’’شادی‘‘ روز مرہ ہونے والا ایک معمولی واقعہ ہے۔ مگر نمائشی تمدن اور تہذیب تکلّفات نے اس کے ساتھ اتنے آداب و رسوم اور اتنے گوناگوں لوازم کا جوڑ لگادیا ہے کہ معمول کی یہ تقریب ایک جوئے شیر لانے سے کم نہیں رہی۔ شریعت رواج نے لازم کردیا ہے کہ لڑکے والوں کی طرف سے خوب ٹھاٹھ باٹھ کا مظاہرہ ہو اور دوسری طرف لڑکی والوں کے لیے فرض ٹھہرایا ہے کہ وہ فاخرہ لباس، قیمتی زیور اور انباروں جہیز فراہم کریں۔ چنانچہ جس گھر میں لڑکی جنم لے لیتی ہے وہ اس کی پیدائش کے دن سے اس کاوش میں پڑجاتا ہے۔ پیٹ کاٹ کاٹ کر، صحتیں برباد کرکرکے جہیز کی تیاریاں ہوتی ہیں۔ جہیز نہ ہو یا معیار سے کم رہ جائے تو لڑکی کی قدروقیمت شادی کی مارکیٹ میں گر جاتی ہے۔ اور اسے ساری عمر ساس نندوں اور عام معاشرے کے طعنے سننے پڑتے ہیں کہ ’’بڑی آئیں باوا کی بیٹی، لائی کیا تھیں جہیز میں، چار چیتھڑے!‘‘ اس فاسد معاشرہ میں دیکھنے والے یا تو لڑکی کے حسن و جمال کو دیکھتے ہیں یا جہیز کو۔ ایمان، اخلاق، قابلیت، عصمت وغیرہ ساری قیمتی اقدار غیر اہم ہوگئی ہیں۔ اسی طرح لڑکی والے بھی یہی دیکھتے ہیں کہ لڑکا عہدے، کاروبار، سیاسی منصب اور روپے پیسے والا ہو۔
عرب میں بھی ایسی ہی رسمیات کا دور دورہ تھا جب کہ اسلام کی صبح جگمگانے لگی۔ نیا معاشرہ قائم ہوا اور اس نے معیارات بالکل بدل دیے۔ رسمی تکلّفات کے سارے بوجھ اتار دیے۔ اور شادیاں بغیر کسی سروسامان کے محض ایمان و کردار کے جوڑ سے ہونے لگیں۔ مگر جاہلیت اب پھر زوروں پر ہے، اور اسلامی تقاضے دھندلاگئے ہیں۔