جہنم سے نجات کا مہینہ

احمد الرحمن

شعبان کا آخری دن تھا کچھ ساعتوں کے بعد ہلالِ نو نمودار ہوکر نئے ماہ کی آمد کا اعلان کرنے والا تھا۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین حضور اکرم ﷺ کے ارد گرد حلقہ بنائے جلوہ افروز تھے۔ حضور اکرم ﷺ نے اپنے جانثاروں پر نظر ڈالی اور آپ کے مبارک ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ آج حضور اکرم ﷺ کے چہرہ اقدس پر غیر معمولی خوشی کے آثار نمودار تھے جیسے کوئی بہت قیمتی چیز ہاتھ لگنے والی ہو۔ آپؐ نے فرمایا:

’’لوگو! تم پر ایک عظیم الشان مہینہ سایہ فگن ہورہا ہے جس میں ایک ایسی رات ہے جو ہزار مہینوں سے بڑھ کر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس مہینہ کے دنوں میں روزے کو فرض قرار دیا اور رات کی عبادت ’’تراویح‘‘ کو باعث اجر وثواب بنایا۔ اس ماہ مبارک میں جو نفلی عبادت سے قرب خداوندی کا طالب ہو، اس کے لیے فرض عبادت کا ثواب ہے اور ایک فرض کا ادا کرنا ستر فرضوں کے برابرہے۔ یہ صبر کا مہینہ ہے۔ اور صبر کا بدلہ جنت ہے۔ یہ ہمدردی اور غمخواری کا مہینہ ہے اس ماہ مبارک میں مومن کا رزق بڑھا دیا جاتا ہے۔ ایک روزہ دار کو روزہ افطار کرانے والے کے لیے گناہوں کی معافی اور آگ سے خلاصی کی بشارت ہے اور ا س روزہ دار کے ثواب میں کوئی کمی بھی نہیں ہوتی۔ (ہر ایک کو یہ وسعت کہاں حاصل کہ وہ دوسروں کو بھی پیٹ بھر کے کھلائے اس کے پاس خود کھانے کے لیے کچھ نہیں ہوتا تو کیا یہ اس ثواب سے محروم رہے گا؟ اسی سے پریشان ہوکر صحابہ نے پوچھا) یا رسول اللہ ﷺ ہم میں سے ہر ایک تو اتنی وسعت نہیں رکھتا۔ آپ نے فرمایا پیٹ بھر کر کھلانا ضروری نہیں۔ ایک گھونٹ لسی کا یا پانی کا پلا دو اس پر بھی یہ اجر و ثواب مرحمت فرمایا جائے گا۔ یہ ایسا مہینہ ہے جس کا اول حصہ رحمت، درمیانہ حصہ مغفرت، آخری حصہ آگ سے آزادی کا ہے۔ جو شخص اس ماہ مقدس میں اپنے غلام (نوکر یا مزدور) کا بوجھ ہلکا کردے اللہ تعالیٰ اس کی مغفرت فرمائے گا۔ اور اسے آزادیٔ جہنم کا پروانہ عطا کرے گا۔ اس میں چا رچیزیں خوب کثرت سے کرو۔ ان میں سے دو ایسی ہیں جن سے اپنے رب کی خوشنودی حاصل کرو گے۔ ایک کلمہ طیبہ کی کثرت، دوسرے کثرت استغفار۔ اور دو چیزیں ایسی ہیں جن کے بغیر کوئی چارئہ کار نہیں۔ ایک جنت کی طلب دوسرے جہنم سے پناہ۔ او رجو کسی روزہ دار کو پانی پلائے، اللہ تعالیٰ اسے قیامت کے دن میرے حوض سے ایسا پانی پلائے گا جس کے بعد کبھی پیاس نہیں لگے گی۔‘‘ (بیہقی)

