کردار:
۱۔ناصرالدین شاہ (ایران کابادشاہ جس نے ۱۸۴۸ء سے ۱۸۹۶ء تک حکومت کی۔)
۲۔ کوئلہ فروش
۳۔امیر کبیر
۴۔ دو امراء
(ناصرالدین شاہ چند امراء کے ساتھ ٹہل رہا ہے۔ )
امیرکبیر: اعلیٰ حضرت، یہ ہے وہ جگہ جہاں فوجی چھاونی بنائی جا سکتی ہے۔
ناصرالدین شاہ: (گہری سانس لے کر خاموشی سے معائنہ کرتا ہے۔)
امیرکبیر: تین طرف موجود یہ چھوٹی چھوٹی پہاڑیاں، فصیل کی مانند ہیں۔
امیر۔۱: مغرب کی جانب پانی کا ایک چشمہ بھی بہتا ہے جس سے یہاں پانی کی کوئی کمی نہ ہوگی۔
امیر۔۲: گھوڑوں کے لیے چراگاہ بھی ہے حضور والا۔
ناصرالدین شاہ: خوب، یہ جگہ ہمیں پسند آئی۔
امیر کبیر: (ایک طرف اشارہ کرکے)اور اس طرف کوئلہ کی کان ہے۔
ناصرالدین شاہ: خدا کا شکر ہے کہ عوام میں کوئلہ کے استعمال کا رجحان بڑھا ہے۔
امیر کبیر: آپ کی ترغیب سے عوام لکڑیوں کی بجائے کوئلہ کا استعمال زیادہ کرنے لگے ہیں۔
ناصرالدین شاہ: کوئلہ کے ہوتے درختوں کو کا ٹنےکی ضرورت نہیں۔
امیر کبیر: بیشک، قدرت نے زمین میں کوئلہ کا خزانہ چھپا رکھا ہے۔
ناصرالدین شاہ: (ہنس کر) زمین میں کوئلہ ہی نہیںتیل بھی ہے۔ جو مشینوں میں استعمال ہوگا۔
امیر کبیر: اعلیٰ حضرت نے یورپ کے سفر میں جو کچھ ملاحظہ فرمایا، ہم اسے جاننے کے لیے بیتاب ہیں۔
ناصرالدین شاہ: کیوں نہیں۔ آپ ہمارے سفرنامہ سےبہت سی نئی باتیں جانیں گے۔
امیر کبیر: غلام سفرنامہ کی اشاعت کامنتظر ہے۔
ناصرالدین شاہ: ان شاءاللہ یہ جلد شائع ہو جائے گا۔ امیر کبیر! کوئلہ کی کان کے پاس وہ کیا ہے؟
امیر: چند دُکانیں ہیں حضور۔
ناصرالدین شاہ: لوگ یہاں سے بھی کوئلہ خریدتے ہیں؟
امیر کبیر: مضافات کے کچھ لوگ لے جاتے ہیں ورنہ شہر کے کوئلہ بازار ہی سے کوئلہ خریدا جاتا ہے۔
ناصرالدین شاہ: فوجی چھاونی بننے کے بعد عوام کا یہاں داخلہ ممنوع ہوگا۔
امیر کبیر: جی حضور۔ یہ چند دُکانیںبازار میں منتقل کردی جائیں گی۔
ناصرالدین شاہ: ٹھیک ہے۔ چھاؤنی کا کام شروع کیا جائے۔
(اچانک ایک کوئلہ فروش سامنے آتا ہے جو سر سے پیر تک کوئلے کی گرد میں اٹاہوا ہے۔)
امیر کبیر: کوئلہ فروش؟ (ایک امیر کی جانب مڑ کر)یہ اس وقت یہاں!!
امیر۔۱: معافی چاہتا ہوں۔ کان کے مزدوروں اور دُکانداروں کو آج یہاں آنے سے منع کیا گیا تھا۔
امیر کبیر: پھر؟ یہ یہاں کیسے؟
امیر۔۱: اس نے حکم عدولی کی ہے اسے سخت سزا ملے گی۔ سپاہیو، گرفتار کرلواسے ۔
کوئلہ فروش: (گھبرا کر) مجھے،مجھے معاف کردیجیے۔ میری کوئی غلطی نہیں ہے۔
امیر۔۱: عالی جاہ کے سامنے زبان کھولتا ہے بد تمیز۔
ناصرالدین شاہ: (ہاتھ اٹھا کر) بس۔ یہ تمھاری غلطی ہے۔ تمھیں خدمت سے معطل کیا جاتا ہے۔
امیر۔۱: اعلیٰ حضرت!!
امیر کبیر: (ہاتھ کے اشارہ سے جانے کے لیے کہتا ہے۔امیر سلام کرکے چلا جاتا ہے۔)
ناصرالدین شاہ: (کوئلہ فروش سے)کیا نام ہے تمہارا؟
کوئلہ فروش: (ادب سے)بندہ کو جنید کہتے ہیں حضور۔
ناصرالدین شاہ: کیا تم نے حکم نہیں سنا تھا؟
کوئلہ فروش: جی نہیں حضور۔
ناصر الدین شاہ: کیا تم جہنم میں تھے؟
کوئلہ فروش: جی حضور۔
ناصرالدین شاہ: (مسکرا کر) اچھا، تم جہنم میں تھے! تو پھر تم نے وہاں کس کس کو دیکھا؟
کوئلہ فروش: آپ کےان امراء کو دیکھا حضور۔
ناصرالدین شاہ: ہمارے امراء کو دیکھا۔ (زور سے ہنستا ہے۔)کیا تم نے وہاں ہمیں نہیں دیکھا؟
کوئلہ فروش: اعلیٰ حضرت، سچ یہ ہے کہ میں جہنم کی تہہ تک نہیں پہنچا تھا ۔
(چند لمحے بالکل خاموشی)
امیر کبیر: سبحان اللہ۔ کوئلہ فروش نے عمدہ جواب دیا۔ نہ اعلیٰ حضرت کی بات سے انکار کیا اور نہ اس کی تائیدکی۔
ناصرالدین شاہ: واقعی یہ عمدہ جواب ہے۔ فوٹوگرافر کہاں ہے؟ ہم اس کوئلہ فروش کے ساتھ تصویر کھنچوائیں گے۔
کوئلہ فروش: (راحت کی سانس لیتا ہے۔)