جہاں پھول کھلتے ہیں

اسماء سید

اور مولوی صاحب کی پتلیاں پھیلنے لگیں۔ انھوں نے حیرت سے دوسروں کی طرف دیکھا۔ سب کے سب مولوی صاحب کی طرح حیران ہوتے جارہے تھے۔ میر صاحب خوشی سے زمین کی طرف دیکھ رہے تھے۔ کلو لوہار ایک انگلی سے اپنی داڑھی کو کھجارہا تھا اور جان محمد پٹواری تو یوں گھبرایا ہوا تھا جیسے ہتھکڑی اس کے ہاتھوں میں ڈال دی گئی ہو۔ تقریباً یہی حالت دوسروں کی تھی۔
آخر مولوی صاحب نے اس سکوت کو توڑا: ’’یہ سب جھوٹ ہے۔‘‘
وہ بولے: ’’میں ہرگز یقین نہیںکرسکتا، ہرگز نہیں… کبھی نہیں۔‘‘
’’یقین تو مجھے بھی نہیں آتا۔‘‘ میر صاحب نے کہا: ’’لیکن سب قصبے والوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے، اس لیے اب یقین کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔‘‘
اور واقعی یقین کرنے کے سوا اور کوئی چارہ نہیں تھا۔ بازار کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک تمام دکانداروں نے اپنی آنکھوں سے دارا کے ہاتھوں میں ہتھکڑی لگی ہوئی دیکھی تھی۔ کلو لوہار کو تو یوں محسوس ہوا تھا جیسے اس کا ہتھوڑا بڑے زور سے خود اس کے سر پر آن گرا ہے۔ جان محمد پٹواری پان بناتے بناتے ہکا بکا رہ گیا تھا۔ فجا نان بائی کو جیسے کسی نے دہکتے ہوئے تنور میں جھونک دیا تھا۔ فضل کے موٹے موٹے بازو ہڈیوں کی طرح رمک گئے تھے اور رمضان کے چہرے کی ساری سرخی گویا نچڑ کر رہ گئی تھی۔ بات بھی کچھ ایسی تھی، جس نے بھی سنا حیران رہ گیا۔ اور پھر یہ حیرت غصہ میں تبدیل ہوگئی۔
شام کو جب نمازیوں نے سلام پھیرا تو رمضانی نے اٹھ کر کہا: ’’آپ لوگ تشریف رکھیے۔ مولوی صاحب آج کے معاملے کے بارے میں کچھ کہنا چاہتے ہیں۔‘‘
مولوی صاحب اٹھے۔ ان کا چہرہ سرخ ہورہا تھا۔ لوگوں سے مخاطب ہوکر انھوں نے کہنا شروع کیا: ’’آج جو واقعہ رونما ہوا ہے آپ سب کو اس کے متعلق علم ہوچکا ہوگا۔ قصبہ صادق پور شرافت اور امن وامان کی بدولت آس پاس کے علاقوں میں کافی مشہور ہے۔ کئی سالوں سے یہاں کوئی ایسا حادثہ نہیں ہوا جس سے ہماری شرافت پر بٹہ لگا ہو۔ مدت سے ہمارے کسی باشندے نے کوئی ایسی حرکت نہیں کی، جس کی وجہ سے ہمارا سر شرم سے جھکا ہو۔ لیکن افسوس، آج ایک دارا نامی نوجوان نے خدابخش خان کے مکان میں چوری کرنے کی کوشش کرکے ہماری عزت کو خاک میں ملادیا۔ وہ بدبخت اس وقت حوالات میں ہے۔ خدا اسے غارت کرے۔ چوری کی وجہ بیان کرتے ہوئے اس حیلہ ساز نے کہا کہ بھوک نے اسے مجبور کررکھا تھا۔ کتنے شرم کی بات ہے کہ اتنے ہٹے کٹے انسان نے بھوک کے سامنے ہتھیار ڈال دیے۔چوری کرتے ہوئے بے حیا نے اتنا بھی نہ سوچا کہ صادق پور والے ہمیشہ کے لیے شرمسار ہوجائیں گے۔ نابکار کہیں کا۔ آپ اپنے کیے کی سزا پائے گا۔ لیکن جب وہ رہا ہوکر، واپس یہاں آئے تو صادق پوروالے ہرگز اس کے ساتھ اچھا سلوک نہ کریں۔ اسے ہر جگہ سے دھتکارا جائے تاکہ دوسروں کو اس کی حالت سے عبرت ہو۔‘‘
٭٭
عدالت میں دارا نے اپنے جرم کا اقبال کرتے ہوئے کہا: ’’میں مجبور تھا، میں نے معمولی سے معمولی کام کرنے کے لیے ہر جگہ اپنے کو پیش کیا، لیکن سارے صادق پور میں کسی شخص نے مجھے ملازم نہ رکھا۔ بھوک نے مجھے مجبور کردیا۔ میری اس حرکت کا باعث بے کاری تھی۔‘‘
عدالت نے اپنا فیصلہ سنایا: ’’چونکہ مجرم اپنے جرم کا صاف صاف اقبال کرتا ہے، اس لیے اسے صرف ڈیڑھ سال قید بامشقت کی سزا دی جاتی ہے۔‘‘
دارا نے سر جھکالیا۔
پانچ سو سینتالیس دنوں تک وہ جیل کے داروغہ سے لے کر چپراسی تک کی جھڑکیاں سنتا رہا۔ پانچ سو سینتالیس دنوں تک وہ بیماری کی حالت میں بھی چکی پیستا رہا۔ پانچ سو سینتالیس دنوں تک جیل کی موٹی موٹی آہنی سلاخیں اس کی ہمدرد بنی رہیں۔ وقت کا چکر گھومتا رہا حتی کہ وہ پانچ سو سینتالیس دن گزرگئے اور پھر اسے جیل سے نکال دیا گیا۔
سورج دور افق کے قریب بادلوں میں الجھا ہوا تھا۔ ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔ پرندے آسمان کے نیلگوں سمندر میں کشتیوں کی طرح تیر رہے تھے۔ کائنات جھوم رہی تھی۔ اور کچھ دیر بعد، وہ اس بازار میں چلا جارہا تھا جہاں آج سے ڈیڑھ سال قبل اس کے ہاتھوں میں ہتھکڑی پہنائی گئی تھی۔
جب وہ بازار کے وسط میں پہنچا تو فضل نے رمضانی کو مخاطب کرکے آوازہ کسا’’لوبھئی، ہماری عزت کے جھنڈے بلند کرنے والا پھر آن پہنچا۔‘‘
دارا چوٹ کھائے ہوئے ناگ کی طرح پلٹا۔ اس نے پہلے فضل کی طرف دیکھا اور پھر رمضانی کی طرف۔ اس کی مٹھیاں غصے سے بھنچ گئیں۔ لیکن دوسرے ہی لمحے خود بخود ڈھیلی پڑگئیں۔ آج وہ فضل سے لے کر فجے تک سب کی آنکھوں میں نفرت کے جذبات کو انگڑائیاں لیتا دیکھ رہا تھا۔ جیسے ان سب کی نگاہیں کہہ رہی تھیں: ’’ہمارے قصبے کو بدنام کرنے والے، ذلیل، چور، اب تو دوبارہ یہاں کیوں آیا ہے؟‘‘
وہ تیزتیزقدم اٹھاتا ہوا مسجد کی طرف بڑھا۔ پیچھے سے کئی قہقہے سنائی دیے۔ اس نے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیں۔ جوں ہی وہ مسجد میں داخل ہوا۔ مولوی صاحب کی لہراتی ہوئی تسبیح رک گئی۔ انھوں نے بڑے عجیب انداز سے گھور کر دیکھا۔ دارا نے سوچا: مولوی صاحب دیندار آدمی ہیں۔ وہ اسے کچھ نہ کہیں گے۔ لیکن مولوی صاحب کی حقارت بھری نظریں دیکھ کر وہ سٹ پٹا گیا۔ اس نے واپس لوٹنا چاہا لیکن مسجد کے دروازے پر فضل، رمضانی، جان محمد پنواڑی، کلو لوہار اور شیخ صاحب کو دیکھ کر وہ اپنی جگہ پر ہی کھڑے رہنے پر مجبور ہوگیا۔ سب کے سب اسے اس طرح دیکھ رہے تھے جیسے وہ کوئی نرالی قسم کا لنگور ہے۔
تھوڑی دیر بعد شیخ صاحب نے آگے بڑھتے ہوئے کہا: ’’دارے! تمہاری بدولت سارے قصبے والے کسی کے سامنے سر اٹھانے کے قابل نہیں رہے۔ کیا تمھیں معلوم نہ تھا کہ چوری کرنا کتنا بڑا گناہ ہے؟‘‘
’’مجھے معلوم تھا۔‘‘ دارا کی خاموش آنکھوں نے جواب دیا۔
اور کلو لوہار بولا:’’کیا تمھیں جیل کی تکلیف کا علم نہ تھا؟‘‘
’’مجھے علم تھا۔‘‘ یہ جواب بھی اس نے زبانِ خاموشی سے دیا۔
اور فضل نے کہا: ’’کچھ تو صادق پور کی عزت کا خیال کیا ہوتا؟‘‘
’’میں مجبور تھا۔‘‘ اس مرتبہ اس کے ہونٹ کھلے۔
مولوی صاحب اٹھ کر اس کے قریب آگئے، ’’خدا چوری کرنے والوں کو بالکل پسند نہیں کرتا۔‘‘ انھوں نے انکشاف کیا۔
’’پیٹ بھی تو خدا نے دیا ہے۔‘‘ دارا بولا۔
’’لیکن اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ انسان چوری جیسا ذلیل کام کرے۔‘‘ اور یہ کہتے ہوئے انھوں نے دوسروں کی طرف داد طلب نظروں سے دیکھا۔
دارا بولا: ’’جب بھوک انسان کو چبانے لگے، ملازمت اسے دھتکارنے لگے، لوگ بھیک بھی نہ دیں تو پھر وہ کیا کرے مولوی صاحب؟‘‘
’’اسے خدا پر بھروسہ کرنا چاہیے۔‘‘
(نسخہ تو اچھا تھا)
’’اور جب خدا پر بھروسہ کرنے سے بھی بھوک نہ مٹے تو؟‘‘
(سوال کچھ ٹیڑھا سا تھا)
’’تو، تو؟‘‘ مولوی صاحب بوکھلا گئے۔
’’تو اسے صبر کرنا چاہیے۔‘‘ شیخ صاحب نے دوسرا نسخہ پیش کیا۔
’’خوب! جیسے صبر بھی کوئی ڈبل روٹی ہے۔‘‘ دارا کے لہجے میں غضب کا طنز تھا۔
’’لیکن چوری کرتے ہوئے تو انسان کو شرم آنی چاہیے۔‘‘ شیخ صاحب نے جوابی حملہ کیا۔
’’اور قدرت مجھے بھوکا مارنے پر کیوں نہیں شرماتی؟‘‘ دارا جیسے سب کو ہرانے پر تلا ہوا تھا۔
مولوی صاحب جھلا اٹھے: ’’قدرت کے خلاف اس قسم کے فقرے کہنا کفر ہے۔ یہ کافر ہے۔‘‘ انھوں نے فتویٰ صادر کیا۔
’’یہ نابکار ہے۔‘‘ دوسرا خطاب شیخ نے دیا۔
’’یہ بے شرم ہے۔‘‘ رمضانی نے بھی زبان چلائی۔