یہ ایک طویل حدیث ہے جو حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے منقول ہے اس میں رمضان المبارک اور روزے کے فضائل مذکور ہیں۔ یہ ماہ مبارک ایسا ہے کہ اس میں رحمتوں اور برکتوں کی بارش ہوتی ہے۔ گناہگاروں کے لیے اس میں سامانِ مغفرت ہے۔ اپنی بداعمالیوں کی وجہ سے نارِ جہنم کے مستحق ہونے والوں کے لیے آزادی کا پروانہ ہے۔ اس ماہ میں ایمان و عمل کی بہار آتی ہے، گناہوں کی سیاہی سے زنگ آلودہ دلوں کی صفائی اور طہارت کا سامان کیا جاتا ہے۔ جہنم کے دروازے بند کردیے جاتے ہیں۔ جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں۔

انسان روح و جسم کا مجموعہ ہے، روح اس کو اپنے مرکزکی طرف کھینچتی ہے۔ کثیف و ثقیل مادیت سے بھر پور ماحول سے بغاوت پر اکساتی ہے اور عالم کی لامحدود وسعتوں میں پرواز کرنے پر ابھارتی ہے۔ وہ نفس کو کھانے پینے اورخواہشات کے لگے بندھے نظام سے آزاد کراکر، زندگی کے خشک اور فرسودہ طریقہ سے علیحدہ کرنے کے لیے بے قرار رہتی ہے تاکہ معدہ کو سبکساری اور لطافت حاصل ہو۔ نفس کی صفائی ہو، سکون قلب میسر آئے جبکہ جسم ان تمام تقاضوں اور اپنی خواہشات کو پورا کرنے پر اپنا تمام زور صرف کردیتا ہے۔ روح و جسم کی یہ کشمکش روز ازل سے جاری و ساری ہے کبھی روح کو غلبہ حاصل ہوجاتا ہے تو انسان اس دنیا سے اپنا تعلق توڑ کر رہبانیت اختیار کرلیتا ہے اور اپنا منصب خلافت تک بھلادیتا ہے اور کبھی جسم کو غلبہ حاصل ہوتا ہے تو وہ حیوانوں سے بدتر ہوجاتا ہے اور اپنا مقصد وجود ہی فراموش کربیٹھتا ہے۔ اور اس کی تمام تر جدوجہد اپنی خواہشات پوری کرنے میں صرف ہوتی ہیں۔ وہ ’نفس‘ اور ’شکم‘ کا بندہ بن جاتا ہے اور شریعت کی ہر بندش اور روحانیت کی ہر گرفت سے آزاد ہوکر مادہ اور معدہ کے تیز دھارے میں بہنے لگتا ہے۔

مگر اسلام جو دینِ فطرت ہے اس نے دونوں طریقوں کو غلط قرار دیا ہے وہ رہبانیت کے بھی خلاف ہے اور نری مادہ پرستی کے بھی۔ اسلام یہ تعلیم دیتا ہے کہ اس دنیا کے خزانوں اور دفینوں سے فائدہ اٹھاؤ اپنی خواہشات کو پورا کرو مگر ایک دائرے میں رہ کر اور ایک حد میں رہ کر۔ اور اپنے اخلاق و روحانیت کے جذبے کو کبھی افسردہ اور مردہ نہ ہونے دو۔ تمام انبیا نے ہر دور میں اسی کے لیے کوشش کی اور جب بھی انسانیت انتہا پسندانہ مادیت اور حیوانیت کی زد میں آکر ہلاک ہونے کے قریب ہوئی، انھوں اخلاق و روحانیت کی صفت پیدا کرنے کے اسباب مہیا کیے۔

روزہ بھی سال میں ایک مرتبہ اسی لیے فرض کیا گیا کہ معدہ ا ور مادہ کی شقاوت اور سختی دور ہو۔ کچھ دن مادیت پرستی میں تخفیف ہو، تاکہ اس میں روحانیت اور ایمان کی اتنی مقدار داخل ہوجائے جس سے اس کی زندگی اعتدال پر آجائے، کچھ دیر کے لیے اخلاق الٰہی کا کسی قدر عکس اس میں اترسکے۔ اس میں فرشتوں سے نسبت حاصل ہوجائے۔ نفس کا مقابلہ کرسکے اور روح کی پر فضا وسعتوں میں وہ جولانیاں کرسکے اور رزق کی فراوانی کے باوجود بھوکا پیاسا رہ کر وہ لذت و نشاط حاصل کرسکے جو انواع و اقسام کے لذیذ کھانوں سے حاصل نہیں ہوتی۔ اسی کو قرآن کریم ’’تقویٰ‘‘ سے تعبیر کرتا ہے۔ ارشادِ خداوندی ہے:

’’اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے جیسا کہ تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے تاکہ تم متقی اور پرہیزگار بن جاؤ۔‘‘ (البقرہ)

اس آیت میں روزہ کا مقصد بتایا گیا کہ روزہ سے بھوکا پیاسا رکھنا مراد نہیں بلکہ حیوانی اور نفسانی تقاضوں کو دباکر ملکوتی صفات پیدا کرنا ہے۔ تاکہ اس دل میں خدا کا خوف پیدا ہو اور وہ تقویٰ کی صفت سے متصف ہو۔

امام غزالی روزے کے مقصد پر روشنی ڈالتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’روزہ کا مقصد یہ ہے کہ اخلاقِ الٰہیہ میں سے ایک خلق کا پرتو اپنے اندر پیدا کرے جسے صمدیت کہتے ہیں اور وہ ایک حد تک فرشتوں کی تقلید کرتے ہوئے خواہشاتِ نفسانی سے دست کش ہوجائے کیونکہ فرشتے بھی خواہشاتِ نفسانی سے پاک ہیں۔‘‘

(احیاء العلوم)

اور علامہ ابنِ قیمؒ فرماتے ہیں:

’’روزے سے مقصود یہ ہے کہ انسانی خواہشات اور عادات کے شکنجے سے نفس آزاد ہو، اس کی شہوانی قوتوں میں اعتدال اور توازن پیدا ہو اور وہ اس کے ذریعے سعادت ابدی کے گوہر مقصود تک رسائی حاصل کرسکے۔‘‘

طبیعت میں اعتدال و توازن پیدا کرنے اور اس کو برقرار رکھنے کے لیے اس کا زمانہ اور وقت بھی متعین کیا۔ ہر ایک کو اختیار نہیں دیا کہ جس وقت چاہے روزہ رکھے۔ اگر ایسا ہوتا تو روزہ کا مقصد حاصل نہ ہوپاتا۔

حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ لکھتے ہیں:

’’روزہ میں اختیار دینے سے تاویل اور فرار کا دروازہ کھل جاتا۔ امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا دروازہ بند ہوجاتا اور اسلام کی یہ سب سے بڑی اطاعت غفلت کا شکار ہوجاتی…‘‘

نفس کو مغلوب کرنا اور طاعت کا جذبہ پیدا کرنا چونکہ روزہ کا مقصد ہے اس لیے رات دن بھوکا پیاسا رہنے کا حکم نہیں دیا ورنہ مسلسل بھوکا پیاسا رہنے سے نفس عادی ہوجاتا اور اس سے خاطر خواہ فائدہ حاصل نہیں ہوتا اس لیے ایک خاص وقت مقرر کیا کہ طلوع صبح صادق سے غروبِ آفتاب تک ان تمام چیزوں سے رکا رہے۔ اس کے بعد اس کے لیے کھانا پینا حلال ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ لکھتے ہیں:

’’یہ ضروری تھا کہ کھانے پینے سے پرہیز کا موقع بار بار آئے تاکہ اطاعت کی مشق ہوتی رہے۔ ورنہ ایک دفعہ بھوکا رہنا کچھ فائدہ نہیں پہنچا سکتا۔‘‘

(حجۃ اللہ البالغہ)

یہی وجہ ہے کہ جس روزے سے یہ مقصد حاصل نہ ہو اللہ تعالیٰ کے یہاں اس کی کوئی قدر و قیمت نہیں۔ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:

’’جو شخص روزہ میں جھوٹ بولنا اور اس پر عمل کرنا نہ چھوڑے اللہ تعالیٰ کو اس سے کوئی سروکار نہیں کہ وہ اپنا کھانا پینا چھوڑے۔‘‘ (بخاری)

’’جو روزہ دار فحش کام (گالی گلوچ اور بے شرمی کی باتوں) اور جھوٹ سے نہیں بچتا اللہ تعالیٰ کو اس کے کھانا پینا ترک کرنے سے کوئی سروکار نہیں۔‘‘

(طحاوی)

حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:

’’روزہ صرف کھانے پینے سے رکنے کا نام نہیں بلکہ روزہ تو درحقیقت بے ہودہ اور بے حیائی کی باتوں اور کاموں سے رکنے اور بچنے کا نام ہے۔ پس اگر کوئی تمہیں گالی دے یا تمہارے سا تھ بدتمیزی کرے تو کہہ دو میرا روزہ ہے۔‘‘

حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:

’’بہت سے روزے دار ہیں جن کو سوائے بھوک پیاس کے اور کچھ حاصل نہیں ہوتا۔‘‘

حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:

’’روزہ ڈھال ہے جب تک کہ اسے پھاڑا نہ جائے۔ صحابہ نے دریافت کیا یا رسول اللہ روزہ کس چیز سے پھٹ جاتا ہے؟ آپ نے فرمایا جھوٹ اور غیبت سے۔‘‘

ان تمام احادیث مبارکہ سے پتا چلتا ہے کہ روزہ کا مقصد مجاہدہ نفس ہے تاکہ نفس کی اصلاح ہو اور وہ رذائل سے پاک ہوکر فضائل سے آراستہ ہو اس لیے ہر وہ بات اور ہر وہ کام منع کردیا گیا ہے جو اس مقصد میں حائل ہو اور رکاوٹ کا باعث بنے۔

روزے کی اہمیت اور اس کے مقاصد کی وضاحت اس سے بھی ہوتی ہے کہ روزہ رمضان المبارک کے مہینے میں فرض ہوا۔ اور یہ وہ مبارک مہینہ ہے جس کا تعارف اللہ تعالیٰ نے اس طرح کرایا ہے:

’’ماہ رمضان ہی وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو ہدایت ہے لوگوں کے لیے اور اس میں کھلے دلائل ہیں ہدایت اور حق و باطل میں امتیاز کے۔‘‘ (البقرہ)

یہ وہ مہینہ ہے جس میں گم کردہ راہ انسانیت کو رہنمائی ملی جس کی بدولت وہ صراطِ مستقیم پر گامزن ہوئی۔ قرآن کریم کی صورت میں مکمل قانون حیات عطا ہوا جس کی روشنی میں زندگی نے اپنے خدوخال درست کیے اورایک طویل تاریک رات کے بعد انسانیت کی صبحِ سعادت طلوع ہوئی۔ قرآن کریم کو اس ماہ مبارک کے ساتھ خصوصیت حاصل ہے اور جو مقصد روزہ کا ہے وہی قرآن کریم کا بھی ہے۔ اسی لیے اس ماہ مبارک تلاوت قرآن کی آوازیں ہر گھر میں بلند ہوتی ہیں۔ مساجد تلاوت قرآن سے معمور ہوتی ہیں۔ حضوراکرم ﷺ بھی اس مقدس مہینے میں قرآن کی تلاوت باقی مہینوں کی بہ نسبت زیادہ کیا کرتے تھے بلکہ حضرت جبرئیل ؑ کے ساتھ باقاعدہ دور فرماتے۔

رمضان المبارک اور قرآن کا آپس میں جو تعلق ہے اس کو بیان کرتے ہوئے امام رازی لکھتے ہیں:

’’اللہ تعالیٰ نے اس مہینے کو ایک خاص شرف سے نوازا ہے اور اپنی ربوبیت کا پوری طرح اظہار فرمایا ہے۔ اس طرح کہ اس میں قرآن کریم نازل فرمایا ۔ اس لیے بندوں کو حکم دیا کہ وہ اس مہینے میں روزے رکھیں۔‘‘ (تفسیر کبیر)

حضرت مجدد الف ثانی ؒ اپنے ایک مکتوب میں تحریر فرماتے ہیں:

’’اس مہینے کو قرآن کریم کے ساتھ خاص مناسبت ہے۔ اور اسی مناسبت کی وجہ سے قرآن کریم اس ماہ میں نازل کیا گیا۔ یہ مہینہ ہر قسم کی خیروبرکت کا جامع ہے۔ انسان کو سال بھر میں مجموعی طور پر جتنی برکتیں حاصل ہوتی ہیں وہ اس مہینے کے سامنے اس طرح ہیں جس طرح سمندر کے مقابلے میں ایک قطرہ۔ اس مہینے میں دلجمعی کا حصول پورے سال دلجمعی کے حصول کے لیے کافی ہوتا ہے اور اس میں انتشار اور پریشانی بقیہ تمام دنوں بلکہ پورے سال کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔ قابلِ مبارک باد ہیں وہ لوگ جن سے یہ مہینہ راضی ہوکر گیا اور ناکام و بدنصیب ہیں وہ لوگ جو اس کو ناراض کرکے ہر قسم کی خیروبرکت سے محروم ہوگئے۔‘‘ (مکتوبات امام ربانی)

اس ماہ مقدس میں اللہ تعالیٰ کی رحمت کس قدر بے پایاں ہوتی ہے، اس کا اندازہ اس سے لگائیے کہ اس ماہ میں نفل کا ثواب فرض کے برابر اور ایک فرض کا ستر فرضوں کے برابر ثواب ملتا ہے۔ اس مہینے کو ہمدردی اور خیرخواہی کا مہینہ قرار دیا گیا ہے۔اس مہینے کو صبر کا مہینہ قرار دیا گیا کہ ایک شخص باوجود قدرت و طاقت کے اور ہر چیز کے میسر ہونے کے بہت سی خواہشات سے اپنے آپ کو روک لیتا ہے اور چاہنے کے باوجود وہ ان تمام چیزوں سے دست کش ہوکر صبر کی مشق کرتا ہے۔ بھوک پیاس کی تکلیف اور مشقت برداشت کرکے اپنے آپ کو صبر کا خوگر بناتا ہے اور اس طرح وہ رمضان المبارک کے مہینے کے علاوہ دوسرے مہینوں میں بھی صبر کرتا ہے۔ جس کا بدلہ جنت ہے۔

اس مہینے کے پہلے حصے کو رحمت، دوسرے حصے کو مغفرت اور آخری حصے کو جہنم سے آزادی کا ذریعہ قرار دیا گیا ہے۔ اس لیے ان تینوں حصوں میں اطاعت و عبادت سے اللہ کی رحمت و مغفرت حاصل کرکے جہنم سے آزادی کا پروانہ حاصل کرنے کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے اور اس وعید سے بچنا چاہیے جس میں حضور اکرم ﷺ نے بد دعا دی کہ ’’ہلاک ہو وہ شخص جو رمضان کا مہینہ پائے اور اپنی مغفرت نہ کرائے۔‘‘ جس پر حضرت جبرئیل نے آمین بھی کہا۔ اس حدیث میں ترغیب دی کہ روزہ دار کا روزہ افطار کراکے مزید ثواب حاصل کرنا چاہیے اور کلمہ و استغفار کی کثرت اور حصول جنت کی دعا اور جہنم سے پناہ مانگتے رہنا چاہیے۔ غرض یہ کہ یہ مہینہ بہت مبارک اور مقدس مہینہ ہے۔ ہر ایک کی کوشش ہونی چاہیے کہ وہ زیادہ سے زیادہ اس سے فائدہ اٹھائے۔

——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146