تین چھوٹے چھوٹے بچوں کی دیکھ بھال کرنے کا بھی وقت نہیں ملتا۔ ایک لڑکے اور دو لڑکیوں کی دیکھ بھال جہاں آرا ہی کرتی ہے۔ وہ جہاں آرا کی سب سے بڑی بیٹی کو اپنی ماں کا ہاتھ بٹانے کے عوض کچھ پیسے دے دیتے ہیں۔ لیکن ماں کے یوں چھوڑ کر چلے جانے سے بچوں کا تو نقصان ہوتا ہی ہے۔ دولت کا سب سے اہم اور ضروری تقاضا اپنے بچوں پر توجہ کو ترجیح دینا ہے۔ جہاں آرا کی بھی سب سے اہم ضرورت یہی ہے کہ وہ اپنے بچوں پر توجہ دے۔ ان کے ساتھ شفقت کا برتاؤ کرے۔ انہیں اپنی حفاظت آپ کرنے کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے جبکہ وہ ان کے لیے کچھ کماکر لانے کی کوشش کرتی ہے۔ جس سے یہ یقینی ہوجائے کہ وہ دو وقت کی روٹی کھاسکیں۔ دنیا بھر میں غریب عورتوں کے لیے گھریلو کام کاج بہت بڑا روزگار ہے۔ لیکن یہ خود ان کے سر پر ایک بہت بڑا بوجھ ہوتا ہے جو انہیں اکیلے اٹھانا پڑتا ہے۔ ان چھوٹی چھوٹی بچیوں کا پالنا بے شمار مسائل اور پریشانیوں سے گزرنے کے مترادف ہے۔ مگر وہ زندگی سے جنگ کرنے میں مصروف ہے، ایسی جنگ جس میں فتح کے امکانات ندارد نظر آتے ہیں۔
’’حقیقت میں تو یہ معاشرہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس طرح کے کمزور اور ضرورت مند لوگوں کی خبر گیری کریں، مگر کس کو فرصت ہے کہ وہ اپنے معیار زندگی کو بلند کرنے اور دولت کمانے کی فکر سے تھوڑی دیر کے لیے بھی اپنا وقت اس بات پر غوروفکر کرنے کے لیے ضائع کرے۔ بس دل سے ایک آہ نکلتی ہے اور خواہش ہوتی ہے کہ کاش کچھ لوگ ہوتے۔‘