’’یہ چور ہے۔‘‘ کلو لوہار نے بھی موقع سے فائدہ اٹھانا بہتر سمجھا۔
اور دارا چیخ پڑا: ’’میں بھوکا ہوں، مجھے روٹی چاہیے، مجھے روٹی دو۔‘‘
٭٭
آج اس کی رہائی کا دوسرا دن تھا، اور وہ بھوکا تھا۔
اور پھر اس کی رہائی کا تیسرا دن طلوع ہوا اور وہ بھوکا ہی رہا۔
اس نے سارے صادق پور کی خاک چھان ماری۔ ہر ایک کی منت سماجت کی۔ لیکن کوئی بھی ایک چور کو ملازم رکھنے پر تیار نہ ہوا۔ بھوک اسے نگلتی جارہی تھی۔ چاروں طرف مایوسی تھی جس کا دوسرا نام مجبوری تھا اور مجبوری جس کا دوسرا نام مایوسی تھا۔ وہ مایوس تھا، مجبور تھا، صرف اس لیے کہ وہ بھوکا تھا۔ وہ مقہور تھا، صرف اس لیے کہ اس کا پیٹ بڑی شدت کے ساتھ روٹی کا تقاضا کررہا تھا۔ اور جب مجبوری اور بھوک ایک جگہ جمع ہوجائیں، اکٹھے ہوجائیں تو ایک نئی چیز آتی ہے جو انسان کو جان محمد پنواڑی جیسے شخص سے ’’کمینہ‘‘ کا خطاب دلواتی ہے، دارا ایک بار پھر وہی خطاب حاصل کرنے پر مجبور ہوگیا۔
جب سورج غروب ہوگیا اور عشاء کی نماز بھی پڑھی جاچکی تو وہ بڑ ی ہوشیاری سے منصور حسین خاں کی حویلی میں داخل ہوگیا۔ بڑے دروازے سے گزر کر وہ چھوٹے سے باغیچے کو عبور کرتا ہوا دوسرے دروازے میں داخل ہوا۔ اس کے سامنے صحن تھا۔ تمام گھر والے اوپر کی منزل میں سونے کی تیاری کررہے تھے۔ اوپر کے کمروں کی روشنی صحن میں پڑ رہی تھی۔ وہ دیوار کے ساتھ ساتھ اندھیرے کی آڑ لیتا ہوا بڑھنے لگا۔ معاً اسے سیڑھیوں پر سے کسی کے اترنے کی آہٹ سنائی دی۔ وہ جلدی سے ایک کوٹھڑی میں داخل ہوگیا۔ کوٹھڑی میں مکمل اندھیرا تھا۔ اس نے سوچا جب اچھی طرح سناٹا چھا جائے گا، تب امکانات کا جائزہ لوں گا۔
اتنے میں اوپر سے آواز آئی: ’’گوہرے، منصور صاحب آج باہر نہیں جائیں گے، صحن کو اچھی طرح دیکھ کر ساری کوٹھڑیوں کو بند کردیجیو۔‘‘
’’بہت اچھا سرکار!‘‘ نوکر نے جواب دیا۔
دارا گھبرا گیا کہ اگر گوہرے نے اس کوٹھڑی کو بھی بند کردیا تو میں باہر کیسے نکلوں گا۔ اس نے دروازے کے سوراخ میں سے باہر کی طرف دیکھا۔ گوہرا صحن کی دوسری کوٹھڑیوں کو بند کرنے کے بعد گنگناتا ہوا اسی کوٹھڑی کی طرف آرہا تھا۔ دارا جلدی سے ہٹ کر پیچھے اندھیرے میں جاکھڑا ہوا۔ گوہرے نے دروازہ بند کرکے باہر سے کوٹھڑی کی کنڈی چڑھا دی۔
دارا کا دل دھک سے رہ گیا۔
اس کے جی میںآئی کہ گوہرے کو موٹی موٹی گالیاں سنائے، لیکن خون کے گھونٹ پینے کے سوا کوئی اور چارہ کار نہ تھا۔ کوٹھڑی سے نکلنے کا ایک ہی راستہ تھا، جسے گوہرے نے بند کردیا تھا۔
