جہیز اور مہر

فرح نعیم، ناندیڑ

اللہ تعالیٰ نے عورت یا اُس کے ولی پر نکاح کے بارے میں کسی طرح کا مالی بوجھ نہیں ڈالا ہے۔ بلکہ عورت کو مطلوب اور مرد کو طالب بناکر مہر کی رقم دینا فرض قرار دیا ہے۔ اور آپؐ نے فرمایا: ’’خبردار! ظلم نہ کرو اور یاد رکھو کسی کا مال (دوسرے کے لیے) جائز نہیں جب تک کہ اس کی نفس کی خوشی سے حاصل نہ ہوجائے۔‘‘ (مشکوٰۃ)

اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کسی کو دباؤ میں لاکر، اس کا مال حاصل کرنا جائز نہیں ہے اورسب کومعلوم ہے کہ جب لڑکے والے اپنی فرمائشیں بیان کرتے ہیں تو لڑکی کے ولی محض سماجی دباؤ کے تحت اپنی مالی حالت سے بڑھ کر جہیز کی چیزیں دیتے ہیں یا انہیں دینی پڑتی ہیں۔ دنیا اور سماج کے علاہ اپنی بیٹی کی خوش حال زندگی کے لیے وہ اپنے نفس پر قابو پانے کی کوشش کرتا ہے اس میں اپنے نفس کی خوشی کہیں بھی نہیں ہوتی بلکہ ایک ڈر ہوتا ہے کہ اس کی بیٹی کی زندگی کہیں مشکلات میں نہ پڑجائے۔

ان غلط طریقوں سے امتِ مسلمہ کو بچانا ہوگا اورمسلمانوں کو جائز اور ناجائز کا فرق سمجھانا ہوگا۔ تاکہ وہ اپنے لیے حکمِ خداوندی کو اول و اعلیٰ قرار دیں۔ اس سے سماج میںجو برائیاں بڑھ رہی ہیں انھیں لوگوں نے سرے سے نظر انداز کردیا ہے۔ اگر ان برائیوں پر نظر ڈالیں تومعلوم ہوتا ہے کہ حکم خداوندی کے خلاف جانا ہمیں دوزخ کے کتنا قریب کررہا ہے۔ اور ہماری زندگیو ںکو کس طرح مسائل کی آگ میں دھکیل رہا ہے۔ لیکن ہم نے آنے والے وقت کی بجائے آج کو اہمیت دی ہے۔ آخرت کی ہمیشہ کی خوشی کو بھلاکر آج کی چند روزہ خوشی کو فوقیت دی ہے۔

امام مالکؒ کے نزدیک مہر صرف واجب ہی نہیں بلکہ عقدِ نکاح کے ارکان میں شامل ہے، لیکن ہمارے معاشرے میں عقدِ نکاح کے اس اہم رکن کے بجائے فضول رسم و رواج کو نکاح کے ارکان کے طور پر شامل کیا جاچکا ہے اور یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ یہ ارکان شامل ہونہیں رہے بلکہ شامل ہوچکے ہیں،اور ان میں ہم جانتے سمجھتے شامل ہوچکے ہیں۔ ہم اس کو اپنی عزت سمجھ رہے ہیں، کتنا ہی ہمارا نفس ہمیں روکے خوش ہونے سے لیکن ہم زبردستی کی مسکان چہروں پر سجائے اپنی آخرت خراب کررہے ہیں اور ہمیں احساس ہی نہیں کہ ہم معاشرے کو روشن مستقبل دینے کے بجائے اندھیرے کنویں میں ڈھکیل رہے ہیں۔

علامہ ابنِ حجرؒ شارح بخاری نے اس بات پر اجماع نقل کیا ہے کہ مہر کے بغیر کسی عورت سے جنسی تعلق قائم کرنا جائز نہیں ہے۔ (فتح الباری، جلد ۹، ص ۱۶۷)، چنانچہ ایک حدیث میں بھی آتا ہے کہ ’’جس نے کسی عورت کے ساتھ نکاح مہر کے ساتھ کیا ہو مگر اس کے مہر کے ادا کرنے کا فی الواقع کوئی ارادہ نہ رکھتا ہو تو ایسا شخص زانی ہے۔‘‘ اس مسئلے میں خود عورت کی رضا مندی اور منظوری سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ مہر عورت کا حق ضرور ہے، مگر اس سے پہلے وہ شریعت کا حکم ہے۔ اگر ان باتوں پر غور کیا جائے تو ایسے کتنے لوگ ہوں گے جو ہمارے اور آپ کے نزدیک نکاح مع مہر تو کرلیتے ہیں لیکن اسے ادا کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے اور ہم اپنے معاشرے کو زانیوں کا معاشرہ بنا رہے ہیں۔ ہم یہ جانتے ہیں کہ اللہ کو بے حیائی بالکل پسند نہیں ہے اور یہ بھی جانتے ہیں کہ اللہ نے بے حیائی کے کام کرنے والی قوموں پر کیسے کیسے عذاب نازل کیے ہیں جبکہ ہمارا معاشرہ صرف ایک حکمِ خداوندی کی مخالفت سے ایسا بن رہا ہے اور وہ مخالفت یہ ہے کہ معاشرے کے لوگ جہیز کو لازم اور حق مہر کو نظر انداز کررہے ہیں جبکہ جہیز ایک ناجائز کام اور فتنہ ہے جو آج ہرگھر میں اپنے آپ کو پھیلا رہا ہے۔

امتِ مسلمہ کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ وہ اس جہیز کے ذریعے کس طرح خود کو اللہ سے دور اور دنیا کے قریب کرنے جارہے ہیں اور یہ بھول چکے ہیں کہ دنیا کا لالچ رکھنے والا آخرت میں کیسی ذلت اٹھائے گا۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں