[ذیل میں انٹرویو پر مبنی ایک تحریر پیش کی جارہی ہے۔ یہ ایک ایسی خاتون کی داستانِ عزم ہے جنھوںنے تین بچوں کی پرورش بیوگی کے عالم میں کی اور کررہی ہیں۔ اپنا نام اور مقام بتانا بھی وہ مناسب نہیں سمجھتیں۔ ہم مان لیتے ہیں کہ وہ زاہدہ ہیں اور حیدرآباد کی رہنے والی ہیں۔ اس میں ہماری خواتین کے لیے یقینا سوچنے کے لیے بہت کچھ ہے۔ایڈیٹر]
کماتے میں کہاں رہ گئی‘ یاد ہی نہیں…‘‘
یہ الفاظ زاہدہ کے ہیں۔ نامساعد حالات، رکاوٹوں اور مشکلات نے ان میں کچھ کرنے اور سوچنے کی امنگ پیدا کی۔ زاہدہ کا تعلق متوسط گھرانے سے ہے۔ شادی اور بچوں کے ساتھ بیوگی کے سبب مالی تنگی نے ذہنی کرب میں مبتلا کر رکھا تھا‘ چھوٹی چھوٹی ضرورتیں پوری نہ ہو پاتیں۔ بڑھتے اخراجات اور مسائل کے پیش نظر انہوں نے گھر اور بچوں کے اخراجات کی تکمیل کے لیے ٹیوشن پڑھانے کا سلسلہ شروع کیا جو ان کی محنت اور لگن کے باعث کچھ ہی برسوں میں منی اکیڈمی کی شکل اختیار کر گیا ہے۔
ٹیوشن اکیڈمی کا خیال کیسے آیا؟ اس سوال کے جواب میں زاہدہ نے کہا کہ ’’میں نے صرف بارہویں تک تعلیم حاصل کی تھی اور شادی کی وجہ سے کالج پہلے ہی سال چھوڑنا پڑا تھا۔ شروع میں میں نے کپڑے وغیرہ سلنے کے بارے میں سوچا پھر خیال آیا کہ اس ریڈی میڈ کپڑوں کے فیشن کے دور ںمیں کون مجھ سے کپڑے سلوائے گا اور پھر اس سے کیا کمائی ہوسکے گی کہ میں اپنے بچوں کی ضروریات پوری کرسکوں۔ پھر اچانک خیال آیا کہ بچوں کو گھر میں پڑھایا جائے۔ یہ باعزت روزگار بھی ہوگا، گھر سے باہر بھی نہیں جانا پڑے گا اور خود میرے بچے بھی اس ماحول سے فائدہ اٹھا سکیں گے۔ اس طرح محلے کے چند بچوں کو لے کر میں نے یہ کام شروع کردیا اور دیکھتے ہی دیکھتے بچوں کی تعداد بڑھنے لگی۔‘‘
گفتگو کے دوران زاہدہ کا کہنا تھا کہ ابتدا میں شعبے کا انتخاب کرنا ہی مشکل امر تھالیکن جب میںنے ٹیوشن شروع کردیا تو دل کو ایک اطمینان ہوا کہ چلو میں نے جو علم حاصل کیا تھا اس کو دوسروں میں بانٹ رہی ہوں اور باعزت کام کررہی ہوں۔
کہا جاتا ہے کہ کوئی بھی کامیابی کٹھن مراحل کے بغیر ممکن نہیں ہوتی اس بات کا اعتراف زاہدہ کو بھی ہے۔ وہ کہتی ہیں:’’آغاز میں کافی مشکلات کا سامنا رہا، مگر ہمت پست نہیں ہونے دی۔ بچوں کو مناسب تعلیم و ماحول فراہم کرنا اُن کا اوّلین مشن تھا۔ ان کے نزدیک کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے کی تکلیف سے بہتر خود تکلیف دہ مراحل سے گزر جانا ہے۔ چنانچہ انھوںنے اس راستے کی دشواریوں کو برداشت کیا اور اپنے یہاں آنے والے بچوں کو نہ صرف تعلیم دیتی رہیں بلکہ اپنے بچے سمجھ کر ان کی اخلاقی، دینی اور فکری تربیت بھی کرتی رہیں۔ بچے جب اپنے گھر جاتے اور ان کی بتائی ہوئی باتوں کا ذکر کرتے یا والدین خود بچوں میں تبدیلی محسوس کرتے تو وہ میرے پاس آتے اور پوچھتےکہ آپ ان کی کس طرح تربیت بھی کررہی ہیں تو مجھے ذہنی و قلبی سکون حاصل ہوتا۔‘‘
کچھ توقف کے بعد پھر گویا ہوئیں کہ ان سب مراحل میں صحت، ذاتی زندگی حتیٰ کہ ذاتی خواہشات تک کو مارنا پڑا۔ مگر آٹھ، نو برس کی جدوجہد کے بعد آج مطمئن ہوں۔ یہ ان کی کامیابی اور پختہ عزم کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ محض چند بچوں کو پڑھانے والا سلسلہ اب تقریباً 70 بچوں کے منی اکیڈمی میں بدل چکا ہے۔
ٹیوشن کے دوران مسائل کے تذکرے پر نہایت دل چسپ بات بیان کی۔ انھوںنے کہا کہ چونکہ میری تعلیم زیادہ نہیں تھی،اس لیے ایک قسم کی جھجک بھی تھی اور ڈر بھی تھا کہ میں اونچی کلاسیز کے طلبہ کو پڑھا بھی سکوں گی یا نہیں! لیکن دھیرے دھیرے خود اعتمادی پیدا ہوئی۔ دسویں، گیارہویں اور بارہویں کا سلیبس دوہرایا اور پھر اچھا پڑھانے لگی۔ اُدھر لوگوں کا ان پر اعتبار بھی بڑھنے لگا ۔‘‘اس موقع پر ان کی بیٹیاں مددگار اور معاون بنیں۔ یہ جان کر خوش کن حیرت ہوئی کہ اُس وقت بڑی بیٹی ساتویں جماعت میں زیر تعلیم تھی اور آج وہ بی اے کی طالبہ ہے۔ زاہدہ کا یقین ہے کہ جب انسان خود پر بھروسہ کر لے تو حالات خود بہ خود سازگار ہوتے چلے جاتے ہیں۔
اس پوری مہم میں ان کے رشتہ داروں کا کیا رول رہا؟ اس پر وہ کہتی ہیںکہ رشتہ داروں کی مدد اور تعاون کی طرف نہ دیکھنا پڑے اسی لیے تو سب کچھ کرنے کے بارے میں سوچا تھا۔ پھر رشتہ دار کب تک اور کہاں تک مدد کرتے صرف ایک حد تک ہی نا- اس کے بعد …؟
میں نے رشتہ داروں کی طرف دیکھنے کے بجائے اللہ تعالیٰ کی طرف دیکھا اور پھر اس نے مجھے سب سے بے نیاز کردیا۔ یہی تو بات ہے کہ ہم اللہ سے مانگیں نہ کہ بندوں کے پاس اپنی ضرورت لے کر جائیں۔
اس کام سے آپ کس قدر مطمئن ہیں؟ اس سوال کے جواب میں زاہدہ کا کہنا تھا کہ:
’’ضرورتیں جتنی بڑھائی جائیں بڑھتی جاتی ہیں۔ قناعت اور کفایت شعاری میری زندگی کا حصہ پہلے بھی تھی اور آج بھی ہے۔ میری ضرورتیں پوری ہوجاتی ہیں، مریے بچے ٹھیک ٹھاک پڑھ رہے ہیں، بس کافی ہے میرے لیے!