’’سر منڈاتے ہی اولے پڑے‘‘ وہ سوچنے لگا ’’اور اب باہر کیسے نکلوں گا؟‘‘
مجبوراً اس نے اندھیرے میں کوٹھڑی کی دیواروں اور زمین کو ٹٹول کر جائز ہ لینا شروع کیا۔ ایک کونے میں کوئلوں کا ڈھیر پڑا ہوا تھا۔ ان کے قریب چند خالی بوریاں دھری ہوئی تھیں۔ نرم یخ بستہ فرش کو ٹٹولتے ہوئے وہ اچانک اچھل پڑا۔ خوف سے اس کا جسم لرزنے لگا۔ لیکن جلدی ہی خوف دور ہوگیا۔ جس چیز کو اس نے سانپ سمجھا تھا۔ وہ ایک موٹی سی لمبی رسّی تھی۔
’’سانپوں کا یہاں کیا کام؟‘‘ وہ بڑبڑایا۔ ’’سانپ تو اوپر کی منزل میں خراٹے لے رہے ہیں۔ سانپ تو ہوٹلوں میں عیش کرتے ہیں۔ نرم و گرم بستروں پر استراحت کرتے ہیں۔ اونچے اونچے ایوانوں میں رہتے ہیں۔ ہر وقت اپنی توندوں پر ہاتھ پھیر کراپنی تجوریوں کو بھرنے کے طریقے سوچتے ہیں۔ ان سانپوں کا اس اندھیری کوٹھڑی میں کیا کام۔ وہ تو دن کے اجالے میں بھی انسانیت کو ڈستے رہتے ہیں۔‘‘
وہ دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھ گیا۔
’’کوٹھڑی میں کچھ کھانے کو بھی نہیں۔ تھوڑی دیر کے لیے ان بلبلاتی ہوئی آنتوں کی فریاد سے نجات حاصل ہوجاتی۔‘‘
سیاہ بھیانک رات دھیرے دھیرے رینگتی ہوئی گزر رہی تھی۔
’’صبح جب کوئی نہ کوئی اس کوٹھڑی میں کچھ نہ کچھ لینے آئے گا تو… تو؟‘‘
معاً اسے جیل خانہ کی موٹی موٹی سلاخوں کا خیال آیا، جنھیں وہ موٹی موٹی گالیاں سنایا کرتا تھا۔ مولوی صاحب سے لے کر جان محمد پنواڑی تک کی مکروہ صورتیں کوٹھڑی کے اندھیرے میں آہستہ آہستہ ابھرنے لگیں۔ اس نے دیکھا کہ سارا صادق پور قہقہے لگارہا تھا، بچے تالیاں پیٹ رہے تھے۔ سب اس کا مذاق اڑا رہے تھے، ہر طرف سے چور، چور کی صدائیں بلند ہورہی تھیں۔ اس نے گھبرا کر کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیں۔
ان ہی خیالات کے ہجوم میں سیاہ بھیانک رات رینگتی جارہی تھی۔
’’باہر کیسے نکلوں؟‘‘ وہ بڑبڑایا۔
طویل رات رینگتی جارہی تھی۔
٭٭
اور پھر اس بھیانک رات نے دم توڑ دیا۔
دور سے اذان کی صدا بلند ہوئی۔ اس نے کلمہ پڑھ کر جمائی لی۔ جسم کا ایک ایک جوڑ درد کررہا تھا۔ ذہن سوچتے سوچتے تھک چکا تھا۔ رگوں میں اینٹھن سی محسوس ہورہی تھی۔
پھر اجالا پھیلنے لگا۔ کوٹھڑی کے دروازے کی درزوں میں سے روشنی اندر داخل ہونے لگی۔ وہ دروازے کے سامنے والی دیوار کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا۔ اسی دیوار کے سامنے ایک چھوٹا سا سوراخ تھا دروازے کے عین سامنے۔
اس نے اٹھ کر سوراخ کے ساتھ آنکھ لگادی۔ سوراخ کے دوسری طرف ایک چھوٹی سی جھونپڑی تھی۔ یہ جھونپڑی منصور حسین خاں صاحب کے مکان کے ساتھ ہی بنی ہوئی تھی۔ جھونپڑی میں ایک بوڑھی عورت نماز پڑھ رہی تھی۔ نماز سے فارغ ہوکر اس نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھادیے۔اس کے گال پچکے ہوئے، آنکھیں اندر کو دھنسی ہوئی اور چہرے پر دکھ بھری زندگی کی لہریں کبھی نہ ٹلنے والی اداسی کی صورت میں نظر آرہی تھیں۔
دعا سے فارغ ہوکر وہ عورت ایک ہنڈیا کے نزدیک گئی۔ اس میں ہاتھ ڈال کر سوکھی باسی روٹی کا ایک ٹکڑا نکالا۔ دارا کے منھ میں پانی بھر آیا۔ عورت دیر تک اس ٹکڑے کی طرف دیکھتی رہی پھر اسے وہیں ہنڈیا میں رکھ کر قریب پڑی ہوئی ایک بوسیدہ چارپائی پر لیٹ گئی۔ اور بڑبڑانے لگی: ’’میں نہیں کھاؤں گی، ہرگز نہیں کھاؤں گی، گھر میں یہی ایک ٹکڑا ہے۔ اگر یہ میں کھالوں تو میرا لال کیا کھائے گا؟ وہ نماز پڑھ کر مسجد سے آرہا ہوگا۔ اسے بھی تو بھوک لگی ہوگی۔‘‘
معلوم ہوتا تھا کہ وہ بہت تھکی ہوئی تھی کیونکہ جلد ہی اسے نیند آگئی۔ اس کے سوجانے کے تھوڑی دیر بعد ایک انیس سالہ کمزور اور لاغر لڑکا اندر داخل ہوا۔ ماں کو سویا ہوا دیکھ کر وہ چٹائی پر بیٹھ گیا اور آہستہ آہستہ اپنے آپ سے کہنے لگا :’’کئی دنوں سے مزدوری کی تلاش میں مارا مارا پھر رہا ہوں لیکن ناکامی پیچھا نہیں چھوڑتی۔ اب پھر کام کی تلاش میں جاتا ہوں، شاید قسمت کو رحم آجائے۔‘‘ یہ کہہ کر وہ اٹھا، ہنڈیا کے پاس جاکر روٹی کا ٹکڑا نکالا پھر مڑ کر محبت بھری نظروں سے اپنی ماں کی طرف دیکھا اور ٹکڑا ہنڈیا میں رکھ کر چلاگیا۔
دارا دلچسپی سے یہ سب کچھ دیکھتا رہا۔
لڑکے کے جانے کے بعد ایک مریل سا کتا جھونپڑی میں داخل ہوا۔ زمین کو سونگھتا ہوا، وہ ہنڈیا کے قریب پہنچ گیا۔ منھ ڈال کر روٹی کا ٹکڑا نکالا اور خوشی سے دم ہلاتا ہوا بھاگ گیا۔
غریب ماں اور بیٹے کی پاک کمائی پر ڈاکہ ڈالنے والے کتے پر دارا کو بڑا غصہ آیا۔ اگر وہ اس کوٹھڑی میں بند نہ ہوتا، تو ضرور جھونپڑی میں جاکر کتے کو مزا چکھا دیتا۔
کچھ دیر بعد عورت کروٹ بدل کر اٹھ بیٹھی۔
’’اوہ، سورج نکل آیا ہے۔ عقیلہ بی بی نے کپڑے دھونے کے لیے کہا تھا۔ اب مجھے چلنا چاہیے۔‘‘