ہاں، مجھے اس بات پر اطمینان ہے کہ میں بچوں کو عام ٹیوٹر کی طرح صرف ان کے مضامین ہی پڑھا کر رخصت نہیں کردیتی بلکہ میں انہیں اپنے بچے سمجھ کر ان کی اخلاقی و دینی تربیت پر بھی اسی طرح توجہ دیتی ہوں جس طرح اپنے بچوں کو دیتی ہوں۔ اسی چیز نے مجھے لوگوں کا اعتماد عطا کیا ہے اور وہ اپنے بچوں کو دوسرے ٹیوٹر کے بجائے میرے پاس بھیجنا پسند کرتے ہیں۔ یہ میرا مشن بھی ہے اور روزگار بھی۔ دونوں باتوں سے مجھے مکمل اطمینان ہے۔‘‘
گفتگو کو جاری رکھتے ہوئے بتایا کہ ان کو ریاضی پڑھانے میں ہمیشہ مشکل رہی۔ پڑھانے کے دوران یہ مسئلہ درپیش ہوا تو اچانک چھوٹی بیٹی کا خیال آیا‘ جو کہ ریاضی میں کافی تیز ہے‘ اسی طرح راہیں نکلتی چلی گئیں اور اب نہ صرف معاشی بہتری بلکہ بحیثیت مخلص استاد اپنا مقام بنانے میں کامیاب ہو چکی ہیں۔
دن بھر کی مصروفیات کے سوال پر زاہدہ آبدیدہ بھی ہوگئیں ان کا خیال ہے کہ معاش کی دوڑ نے شاید ان سے اپنا آپ چھین لیا ہے۔ علی الصبح بچوں اور گھر کے کاموں کو نمٹاتے نمٹاتے ٹیوشن کا کمرہ کب بھر جاتا ہے، اندازہ ہی نہیں ہوتا اور پھر شام ڈھلے تک جاری رہتا ہے جس سے فراغت کے بعدمیرا گھر دوبارہ گھر ہوتا ہے۔ دن کے اختتام پر بہ مشکل ہی اپنے لیے کچھ لمحے میسر آتے ہیں جس میں ضروری فون کالز کرنا، ٹی وی دیکھنا مشاغل میں شامل ہیں۔
آنکھوں کی چمک سے واضح ہےکہ آپ نے مسائل کو خود پر کبھی حاوی نہیں کیا۔ یہ سنتے ہی مسکراہٹ ان کے چہرے پر پھیل گئی۔ ان کے مطابق مسائل کا سامنا تو ہر لمحہ ہی رہتا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ان کی سماجی زندگی بالکل محدود ہوگئی‘ کوئی دعوت ہو یا شادی، بازار جانا ہو یا سیر و تفریح کرنے معذرت کر لیتی ہوں یہ سب زندگی سے بالکل ختم ہو کر رہ گیا ہے۔
آپ مسلم بہنوں کو کیا پیغام دینا چاہیں گی؟ اس پر انھوں نے کہا کہ ہم بندوں کے بجائے اللہ سے مانگنے والے بنیں، عزم و حوصلہ کے ساتھ جدوجہد پر اعتماد کریں اور عام لوگوں سے مختلف طرز فکر و عمل اختیار کریں تو وہ ہماری خاص شناخت بن جاتی ہے۔ مثال کے طور پر ٹیوشن پڑھنا اور پڑھانا عام بات ہے۔ کتنے لوگ پڑھاتے ہیں مگر وہ صرف ٹیوشن پڑھاتے ہیں۔ میں بچوں کو ٹیوشن تو پڑھاتی ہی ہوں، انہیں اپنا بچہ سمجھ کر ان کی دینی واخلاقی تربیت پر بھی توجہ دیتی ہوں۔ اس طرح بچوں کا مجھ سے لگاؤ رہتا ہے اور بچوں کے والدین بھی مطمئن رہتے ہیں کہ ان کا بچہ صرف ٹیوشن ہی نہیں پڑھ رہا ہے بلکہ اخلاق و کردار کے اعتبار سے مضبوط بھی ہورہا ہے۔
’’کچھ پانے کے لیے کچھ کھونا پڑتا ہے۔‘‘ ان کا ادا کیا گیا یہ جملہ بلند حوصلہ و ارادے کی نشاندہی کر رہا تھا اور بہت سی گھریلو خواتین کے لیے رہنمائی بھی۔