جانے سے پہلے وہ ہنڈیا کے قریب گئی۔ وہاں روٹی کا ٹکڑا نہ پاکر اس کی آنکھیں خوشی سے چمکنے لگیں، ’’شکر ہے، میرے لال نے روٹی کھالی۔ اگر وہ روٹی کھائے بغیر بھوکا ہی کام پر چلا جاتا تو مجھے بڑا رنج ہوتا۔ میرا کیا ہے میں تو اپنے لال کے لیے ساری عمر بھوکی رہ سکتی ہوں۔‘‘
دارا کا جی چاہا کہ چیخ چیخ کر اس عورت کو بتائے کہ روٹی اس کے بیٹے نے نہیں، ایک کتے نے کھائی ہے۔ لیکن عورت جاچکی تھی۔ وہ سوراخ کے پاس سے ہٹ آیا۔
دوپہر تک وہ بدستور اسی کوٹھڑی میں مقید رہا۔ دوپہر کے وقت ایک ملازمہ کوٹھڑی سے کوئلے لینے آئی۔ اس کے اندر داخل ہونے سے پہلے ہی دارا سمٹ کر ایک اندھیرے کونے میں سانس روک کر کھڑا ہوگیا۔ جب ملازمہ کوئلے لے کر چلی گئی تو اس کی جان میں جان آئی۔ اب دروازہ کھلا تھا۔ اس کے دل میں بچ کر نکل جانے کی امید پیدا ہوگئی تھی۔ اس نے صحن میں جھانک کر دیکھا، وہاں کوئی نہ تھا۔ اس نے موقع غنیمت سمجھا، لیکن جانے سے پہلے اس کے دل میں ایک بار پھر جھونپڑی کو دیکھنے کی خواہش پیدا ہوئی۔ وہ سوراخ کے قریب پہنچا، جھونپڑی خالی تھی۔ لیکن جلدی ہی وہی لاغر سا لڑکا اندر داخل ہوا۔ اس کے بجھے ہوئے چہرے سے تکان اور مایوسی کے آثار نظر آرہے تھے۔ چارپائی پر بیٹھ کر اس نے اپنی بوسیدہ قمیص کے دامن سے پسینہ پونچھا۔
’’آج پانچواں دن ہے۔‘‘ وہ بڑبڑایا۔ ’’پانچ دنوں سے کوئی مزدوری نہیں ملی۔ یہی حالت چند دن اور رہی تو کیا ہوگا؟ میرے اللہ!‘‘
پھر اٹھ کر وہ اسی ہنڈیا کے قریب پہنچا، لیکن وہاں سے روٹی کا ٹکڑا تو ایک کتا لے کر، کبھی کا بھاگ گیا تھا۔ ٹکڑے کو موجود نہ پاکراس کے بجھے ہوئے چہرے پر مسرت کے پھول کھلنے لگے۔
’’شکر ہے، امی نے روٹی کھالی۔ اگر وہ کھائے بغیر کام پر چلی جاتیں تو مجھے بڑا ملال ہوتا۔ میرا کیا ہے، میں تو اپنی دکھیا ماں کے لیے ساری عمر بھوکا رہ سکتا ہوں۔‘‘
دارا کو معاً یوں محسوس ہوا جیسے کسی نے بڑے زور سے اس کے منھ پر تھپڑ کھینچ مارا ہو۔ اونگھتے ہوئے ضمیر کے اس دھڑکے بعد اسے روح کی گہرائیوں سے بلند ہونے والی ایک آواز سنائی دی: ’’دیکھا تو نے؟ یہ ہے انسانیت کی معراج! ایک تو ہے کہ جسے دن رات اپنے پیٹ بھرنے کی فکر رہتی ہے اور ایک یہ ماں بیٹا ہیں کہ جو ایک دوسرے کے لیے اپنی خواہشوں کو کچلنے پر تیا رہیں۔ ذرا اپنے خود غرض دل کو دیکھ اور ان کی محبت بھری زندگی پر نظر ڈال۔ تو پیٹ کے لیے چوری کرتا ہے اور نہیں شرماتا۔ اور یہ ایک دوسرے کے لیے پیٹ کی آگ کو بجھا دیتے ہیں۔ روٹی کتا کھا جاتا ہے مگر ماں یہ سمجھ کر خوشی سے پھولی نہیں سماتی کہ روٹی بیٹا کھاگیا ہے۔ اور بیٹا یہ سمجھ کر مسرت سے جھوم رہا ہے کہ روٹی ماں نے کھائی ہے۔ دونو ںاپنی بھوک بھول چکے ہیں۔‘‘
دارا نے اپنے گھومتے ہوئے سر کو تھام لیا’’میں غلطی پر تھا، میں غلطی پر تھا۔‘‘ وہ پکار اٹھا۔
٭٭
منصور حسین خا ںکی حویلی سے نکل کر وہ مسجد میں پہنچا۔ نماز کے بعد اس نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے تو اس کی آنکھو ںسے اشکوں کے چشمے ابل پڑے۔ لڑکھڑاتی ہوئی آوازکے ساتھ وہ دعا مانگنے لگا: ’’یا خدا! تیرا عاجز گنہ گار بندہ ہوں۔ میری گزشتہ لغزشوں کو معاف کردے۔ میں نے مجبور ہوکر چوری کی تھی، لیکن اب دنیا کی کوئی طاقت مجھے اس ذلیل کام پر آمادہ نہ کرسکے گی۔ مجھے معاف کردے میرے خالق! بارِ الہا! مجھے معاف کردے۔‘‘
کسی نے اس کے کاندھے پر ہاتھ رکھا۔ اس نے پلٹ کر دیکھا۔ یہ کلو لوہار تھا۔ اس کی آنکھوں میں نرمی اور رحم کے جذبات تیر رہے تھے۔ دیر تک دارا کی بھیگی ہوئی آنکھوں اور کپکپاتے ہوئے ہونٹوں کی طرف دیکھنے کے بعد وہ بولا: ’’مجھے خوشی محسوس ہورہی ہے کہ تم نے چوری سے توبہ کرلی ہے۔ میرے ساتھ آؤ، مجھے تمہاری ضرورت ہے۔ میں تمھیں کام دوں گا۔‘‘
دارا کے رندھے ہوئے حلق سے ’’شکریہ‘‘ کا لفظ بھی نہ نکل سکا۔
کلو کا خیال تھا کہ دارا نے جیل کے خوف سے توبہ کی ہے۔ شیخ صاحب سمجھتے تھے کہ دارا کی چوری سے توبہ کرنے کی وجہ صادق پور والوں کے طعنے تھے۔ مولوی صاحب سمجھتے تھے کہ یہ ان کی نصیحتوں کا اثر ہے۔
لیکن جب دارا سے اس کی وجہ پوچھی جاتی تو وہ سرور وکیف کے عالم میں آنکھیں بند کرلیتا اور تصورات کی حسین و جمیل وادی میںایک جھونپڑی کو دیکھتا جس پر فرشتے نور کی بارش کرتے ہوئے نظر آتے۔ وہ جھونپڑی اسے آسمان سے اتری ہوئی ایک جنت معلوم ہونے لگتی جس میں صرف ایک ماں اور ایک بیٹا سکونت پذیر ہیں اور ان کے لیے روٹی کا صرف ایک ٹکڑا ہے۔ پھر بھی نہ ہونے کے باوجود وہاں سب کچھ ہے۔ وہاں محبت کی کلیاں چہکتی ہیں، ایثار کے غنچے مہکتے ہیں، الفت کے پھول کھلتے ہیں اور ان سے ایک ایسی لازوال خوشبو پھیلتی ہے، جو اس دنیا میں انسانیت کا محبوب ترین سرمایہ ہے۔ اور یہ سرمایہ پاک باطن خدا کے بندوں کے دلوں میں ہوتا ہے۔ وہ جھونپڑیاں ہی کیوں نہ ہوں، ہوتی وہ آسمان سے اتری ہوئی جنتیں ہیں، جہاں خلوص نیت کے پھول کھلتے ہیں۔‘‘

——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146